شیخ عجم ۔ حضرت صاحبزادہ سید محمد عبدالطیف شہید افغانستان کے سوانح حیات
حضرت صاحبزادہ سید محمد عبداللطیف کی وجاہت اور بلند علمی و روحانی مقام
سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:
’’وہ امیر کابل کی نظرمیں ایک برگزیدہ عالم اور تمام علماء کے سردار سمجھے جاتے تھے ‘‘۔ (تذکرۃ الشہادتین ،روحانی خزائن جلد ۲۰مطبوعہ لندن صفحہ ۱۰)
اسی طرح فرمایا:
’’یہ بزرگ معمولی انسان نہیں تھا بلکہ ریاست کابل میں کئی لاکھ کی ان کی اپنی جاگیر تھی اور انگریزی عملداری میں بھی بہت سی زمین تھی اور طاقت علمی اس درجہ تک تھی کہ ریاست نے تمام مولویوں کا ان کوسردار قرار دیاتھا۔ و ہ سب سے زیادہ عالم ، علم قرآن اور حدیث اور فقہ میں سمجھے جاتے تھے۔ اور نئے امیر کی دستاربندی کی رسم بھی انہی کے ہاتھ سے ہوتی تھی۔۔۔۔۔۔۔ریاست کابل میں پچاس ہزار کے قریب ان کے معتقد اور ارادتمند ہیں۔ جن میں سے بعض ارکان ریاست بھی تھے۔ غرض یہ بزرگ ملک کابل میں ایک فرد تھا۔ اورکیاعلم کے لحاظ سے اور کیا تقویٰ کے لحاظ سے اورکیا جاہ اورمرتبہ کے لحاظ سے او ر کیا خاندان کے لحاظ سے اُس ملک میں اپنی نظیر نہیں رکھتا تھا اور علاوہ مولوی کے خطاب کے صاحبزادہ اور اخون زادہ اور شاہزادہ کے لقب سے اُس ملک میں مشہور تھے اور شہید مرحوم ایک بڑا کتب خانہ حدیث اور تفسیر اور فقہ اور تاریخ کا اپنے پاس رکھتے تھے اور نئی کتابوں کے خریدنے کے لئے ہمیشہ حریص تھے اور ہمیشہ درس تدریس کا شغل جاری تھا اور صدہا آدمی ان کی شاگردی کا فخر حاصل کرکے مولویت کا خطاب پاتے تھے ۔ لیکن باایں ہمہ کمال یہ تھا کہ بے نفسی او رانکسار میں اس مرتبہ تک پہنچ گئے تھے کہ جب تک انسان فنا فی اللہ نہ ہو یہ مرتبہ نہیں پا سکتا۔ ہر ایک شخص کسی قدر شہرت اور علم سے محجوب ہوجاتا ہے اور اپنے تئیں کچھ چیز سمجھنے لگتا ہے اور وہی علم اور شہرت حق طلبی سے اس کو مانع ہو جاتی ہے۔ مگر یہ شخص ایسا بے نفس تھاکہ باوجودیکہ ایک مجموعۂ فضائل کا جامع تھا مگرتب بھی کسی حقیقت حقّہ کے قبول کرنے سے اس کو اپنی علمی اورعملی اور خاندانی وجاہت مانع نہیں ہو سکتی تھی‘‘۔(تذکرۃ الشہادتین روحانی خزائن جلد ۲۰ مطبوعہ لندن صفحہ ۴۶،۴۷)
جناب قاضی محمد یوسف صاحب کا بیان ہے کہ امیر عبدالرحمن خان نے آپ کے متعلق ایک فرمان میں اپنے قلم سے لکھاہے کہ کاش افغانستان میں آپ جیسے ایک دو عالم اور بھی ہوتے اور خوست کے تمام خوانین ، وکلاء اورمعتبرین کا آپ کے متعلق اقرارنامہ موجودہے کہ حضرت صاحبزادہ عبداللطیف صاحب کوہم پرہرلحاظ سے فوقیت حاصل ہے اور انہیں ہم اپنا سرکردہ تسلیم کرتے ہیں۔
(’’عاقبۃ المکذبین‘‘ حصہ اول۔ مصنفہ جناب قاضی محمد یوسف صاحب صفحہ ۳۰)
سیدا حمد نور بیان کرتے ہیں کہ :’’ حضرت صاحبزادہ صاحب کو کئی ہزار حدیثیں یاد تھیں۔ امیرعبدالرحمن خان بھی اس بات کا معترف تھا کہ ہمارے ملک میں آپ ہی ایسے عالم باعمل ہیں جن کو اتنی حدیثیں یاد ہیں‘‘۔