شمائل محمد صلی اللہ علیہ وسلم
26 ۔ شکر گزاری
آنحضرت ﷺ اپنے رب کی صفت شکور کے بھی مظہر اتم تھے آپ کی سرشت شکرگزاری کے خمیر سے گوندھی گئی تھی۔ ہر احسان کی قدر اور اس پر شکریہ کے جذبات آپ کی ذات مبارک میں مسلسل تیز دھاروں کی طرح بہتے نظر آتے ہیں ۔
خدا کا شکر
آپؐ پر حقیقی اور واقعی احسان خداتعالیٰ کا تھا جس نے آپؐ کو بلند ترین مقام عطا فرمایا۔ آپؐ نے اس کی عبودیت اور بندگی کا حق اداکردیا۔ وہ عبادت جو دوسروں کے لئے فرض کا رنگ رکھتی ہے آپ کے لئے بمنزلہ غذا کے تھی۔
عبدشکور
حضور ﷺ راتوں کو عبادت میں اتنی دیر تک کھڑے رہتے کہ پاؤں سوج جاتے۔ صحابہ عرض کرتے کہ آپ اتنی عبادت کیوں کرتے ہیں ۔ آپؐ کے تو اگلے پچھلے گناہ اللہ نے معاف کر رکھے ہیں ۔ تو آپؐ فرماتے کیا میں اللہ کا شکرگزار بندہ نہ بنوں ۔ (صحیح بخاری کتاب التہجد۔ باب قیام النبیﷺ اللیل۔ ۔ ۔ )
آپ کے تعلق باللہ کے سارے جذبے اسی شکر گزاری اور وفاداری کے گردگھومتے ہیں ۔
انسانوں کی شکر گزاری
انسانوں کے لئے آپ سراپا سپاس تھے جس کسی نے آپ کی ذرہ بھر بھی خدمت کی یا کسی طرح کوئی فائدہ پہنچایا حضور نے اس کی قدر افزائی کی اور اس کی نیکی سے بڑھ کر اسے صلہ دیا۔
انسانوں میں سے کسی کے احسان کو آپ نے بغیر بدلہ کے نہیں چھوڑا۔ خدمت کرنے والے سے ہزاروں گنا بڑھ کر اسے صلہ دیا۔ مگر پھر بھی اس کا ذکر محسن کے طور پر کرتے رہے۔
حضرت ابوبکرؓ رسول کریم ﷺ کا تراشا ہواہیرا تھے۔ اور آپؐ نے انہیں ابدالآباد تک کی روحانی زندگی بخش دی ہے مگر ان کے احسانات کا ذکر ہمیشہ ایک خاص پیار کے ساتھ فرماتے رہے۔
حضرت ابوبکرؓ
حضرت ابوبکرؓ نے آغاز اسلام سے ہی خاص قربانیوں اور خدمت کی توفیق پائی تھی اس لئے حضورؐ ہمیشہ ان کی خدمات کو یاد رکھتے اور قدر فرماتے تھے۔
ایک دفعہ ایک صحابی سے حضرب ابوبکرؓ کا اختلاف ہوگیا۔ حضور کو پتہ لگا تو فرمایا:۔
‘‘جب اللہ نے مجھے تمہاری طرف مبعوث کیاتو تم سب نے مجھے جھوٹا کہا اور ابوبکر نے میری سچائی کی گواہی دی اور اپنی جان اور مال سے میری مدد کی۔ کیا تم میرے اس ساتھی کی دلآزاری سے باز نہیں رہ سکتے۔’’
اپنی وفات کے قریب عرصہ میں فرمایا
‘‘لوگوں میں سے اپنی ہمہ وقت موجودگی اور مال کے ساتھ مجھ پر سب سے زیادہ احسان ابوبکرنے کیا ہے۔
پھر فرمایا:۔” مسجد نبوی میں کھلنے والی تمام کھڑکیاں بند کردی جائیں سوائے ابوبکرکی کھڑی کے’’ (بخاری کتاب المناقب باب فضائل ابی بکر)
حضرت خدیجہؓ
حضرت ابوبکرؓ جیسا ہی معاملہ حضرت خدیجہؓ کے ساتھ پیش آیا حضرت عائشہؓ بیان کرتی ہیں کہ حضور ﷺ جب بھی حضرت خدیجہؓ کا ذکر فرماتے تو بہت تعریف کرتے۔ ایک دن میں نے عرض کیا کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو ان سے بہتر بیویاں عطا کی ہیں ۔ تو آپؐ نے فرمایا ‘‘جب لوگوں نے مجھے جھٹلایا تھا تو خدیجہ نے مجھے قبول کیا جب لوگوں نے میرا کفر کیا تو وہ ایمان لائیں جب لوگوں نے مجھے مال سے محروم کردیا تھا انہوں نے مال سے میری مدد کی اور اللہ نے انہی سے مجھے اولاد بھی عطا فرمائی۔’’
(مسند احمدبن حنبل جلد6ص117المکتب الاسلامی۔ بیروت)
انصار مدینہ
رسول کریم ﷺ کی نبوت کے 13ویں سال حضورؐ کی ہجرت سے قبل مدینہ سے 70لوگوں نے حضور کے ہاتھ پر بیعت کی۔ اور عہد کیا کہ جب حضورؐ مدینہ تشریف لائیں گے تو ہم اپنی جانوں کی طرح حضور ؐ کی حفاظت کریں گے۔
اس موقع پر ایک صحابی نے عرض کیا یا رسول اللہ مدینہ کے یہود کے ساتھ ہمارے پرانے تعلقات ہیں ۔آپ کا ساتھ دینے سے وہ منقطع ہو جائیں گے۔ ایسا نہ ہو کہ جب اللہ آپ کو غلبہ دے تو آپ ہمیں چھوڑ کر مکہ واپس آجائیں ۔
حضورؐ نے فرمایا ‘‘نہیں نہیں ۔ ہرگز ایسا نہیں ہوگا۔ تمہارا خون میرا خون ہوگا تمہارے دوست میرے دوست اور تمہارے دشمن میرے دشمن۔ (سیرت ابن ہشام جلد2ص85۔مطبع مصطفی مصر۔1936ء)
چنانچہ مدینہ جانے کے بعد حضور ؐ کو اللہ تعالیٰ نے عظیم الشان فتوحات عطا فرمائیں اور آپؐ فاتحانہ شان کے ساتھ مکہ میں داخل ہوئے مگر چند دن قیام کے بعد مدینہ واپس چلے گئے۔ اور دہیں دفن ہونا پسند فرمایا۔
جنگ حنین کے بعد مال غنیمت کی تقسیم پر ایک انصاری نے اعتراض کیا تو حضورؐ نے انصار سے ایک دردناک خطاب کیااور اس میں فرمایا ‘‘اگر تم یہ کہو کہ اے محمدؐ ہمارے پاس تواس حال میں آیا کہ تو جھٹلایا گیا تھا اور ہم نے اس وقت تیری تصدیق کی اور تجھے اپنوں نے دھتکار دیا تھا ہم نے اس وقت تجھے قبول کیا اور پناہ دی تھی۔ اور تو ہمارے پاس اس حال میں آیا کہ مالی لحاظ سے بہت کمزور تھا اور ہم نے تجھے غنی کردیا اگر تم یہ کہو تو میں تمہاری تمام باتوں کی تصدیق کروں گا۔ اے انصارا گر لوگ مختلف وادیوں یا گھاٹیوں میں سفر کر رہے ہوں تومیں اسی وادی اور گھاٹی میں چلوں گا جس میں تم انصار چلو گے۔اگر میرے لئے ہجرت مقدر نہ ہوتی تو میں تم میں سے کہلانا پسند کرتاتم تو میرے ایسے قریب ہو جیسے وہ کپڑے جو میرے بدن کے ساتھ چمٹے رہتے ہیں اور باقی لوگ میری اوپرکی چادر کی طرح ہیں۔ (مسند احمدبن حنبل جلد3ص76)
مطعم بن عدی
جنگ بدر کے موقعہ پر جب مکہ کے قیدی حضور ﷺ کی خدمت میں پیش کئے گئے تو حضور نے فرمایا:۔
‘‘اگر آج مطعم بن عدی زندہ ہوتا اور مجھ سے ان لوگوں کی سفارش کرتا تو میں ان کو یونہی چھوڑ دیتا۔ (صحیح بخاری کتاب المغازی باب غزوہ بدر)
مطعم بن عدی مکہ کا ایک شریف آدمی تھا۔ گو اس کو اسلام قبول کرنے کی توفیق نہیں ملی مگر اس کو بعض مواقع پر حضور ﷺ کی مدد کی سعادت حاصل ہوئی۔ جس کو حضور ﷺ نے ہمیشہ یاد رکھا اور اس کی قدر کرتے رہے۔