شمائل محمد صلی اللہ علیہ وسلم
38 ۔ غریبوں اور کمزوروں سے حسن سلوک
اف تک نہیں کہا
حضرت انسؓ سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ مجھے دس سال حضورؐ کی خدمت کی توفیق ملی۔ جب میں حضورؐ کی خدمت میں آیا میں بچہ تھا اور میری ہر بات ایسی نہیں ہوتی تھی جیسے میرے صاحب یعنی آنحضرت ﷺ چاہتے تھے کہ ہو لیکن حضورؐ نے مجھے ایسی باتوں میں کبھی اف تک نہیں کہا اور مجھے کبھی نہیں کہا کہ تم نے یہ کام کیوں کیااور نہ کبھی یہ کہا کہ یہ کام کیوں نہیں کیا۔
حضرت انسؓ کہتے تھے کہ حسن اخلاق میں آنحضرت ﷺتمام انسانوں سے بڑھ کر تھے۔ ایک دن تو ایسا ہوا کہ حضورؐ نے مجھے کسی کام کو جانے کے لئے کہا تو میں نے صاف جواب دیا کہ اللہ کی قسم میں نہیں جاؤں گا حالانکہ میر ے دل میں یہی تھا کہ وہ کام کر آؤں گا جو حضورؐ نے مجھے کہا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ پھر میں گھر سے باہر آیا (اور حضورؐ کے کام کے لئے چل پڑا) لیکن راستہ میں بازار میں میرا گزر کچھ بچوں کے پاس سے ہوا جو کھیل رہے تھے(میں بھی ان کے ساتھ کھیلنے لگا) اچانک وہاں حضور ؐ تشریف لے آئے اور میری گدی کو پیچھے سے پکڑامیں نے پیچھے مڑ کر دیکھا حضورؐ مسکرا رہے تھے۔ پھر مجھے فرمایاانیس(پیار سے نام لیا ہے) جہاں کام کے لئے بھیجا تھا وہاں چلے جاؤ نا۔ میں نے عرض کیا ہاں حضورؐ جاتا ہوں۔ (سنن ابوداؤد کتاب الادب باب فی الحکم)
خدا تیرا خریدار ہے
حضرت انسؓ سے روایت ہے کہ زاہربن حرام نامی ایک دیہاتی اکثر آنحضرت ﷺ کے لئے گاؤں کی چیزیں تحفہ کے طور پر لایا کرتا تھا اور آپؐ بھی اُس کی واپسی پر شہر کی کوئی نہ کوئی سوغات ضرور عنایت کیاکرتے تھے۔ چنانچہ ایک دفعہ آپؐ نے فرمایا:۔” زاہر ہمارے لئے دیہات ہے اور ہم اس کے لئے شہر ہیں ’’۔ حضور ؐ کو زاہر سے بے حد انس تھا۔ زاہر کی شکل و صورت اچھی نہ تھی۔ ایک دن وہ اپنا سودا بیچ رہا تھا کہ حضور ﷺ پیچھے سے آئے اور بے خبری میں اس کی آنکھیں موندلیں ۔ اس نے کہا کون ہے مجھے چھوڑ دے۔ مگر جب مڑ کر دیکھا تو آنحضرت ﷺ تھے جس پر وہ اپنی کمر حضورؐ کے سینہ مبارک پر ملنے لگا۔ آپؐ نے فرمایا یہ غلام کون خریدتا ہے۔ زاہر کہنے لگا یا رسول اللہ! تب تو آپ مجھے ناقص مال پائیں گے۔ آپؐ نے فرمایا مگر اللہ کے نزدیک تو تُو ناقص مال نہیں ہے۔ (شمائل الترمذی باب فی مزاح رسول اللہؐ )