شمائل محمد صلی اللہ علیہ وسلم
5 ۔ نمازباجماعت
دل بایار
حضرت اسود بن یزیدؓ بیان کرتے ہیں کہ میں نے ایک دن حضرت عائشہ صدیقہؓ سے پوچھا کہ آنحضرت ﷺگھر میں کیا کیا کرتے تھے؟ حضرت عائشہؓ نے کہا۔ آپؐ کام کاج میں گھروالوں کا ہاتھ بٹاتے اور جب نماز کا وقت ہوتا تو باہر نماز کے لئے چلے جاتے۔ (بخاری کتاب الاذان باب ماکان فی حاجۃ اھلہ)
قیام نماز
حضرت مغیرہ بن شعبہؓ کہتے ہیں کہ ایک شام مجھے نبی کریمﷺ کا مہمان ہونے کی سعادت حاصل ہوئی۔ حضورؐ نے میرے لئے گوشت کا ایک ٹکڑا بھنوایا پھر حضورؐ چھری کے ساتھ گوشت کے ٹکڑے کاٹ کر مجھے دینے لگے۔ ہم کھانا کھا رہے تھے کہ حضرت بلالؓ نے آکر نماز کی اطلاع دی۔ حضورؐ نے چھری ہاتھ سے رکھ دی اور فرمایااللہ بلال کا بھلا کرے اس کو کیا جلدی ہے(کچھ انتظار کیا ہوتا) اور نماز کے لئے تشریف لے گئے۔ (ابوداؤد کتاب الطہارۃ باب ترک الوضوئ)
آنکھوں کی ٹھنڈک
حضرت علیؓ نے حضورؐ کی طبیعت کے بارہ میں سوال کیا تو حضورؐ نے انہیں ایک لمبا جواب دیا جس میں اللہ سے اپنی محبت کی کیفیات کاذکر تھا اور جواب کے آخر میں فرمایا:۔ وَقُرَّۃُ عَیْنِیْ فِی الصَّلَاۃِ میرا حال کیا پوچھتے ہومیرا حال یہ ہے کہ میری آنکھوں کو ٹھنڈک ملتی ہے میری رُوح کو سکون ملتا ہے تو اُن لمحات میں جن میں مَیں اپنے مولیٰ کے حضور نماز کے لئے کھڑا ہوتا ہوں ۔ (الشفاء لقاضی عیاض)
ہر لمحہ نماز کا انتظار رہتا تھا ۔ ہر وقت طبیعت نماز کے لئے بے چین رہتی تھی۔ دل مسجد میں ہی اٹکا رہتا تھا۔ حضرت بلالؓ کو فرمایا کر تے تھے ‘‘یَا بِلَالُ ارِحْنَا بِالصَّلوٰۃِ’’
اے بلال نماز کی اطلاع کر کے ہمیں خوشی پہنچاؤ۔ (مسند احمدبن حنبل جلداوّل حدیث نمبر364)
نماز کا منظر
حضرت عبداللہ بن شخیرؓ سے روایت ہے کہ میں نے آنحضرت ﷺ کو نماز پڑھتے ہوئے دیکھا ہے۔ دوران نماز گریہ و زاری کی وجہ سے آپ کے سینہ سے ایسی آواز نکلتی تھی جیسے چکی چلنے سے آتی ہے۔ (سنن ابی داؤدکتاب الصلوٰۃ باب البکاء فی الصلوۃ)
نماز کی تڑپ
حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں کہ جب آپؐ مرض الموت میں مبتلا ہوئے تو بوجہ سخت ضعف کے نمازپڑھانے پر قادر نہ تھے اس لئے آپؐ نے حضرت ابوبکرؓ کو نماز پڑھانے کا حکم دیا۔ جب ابوبکرؓ نے نماز پڑھانی شروع کی تو آپؐ نے کچھ آرام محسو س کیا اور نماز کے لئے نکلے۔ حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں کہ حضرت ابوبکرؓ کونماز پڑھانے کا حکم دینے کے بعد جب نماز شروع ہوگئی تو آپؐ نے مرض میں کچھ کمی محسوس کی پس آپؐ حجرے سے مسجد کی طرف نکلے اور دو آدمی آپ کو سہارا دے کر لے جارہے تھے اور اس وقت میری آنکھوں کے سامنے وہ نظارہ ہے کہ شدت درد کی وجہ سے آپؐ کے قدم زمین سے گھسٹتے جاتے تھے۔ آپؐ کو دیکھ کر حضرت ابوبکرؓ نے ارادہ کیا کہ پیچھے ہٹ آئیں ۔ اس ارادہ کو معلوم کرکے رسول کریم ﷺ نے ابوبکرؓ کی طرف اشارہ فرمایا کہ اپنی جگہ پر رہو۔ پھر آپؐ کو وہاں لایا گیا اور آپؐ حضرت ابوبکرؓ کے پاس بیٹھ گئے اس کے بعد رسول کریمؐ نے نماز پڑھنی شروع کی اور حضرت ابوبکرؓ نے آپ کی نماز کے ساتھ نماز پڑھنی شروع کی اور باقی لوگ حضرت ابوبکرؓ کی نماز کی اتباع کرنے لگے۔ (صحیح بخاری کتاب الاذان باب حد المریض)
آخری وصیت
حضرت علیؓ اور حضرت انسؓ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت ﷺ کی آخری وصیت اور آخری پیغام جبکہ آپ جان کنی کے عالم میں تھے اور سانس اکھڑ رہا تھا یہ تھا کہ ‘‘الَصَّلٰوۃَ وَمَا مَلَکَتْ اَیْمَانُکُمْ’’ نماز اور غلاموں کے حقوق کاخیال رکھنا۔
یہ حقوق اللہ اور حقوق العباد کا بہترین خلاصہ ہے جو رسول اللہؐ نے اپنی امت کے لئے تجویز فرمایا۔ (سنن ابن ماجہ کتاب الوصایا باب ھل اوصیٰ رسول اللہؐ )