شمائل محمد صلی اللہ علیہ وسلم

فہرست مضامین

22 ۔ عاجزی و انکساری

انکساری

حضرت عائشہؓ سے روایت ہے وہ کہتی ہیں کہ کوئی شخص آنحضرت ﷺ سے بڑھ کر حسن خلق کا مالک نہیں تھا۔ کبھی ایسا نہیں ہواکہ صحابہؓ میں سے کسی نے یا اہلِ بیت میں سے کسی نے آپ کو بلایا ہو اور آپؐ نے اس کو لبیک یعنی حاضر ہوں کہہ کر جواب نہ دیا ہو۔ حضرت عائشہؓ کہتی ہیں کہ اسی وجہ سے قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وَاِنَّکَ لَعَلیٰ خُلُقٍ عَظِیْمٍ۔ کہ تو خلق عظیم پر فائز کیا گیا ہے۔

اللہ کا بندہ ہوں

حضرت ابو امامہؓ کہتے ہیں کہ ایک دفعہ آنحضرت ﷺ کو ہم نے دیکھا کہ حضورؐ اپنی سوٹی کو زمین پر ٹیکتے ہوئے ہماری طرف آرہے ہیں ۔ ہم حضور ؐ کو دیکھ کر احتراماً کھڑے ہوگئے۔ حضورؐ نے فرمایا کہ نہیں بیٹھے رہو اور دیکھو جس انداز میں عجمی ایک دوسرے کے احترام کے لئے کھڑے ہوتے ہیں تم ایسے نہ کھڑے ہوا کرو۔پھر آپؐ نے فرمایا:۔

‘‘کہ میں تو اللہ کا صرف ایک بندہ ہوں اس کے دوسرے بندوں کی طرح میں بھی کھاتا پیتا ہوں اور انہیں کی طرح اٹھتا بیٹھتا ہوں ۔ (الشفاء لقاضی عیاض باب تواضعہ)

اسی طرح حضرت انسؓ فرماتے ہیں کہ ایک دفعہ حضورؐ ایک مجلس میں اپنے اصحاب کے ساتھ تشریف فرما تھے کہ مدینہ کی ایک عورت جس کی عقل میں کچھ فتور تھا حضور کے پاس آئی اور عرض کیا کہ مجھے آپؐ سے کچھ کام ہے لیکن میں آپؐ سے ان لوگوں کے سامنے بات نہیں کرنا چاہتی میرے ساتھ آکر میری بات علیحدگی میں سنیں ۔ حضورؐ نے اس کی بات سن کر فرمایا کہ اے فلاں تو مدینہ کے راستوں میں سے جس راستہ میں چاہے میں وہاں تیرے ساتھ جاؤں گا وہاں بیٹھ کر تیری بات سنوں گا اور جب تک تیری بات سن کر تیری ضرورت پوری نہ کردوں وہاں سے نہیں ہٹوں گا۔ حضرت انسؓ کہتے ہیں حضورؐ کی بات سن کر وہ حضور ؐ کو ایک راستہ پر لے گئی پھر وہاں جا کر بیٹھ گئی حضورؐ بھی اُس کے ساتھ بیٹھ گئے اور جب تک اُس کی بات سن کر اُس کا کام نہیں کردیا حضورؐ وہیں بیٹھے رہے۔(شفا عیاض باب تواضعہ)

انکساری کی انتہا

آنحضرت ﷺ جب دس ہزار قدوسیوں کے جلو میں فاتحانہ شان سے مکہ میں داخل ہوئے وہ دن آپ کے لئے بہت خوشی اور مسرت اور عظمت کے اظہار کا دن تھا۔ مگر حضور ﷺ خدا کے ان فضلوں کے اظہار پر خدا کی راہ میں بچھے جاتے تھے۔ خدا نے جتنا بلند کیا آپ انکساری میں اور بڑھتے جارہے تھے یہاں تک کہ جب مکہ میں داخل ہوئے تو آپ کا سر جھکتے جھکتے اونٹ کے کجاوے سے جالگا۔ اور اللہ کے نشانوں پر اس کی حمد وثناء میں مشغول تھے۔ (سیرۃ ابن ہشام باب وصول النبی ذی طوی جلد2صفحہ405)