شمائل محمد صلی اللہ علیہ وسلم
13 ۔ مالی معاملات اور لین دین
بہترین شریک کار
حضرت سائبؓ کہتے ہیں کہ میں (ہجرت کے بعد) حضورؐ کے پاس حاضر ہوا تو صحابہؓ (جو مجھے جانتے تھے)حضورؐ کے پاس میری تعریفیں کرنے لگے اور میر ے متعلق حضورؐ کوبتا نے لگے۔ اس پر آپؐ نے فرمایا کہ مجھے کیا بتاتے ہو(سائب) کو تو میں تم سب سے زیادہ جانتا ہوں ۔ سائب کہتے ہیں تب میں نے عرض کیا میرے ماں باپ آپؐ پر قربان آپ صحیح فرماتے ہیں ۔ آپؐ اور میں تو اسلام سے پہلے تجارت میں شریک ہوتے تھے اور آپؐ بہترین شریک کار یا پارٹنر(Partner)تھے۔ آپ مخالفت نہیں کرتے تھے روک ٹوک نہیں فرماتے تھے یعنی اپنی مرضی نہیں چلاتے تھے اور آپؐ سے معاملہ کرنا بڑا آسان تھا اور نہ ہی آپؐ جھگڑتے تھے۔ (سنن ابوداؤد کتاب الادب باب کراھیۃ المرائ)
احتیاط کی معراج
حضرت عقبہؓ فرماتے ہیں ۔ میں نے نبی کریم ﷺ کے پیچھے مدینے میں عصر کی نماز پڑھی۔ آپؐ نے سلام پھیرا اور جلدی سے کھڑے ہو گئے اور لوگوں کی گردنوں پر سے دوڑتے ہوئے اپنی بیویوں میں سے ایک کے حجرہ کی طرف تشریف لے گئے۔ لوگ آپؐ کی اس جلدی کو دیکھ کر گھبراگئے۔ آپؐ جب باہر تشریف لائے تو معلوم کیا کہ لوگ آپؐ کی جلدی پر متعجب ہیں ۔ آپؐ نے فرمایا کہ مجھے یاد آگیا کہ تھوڑا سا سونا ہمارے پاس رہ گیا ہے اور میں نے ناپسند کیا کہ وہ میرے پاس پڑا رہے اس لئے میں نے جا کر حکم دیا کہ اسے تقسیم کردیا جائے۔(بخاری کتاب الصلوۃ باب من صلی بالناس)
حضرت مصلح موعود فرماتے ہیں :۔
‘‘اس واقعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ آپؐ مال کے معاملہ میں نہایت محتاط تھے اور کبھی پسند نہ فرماتے کہ کسی بھول چوک کی وجہ سے لوگوں کا مال ضائع ہوجائے۔ آپ کی نسبت یہ تو خیال کرنا بھی گناہ ہے کہ نعوذباللہ آپؐ اپنے نفس پر اس بات سے ڈرے ہوں کہ کہیں اس سونے کو میں نہ خرچ کر لوں ۔ مگر اس سے یہ نتیجہ ضرور نکلتا ہے کہ آپؐ اس بات سے ڈرے کہ کہیں جہاں رکھا ہو وہیں نہ پڑا رہے اور غرباء اس سے فائدہ اٹھانے سے محروم رہ جائیں ۔ اور اس خیال کے آتے ہی آپؐ دوڑ کر تشریف لے گئے اور فوراً وہ مال تقسیم کروایا اور پھر مطمئن ہوئے۔ (سیرۃ النبی ص 97)
گمشدہ پیالے کی قیمت
حضرت انسؓ بیان کرتے ہیں کہ حضور ﷺ نے ایک بڑا پیالہ کسی سے مستعار لیا۔ مگر وہ گم ہوگیا تو حضورؐ نے اس کا تاوان یعنی اس کی قیمت ادا فرمائی۔ (سنن ترمذی ابواب الاحکام باب فیمن یکسرلہ شئی)