شیخ عجم ۔ حضرت صاحبزادہ سید محمد عبدالطیف شہید افغانستان کے سوانح حیات
خوست سے کابل لایا جانا
خوست کے گورنر عبدالرحمن خان کو یہ ڈر تھاکہ اگر حضرت صاحبزادہ صاحب کو فوری طورپرکابل نہ بھجوایا گیا تو شاید راستہ میں آپ کے مرید حملہ کر کے آپ کو چھڑا لے جائیں اس لئے اس نے آپ کو خوست کی چھاؤنی میں ہی زیرحراست رکھا ۔
کچھ عرصہ کے بعد اس کی تسلی ہوئی کہ حضرت صاحبزادہ صاحب خود ہی کابل جانے پرآمادہ ہیں اور لوگوں کو اس امر سے منع کرتے ہیں کہ وہ آپ کو آزادکروائیں تو اس نے چند محافظوں کے ساتھ آپ کو کابل روانہ کردیا۔مولوی عبدالجلیل خان صاحب جو آپ کے خادمِ خاص تھے بھی آپ کے ہمراہ کابل روانہ ہوئے ۔ جو محافظ سوار آپ کے ساتھ کابل گئے تھے وہ آپ کی بعض کرامات بیان کیاکرتے تھے ۔ ان کا بیان تھا کہ دو مرتبہ حضرت صاحبزادہ صاحب ان کی نظروں سے اوجھل ہوگئے ۔ بعد میں آپ نے فرمایاکہ میں اپنی خوشی سے تمہارے ساتھ جارہاہوں تم مجھے میری مرضی کے خلاف زبردستی نہیں لے جا سکتے۔ چنانچہ آپ کے محافظ نہایت ادب اور احتیاط کے ساتھ آپ کو کابل لے گئے۔ حضرت صاحبزادہ صاحب کو کم و بیش ایک مہینہ یا ڈیڑھ مہینہ خوست کی چھاؤنی میں رکھا گیا تھا۔
حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:
’’راویوں نے بیان کیاہے کہ جب شہیدمرحوم کابل کے بازار سے گزرے تو گھوڑے پر سوار تھے اور ان کے پیچھے آٹھ سرکاری سوار تھے اور ان کی تشریف آوری سے پہلے عام طور پر کابل میں مشہور تھا کہ امیر صاحب نے اخوندزادہ صاحب کو دھوکہ دے کر بلایاہے ۔ اب بعد اس کے دیکھنے والوں کا یہ بیان ہے کہ جب اخوندزادہ صاحب مرحوم بازار سے گزرے تو ہم اور دوسرے بہت سے بازاری لوگ ساتھ چلے گئے اور یہ بھی بیان کیا کہ آٹھ سرکاری سوار خوست سے ہی ان کے ہمراہ کئے گئے تھے۔ کیونکہ ان کے خوست میں پہنچنے سے پہلے حکم سرکاری ان کے گرفتار کرنے کے لئے حاکم خوست کے نام آ چکاتھا‘‘۔ (تذکرۃ الشہادتین ۔روحانی خزائن جلد ۲۰ صفحہ ۵۰،۵۱۔ مطبوعہ لندن)
حضرت صاحبزادہ عبداللطیف صاحب کی کابل میں قید اور مافوق العادت استقامت
جب حضرت صاحبزادہ صاحب کابل پہنچے تو پہلے ان کو سردار نصراللہ خان نائب السلطنت کے پاس لے جایاگیا ۔ اس نے بغیر کسی تحقیقات کے حکم دیاکہ آپ کا تمام سامان زادراہ اور گھوڑا وغیرہ ضبط کر لیاجا ئے اور ارک یعنی قلعہ شاہی کے قیدخانہ جو توقیف خانہ کہلاتا تھا میں قیدکر دیا جائے ۔ آپ کے خادم خاص عبدالجلیل خان صاحب کو عام جیل میں قیدکردیا گیا۔
حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں :
’’جب امیر صاحب کے روبرو پیش کئے گئے تو مخالفوں نے پہلے سے ہی ان کے مزاج کو بہت کچھ متغیر کررکھا تھا اس لئے وہ ظالمانہ جو ش سے پیش آئے اور حکم دیا کہ مجھے ان سے بُو آتی ہے ان کو فاصلہ پر کھڑا کرو۔ پھرتھوڑی دیر کے بعد حکم دیاکہ ان کو اس قلعہ میں جس میں خود امیر صاحب رہتے ہیں قید کردو اور زنجیز غراغراب لگا دو۔ یہ زنجیر وزنی ایک من چوبیس سیر انگریزی کا ہوتاہے۔ گردن سے کمر تک گھیر لیتاہے اور اس میں ہتھکڑی بھی شامل ہے۔ اور نیزحکم دیاکہ پاؤں میں بیڑی وزنی آٹھ سیر انگریزی کی لگا دو۔
پھر اس کے بعد مولوی صاحب مرحوم چار مہینہ قید میں رہے اور اس عرصہ میں کئی دفعہ ان کو امیر کی طرف سے فہمائش ہوئی کہ اگر تم اس خیال سے توبہ کرو کہ قادیانی درحقیقت مسیح موعود ہے تو تمہیں رہائی دی جائے گی ۔ مگر ہر ایک مرتبہ انہوں نے یہی جواب دیا کہ میں صاحبِ علم ہوں اورحق وباطل کی شناخت کرنے کی خدا نے مجھے قوت عطا کی ہے، میں نے پوری تحقیق سے معلوم کر لیاہے کہ یہ شخص درحقیقت مسیح موعود ہے۔اگرچہ میں جانتا ہوں کہ میرے اس پہلو کے اختیار کرنے میں میری جان کی خیرنہیں ہے اور میرے اہل وعیال کی بربادی ہے مگر میں اس وقت اپنے ایمان کو اپنی جان اور ہر ایک دنیوی راحت پر مقدم سمجھتاہوں ۔ شہید مرحوم نے نہ ایک دفعہ بلکہ قید ہونے کی حالت میں بارہا یہی جواب دیا۔اور یہ قید انگریزی قید کی طرح نہیں تھی جس میں انسانی کمزوری کا کچھ کچھ لحاظ رکھا جاتا ہے بلکہ ایک سخت قید تھی جس کو انسان موت سے بدترسمجھتاہے ۔ اس لئے لوگوں نے شہید موصوف کی اس استقامت اور استقلال کو نہایت تعجب سے دیکھا ۔ اور درحقیقت تعجب کا مقام تھا کہ ایساجلیل الشان شخص کہ جو کئی لاکھ کی ریاست کابل میں جاگیر رکھتا تھا اور اپنے فضائل علمی اور تقویٰ کی وجہ سے گویاتمام سرزمین کابل کا پیشوا تھا اور قریباً پچاس برس کی عمر تک تنعم اور آرام میں زندگی بسر کی تھی اور بہت سا اہل و عیال او ر عزیزفرزند رکھتاتھا۔پھریکدفعہ و ہ ایسی سنگین قیدمیں ڈالا گیا جوموت سے بدتر تھی اور جس کے تصور سے بھی انسان کے بدن پر لرزہ پڑتاہے ۔ایسا نازک اندام اور نعمتوں کا پروردہ انسان وہ اس روح کے گداز کرنے والی قیدمیں صبر کر سکے اور جان کوایمان پر فدا کرے۔ بالخصوص جس حالت میں امیر کابل کی طرف سے باربار ان کو پیغام پہنچتا تھا کہ اس قادیانی شخص کی تصدیق دعویٰ سے انکارکر دو تو تم ابھی عزت سے رہا کئے جاؤگے۔ مگراس قوی الایمان بزرگ نے اس باربار کے وعدہ کی کچھ بھی پرواہ نہ کی اور باربار یہی جواب دیا کہ مجھ سے یہ امید مت رکھو کہ میں ایمان پردنیاکو مقدم رکھ لوں اور کیونکر ہو سکتا ہے کہ جس کو میں نے خوب شناخت کرلیااورہر ایک طرح سے تسلی کر لی اپنی موت کے خوف سے اس کاانکار کر دوں۔یہ انکار تو مجھ سے نہیں ہوگا۔ میں دیکھ رہاہوں کہ میں نے حق پا لیا اس لئے چند روزہ زندگی کے لئے مجھ سے یہ بے ایمانی نہیں ہوگی کہ میں اس ثابت شدہ حق کو چھوڑ دوں۔ میں جان چھوڑنے کے لئے تیار ہوں اور فیصلہ کر چکا ہوں۔ مگر حق میرے ساتھ جائے گا۔اس بزرگ کے باربار کے یہ جواب ایسے تھے کہ سرزمین کابل کبھی ان کو فراموش نہیں کرے گی اور کابل کے لوگوں نے اپنی تمام عمر میں یہ نمونہ ایمانداری اور استقامت کا کبھی نہیں دیکھا ہوگا۔
اس جگہ یہ بھی ذکرکرنے کے لائق ہے کہ کابل کے امیروں کایہ طریق نہیں ہے کہ اس قدربار بار وعدہ معافی دے کر ایک عقیدہ کے چھڑانے کے لئے توجہ دلائیں۔ لیکن مولوی عبداللطیف صاحب مرحوم کی یہ خاص رعایت اسوجہ سے تھی کہ وہ ریاست کابل کاگویاایک بازو تھا اور ہزار ہاانسان اس کے معتقدتھے۔۔۔۔۔۔۔و ہ امیر کابل کی نظرمیں اس قدر منتخب عالم فاضل تھا کہ تمام علماء میں آفتاب کی طرح سمجھا جاتاتھا۔پس ممکن ہے کہ امیر کو بجائے خود یہ رنج بھی ہو کہ ایسا برگزیدہ انسان علماء کے اتفاق رائے سے ضرور قتل کیا جائے گااور یہ تو ظاہرہے کہ آج کل ایک طورسے عنان حکومت کابل کی مولویوں کے ہاتھ میں ہے اور جس بات پر مولوی لوگ اتفاق کر لیں پھرممکن نہیں کہ امیر اس کے برخلاف کچھ کر سکے۔پس یہ امر قرین قیاس ہے کہ ایک طرف امیر کو مولویوں کاخوف تھا اوردوسری طرف شہید مرحوم کو بے گناہ دیکھتاتھا۔ پس یہی وجہ ہے کہ وہ قید کی تمام مدت میں یہی ہدایت کرتا رہا کہ آپ اس شخص قادیانی کومسیح موعودمت مانیں اور اس عقیدہ سے توبہ کریں تب آپ عزت کے ساتھ رہاکر دئے جاؤگے۔ اور اسی نیت سے اس نے شہید مرحوم کو اس قلعہ میں قیدکیا تھا جس قلعہ میں وہ آپ رہتا تھا تامتواتر فہمائش کاموقعہ ملتا رہے‘‘۔ (تذکرۃ الشہادتین ۔ روحانی خزائن جلد ۲۰ صفحہ ۵۱ تا ۵۳۔ مطبوعہ لندن)
حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:
’’ ان کی جب مخبری کی گئی اور ان کو امیر کے روبروپیش کیا گیا توامیرنے ان سے یہی پوچھا کہ کیا تم نے ایسے شخص کی بیعت کی ہے تو اس نے چونکہ وہ ایک راستباز انسان تھاصاف کہاکہ ’’ہاں میں نے بیعت کی ہے ۔مگر نہ تقلیداً اندھا دھند بلکہ علی وجہ البصیرۃ اس کی اتباع اختیار کی ہے ۔ میں نے دنیا بھرمیں اس کی مانند کوئی شخص نہیں دیکھا ۔ مجھے اس سے الگ ہونے سے اس کی راہ میں جان دے دینا بہتر ہے ‘‘۔
(الحکم ۱۸؍جون ۱۹۰۸ء ۔ ملفوظات جلد دہم صفحہ ۳۰۷ ۔ مطبوعہ لندن۔حضور کے یہ ارشادات ۲؍مئی ۱۹۰۸ء کے ہیں جوآپ نے بمقام لاہور فرمائے تھے)
سیداحمد نور صاحب بیان کرتے ہیں کہ حضرت صاحبزادہ صاحب نے قید خانہ سے اپنے اہل وعیال کو پیغام بھجوایا کہ انہیں کچھ رقم اور بعض ضرورت کی اشیاء بھجوا دی جائیں۔ سیداحمد نور اس وقت اپنے گاؤں سے سیدگاہ آئے ہوئے تھے۔حضرت صاحبزادہ صاحب کے بیٹوں نے ان سے کہا کہ اباّ نے خرچ کے لئے روپیہ منگوایاہے کو ئی لے جانے والا نہیں آپ لے جائیں۔ سیداحمد نور نے کہا کہ ہاں میں لے جاؤں گا۔چنانچہ وہ روپیہ اور دیگر اشیاء لے کرکابل روانہ ہوگئے ۔ سردی کاموسم تھا اور پہاڑی راستہ تھا بارش ہو رہی تھی ۔ پیدل ہی روانہ ہوگئے ۔راستہ میں آٹھ کوس کے بعد اپنے ایک دوست کے ہاں ٹھہرے۔ صبح ہوئی تو آگے روانہ ہوئے ۔راستہ میں انہوں نے دیکھا کہ شدت سردی سے سینکڑوں اونٹ اور بھیڑ بکریاں مرے پڑے ہیں۔ جب غڑک کے پہاڑ پر پہنچے تو شام قریب تھی بارش اور اولوں کا زور تھا ۔ انہوں نے ایک غار میں پناہ لی ۔ اللہ تعالیٰ نے فضل فرمایا کہ بادل چھٹ گئے اور سورج نکل آیا تو آگے روانہ ہوئے ۔ شام ہونے تک ایک گاؤں خوشے میں پہنچ گئے اور رات گاؤں کی مسجد میں بسر کی۔ اگلے روز کابل پہنچ گئے ۔ سردار شاہ محمد حاجی باشی کو ملے جو حضرت صاحبزادہ صاحب کے دوست تھے۔ ان کے ذریعہ روپیہ اور ضرورت کاسامان حضرت صاحبزادہ صاحب کوجیل میں بھجوا دیا۔ سیداحمد نور دوروز کابل میں حاجی باشی صاحب کے پاس رہے پھر اپنے گاؤں میں واپس آگئے ۔
جناب قاضی محمد یوسف صاحب کا بیان ہے کہ جب حضرت صاحبزادہ صاحب ارک شاہی کے توقیف خانہ میں زیرحراست تھے تو آ پ کو کھانا سردارعبدالقدوس خان شاہ غاصی اور بریگیڈئیر مرزا محمد حسین خان صاحب کوتوال کی طرف سے بھجوایا جاتا تھا۔(عاقبۃ المکذبین حصہ اول صفحہ ۴۴)