شمائل محمد صلی اللہ علیہ وسلم
18 ۔ عدل و انصاف
انصاف کا بلند ترین معیار
حضرت عروہ بن زبیرؓ روایت کرتے ہیں کہ فتح مکہ کے دنوں کی بات ہے کہ ایک عورت نے چوری کی(حضورؐ نے اس کا ہاتھ کاٹنے کا حکم دیا) لیکن اس کی قوم کے لوگ جھٹ سے اسامہ بن زید کے پاس ان سے حضورؐ کی خدمت میں سفارش کرانے کو پہنچ گئے۔ عروہ کہتے ہیں کہ جب(حضرت) اسامہؓ نے آنحضرت ﷺ سے (اس عورت کو معاف کردینے کے بارہ میں ) عرض کیا تو حضورؐ کا چہرہ متغیر ہوگیا اور فرمایا کہ۔
‘‘ کیا تم مجھ سے ان حدود کے بارہ میں سفارش کرتے ہو جو اللہ نے قائم کی ہیں اور (چاہتے ہوکہ میں خدا کی حدود کو بالائے طاق رکھ دوں اور اس عورت کو ان حدود سے آزاد چھوڑ دوں ۔ ایسا نہیں ہو سکتا)
اس پر اسامہؓ نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ ﷺ( مجھ سے بہت گنا ہ ہوا ہے) میرے لئے (اپنے مولیٰ سے) مغفرت طلب کیجئے۔ پھر جب شام ہوئی تو حضورؐ خطبہ کے لئے کھڑے ہوئے اور جیسا کہ اللہ کا حق ہے اس کی تعریف فرمائی پھر فرمایا۔
‘‘ اپنے مولیٰ کی ثناء کے بعد(میں تم سے یہ کہتاہوں کہ) جس چیز نے تم سے پہلی قوموں کو ہلاک کیا وہ یہی تھی کہ اگر ان میں کوئی شریف اور بڑا آدمی چوری کرتا تو اسے چھوڑ دیتے اور جب کوئی کمزور چوری کرتا اس پر حد جاری کردیتے( اور اسے سزا دیتے لیکن سنو) مجھے اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں محمد(ﷺ) کی جان ہے اگر محمدؐ کی بیٹی فاطمہؓ بھی چوری کرے تو میں اس کا ہاتھ بھی کاٹ دوں ۔ ۔ ۔ ‘’(بخاری کتاب المغازی باب مقام النبی ﷺ)