شیخ عجم ۔ حضرت صاحبزادہ سید محمد عبدالطیف شہید افغانستان کے سوانح حیات
حالا ت زمانہ کو مدنظررکھتے ہوئے حضرت صاحبزادہ صاحب کو کسی مصلح کے ظہورکا انتظارتھا
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ :
’’جب و ہ میرے پاس پہنچا تو میں نے ان سے دریافت کیا کہ کن دلائل سے آپ نے مجھے شناخت کیا تو انہوں نے فرمایا کہ سب سے پہلے قرآن ہے جس نے آپ کی طرف میری رہبری کی اور فرمایا کہ میں ایک ایسی طبیعت کا آدمی تھا کہ پہلے سے فیصلہ کرچکا تھا کہ یہ زمانہ جس میں ہم ہیں اس زمانہ کے اکثر مسلمان اسلامی روحانیت سے بہت دور جا پڑے ہیں۔ وہ اپنی زبانوں سے کہتے ہیں کہ ہم ایمان لائے مگر اُن کے دل مومن نہیں ۔اور اُن کے اقوال اور افعال بدعت اور شرک اور انواع و اقسام کی معصیت سے پُر ہیں۔ ایسا ہی بیرونی حملے بھی انتہاتک پہنچ گئے ہیں۔ اور اکثردل تاریک پردوں میں ایسے بے حس و حرکت ہیں کہ گویا مر گئے ہیں اور وہ دین اور تقویٰ جو آنحضرتﷺ لائے تھے ، جس کی تعلیم صحابہ رضی اللہ عنہم کو دی گئی تھی اور وہ صدق اور یقین جو اس پاک جماعت کو ملا تھا بلا شبہ اب و ہ بباعث کثرت غفلت کے مفقود ہے اور شاذونادر حکم معدوم کا رکھتا ہے۔ ایسا ہی میں دیکھ رہا تھا کہ اسلام ایک مردہ کی حالت میں ہو رہاہے اور اب وہ وقت آ گیاہے کہ پردۂ غیب سے کوئی منجانب اللہ مجدّدِ دِین پید اہو۔ بلکہ میں روز بروز اس اضطراب میں تھا کہ وقت تنگ ہوتاجاتاہے۔ انہی دنوں میں یہ آواز میرے کانوں تک پہنچی کہ ایک شخص نے قادیان ملک پنجاب میں مسیح موعود ہونے کا دعویٰ کیا ہے‘‘۔(تذکرۃ الشہادتین ، روحانی خزائن جلد ۲۰ مطبوعہ لندن صفحہ ۱۰۔۱۱)
سیدا حمد نور صاحب بیان کرتے ہیں کہ حضرت صاحبزادہ صاحب بڑے محقق انسان تھے ۔ آپ ہمیشہ یہ کہا کرتے تھے کہ یہ زمانہ اس بات کا تقاضا کرتاہے کہ اس وقت کوئی مصلح مبعوث کیاجائے ۔
مولوی شان محمد صاحب سے روایت ہے کہ حضرت صاحبزادہ صاحب ، حضرت امام مہدی علیہ السلام کے زمانہ اورعلامات کاذکر فرمایا کرتے تھے ۔ فرماتے تھے زمانہ تو یہی ہے اب دیکھو خدا تعالیٰ کسے مامور کرتاہے ۔ بعض دفعہ یہ بھی فرماتے کہ حضرت امام مہدی علیہ السلام کی علامات میں سے ایک یہ ہے کہ ان کے دانتوں کے درمیان کچھ فاصلہ ہوگا پھر مسکرا کر کہتے کہ فاصلہ تو میرے دانتوں کے درمیان بھی ہے مگر پتہ نہیں خدا کو کیامنظورہے ۔ آپ یہ باتیں اپنی خاص مجلسوں میں اپنے خاص خاص شاگردوں سے کیا کرتے تھے۔
(قلمی مسودہ صفحہ ۸۷،۸۸)
سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بعثت کی اطلاع ملنا اور حضرت صاحبزادہ صاحب کابلا توقّف ایمان لانا
سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:
’’جب خدا تعالیٰ نے زمانہ کی موجودہ حالت کو دیکھ کر اور زمین کو طرح طرح کے فسق اور معصیت اور گمراہی سے بھرا ہوا پا کر مجھے تبلیغ حق اور اصلاح کے لئے مامور فرمایا۔ ۔۔۔۔۔۔بذریعہ وحی الٰہی میرے پر بتصریح کھولاگیا کہ وہ مسیح جو اس امت کے لئے ابتداء سے موعود تھا اور وہ آخری مہدی جو تنزل اسلام کے وقت اور گمراہی کے پھیلنے کے زمانہ میں براہ راست خدا سے ہدایت پانے والا اور اس آسمانی مائدہ کو نئے سرے انسانوں کے آگے پیش کرنے والا تقدیر الٰہی میں مقرر کیا گیا تھا۔جس کی بشارت آج سے تیرہ سو برس پہلے رسول کریم ﷺ نے دی تھی وہ میں ہی ہوں۔۔۔۔۔۔۔
پھر فرمایا :۔
’’انہیں دنوں میں جبکہ متواتر یہ وحی خدا کی مجھ پرہوئی اور نہایت زبردست اور قوی نشان ظاہر ہوئے اور میرا دعویٰ مسیح موعود ہونے کا دلائل کے ساتھ دنیا میں شائع ہوا تو خوست علاقہ حدود کابل میں ایک بزرگ تک جن کا نام اخوندزادہ مولوی عبداللطیف ہے کسی اتفاق سے میری کتابیں پہنچیں ۔۔۔۔۔۔ چونکہ وہ بزرگ نہایت پاک باطن اوراہل علم اور اہل فراست اور خدا ترس اور تقویٰ شعار تھے اس لئے ان کے دل پران دلائل کا قوی اثر ہوااور ان کو اس دعویٰ کی تصدیق میں کوئی دقت پیش نہ آئی اور ان کی پاک کانشنس نے بلا توقف مان لیا کہ یہ شخص من جانب اللہ ہے اور یہ دعویٰ صحیح ہے ۔ تب انہوں نے میری کتابوں کو نہایت محبت سے دیکھنا شروع کیااور ان کی روح جو نہایت صاف اور مستعد تھی میری طرف کھینچی گئی۔ یہاں تک کہ ان کے لئے بغیر ملاقات کے دوربیٹھے رہنا نہایت دشوار ہو گیا۔۔۔۔۔۔۔جب وہ میرے پاس پہنچا تو میں نے ان سے دریافت کیا کہ کن دلائل سے آپ نے مجھے شناخت کیا توانہوں نے فرمایا کہ سب سے پہلے قرآن ہے جس نے آپ کی طرف میری رہبری کی۔۔۔۔۔۔۔ میں دیکھ رہاتھاکہ اسلام ایک مردہ کی حالت میں ہو رہاہے اور اب وہ وقت آ گیاہے کہ پردۂ غیب سے کوئی منجانب اللہ مجدّدِدین پیدا ہو۔۔۔۔۔۔ انہیں دنوں میں یہ آواز میرے کانوں تک پہنچی کہ ایک شخص نے قادیان ملک پنجاب میں مسیح موعود ہونے کا دعویٰ کیا ہے اور میں نے بڑی کوشش سے چند کتابیں آپ کی تالیف کردہ بہم پہنچائیں اور انصاف کی نظر سے ان پرغور کر کے پھر قرآن کریم پر ان کو عرض کیا تو قرآ ن شریف کو ان کے ہر ایک بیان کامصدق پایا‘‘۔ (تذکرۃ الشہادتین ، روحانی خزائن جلد ۲۰ مطبوعہ لندن صفحہ ۳ تا ۱۱)
حضرت قاضی محمد یوسف صاحب بیان کرتے ہیں کہ :۔
’’جن ایام میں ڈیورنڈ لائن کے معاہدہ کے مطابق حد بندی کا کام ہورہا تھا ان دنوں دونوں طرف کے نمائندے دن کو توحد بندی کا کام کرتے تھے اور رات کو باہم ملاقات اور دعوتوں کی مجلسیں ہوتی تھیں جن میں مختلف موضوعا ت پر تبادلہ ٔ خیالات بھی ہوتاتھا ۔ جب پاڑہ چنار کے علاقہ میں کام ہو رہا تھا توپشاور کے ایک صاحب جن کا نام سید چن بادشاہ تھا اور جو بطور محرّر انگریزی وفد کے ساتھ منسلک تھے ان کی حضرت صاحبزادہ صاحب سے ملاقات ہوئی ۔ انہوں نے آپ سے سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ظہور اور دعویٰ کا ذکر کیا ۔ اس میں حضرت صاحبزادہ صاحب نے بہت دلچسپی لی اور حضور ؑ کی کوئی تصنیف دیکھنے کی خواہش کی ۔ یہ واقعہ غالباً ۱۸۹۴ء کا ہے کیونکہ ڈیورنڈ لائن کی حد بندی کا کام ۲۹؍مئی ۱۸۹۴ء سے شروع ہو کر ۳؍ستمبر ۱۸۹۴ء تک جاری رہا تھا۔
سیدا حمد نور کا بیان ہے کہ حد بندی کے دوران جب دوڑ ، خوست اور ٹل وغیرہ کی سرحدات متعین ہو گئیں اور پاڑہ چنار اور پیواڑ کوتل کے علاقہ میں کام ہو رہا تھا تو ٹل کے مقام پر ایک شخص نے حضرت مولانا غلام حسن صاحب پشاوری کی دی ہوئی ایک کتاب حضرت صاحبزادہ صاحب کو دی جو سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تصنیف تھی۔ یہ کتاب میری موجودگی میں نہیں دی گئی۔ بعد میں آپ یہ کتاب سیدگاہ لے آئے اور ہم سے اس کا ذکر کیا ا ور بڑی خوشی کا اظہار کیا اور کہا کہ اسی کامجھے انتظار تھا ۔ اس کتاب میں بیان فرمودہ تمام باتیں سچی ہیں ۔ یہ وہی شخص ہے جس کا انتظار دنیا کر رہی تھی ۔ وہ آگیاہے ۔ خد ا نے مصلح بھیج دیاہے ۔ یہ وہی آدمی ہے جس کے بارہ میں رسول کریم ﷺ نے وصیت فرمائی تھی کہ جہاں بھی نازل ہو اس کی طرف دوڑ و اور آپ نے اس پر سلام بھیجا تھا ۔ میں زندہ رہوں یا فوت ہو جاؤں لیکن جو شخص میری بات مانتاہے میں اس کووصیت کرتاہوں کہ ضروراس کے پاس جائے ۔
یہ بات آ پ نے اپنی مجلس میں اپنے خاص دوستوں سے کی تھی۔ آپ نے اپنے شاگردوں کو اشتیاق دلایا کہ وہ جائیں اور سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام سے ملیں اور آپ کے حالات معلوم کر کے واپس آئیں ۔ اس مجلس میں مولوی عبدالرحمن خان صاحب بھی موجود تھے۔ صاحبزادہ صاحب کی باتیں سن کر انہوں نے کہاکہ میں جاؤں گا اور پتہ لاؤں گا۔ صاحبزادہ صاحب نے فرمایا کہ ہاں تم جاؤ اور تاکید کی کہ پوری تفتیش کر کے پتہ لے کر آؤ ۔ اس پر مولوی عبدالرحمن خان صاحب قادیان آئے اورحضرت مسیح موعود علیہ السلام سے ملے اور آپ کے حالات معلوم کر کے اور آپ کی بعض کتب لے کر واپس آئے اور حضرت صاحبزادہ صاحب کو جملہ حالات سے خبر دی ۔ مولوی عبدالرحمن خان صاحب متعدد بار قادیان آئے ۔ ان کے علاوہ صاحبزادہ صاحب کے شاگردوں میں سے مولوی عبدالستار خان صاحب معرو ف بہ بزرگ صاحب ، مولوی سیدغلام محمد صاحب اور سید حکیم صاحب بھی مختلف اوقات میں چند بار قادیان گئے اور وہاں کئی ماہ قیام کر کے واپس ہوئے ۔ واپس آ کر یہ لوگ حضرت صاحبزادہ صاحب کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے حالات بتاتے تھے اور حضور کی نئی شائع شدہ کتب ساتھ لے کرآتے تھے ۔
بعض دفعہ یہ شاگرد بعض سوال بھی پیش کرتے جن کے جواب حضرت صاحبزادہ صاحب ان کو سمجھا یا کرتے تھے۔ غالباً ۱۸۹۷ء کا واقعہ ہے کہ حضرت صاحبزادہ صاحب نے اپنی بیعت کاخط حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی خدمت میں بھجوایا اور بعض تحائف بھی حضور کی خدمت میں پیش کرنے کے لئے ارسال کئے ۔آپ کے بعض شاگردوں نے بھی اپنی بیعت کے خطوط لکھے اور ارسال کئے۔ ان میں مولوی عبدالستار خان صاحب ، سید حکیم صاحب ، سید احمدنور صاحب اور مولوی سید غلام محمد صاحب شامل تھے ۔
(عاقبۃ المکذبین حصہ اول صفحہ ۳۰،۳۱۔قلمی مسودہ صفحہ ۱۴،۱۵،۲۰، ۲۱، ۲۷ تا ۳۵ ۔ شہید مرحوم کے چشم دید واقعات حصہ اول صفحہ ۳،۴)
حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتب بعض اورمواقع اور ذرائع سے بھی حضرت صاحبزادہ صاحب کوملیں ان کاذکر بعض روایات میں آتاہے۔
مولوی عبدالستار خان صاحب کا بیان ہے کہ ڈیورنڈ لائن کی حد بندی کے دوران ایک شخص حضرت صاحبزادہ صاحب کو ملا ۔ وہ پڑھا لکھا تھا اس نے ایک کتاب حضرت صاحبزادہ صاحب کو دی اور عرض کی کہ میں نے بہت سی کتابوں کا مطالعہ کیاہے لیکن اس کتاب کا مجھے پتہ نہیں چلتا ۔ ایک شخص نے مسیح زمان ہونے کا دعویٰ کیا ہے ۔ میں نے اس کتاب کا کچھ رد لکھاہے ۔ آپ بڑے عالم و فاضل ہیں آپ اس کا بہتر جواب لکھ سکیں گے ۔ آپ نے فرمایا کہ یہاں تو مصروف ہوں گھر جاکر یہ کتاب دیکھوں گا۔(شہید مرحوم کے چشم دید واقعات حصہ دوم صفحہ ۴،۵)