شیخ عجم ۔ حضرت صاحبزادہ سید محمد عبدالطیف شہید افغانستان کے سوانح حیات
وطن میں آمد اور رشتہ داروں کو تبلیغ
جب حضرت صاحبزادہ سیدمحمد عبداللطیف صاحب اپنے گاؤں سیدگاہ کے قریب پہنچے تو آپ کے عزیزواقارب نے بڑی خوشی کا اظہار کیا کہ صاحبزادہ صاحب حج کرکے واپس آئے ہیں۔ آپ نے فرمایا کہ میں حج سے نہیں آیا بلکہ قادیان سے آیا ہوں جہاں ایک مقبول الٰہی مستجاب الدعوات شخصیت ہے جس نے مسیح موعود ہونے کا دعویٰ کیا ہے اور آپ لوگوں کو یہ خبر دیتاہوں کہ وہ اپنے دعویٰ میں صادق ہے اس کا انکار نہ کرو بلکہ اسے تسلیم کر کے اللہ تعالیٰ کے عذاب سے بچ جاؤ اور اس کی رحمتوں کے مورد اور وارث بن جاؤ۔ اس پر آپ کے رشتہ دار ناراض ہو گئے اور کہنے لگے اس شخص کی بابت ہم کو خبر ملی ہے کہ وہ کافر ہے (نعوذباللہ) اور اس کے پیروبھی۔ قادیان جانا بھی کفر ہے ۔ آ پ ان باتوں سے باز آ جائیں ورنہ اگر یہ امیر حبیب اللہ خان کے علم میں آیا تو وہ ہم سب کوقتل کروا دے گا۔
آپ نے فرمایا کہ مناسب ہے کہ تم یہ ملک چھوڑ کر بنوں چلے جاؤ وہاں ہماری زمین بھی ہے۔ یہ امر تمہارے لئے اس سے بہتر ہے کہ اللہ تعالیٰ کے مامور کا انکار کرو ورنہ میں تمہارے لئے ایک ایسی بلا لایا ہوں کہ کبھی بھی تم اس سے بچ نہیں سکتے ۔ میں تو ا س بات سے ہرگز نہیں ٹلوں گا۔ یہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے مجھے اس کا پہنچانا لازم ہے۔ میں نے اپنا نفس، اپنا مال اور اپنی اولاد اس راہ میں دے دی ہے اور تم دیکھ لو گے کہ میں اور میرے اہل و عیال کس طرح اس راہ میں فدا ہوتے ہیں لیکن و ہ لوگ آپ کی بات نہ مانے اور انکار کرتے رہے ۔
علی الاعلان تبلیغ کا آغاز
حضر ت صاحبزادہ صاحب کی واپسی کی خبر سن کر اس علاقہ کے رء وسا آپ کو ملنے آئے ۔ آپ نے انہیں بھی بتایا کہ میں اس سال حج نہیں کر سکا بلکہ حج کو جاتے ہوئے ہندوستان میں ایک مقام قادیان میں گیاتھا وہاں ایک شخص نے نبی ہونے کا دعویٰ کیا ہے ۔ اس کا فرمان ہے کہ میں اللہ تعالیٰ کی طر ف سے آیاہوں اور اس نے مجھے اس زمانہ کی اصلاح کے لئے بھیجا ہے ۔ میرا آنا خدا اور اس کے رسول ؐ کی پیشگوئی کے مطابق ہے ۔ میں وقت مقررہ پر آیاہوں۔ اسے دیکھا اور اس کے حالات معلوم کئے ۔ اس کے تمام اقوال اور افعال قرآن مجید کے مطابق ہیں اور اس کا دعویٰ سچا ہے ۔ تمہیں چاہئے کہ اس کومان لو اس سے تمہیں فائدہ ہوگا۔ اگرنہ مانو توتمہارا اختیار ہے میں تومان چکا ہوں۔ اس پر حاضرین نے کہاکہ صاحبزادہ صاحب آپ یہ باتیں نہ کریں اس سے پہلے امیر عبدالرحمن خان نے ان باتوں کو پسند نہیں کیا تھا اور مولوی عبدالرحمن خان کو قتل کروا دیا تھا ۔
حضر ت صاحبزادہ صاحب نے فرمایا کہ تمہارے دو خدا ہیں۔ جتنا خدا سے ڈرنا چاہئے اتناتم امیر سے ڈرتے ہو۔کیامیں خدا کے حکم کو امیر سے ڈرکرنہ مانوں ؟۔ کیا قرآن سے توبہ کرلوں یاحدیث سے دستبردار ہو جاؤں۔اگرمیرے سامنے دوزخ بھی آجائے تو اس بات سے ہرگزباز نہیں آؤ ں گا۔
خوست کے حاکم نے بھی آپ کی خدمت میں حاضرہو کر عرض کی کہ آپ یہ باتیں نہ کریں لیکن آپ دلیری سے اپنے موقف پر قائم رہے ۔(شہید مرحوم کے چشم دیدواقعات حصہ اول صفحہ ۱۱،۱۲)
آپ کے رشتہ داروں اور برادری نے اعلان کیا کہ ہم صاحبزادہ صاحب سے متفق نہیں ۔ ان کے عقیدہ کے خلاف ہیں اور بیزاری کے خطوط بھی لکھے۔ اس پر آپ نے فرمایا کہ تم ایسا اعلان کرنے سے بچ نہیں سکتے ۔بہتر ہے کہ تم یہاں سے انگریزی علاقے میں بنّوں چلے جاؤ ورنہ تمہیں میری وجہ سے بلا وجہ تکلیف ہوگی ۔لیکن برادری نے بیزاری کے اعلان کو کافی سمجھا اور حضرت صاحبزادہ صاحب کے مشورہ کی پرواہ نہیں کی۔ (قلمی مسودہ صفحہ ۱۲۔ شہید مرحوم کے چشمدید واقعات حصہ اول صفحہ ۱۱،۱۲)