شیخ عجم ۔ حضرت صاحبزادہ سید محمد عبدالطیف شہید افغانستان کے سوانح حیات
حضرت صاحبزادہ سید محمد عبداللطیف صاحب کی قادیان سے افغانستان کو واپسی
سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:
’’مولوی صاحب خوست علاقہ کابل سے قادیان میں آ کر کئی مہینہ میرے پاس اور میری صحبت میں رہے ۔ پھربعد اس کے جب آسمان پر یہ امرقطعی طور پر فیصلہ پاچکاکہ وہ درجہ شہادت پاویں تو اس کے لئے یہ تقریب پیدا ہوئی کہ وہ مجھ سے رخصت ہو کر اپنے وطن کی طرف واپس تشریف لے گئے‘‘۔ (تذکرۃ الشہادتین۔ روحانی خزائن جلد۲۰ صفحہ ۴۹ مطبوعہ لندن)
اسی طرح فرمایا:’’اور عجیب بات یہ ہے کہ ان کے بعض شاگردبیان کرتے ہیں کہ جب وہ وطن کی طرف روانہ ہوئے تو باربار کہتے تھے کہ کابل کی زمین اپنی اصلاح کے لئے میرے خون کی محتاج ہے‘‘۔ (تذکرۃ الشہادتین۔ روحانی خزائن جلد۲۰ صفحہ ۵۳،۵۴مطبوعہ لندن)
جب صاحبزادہ صاحب سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے رخصت ہوئے تو اس وقت سیداحمدنور بھی موجود تھے۔ انہوں نے اس وقت حضور کی خدمت میں عرض کی کہ وہ توحضور کو چھوڑ کر نہیں جا سکتے قادیان میں ہی رہنا چاہتے ہیں ۔ اس پر حضور ؑ نے ارشاد فرمایا کہ اس وقت تم صاحبزادہ صاحب کے ساتھ چلے جاؤ ۔ بعد میں تم قادیان آ جاؤ گے ۔
صاحبزادہ شہید عبداللطیف مرحوم جب قیام دارالامان سے واپس کابل جانے لگے تو ان کی سواری کے لئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے رتھ منگوایا ۔ حضورخدا م کے ساتھ ان کو وداع کرنے کے لئے پیدل چلے اور خالی رتھ ساتھ آتا گیا۔ جب حضور نہرکی طرف پہنچے تو رتھ کو ٹھہرا لیا اور اس کے پاس کھڑے ہوکر صاحبزادہ صاحب سے گفتگوکرتے رہے۔ اس دوران میں صاحبزادہ صاحب نے عرض کی کہ مجھے مرنے کا توکچھ فکرنہیں ہاں میرے لئے استقلال کی دعا فرمائیں تااللہ تعالیٰ مجھے ثابت قدم رکھے ۔ وہ باتیں کرتے جاتے تھے اور زار زار رو رہے تھے ۔ اس دوران دفعۃً حضور کے پاؤں پرگر پڑے ۔ اس پر حضورخود جھکے اور شہید مرحوم کے دونوں شانوں کے نیچے اپنے دست مبارک ڈال کر انہیں اٹھایااور فرمایا ۔ صاحبزادہ صاحب ایں جائز نیست۔ ان کے اٹھنے پر حضور نے دعاکی اور انہیں رخصت فرمایا۔ (رجسٹر روایات صحابہ جلد ۷ صفحہ ۲۲۵)
جیساکہ پہلے ذکر آ چکا ہے حضرت صاحبزادہ صاحب کو سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ارشاد فرمایا تھا کہ عیدالاضحی کے بعد قادیان سے روانہ ہوں ۔ اس سال عید ۱۱؍مارچ ۱۹۰۳ء کو ہوئی تھی۔ اس سے معلوم ہوتاہے کہ حضرت صاحبزادہ صاحب قادیان سے واپس اپنے وطن کی طرف ۱۱؍مارچ کو یا اس کے بعد روانہ ہوئے تھے۔ (البدر ۱۳؍مارچ ۱۹۰۳ء۔ و ۲۰؍مارچ ۱۹۰۳ء۔ ملفوظات جلد پنجم مطبوعہ لندن )
واقعہ سنگساری کے متعلق میں نے دریافت کیا کہ آپ کو کوئی تکلیف تو نہیں ہوئی ۔ فرمایا مجھے کوئی دکھ نہیں ہوا اور میں نے کوئی تکلیف محسوس نہیں کی ۔
ِ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی وفات کے بعد آ پ مجھے خواب میں نظر آئے تومیں نے انہیں پہلے سے زیادہ خوش پایا۔ معلوم ہوتاہے کہ یہ حضرت کی ملاقات کا نتیجہ تھا۔(الحکم ۱۴؍دسمبر ۱۹۳۵)
(شہید مرحوم کے چشمدید واقعات حصہ اول صفحہ ۹،۱۰)
راستہ میں جہاں بھی قیام ہوتا تو جن لوگوں سے ملاقات ہوتی ان سے سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا ذکرضرور کرتے ۔ (شہیدمرحوم کے چشمدیدواقعات حصہ دوم صفحہ ۲۰)
(بیان سیداحمد نور صاحب ۔شہید مرحوم کے چشمدید واقعات حصہ اول صفحہ ۹ تا ۱۱)
’’مولوی صاحب جب سرزمین علاقہ ریاست کابل کے نزدیک پہنچے تو علاقہ انگریزی میں ٹھہرکر بریگیڈیئر محمد حسین کوتوال کو جوان کا شاگرد تھا ایک خط لکھا کہ آ پ امیر صاحب سے میرے آنے کی اجازت حاصل کرکے مجھے اطلاع دیں۔ تو امیر صاحب کے پاس بمقام کابل میں حاضر ہو جاؤں۔ بلا اجازت اس لئے تشریف نہ لے گئے کہ وقت سفر امیر صاحب کو یہ اطلاع دی تھی کہ میں حج کو جاتاہوں۔ مگر وہ ارادہ قادیان میں بہت دیر تک ٹھہرنے سے پورانہ ہو سکا اور وقت ہاتھ سے جاتارہا۔۔۔۔۔۔ قبل اس کے کہ وہ سرزمین کابل میں وارد ہوں اور حدود ریاست کے اندر قدم رکھیں احتیاطاًقرین مصلحت سمجھا کہ انگریزی علاقے میں رہ کر امیر کابل پر اپنی سرگزشت کھول دی جائے کہ اس طرح پرحج کرنے سے معذوری پیش آئی ۔ انہوں نے مناسب سمجھا کہ بریگیڈیئر محمد حسین کو خط لکھا تا وہ مناسب موقعہ پر اصل حقیقت مناسب لفظوں میں امیر کے گوش گزار کر دیں اور اس خط میں یہ لکھا کہ اگرچہ میں حج کرنے کے لئے روانہ ہوا تھا مگرمسیح موعود کی مجھے زیارت ہوگئی اور چونکہ مسیح کے ملنے کے لئے اور اس کی اطاعت مقدم رکھنے کے لئے خدا و رسول کا حکم ہے اس مجبوری سے مجھے قادیان ٹھہرنا پڑا اورمیں نے اپنی طرف سے یہ کام نہ کیا بلکہ قرآن اورحدیث کی روسے اسی امر کو ضروری سمجھا ۔ جب یہ خط بریگیڈیئر محمد حسین کوتوال کو پہنچا تو اس نے وہ خط اپنے زانو کے نیچے رکھ لیا اور اس وقت پیش نہ کیا مگر اس کے نائب کو جو مخالف اور شریر آدمی تھا کسی طرح پتہ لگ گیا کہ یہ مولوی صاحبزادہ عبداللطیف صاحب کاخط ہے اور وہ قادیان میں ٹھہرے رہے ۔ تب اس نے وہ خط کسی تدبیر سے نکال لیا اورامیر صاحب کے آگے پیش کر دیا ۔ امیر صاحب نے بریگیڈیئر محمد حسین کوتوال سے دریافت کیا کہ کیایہ خط آ پ کے نام آیا ہے ۔ اس نے امیر کے موجودہ غیظ وغضب سے خوف کھاکر انکار کر دیا ۔۔۔۔۔۔۔ مولوی صاحب شہید نے کئی دن پہلے خط کے جواب کاانتظار کر کے ایک اور خط بذریعہ ڈاک محمد حسین کوتوال کو لکھا ۔ وہ خط افسرڈاکخانہ نے کھول لیا اور امیر صاحب کو پہنچا دیا۔
چونکہ قضا ء و قدرسے مولوی صاحب کی شہادت مقدر تھی اور آسمان پروہ برگزیدہ بزمرۂ شہداء داخل ہو چکا تھا اس لئے امیر صاحب نے ان کے بلانے کے لئے حکمت عملی سے کام لیا اور ان کی طرف خط لکھا کہ آ پ بلاخطر چلے آؤ۔ اگر یہ دعویٰ سچا ہوگا تو میں بھی مرید ہو جاؤں گا۔
بیان کرنے والے کہتے ہیں کہ ہمیں معلوم نہیں کہ خط امیر صاحب نے ڈاک میں بھیجا تھا یا دستی روانہ کیا تھا۔ بہرحال اس خط کو دیکھ کر مولوی صاحب موصوف کابل کی طرف روانہ ہو گئے اور قضا و قدر نے ناز ل ہونا شروع کر دیا ‘‘۔ (تذکرۃ الشہادتین ۔ روحانی خزائن ، جلد ۲۰ صفحہ ۴۹،۵۰مطبوعہ لندن)
اسی طرح فرمایا ’’مولوی صاحب فرماتے ہیں کہ مجھے باربار الہام ہوتاہے’’اِذْھَبْ اِلٰی فِرْعَوْنَ اِنِّی مَعَکَ۔اَسْمَعُ وَ اَریٰ ۔ وَاَنْتَ مُحَمَّدٌ مُعَنْبَرٌ مُعَطَّرٌ‘‘ اور فرمایا کہ مجھے الہام ہوتاہے کہ آسمان شورکر رہاہے اور زمین اس شخص کی طرح کانپ رہی ہے جو تپ لرزہ میں گرفتار ہو ۔ دنیا اس کو نہیں جانتی یہ امرہونے والا ہے ۔
اور فرمایا کہ مجھے ہروقت الہام ہوتاہے کہ اس راہ میں اپناسر دے دے اور دریغ نہ کر کہ خدا نے کابل کی زمین کی بھلائی کے لئے یہی چاہاہے‘‘۔(تذکرۃ الشہادتین۔ روحانی خزائن جلد ۲۰ صفحہ ۱۲۷مطبوعہ لندن)
سیداحمد نور صاحب کی روایت ہے کہ آپ بنّوں میں کچھ عرصہ قیام کر کے سیدگاہ کی طرف روانہ ہوئے ۔ دَوڑ کے مقام تک ٹم ٹم میں سفر کیا ۔ یہاں کے نمبردار نے آپ کی آمد پر بہت خوشی کا اظہار کیا اور آپ کی ضیافت کی۔
صبح سید گاہ سے کچھ آدمی گھوڑے لے کر استقبال کے لئے آئے وہاں سے سوار ہو کر وطن کی طرف روانہ ہوئے ۔