شیخ عجم ۔ حضرت صاحبزادہ سید محمد عبدالطیف شہید افغانستان کے سوانح حیات
ڈیورنڈ لائن کا تصفیہ
امیرعبدالرحمن خان نے انگریزوں کے ساتھ سرحدات کی تقسیم کا معاہدہ ۱۸۹۳ء میں کابل میں کیاتھا۔Sir Olaf Caroc نے اپنی کتاب “The Pathans” میں اس معاہدہ کے واقعات امیرعبدالرحمن خان کے حوالہ سے بیان کئے ہیں جن کامختصر ذکر درج ذیل ہے :۔
امیر نے لکھا کہ ڈیورنڈ ، پشاور سے کابل کے لئے ۱۹؍ستمبر ۱۸۹۳ء کو روانہ ہوا ۔ کابل میں جرنیل غلام حیدرخان چرخی نے مشن کااستقبال کیا ۔ ان کو میرے بیٹے حبیب اللہ خان کے مکان میں ٹھہرایا گیا۔ روایتی دربار کے بعدہم نے جلد ہی معاملہ پر گفتگو شروع کردی۔ڈیورنڈ ایک ہوشیارسیاست دان تھااور فارسی زبان خوب جانتاتھا۔ اس لئے گفتگو اچھے طریق سے ہونے لگی ۔ میں نے اپنے میر منشی سلطان محمد خان کو پردہ کے پیچھے اس طرح بٹھا دیاکہ اسے میرے سوا کوئی نہ دیکھ سکتا تھا ۔ اس نے تمام گفتگو خواہ وہ انگریزی میں تھی یا فارسی میں لفظاً لفظاً لکھ لی۔ یہ کاغذات ہمارے ریکارڈ آفس میں محفوظ ہیں۔ہمارے مابین سرحدات کا جو تصفیہ ہوا ا سکی رو سے واخان، کافرستان ، اسمار، لال پورہ کے مہمند علاقے اوروزیرستان کا ایک حصہ اور برمال میری حکومت میں شامل ہوئے اور میں نے چمن ، چاغائی، بقیہ وزیری علاقہ ، بلند خیل کرم، آفریدیوں کے علاقہ، سوات ،باجوڑ ،بنیر، دیر، چیلاس اور چترال پراپنا دعویٰ چھوڑ دیا۔ انگریزی مشن ۱۴؍نومبر ۱۸۹۳ء کو کابل سے واپس چلا گیا۔سرحد کے بارہ میں تمام غلط فہمیاں اور تنازعات ختم کر دئے گئے اوربعد میں اوپر بیان شدہ معاہدہ کے مطابق دونوں حکومتوں کے مقرر کردہ کمشنروں نے سرحد کی نشان دہی کردی۔اس طرح ایک عام امن اور اتفاق رائے عمل میں آ گیا۔ میں اللہ تعالیٰ سے دعا کرتاہوں کہ یہ ہمیشہ جار ی رہے۔
(ملخص از کتاب “The Pathans” صفحہ ۳۸۱،۳۸۲)
اس معاہدہ کے مطابق جب کُرّ م او رپاڑا چنارکے پاس حدبندی ہوئی تو گورنمنٹ ہند کی طرف سے سر مارٹیمر ڈیورنڈ اور نواب سر عبدالقیوم خان آف ٹوپی نمائندے مقررہوئے اور افغانستان کی طرف سے سردار شیریندل خان گورنر سمت جنوبی اور حضرت صاحبزادہ سید محمد عبداللطیف کا تقررہوا۔
جب یہ کمیشن ضلع بنوں اور کوہاٹ کے علاقہ میں حدبندی کا کام کررہا تھا تو انگریزوں نے ایک نقشہ پہلے ہی تیار کروایاہواتھا جس میں اس علاقے کی حدود کی نشان دہی کی ہوئی تھی۔جب حضرت صاحبزادہ صاحب نے یہ نقشہ دیکھا تو انہیں معلوم ہوا کہ کابل کے معاہدہ کے خلاف سینکڑوں میل علاقہ ناجائز طور پر انگریزوں کے حوالہ کر دیا گیا ہے ۔ حضرت صاحبزادہ صاحب نے اس نقشہ کے مطابق سرحد کی نشان دہی کرنے سے انکار کر دیا ۔ جب یہ امر انگریز نمائندوں کو بتایا گیا توانہوں نے اس غلطی کی درستی پرآمادگی کااظہارکیا اور ایک نیا نقشہ تیار کروانے کاوعدہ کیا ۔
سردار شیریندل خان کی طبیعت میں غصہ بہت تھا لیکن حضرت صاحبزادہ صاحب حلیم طبیعت کے تھے اس لئے مصلحۃً بعض اوقات حضرت صاحبزادہ صاحب ہی انگریزوں سے مل کر سرحد کی نشان دہی کا کام کیا کرتے تھے ۔
سردار شیریندل خان نے حضرت صاحبزادہ صاحب سے کہا جب تک ہمیں ترمیم شدہ صحیح نقشہ نہیں مل جاتا ہم اس زمین پرقابض نہیں ہو سکتے جو افغانستان کے حصہ میں آئی ہے ۔ پرانے نقشہ کی بنا پر جھگڑا شروع ہو جائے گا۔ کچھ کرنا چاہئے۔ اس پر حضرت صاحبزادہ صاحب کچھ سواروں کے ساتھ پاڑہ چنار آئے اور یہاں کے انچارج انگریز افسر سے ملے ۔ اس نے آ پ کا بہت احترام کیا اور نیا نقشہ تیار کروا کر آپ کے حوالہ کر دیا۔
(“The Pathans”مصنفہ Caroc ایڈیشن ۱۹۷۶ء آکسفورڈیونیورسٹی پریس صفحہ ۳۸۱،۳۸۲ ۔’’عاقبۃ المکذبین‘‘ صفحہ ۳۰ ۔ ’’شہید مرحوم کے چشم دید واقعات‘‘ حصہ اول صفحہ ۲ تا ۴)