صبرو استقامت کے شہزادے
استقامت اور عفوکے تین مناظر
پہلا منظر
بھٹی میں آگ جل رہی ہے۔ لوہے کو پگھلانے کے لیے کوئلے دہکائے جا رہے ہیں، جب وہ انگاروں کی صورت میں بھڑک اُٹھتے ہیں تو چند ہٹے کٹے لوگ اِدھر اُدھر سے اکٹھے ہو جاتے ہیں۔ دیکھو! انہوں نے جلتے ہوئے کوئلے نکالے ہیں۔ انہی پر اس لوہار کو لٹا دیا ہے اور ایک شخص اس کی چھاتی پر چڑھ گیا ہے تا کہ وہ حرکت نہ کر سکے۔
اُف! کتنا تکلیف دہ منظر ہے۔ ظلم کی انتہا ہے۔ زندہ انسان کوجلایا جا رہا ہے۔ چربی کے جلنے کی بُو آ رہی ہے اور وہ کوئلے اسی طرح جل جل کر اس مظلوم کے نیچے ٹھنڈے ہو جاتے ہیں۔ یہ حضرت خبابؓ ہیں جنہیں اسلام لانے کی پاداش میں اس عذاب سے گزار اجا رہا ہے۔
دوسرا منظر
آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم خانہ کعبہ کے پاس ٹیک لگائے بیٹھے ہیں۔ حضرت خباب بن ارتؓ اور بعض دوسرے صحابہؓ آپؐ کی خدمت میں حاضر ہوتے ہیں اور عرض کرتے ہیں۔ یارسول اللہ! مسلمانوں کو قریش کے ہاتھوں اتنی تکالیف پہنچ رہی ہیں آپ ان کے لیے بددعا کیوں نہیں کرتے۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم یہ الفاظ سنتے ہی اُٹھ کر بیٹھ جاتے ہیں۔ آپ کا چہرہ جوش سے تمتما اُٹھتا ہے اور فرماتے ہیں :۔
دیکھو! تم سے پہلے وہ لوگ گزرے ہیں جن کا گوشت لوہے کے کانٹوں سے نوچ نوچ کر ہڈیوں تک صاف کر دیا گیا مگر وہ اپنے دین سے متزلزل نہیں ہوئے اوروہ لوگ بھی گزرے ہیں جن کے سروں پر آرے چلا کر ان کو دو ٹکڑے کر دیا گیا مگر ان کے قدموں میں لغزش نہیں آئی۔ دیکھو! خدا مجھے ضرور غلبہ دے گا حتیّٰ کہ ایک شتر سوار صنعاء سے لے کر حضرموت تک سفر کرے گا اور اس کو سوائے خدا کے اور کسی کا ڈر نہ ہوگا۔
تیسرا منظر
حضور صلی اللہ علیہ وسلم 10 ہزار صحابہ کے ساتھ مکہ میں داخل ہو چکے ہیں۔ ہر طرف توحید اور اللہ اکبر کے نعرے ہیں۔ اللہ کے وعدوں کے مطابق اسلام نے شرک اور کفر کو شکست دے دی ہے۔ مکہ کی گلیوں میں اعلان ہو رہا ہے کہ جو خانہ کعبہ میں آ جائے وہ بھی امن میں ہے، جو اپنے گھر میں بیٹھ جائے وہ بھی امن میں ہے، جو بلال کے بھائی ابورویحہ کے جھنڈے تلے آ جائے وہ بھی امن میں ہے۔ مکہ کے وہ بڑے بڑے سردار جو مسلمانوں کو دکھ دینے میں پیش پیش تھے سرنگوں ہو چکے ہںں۔ کچھ تو بدر اور بعد کی جنگوں میں ذلت کے ساتھ مارے گئے۔ کچھ نے اسلام قبول کر لیا۔ باقی گردنیں جھکائے کھڑے ہیں اور فیصلے کے منتظر ہیں۔