شیخ عجم ۔ حضرت صاحبزادہ سید محمد عبدالطیف شہید افغانستان کے سوانح حیات
بیان واقعہ ہائلہ شہادت ۔مولوی صاحبزادہ عبدالطیف رئیس اعظم خوست غفراللہ لہ
سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:
’’امیر نے حکم دیا کہ شہید مرحوم کے ناک میں چھید کرکے اس میں رسی ڈال دی جائے اور اسی رسی سے شہید مرحوم کو کھینچ کر مقتل یعنی سنگسار کرنے کی جگہ تک پہنچایا جائے۔ چنانچہ اس ظالم امیرکے حکم سے ایسا ہی کیا گیا اورناک کوچھید کر سخت عذاب کے ساتھ اس میں رسّی ڈالی گئی تب اس رسّی کے ذریعہ شہید مرحوم کونہایت ٹھٹھے ہنسی اور گالیوں او ر لعنت کے ساتھ مقتل تک لے گئے ۔اور امیر اپنے تمام مصاحبوں کے ساتھ اور مع قاضیوں، مفتیوں اور دیگراہل کاروں کے یہ دردناک نظارہ دیکھتا ہوا مقتل تک پہنچا اور شہر کی ہزارہا مخلوق جن کا شمار کرنا مشکل ہے اس تماشا کے دیکھنے کے لئے گئی ۔ جب مقتل پر پہنچے تو شاہزادہ مرحوم کو کمر تک زمین میں گاڑ دیا اور پھر اس حالت میں جبکہ وہ کمر تک زمین میں گاڑ دئے گئے تھے امیر اُن کے پاس گیا اور کہاکہ اگر تو قادیانی سے جو مسیح موعود ہونے کا دعویٰ کرتاہے انکار کر ے تو اب بھی میں تجھے بچا لیتاہوں ۔ اب تیرا آخری وقت ہے اور یہ آخری موقعہ ہے جو تجھے دیا جاتاہے اور اپنی جان اور اپنے عیال پر رحم کر۔
تب شہید مرحوم نے جواب دیا کہ نعوذباللہ سچائی سے کیونکر انکارہو سکتاہے اور جان کی کیاحقیقت ہے اور عیال و اطفال کیا چیزہیں جن کے لئے میں ایمان کو چھوڑ دوں مجھ سے ایسا ہرگز نہیں ہوگا اور میں حق کے لئے مروں گا۔
تب قاضیو ں اور فقیہوں نے شور مچایا کہ کافر ہے ،کافر ہے ،اس کو جلد سنگسار کرو۔ اس وقت امیر اور اس کا بھائی نصراللہ خان اور قاضی اور عبدالاحد کمیدان یہ لوگ سوار تھے اور باقی تمام لوگ پیادہ تھے۔
جب ایسی نازک حالت میں شہید مرحوم نے بارہا کہہ دیا کہ میں ایمان کو جان پر مقدم رکھتاہوں تب امیر نے اپنے قاضی کو حکم دیا کہ پہلا پتھر تم چلاؤکہ تم نے کفر کا فتویٰ لگایا ہے۔ قاضی نے کہا کہ آپ بادشاہ وقت ہیں آپ چلاویں۔ تب امیرنے جواب دیا کہ شریعت کے تم ہی بادشاہ ہو اور تمہارا ہی فتویٰ ہے اس میں میرا کوئی دخل نہیں ۔ تب قاضی نے گھوڑے سے اترکر ایک پتھر چلایا جس پتھرسے شہید مرحوم کو زخم کاری لگا اور گردن جھک گئی۔ پھر بعد اس کے بدقسمت امیر نے اپنے ہاتھ سے پتھر چلایا ۔ پھرکیا تھا اس کی پیروی سے ہزاروں پتھر اس شہید مرحوم پرپڑنے لگے اور کوئی حاضرین میں سے ایسا نہ تھا جس نے اس شہید مرحوم کی طرف پتھر نہ پھینکاہو۔ یہاں تک کہ کثرت پتھروں سے شہیدمرحوم کے سر پر ایک کوٹھہ پتھروں کا جمع ہو گیا۔
پھرامیر نے واپس ہونے کے وقت کہا کہ یہ شخص کہتاتھا کہ میں چھ روز تک زندہ ہو جاؤں گا ا س پرچھ روز تک پہرہ رہنا چاہئے۔بیان کیاگیاہے کہ یہ ظلم یعنی سنگسار کرنا ۱۴؍جولائی کو وقوع میں آیا ۔ اس بیان میں اکثر حصہ ان لوگوں کا ہے جو ا س سلسلہ کے مخالف تھے جنہوں نے یہ بھی اقرار کیاکہ ہم نے بھی پتھر مارے تھے اور بعض ایسے آدمی بھی اس بیان میں داخل ہیں کہ شہید مرحوم کے پوشیدہ شاگرد تھے۔
معلوم ہوتاہے کہ یہ واقعہ اس سے زیادہ دردناک ہے جیسا کہ بیان کیاگیا ہے کیونکہ امیرکے ظلم کو پورے طور پر ظاہر کرنا کسی نے روا نہیں رکھا اورجو کچھ ہم نے لکھاہے بہت سے خطوط کے مشترک مطلب سے ہم نے خلاصۃً لکھا ہے ۔ ہر ایک قصہ میں اکثر مبالغہ ہوتاہے لیکن یہ قصہ ہے کہ لوگوں نے امیر سے ڈرکر اس کا ظلم پورا پورا بیان نہیں کیا اور بہت سی پردہ پوشی کرنی چاہی‘‘۔ (تذکرۃ الشہادتین ۔ روحانی خزائن جلد ۲۰ صفحہ ۵۸ تا ۶۰ مطبوعہ لندن)
حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:
’’ایک گھنٹہ تک برابر ان پرپتھر برسائے گئے حتی کہ ان کا جسم پتھروں میں چھپ گیا مگرانہوں نے اف تک نہ کی ، ایک چیخ تک نہ ماری‘‘۔(الحکم ۶؍مارچ ۱۹۰۸ء ۔ ملفوظات جلد ۱۰ صفحہ ۱۴۰ مطبوعہ لندن)
سیداحمد نور صاحب کا بیان ہے کہ جب حضرت صاحبزادہ صاحب کو سنگسار کرنے کے لئے لے جایا جا رہاتھا تو ہاتھوں میں ہتھکڑیاں لگی ہوئی تھیں۔ آ پ راستہ میں تیزی سے اور خوش خوش جا رہے تھے ۔ ایک مولوی نے پوچھا کہ آپ اتنے خوش کیوں ہیں ابھی آپ کو سنگسار کیا جانے والاہے؟ ۔ آپ نے فرمایا یہ ہتھکڑیاں نہیں بلکہ حضرت محمد مصطفیﷺ کے دین کا زیور ہے اور مجھے یہ خوشی ہے کہ میں جلد اپنے پیارے مولیٰ سے ملنے والا ہوں۔
حضرت صاحبزادہ صاحب کو کابل کے باہر شرقی جانب ہندوسوزان کے ایک میدان موسومہ بہ سیاہ سنگ میں سنگسار کیا گیا تھا۔(شہید مرحوم کے چشمدید واقعات حصہ اول صفحہ ۲۴ و قلمی مسودہ صفحہ ۴۸)
جناب قاضی محمد یوسف صاحب کا بیان ہے کہ جب امیر حبیب اللہ خان نے حضرت صاحبزادہ پر لگائے گئے فتویٰ کفر اور سنگساری کی سزا کے کاغذ پر دستخط کر دئے تو سردار نصراللہ خان نے کابل میں موجود ملاؤں کو اطلاع کروا دی اور وہ ارک شاہی کے سامنے جمع ہونے شروع ہو گئے۔تب حضرت صاحبزادہ صاحب کو مقتل کی طرف لے جایاگیا ۔ یہ ہجوم وزارت حربیہ کے سامنے سے گزر کر اس سڑک پر روانہ ہوا جو بالا حصار کو جاتی ہے۔ کابل کے شیر دروازہ سے گزر کر شہر سے باہر آئے ۔ بالاحصار کا قلعہ کو ہ آسامائی پر واقعہ ہے ۔ یہ قلعہ اس وقت بطور میگزین استعمال ہوتا تھا ۔ اس کی جانب جنوب ایک پرانا قبرستان ہے جس میں افغانستان کے امراء و رؤوسا کی قبریں ہیں۔ اس کے قریب حضرت صاحبزادہ صاحب کو سنگسار کرنے کے لئے ایک گڑھا قریباً اڑھائی فٹ گہرا کھودا گیا جس میں حضرت صاحبزادہ صاحب کو گاڑ دیا گیا ۔ گاڑے جانے کے بعد حضرت صاحبزادہ صاحب نے بلند آواز سے کلمہ ٔ شہادت پڑھا۔
حضرت صاحبزادہ صاحب پر پہلا پتھر سردار نصراللہ نے چلایا ۔ مگر ایک روایت یہ بھی ہے کہ پہلا پتھر قاضی عبدالرزاق ملائے حضور نے پھینکا تھا اور اس کے ساتھ اس نے جوش میں آ کرکہاتھا کہ آج جو آدمی اس پر پتھر پھینکے گا وہ جنت میں مقام پائے گا۔
جب حضرت صاحبزادہ صاحب کی پیشانی پرپہلا پتھر لگا توآپ کا سر قبلہ رخ جھک گیا اور آپ نے یہ آیت پڑھی :’’اَنْتَ وَلِیّٖ فِی الدُّنْیَا وَالآخِرَۃِ ۔ تَوَفَّنِی مُسْلِمًا وَ اَلحِقْنِی بِالصَّالِحِیْن ۔۔۔ ۔ آپ کی شہادت ۱۷؍ربیع الاول ۱۳۲۱ھ مطابق ۱۴؍جولائی ۱۹۰۳ء واقعہ ہوئی۔(عاقبۃ المکذبین حصہ اول صفحہ ۵۰تا ۵۳)
مکرم رحمت اللہ صاحب باغانوالے ۔بنگہ ضلع جالندھر کی روایت ہے کہ :
’’خاکسار دارالامان میں گیا ہوا تھا کہ نماز ظہر کے بعد مکرم شیخ یعقوب علی صاحب عرفانی نے سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی خدمت میں عرض کیا کہ اخبار وطن لاہور میں حضرت مولوی عبداللطیف صاحب افغانی کوشہیدکئے جانے کی خبر شائع ہوئی ہے اور ساتھ ہی یہ بھی کہاکہ یہ اخبار اکثراحتیاط کرتاہے یعنی بالعموم غلط خبر شائع نہیں کرتا ۔اس پر آپ نے فرمایا کہ ابھی ہمارے اخبار میں کچھ شائع نہ کریں ۔ انشاء اللہ ہم خود لکھیں گے ‘‘۔ (ملخص از رجسٹر روایات صحابہ جلد ۲صفحہ ۴۲