شیخ عجم ۔ حضرت صاحبزادہ سید محمد عبدالطیف شہید افغانستان کے سوانح حیات
امیر حبیب اللہ خان کی دستاربندی
امیر عبدالرحمن خان نے اپنے بیٹے سردار حبیب اللہ خان کو اپنا جانشین نامزد کیا تھا لیکن چونکہ بغاوت کا خطرہ تھا اسلئے امیر حبیب اللہ خان نے اپنی امارت کاعام اعلان فوری طورپر نہیں کیا ۔ لاکھوں روپیہ فوجی افسران اور سپاہیوں میں تقسیم کروایا ۔ دو تین دن شور رہا اس کے بعد فوج نے حبیب اللہ خان کوامیر تسلیم کر لیا ۔
امیر حبیب اللہ خان نے دلکشا سلام خانہ میں خاص دربار کیا ۔ جب لوگ نئے امیر کی بیعت کے لئے آئے تواس نے حضرت صاحبزادہ صاحب کو بھی بیعت کے لئے بلایا ۔ آپ نے فرمایا کہ میں اس شرط پر بیعت کروں گا کہ آپ اقرار کریں کہ شریعت کے خلا ف کچھ نہیں کریں گے ۔جب حبیب اللہ خان نے اس کا اقرار کر لیا توآپ نے اس کی بیعت کی ۔ تبرکاً حضرت صاحبزادہ صاحب کو بھی شاہی دستار باندھنے کے لئے کہا گیا ۔ چنانچہ آپ نے امیر حبیب اللہ خان کو دستار باندھی۔ جب دو تین پیچ باندھے جانے سے رہ گئے تو قاضی القضاۃ نے عرض کی کہ کچھ پیچ میرے لئے باقی رکھے جائیں تا کہ میں بھی کچھ برکت حاصل کر لوں ۔ تب کچھ پیچ قاضی القضاۃ نے باندھے۔
امیر حبیب اللہ خان کی دربارعام میں تخت نشینی
حضرت صاحبزادہ سید محمد عبداللطیف نے ۳؍اکتوبر ۱۹۰۱ء کو دربار خاص میں امیر حبیب اللہ خان کی رسم دستار بندی ادا کی تھی ۔ اس کے بعد مورخہ ۶؍اکتوبر کو ایک دربار عام منعقد کیا گیا اس میں جملہ امراء و اراکین سلطنت جوکابل میں موجود تھے نے امیر حبیب اللہ خان کواپنا امیر تسلیم کر لیا ۔ امیر حبیب اللہ خان امیر عبدالرحمن خان کا بڑابیٹاتھا جو ملکہ گل ریز ساکن واخان کے بطن سے سمرقند میں ۱۸۷۲ء میں پیدا ہوا تھا ۔ اس کی عمر تخت نشینی کے وقت تیس برس کی تھی۔سردار نصراللہ خان اس کاچھوٹا بھائی تھا ۔ اس کی عمر اس وقت ۲۷سال تھی ۔
سردا ر نصراللہ خان کو امیر حبیب اللہ خان نے اسی دربار عام میں اپنا نائب السلطنت مقرر کرنے کا اعلان کیا ۔ اس دربار میں تاج پوشی کی رسم سردار نصراللہ خان نے ادا کی۔
(عاقبۃ المکذبین حصہ اول صفحہ ۳۵،۳۶ ۔و “The Pathan” by Caroe & “Under The Absolute Amir” by Frank A.Martin)
حضرت صاحبزادہ سید عبداللطیف صاحبؓ کی کابل سے وطن واپسی
کچھ عرصہ کے بعدامیر حبیب اللہ خان نے حضرت صاحبزادہ صاحب سے کہا کہ میرے والد آپ کی بہت عزت کرتے تھے اس لئے میں بھی آپ کی عزت کرتاہوں ۔ آپ ہمارے محسن اور مہربان ہیں۔ اگر آپ اپنے وطن جانا چاہتے ہیں توخوشی سے جا سکتے ہیں۔ اس پر آپ نے یہ ارادہ کر لیا کہ وطن واپس جا کر حج کے لئے ہندوستان کے راستہ سے روانہ ہوں اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی ملاقات کے لئے قادیان بھی ہوتے جائیں۔
پہلے آپ نے سیداحمد نور کی ہمراہی میں اپنے اہل و عیال کو کابل سے سیدگاہ بھجوایا۔ سیدا حمد نور ان کووطن چھوڑ کر واپس آ گئے۔ حضرت صاحبزادہ صاحب نے امیر حبیب اللہ خان سے حج پر جانے کی اجازت مانگی توامیر نے خوشی سے اجازت دے دی اور آپ کوسواری کے لئے دو اونٹ اورنقد روپیہ دیا اور بڑی عزت و احترام کے ساتھ رخصت کیا ۔
سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلا م فرماتے ہیں :
’’ان کی روح جو نہایت صاف اور مستعد تھی میری طرف کھینچی گئی یہاں تک کہ ان کے لئے بغیر ملاقات کے دور بیٹھے رہنا نہایت دشوار ہو گیا ۔ آخر اس زبردست کشش اورمحبت اور اخلاص کا نتیجہ یہ ہوا کہ انہوں نے اس غرض سے کہ ریاست کابل سے اجازت حاصل ہو جائے حج کے لئے مصمم ارادہ کیا اورامیر کابل سے اس سفر کے لئے درخواست کی۔ چونکہ وہ امیر کابل کی نظر میں ایک برگزیدہ عالم اور تمام علماء کے سردار سمجھے جاتے تھے اس لئے نہ صرف ان کو اجاز ت ہوئی بلکہ امداد کے طورپر کچھ روپیہ بھی دیا گیا ‘‘۔ (تذکرۃ الشہادتین ،روحانی خزائن جلد ۲۰ مطبوعہ لندن صفحہ ۹ تا ۱۰)