شمائل محمد صلی اللہ علیہ وسلم
28 ۔ پاک زبان
اندازِ گفتگو
حضرت حسن بن علیؓ کا بیان ہے کہ میں نے اپنے ماموں ہند بن ابی ہالہ سے آنحضرت ﷺ کی گفتگو کے انداز کے بارہ میں پوچھا تو انہوں نے بتایا کہ آنحضرت ﷺ ہمیں یوں لگتے جیسے کسی مسلسل اور گہری سوچ میں ہیں اور کسی خیال کی وجہ سے کچھ بے آرامی سی ہے آپؐ اکثر چپ رہتے۔ بلا ضرورت بات نہ کرتے۔آپ بات کرتے تو پوری وضاحت سے کرتے۔
آپ کی گفتگو مختصر لیکن فصیح و بلیغ ‘پر حُکمت اور جامع مضامین پر مشتمل اور زائد باتوں سے خالی ہوتی۔ لیکن اس میں کوئی کمی یا ابہام نہیں ہوتا تھا۔ نہ کسی کی مذمت و تحقیر کرتے نہ تو ہین و تنقیص، چھوٹی سے چھوٹی نعمت کو بھی بڑا ظاہر فرماتے۔ شکرگزاری کا رنگ نمایاں تھا۔ کسی چیز کی مذمت نہ کرتے۔ نہ اتنی تعریف جیسے وہ آپؐ کو بے حد پسند ہو۔ مزید اریا بدمزہ ہونے کے لحاظ سے کھانے پینے کی چیزوں کی تعریف یا مذمت میں زمین و آسمان کے قلابے ملانا آپ کی عادت نہ تھی۔ ہمیشہ میانہ روی شعار تھا۔ کسی دنیوی معاملے کی وجہ سے نہ غصے ہوتے نہ برا مناتے۔
لیکن اگر حق کی بے حرمتی ہوتی یا حق غصب کرلیا جاتا تو پھر آپ کے غصے کے سامنے کوئی نہیں ٹھہر سکتا تھا۔ جب تک اس کی تلافی نہ ہوجاتی آپؐ کو چین نہیں آتا تھا۔ اپنی ذات کے لئے کبھی غصہ نہ ہوتے اور نہ آپ اس کے لئے بدلہ لیتے۔ جب اشارہ کرتے تو پورے ہاتھ سے کرتے صرف انگلی نہ ہلاتے جب آپ تعجب کا اظہار کرتے تو ہاتھ الٹا دیتے۔ جب کسی بات پر خاص طور پر زور دینا ہوتا توایک ہاتھ کو دوسرے ہاتھ سے اس طرح ملاتے کہ دائیں ہاتھ کی ہتھیلی پر بائیں ہاتھ کے انگوٹھے کو مارتے۔ جب کسی ناپسندیدہ بات کو دیکھتے تو منہ پھیر لیتے۔ اور جب خوش ہوتے تو آنکھیں کسی قدر بند کرلیتے۔ آپؐ کی زیادہ سے زیادہ ہنسی کھلے تبسم کی حد تک ہوتی یعنی زور کا قہقہہ نہ لگاتے۔ ہنسی کے وقت آپؐ کے دندان مبارک ایسے نظر آتے جیسے بادل سے گرنے والے سفید سفید اولے ہوتے ہیں۔ (شمائل الترمذی باب کلام رسول اللہ)
پاک زبان
مسروق کہتے ہیں کہ (ایک دن) ہم عبداللہ بن عمرو کے پاس بیٹھے تھے(آنحضرت ﷺ کا تذکرہ ہورہا تھا) عبداللہ بن عمرو ہمیں حضورؐ کی باتیں بتا رہے تھے کہ دوران گفتگو عبداللہ بن عمرو نے کہا کہ حضور ؐ کی زبان پر کبھی کوئی ایسی بات نہیں آتی تھی جوناپسندیدہ ہو۔ کبھی کوئی فحش کلمہ کوئی بے حیائی کی بات ہم نے حضورؐ کی زبان سے نہیں سنی اور حضور کو ایسی عادت نہ تھی نہ حضور تکلفاً کوئی ایسی بات کرتے تھے بلکہ فرمایا کرتے تھے کہ تم میں سے بہتر انسان وہ ہے جو تم میں سے اپنے اخلاق میں سب سے اچھا ہو۔ (بخاری کتاب الادب باب حسن الخلق)
گواہی
صحابہ کی گواہی ہے کہ ‘‘آنحضرت ﷺ کوئی بے حیائی کی بات نہ خود کرتے تھے نہ اسے سننا پسند کرتے تھے۔’’ (بخاری کتاب الادب باب لم یکن النبی فاحشا ولامتفحشا)
کَاَنَ الْیَنَ النَّاسِ وَاَکْرَمَ النَّاسِ وَکَانَ ضَحَّاکًا بَسَّامًا۔
سب سے نرم خو، اخلاقِ کریمانہ کی بارشیں برسانے والے اور ہر تنگی و سختی میں تبسم ریز تھے۔ (طبقات ا۷بنِ سعد جلداوّل صفحہ365)