شیخ عجم ۔ حضرت صاحبزادہ سید محمد عبدالطیف شہید افغانستان کے سوانح حیات
حضرت صاحبزادہ صاحب کے ایک شاگرد کا حج پر جانا اور راستہ میں سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا ذکر سن کر قادیان جانا
مولوی عبدالستار خان صاحب بیان کرتے ہیں کہ حضرت صاحبزادہ صاحب کے ایک شاگرد براستہ ہندوستان حج کے لئے روانہ ہوئے ۔ جب دہلی پہنچے تو کسی شخص نے ان کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بعثت کی اطلاع دی اور حضور کی بہت تعریف و توصیف کی ۔ اس شاگرد کے دل میں اشتیاق پیداہوا اور وہ قادیان آ گئے ۔ سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے ملے ، آپ کی باتیں سن کر اتنامتاثر تھے کہ انہوں نے حضور کی بیعت کرلی ۔ جب وہ اپنے ملک واپس جانے لگے تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے افغانستان کے امیر عبدالرحمن خان کے نام ایک تبلیغی خط لکھنے کی آرزو کی ۔ حضورؑ نے پہلے تویہ فرمایا کہ تمہارا امیر نافہم اور ظالم ہے وہ ایمان نہیں لائے گا۔ لیکن اس شاگرد کے اصرار پر حضور نے انہیں ایک خط فارسی زبان میں لکھ دیا ۔ اس کاکچھ حصہ عربی میں تھا ۔ اس خط کا اردو ترجمہ سیرت المہدی حصہ سوم روایت نمبر ۶۱۷ میں چھپا ہوا ہے ۔
اس خط میں حضور نے امیرعبدالرحمن خان کو لکھا کہ مجھے اللہ تعالیٰ نے اس زمانہ میں مامور و مصلح بناکر مبعوث کیا ہے ۔ جو کچھ میں کہتاہوں وہ خود نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کے حکم کے تحت کہتاہوں ۔ میں اس زمانہ کا مجدد ہوں اور آنحضرت ﷺ کی پیشگوئی کے مطابق مسیح و مہدی بناکر بھیجا گیاہوں۔اس کے علاوہ آپ نے امیرعبدالرحمن خان کو ا س خط میں بعض نصائح بھی فرمائیں ۔ یہ خط ماہ شوال ۱۳۱۳ھ مطابق مارچ ۱۸۹۶ء میں لکھا گیا۔
جب یہ شاگرد خوست پہنچے تو انہوں نے حضرت صاحبزادہ صاحب کووہ خط دے دیا ۔ آپ نے فرمایا کہ یہ بات توسچی ہے اور یہ کلام ایک عظیم الشان کلام ہے لیکن امیر عبدالرحمن خان اتنی سمجھ نہیں رکھتا کہ وہ اسے سمجھ سکے اور ایمان لے آئے اس لئے یہ خط اس کو بھجوانا بے سودہوگا ۔ یہ خط حضرت صاحبزادہ صاحب کے پاس پڑا رہا ۔ ایک موقعہ پر آپ نے یہ خط سردار شریندل خان کو دکھایا تو اس نے خط پڑھ کر کہا کہ یہ بات تو سچی ہے مگر امید نہیں کہ امیر اسے مانے ۔
حضرت صاحبزادہ صاحب نے فرمایا کہ آپ مجھے اجاز ت دے دیں کہ میں قادیان جا کر حضرت مسیح موعود
علیہ السلام سے ملوں لیکن سردار نے کہا کہ جس طرح میں اپنے بیٹے کو اجازت نہیں دے سکتا آپ کو بھی اجازت نہیں دے سکتا۔ آپ بڑے آدمی ہیں ، امیر ہی اجازت دے تو دے ۔
یہ شاگرد کون تھے اور کب قادیان آئے اس بارہ میں وضاحت نہیں مل سکی۔ عام طورپر معروف تویہی ہے کہ حضرت صاحبزادہ صاحب کے وہ شاگرد جو پہلی دفعہ قادیان گئے وہ مولوی عبدالرحمن خان صاحب شہید تھے اور جن کو حضرت صاحبزادہ صاحب نے خود تحقیق احوال کے لئے قادیان بھجوایا تھا ۔
افغانستان کے دو صحابی جو۳۱۳ صحابہ کی فہرست میں شامل ہیں
سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے جنوری ۱۸۹۷ء میں اپنی کتاب انجام آتھم شائع فرمائی جس میں آنحضرت ﷺ کی پیشگوئی کے مطابق اپنے ۳۱۳ صحابہ کے نام درج فرمائے ۔اس فہرست میں نمبر ۱۱۱پر ایک نام یوں درج ہے:’’شیخ محمد عبدالرحمن صاحب عرف شعبان ، کابلی‘‘۔
یہ صحابی مولوی عبدالرحمن خان صاحب شہید اول افغانستان معلوم ہوتے ہیں‘‘۔
دوسرا نام نمبر ۱۳۶پر یوں درج ہے :’’مولوی شہاب الدین صاحب غزنوی ، کابلی‘‘۔
یہ دوسرے صحابی کون تھے اورکب قادیان آئے اور احمدی ہوئے اس بارہ میں مزید تحقیق کی ضرورت ہے ۔ممکن ہے یہ وہی شاگرد ہوں جن کا ذکر مولوی عبدالستار خان صاحب نے کیاہے کہ وہ حج کرنے گئے تھے اور دہلی میں سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا ذکر سن کر قادیان چلے گئے اورحضورؑ کی بیعت کا شرف حاصل کیا اورقادیان سے واپس آتے ہوئے سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے درخواست کر کے امیر عبدالرحمن خان کے نام خط لے کرواپس آئے اس کا ذکر پہلے آ چکا ہے ۔(انجام آتھم ، روحانی خزائن جلد ۱۱ صفحہ ۳۲۶)