شیخ عجم ۔ حضرت صاحبزادہ سید محمد عبدالطیف شہید افغانستان کے سوانح حیات
حضرت صاحبزادہ سید عبداللطیف صاحبؓ کی حج کے ارادہ سے روانگی
سیداحمد نور صاحب کا بیان ہے کہ کابل سے سیدگاہ واپس آنے کے قریباً ایک ماہ کے بعد حضرت صاحبزادہ صاحب حج کے ارادہ سے روانہ ہوئے ۔ان کے ہمراہ مولوی عبدالستار خان ، مولوی سید غلام محمد صاحب ، آپ کے خادم خاص مولوی عبدالجلیل صاحب اور وزیر ملاں صاحب تھے۔ سید احمد نور، روانگی کے وقت ساتھ نہیں تھے کیونکہ وہ صاحبزادہ صاحب کی اجازت سے اپنے گاؤں گئے ہوئے تھے ۔حضرت صاحبزادہ صاحب نے ضلع بنوں والا راستہ اختیار کیا جہاں سرائے نورنگ میں آپ کی ملکیت جائیدادتھی۔
لکی مقام پر ایک صاحب علم آدمی آپ کو ملا جو تحصیلدار تھا اس سے آ پ کی گفتگو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے بارہ میں ہوئی ۔ اس شخص کے بشرہ سے ایساظاہر ہو تا تھا کہ وہ حضور ؑ پر ایمان لے آیاہے ۔ اس نے آپ کی باتوں پربہت خوشی کا اظہار کیا ۔ حضرت صاحبزادہ صاحب نے اپنی سواری کا گھوڑااس کو تحفۃً دے دیا ۔
لکی میں ایک اورمولوی صاحب آپ کوملے ۔ انہوں نے آپ کی بہت عزت اور احترام کیا اورحضرت صاحبزادہ صاحب سے چند روز ان کے مہمان کے طورپر ٹھہرنے کی خواہش کی ۔ان مولوی صاحب نے آپ کی خدمت میں بعض مسائل پیش کئے اورکہا کہ لوگ ان کی وجہ سے مجھے کافر ٹھیراتے ہیں ۔ آپ نے ان کوایک تحریر لکھ کر دے دی کہ یہ مسائل درست ہیں اور اس پر اپنے دستخط کر دئے ۔
کچھ عرصہ کے بعد آپ لاہور کی طرف روانہ ہوئے ۔ لاہور پہنچنے پر آپ کو معلوم ہوا کہ ہندوستان میں طاعون کی وجہ سے قرنطینہ(Quarantine) کی پابندی لگی ہوئی ہے اور حج کے لئے روانہ ہونے میں مشکلات پیدا ہو گئی ہیں۔لاہور میں کچھ عرصہ قیام کے بعد آپ قادیان روانہ ہوگئے ۔
حضرت صاحبزادہ سید عبداللطیف صاحبؓ کی قادیان میں آمد اور سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے ملاقات
حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:
’’وہ اجازت حاصل کر کے قادیان میں پہنچے اور جب مجھ سے ان کی ملاقات ہوئی تو قسم ہے اس خدا کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے میں نے ان کو اپنی پیروی اوراپنے دعویٰ کی تصدیق میں ایسا فناشدہ پایاکہ جس سے بڑھ کر انسان کے لئے ممکن نہیں اورجیساکہ ایک شیشہ عطر سے بھرا ہوا ہوتاہے۔ ایسا ہی میں نے ان کو اپنی محبت سے بھرا ہوا پایا اور جیسا کہ ان کا چہرہ نورانی تھا ایسا ہی ان کا دل مجھے نورانی معلوم ہوتا تھا‘‘۔ (تذکرۃ الشہادتین روحانی خزائن جلد ۲۰ صفحہ ۱۰)
اخبار البدر سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت صاحبزادہ صاحب ۱۸؍نومبر ۱۹۰۲ء کو قادیان پہنچے تھے اور ظہر و عصر کی نماز کے وقت حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی خدمت میں حاضرہوئے۔ اخبار میں لکھا ہے کہ :
چند ایک احباب مع مولوی عبدالستار صاحب جو آج تشریف لائے تھے ان سے حضور نے ملاقات فرمائی ۔ ان کے تحفے تحائف لے کر جو انہوں نے حضرت اقدس ؑ کی خدمت میں بطور نذرانہ پیش کئے تھے فرمایا:’’ان کا آنا بھی ایک نشان ہے اوراس الہام یَاتِیْکَ مِنْ کُلِّ فَجٍّ عَمِیْق کو پورا کرتاہے۔ (البدر ۲۸؍نومبر و ۵؍دسمبر ۱۹۰۲ء و ملفوظات جلد ۴ صفحہ۲۱۷،۲۱۸ مطبوعہ لندن )
حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:
’’سعادت ازلی مولوی صاحب ممدوح کوکشاں کشاں قادیان میں لے آئی اور چونکہ وہ ایک انسان روشن ضمیر اور بے نفس اور فراست صحیحہ سے پورا حصہ رکھتا تھا اورعلم حدیث اور علم قرآن سے ایک وہبی طاقت ان کو نصیب تھی اور کئی رؤیائے صالحہ بھی وہ میرے بارے میں دیکھ چکے تھے اس لئے چہرہ دیکھتے ہی مجھے انہوں نے قبول کر لیا اورکما ل انشراح سے میرے دعویٰٔ مسیح موعود ہونے پر ایمان لائے اورجاں نثاری کی شرط پر بیعت کی۔ اور ایک ہی صحبت میں ایسے ہو گئے کہ گویا سال ہا سال تک میری صحبت میں تھے اور نہ صرف اس قدر بلکہ الہام الٰہی کا سلسلہ بھی ان پر جاری ہو گیا اور واقعات صحیحہ ان پر وارد ہونے لگے اور ان کا دل ماسوی اللہ کے بقایا سے بکلّی دھویاگیا ۔ پھر وہ اس جگہ سے معرفت اور محبت الٰہیہ سے معمور ہو کر واپس اپنے وطن کی طرف گئے‘‘۔ (ضمیمہ براہین احمدیہ حصہ پنجم ۔ روحانی خزائن جلد ۲۱ صفحہ ۳۲۹،۳۳۰)
ملک خان بادشاہ صاحب ولد گل بادشاہ صاحب سکنہ درگئی ، خوست بیان کرتے ہیں کہ :
’’میں ۱۹۰۲ء میں حضرت صاحبزادہ عبداللطیف شہید مرحوم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ہمراہ قادیان دارالامان میں آیا ۔ یہ مجھے یادنہیں پڑتاکہ جب ہم آئے اسی دن رخصت کی یا دوسرے دن کی ۔ ہاں یہ مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ ظہر کی نماز کے بعد ہم بیعت کے لئے پیش ہوئے ۔ حضرت شہید مرحوم رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے سب سے پہلے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کے ہاتھ میں ہاتھ دیا اور پھردوسرے نمبر پر خاکسار نے ہاتھ رکھا ۔ بیعت کرنے کے بعد اس خاکسار نے غالباً دو تین دن گزارے ہونگے کہ شہید مرحوم نے مجھے فرمایا کہ میں نے رؤیا دیکھی ہے کہ آ پ کوخوست کے حاکم تکلیف دیں گے اس لئے تم فوراً وطن واپس چلے جاؤ ۔ چنانچہ میں دوتین یوم بعد واپس چلا گیا ۔ میر ے ساتھ ایک ملاسپین گل صاحب بھی واپس چلے گئے ۔(رجسٹر روایا ت صحابہ نمبر ۵ صفحہ ۸۲)