شمائل محمد صلی اللہ علیہ وسلم
30 ۔ وسعت حوصلہ
اسے دے دو
حضرت انسؓ فرماتے ہیں کہ میں ایک دفعہ آنحضرت ﷺ کے ساتھ چل رہاتھا اور آپ نے نجران کی بنی ہوئی چادر اوڑھی ہوئی تھی جس کے کنارے بہت موٹے تھے کہ اتنے میں ایک اعرابی آپ کے قریب آیا اور آپ کو بڑی سختی سے کھینچنے لگا۔ یہاں تک کہ میں نے دیکھا کہ اس کے سختی سے کھینچنے کی وجہ سے چادر کی رگڑ کے ساتھ آپ کی گردن پر خراشیں پڑگئیں ۔ اس کے بعد اس نے کہا کہ آپ کے پاس جو مال ہے اس میں سے کچھ مجھے بھی دلوائیں آپ نے مڑ کر اس کی طرف دیکھا اور مسکرائے اور فرمایا کہ اسے کچھ دے دو۔ (صحیح بخاری کتاب الجہاد باب کان النبی یعطی)
پا کے دکھ آرام دو
حضرت انسؓ کہتے ہیں کہ میں ایک دفعہ حضورؐ کے ساتھ ایک مجلس میں بیٹھا ہوا تھا۔ حضورؐ ایک ایسی چادر زیب تن کئے ہوئے تھے جس کا حاشیہ سخت اور کھردرا تھا۔ اتنے میں ایک بدواس مجلس میں آیا سیدھاحضورؐ کی طرف بڑھا اور حضورؐ کی چادر کو پکڑ کر بڑے زور سے اپنی طرف کھینچا اس قدر زور سے کھینچا کہ حضورؐ کے کاندھوں کے کنارہ پرا س چادر کے حاشیہ کے نشان پڑگئے۔ پھر حضورؐ سے مخاطب ہوا اور کہنے لگا کہ اے محمد میرے ان دو اونٹوں پر اللہ کے اس مال میں سے جو آپؐ کے پاس ہے کچھ میرے لئے لاد دیجئے کیونکہ جو مال ان اونٹوں پر لدوائیں گے وہ نہ آپؐ کا ہے نہ آپؐ کے والد کا وہ تو صرف اللہ کا مال ہے۔ حضورؐ نے اس بدو کی بات کو سنا اور کچھ دیرکے لئے خاموش رہے پھر اس بدو سے مخاطب ہوئے اور فرمایا ہاں یہ سب مال تو اللہ کا ہی مال ہے اور میں بھی تو اسی کا بندہ ہوں میرا تو سب کچھ اسی کا ہے۔ پھر آپؐ نے اسے کہا کہ اے اعرابی جو کچھ تو نے اس وقت میرے ساتھ کیاہے اس کا تو تجھ سے بدلہ لیا جانا چاہئے۔ اس پر بدو نے کہا نہیں ایسا نہیں ہوگا۔ آپؐ نے فرمایا آخر کس لئے۔ بدو نے عرض کیا کہ حضورؐ آپؐ تو کبھی بھی برائی کا بدلہ برائی سے نہیں لیتے۔ حضورؐ بدو کی بات سن کر ہنس پڑے پھر حکم دیا کہ اس کے ایک اونٹ پرجَو اور دوسرے پر کھجوریں لاد دی جائیں اور اس کو اس مال کے ساتھ رخصت کردیا جائے۔(الشفاء لقاضی عیاض جلداوّل ص 63)