شمائل محمد صلی اللہ علیہ وسلم
31 ۔ معلم اخلاق
حضرت مالک بن الحویرثؓ بیان کرتے ہیں کہ ہم کچھ ہم عمر نوجوان آنحضرت ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور بیس دن حضورؐ کے پاس رہے۔ حضور ﷺ بہت ہی نرم دل اور مہربان تھے۔ آپؐ سمجھ گئے کہ ہم اپنے گھروالوں کے لئے اداس ہوگئے ہیں تو حضورؐ نے ہم سے ہمارے گھروالوں کے بارے میں پوچھا اور فرمایا ‘‘اب تم اپنے گھروں کو واپس جاؤ۔ ان کو دین سکھاؤ۔ نیکیوں کا حکم دو اور جیسے میں نماز پڑھتا ہوں ویسے ہی نماز پڑھا کرو۔ جب نماز کا وقت آئے تو تم میں سے کوئی اذان دیا کرے اور پھر جو بڑا ہے وہ نماز پڑھایا کرے۔ (صحیح بخاری کتاب الادب باب رحمۃ الناس)
طریق تربیت
حضرت علیؓ اپنا ایک واقعہ بیان فرماتے ہیں جس سے ثابت ہوتا ہے کہ ایک موقعہ پر جبکہ حضرت علیؓ نے آپؐ کو ایساجواب دیا جس میں بحث اور مقابلہ کا طرز پایا جاتا تھا تو بجائے اس کے کہ آپ ناراض ہوتے یاخفگی کا اظہار کرتے آپؐ نے ایک ایسی لطیف طرز اختیار کی کہ حضرت علیؓ غالباً اپنی زندگی کے آخری ایام تک اس کی حلاوت سے مزا اٹھاتے رہے ہوں گے اور انہوں نے جو لطف اٹھایا ہوگا وہ تو انہیں کا حق تھا۔ اب بھی آنحضرت ﷺ کے اس اظہارناپسندیدگی کو معلوم کرکے ہر ایک باریک بین نظر محوحیرت ہوجاتی ہے۔ حضرت علیؓ فرماتے ہیں کہ نبی کریمﷺ ایک رات میرے اور فاطمہ الزہرہؓ کے پاس تشریف لائے جو رسول اللہ ؐ کی صاحبزادی تھیں اور فرمایا کہ کیا تہجد کی نماز نہیں پڑھا کرتے۔ میں نے جواب دیا کہ یا رسول اللہ ہماری جانیں تو اللہ تعالیٰ کے قبضہ میں ہیں جب وہ اٹھا نا چاہے اٹھا دیتا ہے۔ آپؐ اس بات کو سن کر لوٹ گئے اور آپؐ اپنی ران پر ہاتھ مار کر کہہ رہے تھے کہ انسان تو اکثر باتوں میں بحث کرنے لگ پڑتا ہے۔ (صحیح بخاری کتاب التہجد باب تحریض النبیؐ )
حضرت مصلح موعود فرماتے ہیں :۔
‘‘اللہ اللہ کس لطیف طرز سے حضرت علیؓ کو آپ نے سمجھایا کہ آپ کو یہ جواب نہیں دینا چاہئے تھا۔ کوئی اور ہوتا تو اول تو بحث شروع کردیتا کہ میری پوزیشن اور رتبہ کو دیکھو۔ پھر اپنے جواب کو دیکھو کہ کیا تمہیں یہ حق پہنچتا ہے کہ اس طرح میری بات کو رد کردو۔ یہ نہیں توکم سے کم بحث شروع کردیتا کہ یہ تمہارا دعویٰ غلط ہے کہ انسان مجبور ہے اور اس کے تمام افعال اللہ تعالیٰ کے قبضہ میں ہیں وہ جس طرح چاہے کرواتا ہے چاہے نماز کی توفیق دے چاہے نہ دے اور کہتا کہ جبر کا مسئلہ قرآن شریف کے خلاف ہے لیکن آپ نے ان دونوں طریق میں سے کوئی بھی اختیار نہ کیا اور نہ تو ان پر ناراض ہوئے نہ بحث کرکے حضرت علیؓ کوان کے قول کی غلطی پر آگاہ کیا بلکہ ایک طرف ہو کر ان کے اس جواب پر اس طرح اظہارحیرت کردیا کہ انسان بھی عجیب ہے کہ ہر بات میں کوئی نہ کوئی پہلو اپنے موافق نکال ہی لیتا ہے اور بحث شروع کردیتا ہے۔’’ (سیرۃ النبی ص 142)
نرمی کے ساتھ
معاویہ بن حکم سلمیؓ کہتے ہیں کہ جب میں حضورؐ کی خدمت میں (قبول اسلام کے لئے) حاضرہوا مجھے اسلام کی بہت سی باتیں سکھائی گئیں اور ایک بات جو مجھے سکھائی گئی وہ یہ تھی کہ حضورؐ نے مجھے فرمایا کہ جب چھینک آئے تو الحمدللہ کہو اور جب کوئی دوسرا چھینک لے کر الحمدللہ کہے تو تم یرحمک اللہ کہا کرو۔ معاویہ کہتے ہیں کہ (ایک دن) میں حضورؐ کے پیچھے نماز پڑھ رہا تھا کہ ایک شخص نے چھینک لی اور الحمدللہ کہا تو میں نے نماز ہی میں یرحمک اللہ کہہ دیا اور بڑی اونچی آواز سے کہا۔
دوسرے نمازی (میری آوازسن کر) مجھے گھورنے لگے جیسے اپنی نظروں سے مجھ پر تیر برسا رہے ہوں مجھے یہ بہت برا لگا اور میں (نماز ہی میں )بولا کہ تمہیں کیا ہوگیاہے مجھے یوں کیوں گھورتے ہو۔ میرایہ کہنا تھا کہ نمازی سبحان اللہ سبحان اللہ کہنے لگے اور ساتھ ہی وہ مجھے چپ کراتے تو میں چپ ہوگیا جب حضورؐ نماز سے فارغ ہوئے تو فرمایا نماز میں کون بولتا تھا تو آپؐ سے(میری طرف اشارہ کرکے)عرض کیا گیاکہ یہ بدو۔ اس پر حضورؐ نے مجھے اپنے قریب بلایا اور میرے ماں باپ آپؐ پر قربان حضورؐ نے مجھے مارا نہ جھڑکانہ گالی دی بس یہ فرمایا ‘‘نماز قرآن کی تلاوت اور اللہ جل شانہ ، کے ذکر کے لئے ہوتی ہے اس لئے جب تم نماز پڑھو تو تمہاری حالت بھی اس کے مطابق ہونی چاہئے’’ معاویہ کہتے ہیں کہ میں نے آج تک حضورؐ سے بڑھ کر نرمی کے ساتھ علم سکھانے والا کوئی او رنہیں دیکھا۔ (سنن ابوداؤد کتاب الصلوٰۃ باب تشمیت العاطس)