شیخ عجم ۔ حضرت صاحبزادہ سید محمد عبدالطیف شہید افغانستان کے سوانح حیات
حضرت صاحبزادہ صاحب کے قیام قادیان کے بعض حالات
حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:
’’وہ کئی مہینہ تک میرے پاس رہے اور اس قدر ان کو میری باتوں میں دلچسپی پیدا ہوئی کہ انہوں نے میری باتوں کو حج پرترجیح دی او رکہاکہ میں اس علم کا محتاج ہوں جس سے ایمان قوی ہو اور علم عمل پرمقدم ہے سو میں نے ان کو مستعد پا کر جہاں تک میرے لئے ممکن تھا اپنے معارف ان کے دل میں ڈالے‘‘۔ (تذکرۃ الشہادتین صفحہ ۱۰ روحانی خزائن جلد ۲۰ مطبوعہ لندن صفحہ ۱۱،۱۲)
’’وہ باربار کہتے تھے کہ کیسے نادان وہ لوگ ہیں جن کا خیال ہے کہ مسیح موعود ؑ کی پیشگوئی صرف حدیثوں میں ہے حالانکہ جس قدر قرآن شریف سے یہ ثابت ہوتاہے کہ عیسیٰؑ فوت ہو گیا اور مسیح موعودؑ اسی امت میں سے آنے والاہے اس قدر ثبوت حدیثوں سے نہیں ملتا۔غرض خدا تعالیٰ نے ان کے دل کو حق الیقین سے پر کر دیا تھا اور وہ پوری معرفت سے اس طرح پرمجھے شناخت کرتے تھے جس طرح درحقیقت ایک شخص کو آسمان سے اترتا مع فرشتوں کے دیکھا جاتاہے‘‘۔ (تذکرۃ الشہادتین ، روحانی خزائن جلد ۲۰ مطبوعہ لندن صفحہ ۳۹)
’’مولوی صاحبزادہ عبداللطیف صاحب جب قادیان میں آئے تو صر ف ان کو یہی فائدہ نہ ہوا کہ انہوں نے مفصل طورپر میرے دعویٰ کے دلائل سنے بلکہ ان چند مہینوں کے عرصہ میں جو وہ قادیان میرے پاس رہے اور ایک سفر جہلم تک بھی میرے ساتھ کیا ۔ بعض آسمانی نشان بھی میری تائید میں انہوں نے مشاہدہ کئے۔ ان تمام براہین اور انوار اور خوارق کے دیکھنے کی وجہ سے وہ فوق العادت یقین سے بھر گئے اور طاقت بالا ان کو کھینچ کر لے گئی‘‘۔ (تذکرۃ الشہادتین روحانی خزائن جلد ۲۰مطبوعہ لندن صفحہ ۴۵)
سیداحمدنور صاحب نے جب اپنے گاؤں میں سنا کہ حضرت صاحبزادہ صاحب حج کے لئے روانہ ہو گئے ہیں تو ان کو یقین ہواکہ آپ راستہ میں قادیان بھی جائیں گے اور حضرت مسیح موعودعلیہ السلام سے ملاقات کریں گے اس پر سید احمد نور بھی قادیان جانے کے لئے چل پڑے۔ جب بٹالہ پہنچے تو ایک مخالف مولوی انہیں ملا اور پوچھا کہ تم کہاں جا رہے ہو۔ سید احمد نور نے جواب دیاکہ قادیان جارہا ہوں۔ اس پر اس مولوی نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی شان میں ناشائستہ کلمات کہے اور سید احمد نور کو قادیان جانے سے منع کیا ۔ انہوں نے مولوی صاحب کو جواب دیا کہ تم خدا کی باتوں سے روکتے ہومیں ہزاروں میل سے قادیان جانے کے ارادہ سے آیاہوں۔ قادیان قریب ہے کیسے نہ جاؤں۔ اس مولوی نے یکہ والے سے کہہ دیا کہ ان کو قادیان نہ لے جائے ۔اس پر سیداحمد نور پیدل ہی قادیان روانہ ہوگئے۔
سیدا حمد نور حضرت صاحبزادہ صاحب کے قادیان پہنچنے کے دس پندرہ دن بعد عصر کے وقت قادیان پہنچے اور حضرت صاحبزادہ صاحب کو ملے ۔ آپ نے ان کو مسجد مبارک میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی خدمت میں پیش کیا اور عرض کی کہ حضور ان کی بیعت لے لیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا کہ کچھ دن ٹھہریں ۔اس پر صاحبزادہ صاحب نے عرض کی کہ حضور یہ اس قسم کا آدمی نہیں۔ اس پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے سیداحمد نور کی بیعت لے لی۔(قلمی مسودہ صفحہ ۲۱تا ۲۳)
حضرت مولانا غلام رسول صاحب راجیکیؓ کا بیان ہے کہ :
’’جب سید عبداللطیف صاحب قادیان میں تشریف فرما تھے میں بھی قادیان میں گیا ہوا تھا ۔ حضرت سیدعبداللطیف صاحب اور میں دونوں ایک ہی کمرہ میں ٹھہرے ہوئے تھے ۔ میرے پاس ایک چھوٹی سی حمائل ہوا کرتی تھی ۔میں اس کی تلاوت کیا کرتا ۔ حضرت مولوی صاحب بھی قرآن مجید یا حضرت صاحب کی کتب کا مطالعہ کرتے ۔ حضرت اقدس جب نماز کے وقت تشریف لاتے تو بعض دفعہ سیدعبداللطیف کی خاطر فارسی زبان میں بھی کچھ فقرات فرما دیتے ۔
جب حضورجہلم تشریف لے گئے تو وہاں بھی حضرت سیدعبدالطیف صاحب حضرت اقدس کے ساتھ تھے ۔ میں بھی تھا۔ عدالت کی کوٹھیوں کے پاس لوگوں کی درخواست پر حضرت اقدس نے تقریر فرمائی تو پہلے حضرت سید صاحب کی خاطر فارسی زبان میں تقریر شروع فرمائی تھی لیکن فارسی سمجھنے والے چونکہ بہت کم لوگ تھے اس لئے حضرت مولوی عبداللطیف نے عرض کیا کہ حضور میں اردو سمجھ لیتاہوں ، حضور اردو میں تقریر فرمائیں ، دوسرے لوگوں کی بھی یہی خواہش تھی۔
حضرت مولوی عبداللطیف صاحب کا یہ شیوہ تھا کہ حضرت اقدس کی طرف منہ کر کے بیٹھتے تھے اور ہمہ تن گوش ہو کر حضور کی باتوں کے سننے میں محو ہو جاتے ۔ کبھی کبھی آپ کی آنکھوں سے تاثرات کی وجہ سے آنسو بہنے لگ جاتے‘‘۔ (رجسٹر روایات صحابہ جلد ۱۰ صفحہ ۷۴،۷۵)
حضرت مولوی غلام رسول صاحب راجیکیؓ بیان کرتے ہیں:
’’حضور کی کتاب ’’مواہب الرحمن‘‘جو جہلم کے مقدمہ کی پیشی سے پہلے ہی چھپ کر شائع ہو چکی تھی۔ سید عبداللطیف صاحب نے بھی اس کو پڑھ لیاتھا اور عجیب بات یہ ہے کہ حضرت اقدس کی طرف سے اس میں یہ پیشگوئی جو ذیل کے الفاظ وحی سے شائع کی گئی تھی یعنی’’ قُتِلَ خَیْبَۃً وَ زِیْد ھَیْبَۃً ‘‘یہ سید عبداللطیف کے ہی متعلق تھی۔ (رجسٹر روایات صحابہ جلد ۱۰ صفحہ ۷۶)
سیدا حمد نور بیان کرتے ہیں کہ :
’’حضرت صاحبزادہ صاحب چندماہ قادیان میں ٹھہرے۔ وہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ساتھ سیر کو بھی جایاکرتے تھے ۔ جب واپس آتے اور حضور ؑ اپنے گھرتشریف لے جاتے تو حضرت صاحبزادہ صاحب فوری طور پر اپنے کپڑوں سے گردوغبار صاف نہیں کرتے تھے جو سیر کے دوران ان پر پڑ جاتاتھا بلکہ کچھ عرصہ انتظار کرتے تھے اور جب ان کو اندازہ ہو جاتاکہ اب حضور نے اپنا لباس صاف کر لیاہوگا تب اپنے کپڑوں سے گردجھاڑتے تھے ‘‘۔ (شہید مرحوم کے چشم دیدواقعات حصہ اول صفحہ ۶،۷)
جناب قاضی محمد یوسف صاحب کا بیان ہے کہ میں ۲۳؍رمضان المبارک ۱۳۲۰ھ بمطابق ۲۴؍دسمبر کوجلسہ سالانہ میں شمولیت کے لئے قادیان آیا اور مہمان خانہ میں کنویں کے پاس والے کمرہ میں جو شمالی جانب تھا قیام کیا۔ ان دنوں میں حضرت صاحبزادہ عبداللطیف صاحب بھی قادیان میں موجود تھے اورمہمان خانہ میں جنوب کی طرف پہلے کمرہ میں ٹھہرے ہوئے تھے۔ حضرت صاحبزادہ صاحب ہر صبح کو کنویں کے پاس چارپائی پر روبہ قبلہ ہو کر بیٹھ جاتے تھے اور قرآن کریم کی تلاوت کیاکرتے تھے۔ نماز باجماعت کے لئے مسجد مبارک میں حاضر ہوتے تھے۔مسجد مبارک ان دنوں بہت چھوٹی ہوتی تھی۔ ایک صف میں زیادہ سے زیادہ پانچ نمازی کھڑ ے ہو سکتے تھے۔ حضرت مولانا عبدالکریم صاحب امام الصلوٰۃہوتے تھے۔حضرت مسیح موعود علیہ السلام اس کھڑکی کے پاس جو حضور کے گھر میں کھلتی تھی جانب شمال نماز ادا کرتے تھے ۔ صاحبزادہ صاحب عموماً صف اول کے جنوبی کونے میں ہوتے تھے ۔ نماز کے بعد صاحبزادہ صاحب حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کی مجلس میں بیٹھتے تھے اور موقعہ بہ موقعہ کچھ کلام بھی کرتے تھے ۔ باتیں بہ آواز بلند کرتے تھے ۔
حضرت صاحبزادہ صاحب کا قد درمیانہ تھا ۔ بدن موٹا نہ تھا۔ریش بہت گھنی نہ تھی ۔ اس کے بال اکثر سیاہ تھے ۔ ٹھوڑی پرکچھ کچھ سفید تھے ۔ حالت نہایت گداز تھی ۔ اکثر حصہ رات کا بیدار رہتے ۔ تلاوت قرآن مجید کا عشق تھا۔ اسے ہروقت حرز جان بنائے رکھتے تھے۔اپنے ساتھیوں کی تربیت میں مصروف رہتے تھے ۔(عاقبۃ المکذبین حصہ اول مصنفہ جناب قاضی محمد یوسف صاحب امیر جماعت صوبہ سرحد۔ صفحہ ۴۰ تا ۴۲۔ تاریخ اشاعت ۲۰؍اکتوبر ۱۹۳۶ء)
میاں نظام الدین صاحب ٹیلر ماسٹر جہلم کی روایت ہے کہ جب حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کرم دین بھین والے مقدمہ کے سلسلہ میں جہلم تشریف لائے تو جماعت جہلم نے دریا کے کنارے حضور اور ساتھ کے مہمانوں کے لئے ایک کوٹھی کا انتظام کیا ہوا تھا۔ اس سفر میں صاحبزادہ سید محمد عبداللطیف صاحبؓ بھی حضور کے ساتھ عدالت کے حاطہ میں فارسی زبان میں گفتگو فرما رہے تھے اور ارد گرد لوگوں کا ہجوم تھا۔ اس موقعہ پر ایک دوست نے درخواست کی کہ حضور اردو زبان میں تقریر فرمائیں تا کہ عام لوگوں کو بھی فائدہ ہو ۔ اس پر حضور اردو میں تقریر شروع کر دی ۔ (سیرت المہدی حصہ سوم روایت نمبر ۷۵۳)
سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ۱۷؍جنوری ۱۹۰۳ء کو بمقام جہلم ارشاد فرمایا :
’’حضرت ابوبکرؓنے کوئی نشان نہیں مانگا یہی وجہ تھی کہ آ پ کا نام صدیق ہوا۔سچائی سے بھرا ہوا۔ صرف منہ دیکھ کر ہی پہچان لیا کہ یہ جھوٹا نہیں ہے ۔ پس صادقوں کی شناخت اور ان کا تسلیم کرنا کچھ مشکل امر تو نہیں ہوتا۔ ان کے نشانات ظاہر ہوتے ہیں لیکن کورباطن اپنے آپ کوشبہات اور خطرات میں مبتلا کر لیتے ہیں۔وہ بڑے ہی بدقسمت ہوتے ہیں جو انتظار ہی میں اپنی عمر گزاردیتے ہیں اور پردہ برانداز ثبوت چاہتے ہیں ان کو معلوم نہیں کہ جیسا کہ خوداللہ تعالیٰ نے فرما دیا ہے انکشاف کے بعد ایمان نفع نہیں دیتا ۔ نفع میں وہی لوگ ہوتے ہیں اور سعادت مند وہی ہیں جو مخفی ہونے کی حالت میں شناخت کرتے ہیں۔۔۔۔۔۔ عنقریب وہ وقت آتاہے کہ اللہ تعالیٰ اس سلسلہ کی سچائی کو آفتاب سے بھی زیادہ روشن کر دکھائے گا وہ وقت ہوگا کہ ایمان ثواب کا موجب نہ ہوگا۔۔۔۔۔۔۔ایمان یہ ہے کہ کچھ مخفی ہو تو مان لے۔ جو ہلال کو دیکھ لیتاہے تیز نظر کہلاتاہے لیکن چودھویں کے چاند کو دیکھ کر شورمچانے والا دیوانہ کہلائے گا‘‘۔
ا س موقع پر مولانا مولوی عبداللطیف صاحب کابلی نے عرض کی کہ ’’حضور میں نے ہمیشہ آپ کو سورج کی طرح ہی دیکھا ہے کوئی امر مخفی یا مشکوک مجھے نظر نہیں آیاپھرمجھے کوئی ثواب ہوگا یا نہیں؟‘‘۔ فرمایا ’’آ پ نے اس وقت دیکھاجب کو ئی دیکھ نہ سکتاتھا۔ آپ نے اپنے آپ کو نشانۂ ابتلاء بنا دیا اور ایک طرح سے جنگ کے لئے تیار کر دیا۔ اب بچ جانا یہ خدا کا فضل ہے ۔ ایک شخص جو جنگ میں جاتاہے اس کی شجاعت میں تو کوئی شبہ نہیں اگر وہ بچ جاتا ہے اور اسے کوئی گزند نہیں پہنچتا تو یہ اللہ تعالیٰ کا فضل ہے ۔اسی طرح آپ نے اپنے آپ کو خطرات میں ڈال دیا اور ہر دکھ اور ہر مصیبت کو اس راہ میں اٹھانے کے لئے تیار ہو گئے اس لئے اللہ تعالیٰ آپ کے اجر کو ضائع نہیں کرے گا‘‘۔ (الحکم ۱۰؍اگست ۱۹۰۳ء ملفوظات جلد سوم طبع جدید صفحہ۱۶،۱۷)
میاں عبدالرزاق صاحب ولد میاں رحیم بخش صاحب سکنہ سیالکوٹ شہر حال دارالفضل قادیان بیان کرتے ہیں:
’’جب حضرت صاحب جہلم تشریف لے گئے تو اس موقعہ پر ایک دن پہلے جہلم چلا گیا تھا ۔جب اسٹیشن پرگاڑی پہنچی تو وہاں بہت خلقت دیکھنے آئی ہوئی تھی۔ سٹیشن سے حضور کو ایک انتظام کے ساتھ اس کوٹھی میں پہنچایا گیا جو دریائے جہلم کے کنارہ پر حضور کی رہائش کے لئے تھی۔ مولوی عبداللطیف شہید مرحوم کابل والے بھی حضرت صاحب کے ساتھ بیٹھے ہوئے تھے ‘‘۔(رجسٹر روایات صحابہ نمبر ۵ صفحہ ۹۲)
ملک عطاء اللہ صاحب ولد ملک محمد رمضان صاحب گجرات بیان کرتے ہیں کہ :
’’مولوی کرم دین صاحب بھین والے مقدمہ کے سلسلہ میں جب حضرت صاحب جہلم تشریف لے گئے تو میں اس گاڑی میں یہاں سے (گجرات سے) سوار ہوا۔ ہر سٹیشن پر بے شمار ہجوم تھا۔ جہلم میں بھی بہت بھیڑ تھی ۔۔۔۔۔۔ جب حضور کچہری تشریف لے گئے تو عدالت کے سامنے میدان میں حضرت مسیح موعود ؑ کے لئے ایک کرسی بچھائی گئی ، ارد گرد احبا ب کا حلقہ تھا جس میں صاحبزادہ عبداللطیف صاحب شہید کابل اور عجب خان تحصیلدار آف زیدہ بھی شامل تھے۔
حضرت نے گفتگوکی ابتدا اپنے فارسی شعر
آسمان بارَد نشاں اَلوقت می گوید زمین
ایں دو شاہد از پئے تصدیق من ایستادہ اند
سے شروع کی اور فرمایا کہ ’’میرے لئے آسمان نے بھی گواہی دی اور زمین نے بھی گواہی دی مگر یہ لوگ نہیں مانتے ۔ فرمایاکہ مانیں گے اور ضرور مانیں گے مگر میرے مرنے کے بعد میری قبر کی مٹی بھی کھودکرکھا جائیں گے اور کہیں گے کہ اس میں بھی برکت ہے مگراس وقت کیاہوگا
جب مرگئے تو آئے ہمارے مزار پر
پتھر پڑیں صنم تیرے ایسے پیار پر
حضرت کا یہ فرمانا تھاکہ صاحبزادہ صاحب ۔۔۔۔۔۔زارزار رونے لگے ‘‘۔ (رجسٹرروایات صحابہ جلد ۱۰ صفحہ ۸۰،۸۱)
فیروزالدین صاحب سیالکوٹی کی روایت ہے کہ :’’جب حضور جہلم تشریف لے گئے تو میں ساتھ تھا ۔ حضرت شاہزادہ عبداللطیف شہیدبھی ساتھ تھے۔ اس وقت حضرت شہزادہ عبداللطیف صاحب شہید نے فرمایا کہ :’’حضور میرا خون ٹپک رہاہے اور میں دیکھتاہوں کہ میراخون کابل میں آبپاشی کاکام دے گا‘‘۔ (رجسٹر روایات صحابہ جلد۱۲ صفحہ ۱۰۵،۱۰۶)
مرزا محمد افضل صاحب ولد مرزا محمدجلال الدین صاحب مرحوم ساکن بلانی ضلع گجرات بیان کرتے ہیں کہ :
’’جب ۱۹۰۳ء میں حضرت مسیح موعودعلیہ السلام جہلم تشریف لائے تھے تو میں بھی وہاں گیاتھا ۔ وہاں بے پناہ ہجوم تھا۔ اس سفر میں صاحبزادہ عبداللطیف صاحب شہید بھی ساتھ تھے ۔ ایک موقعہ پر صاحبزادہ صاحب نے فرمایا کہ :
’’خدا نے مجھے تین بار سر دینے کو فرمایاہے پس میں دونگا‘‘۔(رجسٹر روایات صحابہ جلد ۶ صفحہ ۲۲۵،۲۲۶)
جنا ب ماسٹر اللہ دتہ صاحب محلہ دارالرحمت قادیان بیان کرتے ہیں کہ :
’’جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کرم دین بھین والے مقدمہ کے سلسلہ میں جہلم تشریف لے گئے تھے تو صاحبزادہ سید عبداللطیف رضی اللہ عنہ حضور کے ساتھ تھے ۔احاطہ کچہری میں حضور ایک کرسی پر بیٹھے ہوئے تھے ، دری بچھی ہوئی تھی اور بہت سے دوست دری پر تھے ۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام صاحبزادہ صاحب سے فارسی میں گفتگو فرماتے تھے ۔ گفتگو کے دوران صاحبزادہ صاحب نے عرض کی کہ ’’حضور ! دلِ من میخواہد کہ پیش محمد حسین بر وَم کہ مرا از کابل نظر آمد و شمارا کہ نزدیک ترین ہستیدنظر نیامد۔یعنی حضور میرا دل چاہتاہے کہ مولوی محمد حسین (بٹالوی) کو ملوں اور ان سے کہوں کہ جو چیز مجھے کابل میں نظر آگئی وہ آپ کو نظرنہیں آئی حالانکہ آپ تو( قادیان سے) نزدیک ترین مقام پر رہتے ہیں۔(رجسٹرروایات صحابہ نمبر ۷ صفحہ ۴۰۳)
سید احمد نور صاحب بیان کرتے ہیں کہ قادیان میں قیام کے دوران انہوں نے یہ بات دیکھی کہ قادیان کے رہنے والے احباب حضرت صاحبزادہ صاحب کے ساتھ بہت عزت و احترام کے ساتھ پیش آتے ہیں۔(قلمی مسودہ صفحہ ۲۱)
ان ایام میں صوبہ سرحد کے ایک احمدی دوست خان عجب خان آف زیدہ تحصیلدار بھی قادیان آئے ہوئے تھے۔ انہوں نے سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے واپس جانے کی اجازت مانگی تو حضور نے انہیں اجازت دے دی۔ عجب خان صاحب نے حضرت صاحبزادہ صاحب سے ذکر کیا کہ میں نے حضور سے تو اجازت لے لی ہے لیکن حضرت مولانا نورالدین صاحب سے رخصت نہیں ہوااس پر حضرت صاحبزادہ صاحب نے فرمایا کہ ان سے ضرور رخصت لینا کیونکہ وہ حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کے بعد آپ کے خلیفۂ اول ہونگے ۔
قادیان میں قیام کے دوران حضرت صاحبزادہ صاحب نے حضرت مولانا نورالدین صاحبؓ سے درخواست کرکے حدیث بخاری کے دو تین صفحے پڑھے اور اپنے ساتھیوں سے کہا کہ یہ میں نے اس لئے کیاکہ میں حضرت مولاناکے شاگردوں میں شامل ہو جاؤں کیونکہ یہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے خلیفہ اول ہونگے۔
مولوی عبدالستار خان صاحب بیان کرتے ہیں کہ ایک مرتبہ حضرت صاحبزادہ صاحب نے ان سے فرمایا کہ قادیان شریف میں وہی آرام سے رہتاہے جو درود شریف بہت پڑھتاہے اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے اہل بیت سے محبت رکھتاہے ۔ مسجد مبارک میں اللہ تعالیٰ نے مکہ اور مدینہ کی برکتیں نازل کی ہیں ۔ جب منارۃ المسیح مکمل ہو جائے گا تب اللہ تعالیٰ کی طرف سے کمالات اور فیضان کا نزول ہوگا۔
ایک رو ز حضرت صاحبزادہ صاحب کی آنکھوں سے آنسو بہنے لگے ۔ آپ نے فرمایا کہ میں دیکھتاہوں کہ ملائکہ نے میرے سبب بہت سے لوگوں کو قتل کیا ہے ۔ میں کیاکروں میں نے تو کسی کو قتل نہیں کیا ۔ (شہید مرحوم کے چشم دید حالات حصہ دوم صفحہ ۲۰)
حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:
’’ایک صریح وحی الٰہی صاحبزادہ مولوی عبداللطیف صاحب مرحوم کی نسبت ہوئی تھی جبکہ وہ زندہ تھے بلکہ قادیان میں ہی موجود تھے ۔۔۔۔۔۔جو مولوی صاحب کے مارے جانے کے بارے میں ہے اوروہ یہ ہے کہ :’’ قُتِلَ خَیْبَۃً وَ زِیْدَ ھَیْبَۃً ‘‘۔ یعنی ایسی حالت میں مارا گیاکہ اس کی بات کو کسی نے نہ سنا اور اس کا مارا جانا ایک ہیبت ناک امر تھا یعنی لوگوں کو بہت ہیبت ناک معلوم ہوااور اس کا بڑا اثر دلوں پر ہوا‘‘۔ (تذکرۃ الشہادتین حاشیہ۔ روحانی خزائن جلد ۲۰ مطبوعہ لندن صفحہ ۷۵)
بابو غلام محمد صاحب ثانی لاہور بیان کرتے ہیں کہ صاحبزادہ عبداللطیف صاحب نے ایک بہت قیمتی چغہ حضور کی خدمت میں تحفۃً پیش کیا ۔ خواجہ کمال الدین صاحب موجود تھے۔ انہوں نے درخواست کی کہ حضور یہ چغہ مجھے دے دیں چنانچہ حضور نے یہ چغہ ان کو دے دیا ۔(رجسٹر روایات صحابہ جلد۹صفحہ ۶۸)
مولانا حکیم عبیداللہ صاحب بسملؓ کی روایت ہے کہ وہ احمدی ہونے سے پہلے رافضی شیعہ تھے ۔ انہیں سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتاب ‘‘سرّالخلافہ ‘‘ملی ۔ اس کے پڑھنے سے ان کے عقیدہ میں انقلاب عظیم پیدا ہو گیا۔رات کے گیارہ بجے تھے وہ کتاب پڑھتے پڑھتے سو گئے۔ خواب میں انہوں نے حضرت امام حسینؓ کو دیکھا کہ بلند جگہ پرکھڑے ہیں اور کسی سے کہہ رہے ہیں کہ مرزا صاحب کو جاکر خبر کردو کہ میں آ گیا ہوں۔
صبح میں قادیان کے لئے روانہ ہو گیا ۔ قادیان میں ان دنوں حضرت صاحبزادہ سید عبداللطیف صاحب مہمان خانہ میں مقیم تھے ۔ ان سے ملاقات ہوئی تو ان کا چہرہ دیکھتے ہی حضرت حسینؓ کی خواب والی شکل آنکھوں کے سامنے آ گئی۔
دوسرے دن مولانا حکیم عبیداللہ صاحب درّثمین پڑھنے لگے ۔ کتاب کھولتے ہی ا س شعر پر نگاہ جا اٹکی
کربلائیست سیر ہر آنم
صد حسین است درگریبانم
اس شعر پرغورکر رہے تھے تو مہمان خانہ کے دروازہ پرنظر پڑی۔ دیکھا کہ حضرت صاحبزادہ سید محمد عبداللطیف تشریف لا رہے ہیں ۔ مولانا بسمل صاحب اٹھ کر ملے۔ جب کابل میں حضرت صاحبزادہ صاحب کی شہادت ہوئی تو مولانا بسمل صاحب کی رؤیا کی تعبیر اورحضرت حسینؓ کے بارہ میں شعرکا مطلب واضح ہو گیا ۔ (سیرت المہدی حصہ سوم روایت نمبر۶۳۱ ۔ ایڈیشن فروری ۱۹۳۹ء)
حضرت مولوی شیر علی صاحبؓ سے روایت ہے کہ :
’’ایک دفعہ ایک ہندوستان کا رہنے والا مولوی قادیان آیا اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے پاس حاضر ہوکرکہنے لگا کہ وہ ایک جماعت کی طرف سے نمائندہ ہوکر حضور کے دعویٰ کی تحقیق کے لئے آیا ہے اور پھراس نے اختلافی مسائل کے متعلق گفتگو شروع کر دی ۔ وہ گفتگو کے دوران بڑے تکلف سے خوب بنا بنا کر موٹے موٹے الفاظ استعمال کرتاتھا ۔ اس کے جواب میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے کچھ تقریر فرمائی تو وہ آپ کی بات کاٹ کربولاکہ آپ کو مسیح و مہدی ہونے کا دعویٰ ہے مگر الفاظ کا تلفظ اچھی طرح ادانہیں کر تے ۔ اس وقت مولوی عبداللطیف صاحب شہید حضورؑ کے پاس بیٹھے تھے۔ ان کو مولوی کی بات پر بہت غصہ آیا اور انہوں نے اسی جوش میں اس مولوی کے ساتھ فارسی زبان میں گفتگو شروع کردی ۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے مولوی عبداللطیف صاحب کو سمجھا بجھا کر ٹھنڈا کیا اور پھر کسی دوسرے وقت جب مولوی عبداللطیف صاحب مجلس میں موجود نہ تھے حضور نے فرمایا کہ اس وقت مولوی صاحب کو بہت غصہ آ گیاتھا اس لئے میں نے اس ڈر سے کہ وہ کہیں غصہ میں اس مولوی کو مار ہی نہ بیٹھیں مولوی صاحب کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں دبائے رکھاتھا۔ (سیرت المہدی حصہ دوم روایت نمبر ۳۶۴)