شیخ عجم ۔ حضرت صاحبزادہ سید محمد عبدالطیف شہید افغانستان کے سوانح حیات
کشفی واقعات
حضرت صاحبزادہ صاحب فرمایاکرتے تھے کہ میں بارہا آسمان پر گیاہوں اور لوگ جو سات آسمان بتاتے ہیں ان سے کہیں زیادہ آسمان ہیں۔ میں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو آسمان میں اعلیٰ سے اعلیٰ مقام پردیکھا۔
پھر آپ نے فرمایا کہ میں جنت میں بہت دفعہ داخل ہوتاہوں اور میوے کھاتاہوں اور میں چاہتا ہوں کہ تمہارے واسطے بھی پھل لاؤں۔ میخواہم از جنت چیز ہائے برائے شما آوردم۔ مگر فرمایا مجھے اجازت نہیں ۔
پھر فرمایا : لیکن جب اللہ تعالیٰ کو میرا مارنا منظور ہوگاتویہ حکمت کا طریق مجھ سے چھین لیاجائے گا۔
ایک دفعہ آپ نے فرمایا کہ پہلے بھی کبھی کبھی حضرت رسول کریم ﷺ کا بروز مجھ پر آتا تھا مگر مقدر یہ تھا کہ جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے ملوں گا تو پھر آنحضرتﷺ کبھی بھی مجھ سے جدا نہیں ہونگے۔ سو اب بالکل یہی حالت ہے ۔ حضور مجھ سے جدا نہیں ہوتے ۔(شہید مرحوم کے چشمدید واقعات حصہ دوم صفحہ ۱۷)
ایک روز حضرت صاحبزادہ صاحب نے مولوی عبدالستار خان سے کہا کہ میرے چہرے کی طرف دیکھو ۔ مولوی صاحب دیکھنے لگے لیکن دیکھ نہ سکے اور نظریں نیچی ہو گئیں۔ حضرت صاحبزادہ صاحب کا چہرہ سورج کی طرح روشن تھا ۔ اسے دیکھنے سے آنکھیں چندھیا جاتی تھیں۔ مولوی عبدالستار خان صاحب نے سُبحانَ اللّٰہ ، سُبحان اللّٰہ کہنا شروع کر دیا ۔
ایک دفعہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ساتھ سیر کو گئے ۔ جب واپس آئے تو اپنے ساتھیوں کو مہمان خانہ میں ایک کشف سنایا کہ جنت کی ایک حور جو بہت اچھے لباس میں تھی میرے سامنے آئی اور کہا کہ آپ میری طرف دیکھیں تو میں نے اس سے کہا کہ جب تک میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ساتھ ہوں تیری طرف نہیں دیکھ سکتاتب وہ روتی ہوئی چلی گئی۔(شہید مرحوم کے چشمدید واقعات حصہ اول صفحہ ۶ تا ۸)
صاحبزادہ صاحب جب حضور کی مجلس میں بیٹھتے تو حضور کے پاؤں دبایاکرتے تھے ۔ (اخبار الحکم ۲۱؍مارچ ۱۹۳۵ء صفحہ ۳)
ایک مرتبہ رات کے وقت بھی ایساواقعہ ہوا۔ آپ مہمان خانہ میں کوٹھڑی میں تشریف رکھتے تھے ۔ اور یہ زمانہ ا ن کے کما لِ عشق کی حالت کا تھا۔ آپ نے فرمایا میرے ماتھے کی طرف دیکھو۔ جب میں نے اور عبدالجلیل نے نظر کی تو ایک بہت بڑے روشن ستارے کی طرح معلوم ہوا بلکہ اس سے بھی زیادہ ۔
ہمارے ساتھ وزیر محمد (وزیر ی ملاّ) بیٹھا ہوا تھا ۔ اس نے کہا کہ مجھے نظر نہیں آیا ۔اس پر آپ نے فرمایا ’’شما تقویٰ نہ دارید‘‘ ۔(الحکم ۱۴؍دسمبر ۱۹۳۵ء)(یعنی تمہیں تقویٰ نصیب نہیں)۔
حضرت صاحبزادہ سید محمد عبداللطیف صاحب کے قادیان آنے کے بارہ میں ایک انگریز انجینئر کا بیان اور ایک کشفی واقعہ کا ذکر
ایک انگریز انجینئر جس کا نام Mr.Frank A. Martin تھا ان دنوں کابل میں موجود تھا۔ یہ آٹھ سال تک بہ سلسلہ سرکاری ملازمت کے افغانستان میں مقیم رہا اور امیر عبدالرحمن اور امیر حبیب اللہ خان کا مقرب تھا۔ ا س نے انگلستان واپس جا کر ایک کتاب “Under the absolute Amir”کے نام سے لکھ کر شائع کروائی۔ اس میں وہ اپنے زمانہ ٔ اقامت کابل کے حالات لکھتاہے۔ اس نے حضرت صاحبزادہ صاحب کاذکر بھی کیا ہے اس کی تحریر بعض تفاصیل میں دیگرروایات سے اختلاف رکھتی ہے لیکن کافی حد تک صداقت اس کے اندر موجود ہے ۔ مناسب معلوم ہوتاہے کہ حضرت صاحبزادہ صاحب کے بارہ میں اس بیرونی شہادت کو بھی درج کردیا جائے ۔ Mr.Frank A. Martin بیان کرتاہے کہ :
افغانستان کے ایک بہت بڑے اور اثر ورسوخ رکھنے والے ملاّ (صاحب) مکہ مکرمہ کے حج کے لئے روانہ ہوئے۔ ہندوستان میں سفرکرتے ہوئے انہوں نے ایک مقدس شخصیت کے بارہ میں سنا جو حضرت مسیح علیہ السلام کے دوبارہ آنے کے بارہ میں تبلیغ کرتے تھے۔ اور کہتے تھے کہ انہیں اللہ تعالیٰ نے مبعوث فرمایا ہے۔
ملاّ (صاحب) اس مقدس شخصیت کو ملنے گئے ۔ مقامی لوگوں نے ان کے بارہ میں عجیب و غریب امور بیان کئے ۔ نبوت کے اس مدعی کے کلمات اتنایقین دلانے والے تھے کہ ملاّ (صاحب) ان پرایمان لے آئے اور ان کو یقین ہو گیا کہ جوکچھ وہ اپنے بارہ میں دعویٰ کرتے ہیں وہ درست ہے۔ یہ امر معلوم ہونے پر کہ ملاّ(صاحب) حج کے ارادہ سے جا رہے تھے (حضرت ) نبی ؑ ایک مرتبہ ان کوایک اندرونی کمرہ میں لے گئے اور وہاں دونوں نے اکٹھے مکہ کی زیارت کی ۔ حاجیوں کے ہجوم کو مسجد حرام میں دیکھا ۔ اس کے صحن میں داخل ہوئے اور اس میں تمام قابل ملاحظہ مقامات دیکھے اور خانۂ کعبہ پہنچنے تک تمام مسنون دعائیں پڑھیں۔
Mr.Frank A. Martin لکھتے ہیں کہ یہ مسمریزم کے نتیجہ میں تھا یاملاّ(صاحب) کے اس نظارہ کو دیکھنے کی کوئی اور وجہ تھی اس بارہ میں توہر شخص اپنا قیاس کرسکتاہے لیکن واقعہ یہ ہے کہ سزائے موت بھی ان کے اس یقین کو متزلزل نہیں کرسکا کہ ان کے ہادی ایک سچے نبی تھے اور یہ کہ واقعی انہوں نے مکہ مکرمہ کی زیارت کی تھی۔۔۔۔۔۔‘‘۔
کشفی واقعہ کے بارہ میں وضاحت
سیدناحضرت مسیح موعود علیہ السلام کے جس کشف کا مسٹرمارٹن نے ذکرکیا ہے اس کا ہُو بہوذکرتو سلسلہ کے لٹریچر میں نہیں مل سکا لیکن حضرت پیر سراج الحق نعمانیؓ کی روایت میں ایک ملتے جلتے واقعہ کا ذکر آتاہے۔ حضرت پیر صاحب نے اپنی کتاب تذکرۃ المہدی حصہ دوم میں لکھاہے کہ ایک موقع پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا کہ :
’’ہمیں بھی ایک بار حج کے روز کشف میں حج کا نظارہ دکھایا گیا یہاں تک کہ سب کی باتیں اور لبیک اور تسبیح و تحلیل ہم سنتے تھے ۔ اگرچاہتے تو لوگوں کی باتیں لکھ لیتے ‘‘۔
(تذکرۃ المہدی حصہ دوم صفحہ ۴۵ مطبوعہ ضیا ء الاسلام پریس قادیان ۔۲۵؍دسمبر ۱۹۲۱ء)
اس مقام پر ایک احمدی صحابی کی ایک رؤیا کا ذکر مناسب معلوم ہوتاہے ۔
جناب غلام حیدر صاحب ولد میاں خدا بخش صاحب سکنہ احمد نگر ضلع گوجرانوالہ کابیان ہے کہ ۱۹۰۳ء میں وہ ابھی احمدی نہیں ہوئے تھے ،زیر تبلیغ تھے۔ اور احمدیت کی تعلیم سے کافی متاثر تھے ۔ ان ایام میں انہوں نے رؤیا میں دیکھا کہ وہ ایک بزرگ کے ہمراہ اس کے ہاتھ میں ہاتھ ڈال کر خانہ کعبہ کاطواف کررہے ہیں۔ کچھ عرصہ بعد ان کو ایک احمدی دوست نے سیدناحضرت مسیح موعود علیہ السلام کا فوٹو دکھایا تووہ یہ معلوم کر کے حیران رہ گئے کہ یہ اسی بزرگ کی شکل ہے جن کے ساتھ انہوں نے حج کیا تھا۔(رجسٹر روایات صحابہ)
غلام حیدر صاحب کی یہ رؤیا ۱۹۰۳ء کی ہے اور یہ وہی سال ہے جب حضرت صاحبزادہ سید محمد عبداللطیف صاحب بھی ذوالحجہ کے مہینہ میں قادیان میں مقیم تھے ۔ اور حضرت صاحبزادہ صاحب کے جس کشفی واقعہ کا مسٹر مارٹن فرینک نے ذکر کیاہے وہ بھی ۱۹۰۳ء کا ہی بنتاہے۔
یہ تمام تشریحات یاوضاحتیں خاکسار کی ذوقی ہیں۔ اصل حقیقت اللہ تعالیٰ کے علم میں ہے۔(مرتب)۔