شیخ عجم ۔ حضرت صاحبزادہ سید محمد عبدالطیف شہید افغانستان کے سوانح حیات
افغانستان کے سیاسی حالات
اس زمانے میں امیر عبدالرحمن خان ابن امیر محمد افضل خان ابن امیر دوست محمد خان افغانستان کا بادشاہ تھا ۔ اس کا تعلق ابدالی، بارک زئی، محمد زئی قبیلہ سے تھا ۔ ۱۸۳۰ء میں کابل میں پیدا ہوا ۔ اور کئی سال روس میں جلا وطن رہا بالآخر روسی حکومت کی مدد سے ۳۰؍جولائی ۱۸۸۰ء کو افغانستان کا بادشاہ بنا لیکن انگریزوں سے تعلقات استوارکر لئے اور ان سے وظیفہ لینے لگا۔
سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے مارچ ۱۸۸۲ء میں اللہ تعالیٰ سے الہام پا کر اپنے مامور من اللہ اور نذیر ہونے کا اعلان فرمایا اور ۱۸۹۱ء میں مسیح موعودؑ ہونے کا اعلان فرمایا۔
بیان کیاجاتاہے کہ جب امیر عبدالرحمن خان کو سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بعثت کی اطلاع دی گئی تو اس نے کہاکہ :
’’مارا عمرؓ یا بد نہ عیسیٰ۔ عیسیٰ درزمانِ خود چہ کردہ بود کہ یارے دیگرخواہدکرد‘‘۔ یعنی ہمیں تواس وقت حضرت عمرؓکی ضرورت ہے ۔ حضرت عیسیٰؑ کی ضرورت نہیں۔ حضرت عیسیٰؑ نے اپنے وقت میں کیاکر لیا تھا کہ اب دوبار ہ آ کرکریں گے۔
یہ امر ناقابل یقین ہے کہ ایک مسلمان کہلانے والے بادشاہ نے ایسا گستاخانہ کلمہ حضرت عیسیٰؑ کی شان میں کہاہو ۔اگر یہ بات صحیح ہے تو یہ نہ صرف حضرت مسیح ناصریؑ پرحملہ ہے بلکہ آنحضرت ﷺ کی اس پیشگوئی کا بھی استخفاف ہے جو حضور ؐنے مسیح کی آمد ثانی کی بابت فرمائی تھی۔
معلوم ہوتاہے اگرچہ امیر عبدالرحمن خان انگریزوں کا وظیفہ خوار تھا او راُسے اُن کی فوجی مدد بھی حاصل تھی لیکن درحقیقت وہ جہاد بالسیف کے ان غلط تصورات کا دلدادہ تھا جو اس زمانہ میں مسلمانوں میں رواج پا چکے تھے اور جن کی تردید سیدنا حضرت مسیح موعود ؑ نے اپنی متعدد کتب میں فرمائی ہے ۔
یہ بھی بیان کیاجاتاہے کہ امیر عبدالرحمن خان کے منشاء کے مطابق ایک رسالہ تقویم الدین کے نام سے شائع کر کے سرحدی قبائل میں تقسیم کیاگیا تھا جس میں انہیں انگریزوں سے جہاد بالسیف کرنے کی ترغیب دی گئی تھی جس سے یہ لوگ بے گناہ انگریزوں کوقتل کر کے اپنے زعم میں غازی بنتے تھے۔(انگریزی کتاب ’’افغانستان‘‘ مصنفہ مسٹر انگس ہملٹن مطبوعہ لندن ۱۹۰۶ صفحہ ۴۱۵ بحوالہ عاقبۃ المکذبین حصہ اول صفحہ۲۹)
افغانستان کے جنوبی علاقوں میں بغاوت اورحضرت صاحبزادہ صاحب کی پرحکمت کارروائی
افغانستان کی زازی ، منگل، جدران اور چمکنی اقوام ، کابل کی مرکزی حکومت کے خلاف بغاوت کرتی رہتی تھیں۔منگل قبیلہ کی بغاوت کے دوران جب یہ شورش بہت زور پکڑ گئی تو امیر عبدالرحمن خان نے اپنے ایک رشتہ دار سردار شیریں دل خان کواس کے رفع کرنے کے لئے لشکر دے کر بھجوایا ۔ اس نے خوست آ کر بڑے رعب اور دبدبہ سے بغاوت فرو کرنا شروع کی ۔ حضرت صاحبزادہ سید محمد عبداللطیف صاحب نے ہر طرح اس سے تعاون کیا ۔ سردار شیریں دل خان بھی آپ سے مشورہ اورمدد لیا کرتا تھا ۔ بعض اوقات لڑائی کے دوران سرکاری فوج کومشکلات کا سامنا ہوتا اور سردار صاحب پریشان ہو جاتے اور تذبذب میں پڑ جاتے کہ ان حالات میں کیاکارروائی کی جائے ۔ ایسے موقعہ پر حضرت صاحبزادہ صاحب ایسی کارروائی کرتے کہ سردار صاحب کی عقل دنگ رہ جاتی۔ ایک مرتبہ ایک تنگ درہ میں سرکاری فوج اتری ہوئی تھی۔ جدران قبیلہ کے لوگ بڑی تعدادمیں جمع ہو گئے اور فوج کو گھیرے میں لے لیا۔ رات کا وقت تھا جہاں بھی روشنی ہوتی قبائلی وہاں فائر کرتے اور کچھ لوگوں کوزخمی کر دیتے ۔ آخرتمام روشنیاں اور آگیں بجھا دی گئیں۔ جدران قبیلہ کے لوگ قریب آ گئے اور گھیرا تنگ کردیا۔ وہ لوٹ مار کرناچاہتے تھے۔ سردارشیریں دل خان پریشان ہو گیا۔ اس موقعہ پرحضرت صاحبزادہ صاحب نے فوری کارروائی کی ہدایت دی۔ فوج کے چاروں طرف توپیں نصب کروا دیں اور باغیوں پرفائرکرنے کاحکم دیا ۔ باغی اس قدر بدحواس ہوئے کہ انہوں نے فرار کا راستہ اختیار کیا اور فوج محفوظ ہو گئی۔
اس طرح کی پرحکمت کارروائیوں سے وہ تمام قبائل جو کبھی بھی رعایابن کر نہ رہتے تھے بالآخر مطیع ہو گئے ۔ اس کام میں مولوی عبدالرحمن خان صاحب شہید جو حضرت صاحبزادہ صاحب کے شاگرد تھے ساتھ شامل ہوتے تھے ۔ جب امیر عبدالرحمن خان کو بغاوت کے فرو ہونے کی اطلاع ملی اور حضرت صاحبزادہ صاحب کے کردار سے باخبر ہوا تو اس نے حضرت صاحبزادہ صاحب اورمولوی عبدالرحمن خان صاحب کے لئے سالانہ انعام کی رقم مقررکئے جانے کاحکم دیا ۔ سید احمد نور لکھتے ہیں کہ حضرت صاحبزادہ صاحب بندوق چلانے میں بہت ماہر تھے ۔
(’’شہید مرحوم کے چشم دید واقعات‘‘ حصہ اول صفحہ ۲ تا ۴ اور صفحہ ۱۲،۱۳)