صبرو استقامت کے شہزادے
تاریخ مذہب کا خلاصہ
یہ تین مناظر مذہب کی ہزاروں سالہ تاریخ کا خلاصہ ہیں جب بھی خدا کا کوئی مامور آتا ہے یہی تاریخ دہرائی جاتی ہے۔ نور کی شمع کو بجھانے کے لیے تاریکی کے فرزند ہر حربہ استعمال کرتے ہیں شیطان خدا کے فرستادہ کے چاروں طرف مشکلات اور مصائب کے خار زار کھڑے کر دیتا ہے۔ مگر سعادت مند لوگ ہر مشکل کو پھلانگتے ہوئے اور ہر پہاڑ کو سَر کرتے ہوئے مامور الٰہی کے آستانہ پر حاضر ہو جاتے ہیں اور پھر کسی قیمت پر ایمان کو ہاتھ سے جانے نہیں دیتے۔
یہی وہ لوگ ہیں جو ابتلاؤں اور آزمائشوں کی بھٹی سے گزر کر کندن بن جاتے ہیں اور ابدی عزت کے تاج انہی کے سروں پر رکھے جاتے ہیں۔
اس تاریخ کا سب سے روشن باب حضرت اقدس محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہؓ نے اپنی قربانیوں سے رقم کیا۔ ایک طرف مخالفت کی تندوتیز آندھیاں ہیں تو دوسری طرف صبرواستقامت کے پہاڑ ہیں۔ بظاہر کمزور اور ناتواں انسان مگر عزم اور یقین میں شیروں کے دل دہلا دیتے ہیں اور بڑی جرأت اور پامردی کے ساتھ سر اُٹھا کر اپنے ایمان کا برملا اعلان کرتے چلے جاتے ہیں جو متاعِ بے بہا ہے، زندگی کی سب سے قیمتی دولت ہے اور خدا کے حضور سرفرازی کی علامت ہے۔
قربانیوں کا نقشہ
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کو جن المناک مشکلات کا سامنا کرنا پڑا، ان کے چند نمایاں باب یہ ہیں۔
جانیں قربان کیں، تیروں اور تلواروں سے شہید کیا گیا، صلیب دے کر شہید کیا گیا، جلتے انگاروں پر لٹایا گیا، اُلٹا لٹکا کر نیچے آگ جلا دی گئی، لوہے کی زرہیں پہنا کر دھوپ میں کھڑا کیا گیا، بھوک اور پیاس میں مبتلا رکھا گیا، عین دوپہر کے وقت گرم پتھروں پر گھسیٹا گیا، زدوکوب کیا گیا اور مار مار کر لہولہان کر دیا گیا، جوتیوں سے اتنا مارا گیا کہ پہچانے نہ جاتے تھے، شیر خوار بچوں کو دودھ سے محروم رکھا گیا، مسلمان ماؤں سے ان کے چھوٹے بچے جدا کر دیے گئے، قیدوبند کی صعوبتیں برداشت کرنی پڑیں، سوشل بائیکاٹ کیا گیا، ہر قسم کے تعلقات قطع کر دیے گئے، شوہروں نے مسلمان بیویوں کو طلاق دے دی، وطن سے بے وطن کیا گیا، مسلمانوں کی محنتوں کا معاوضہ ضبط کر لیا گیا، مقدس حاملہ عورتوں کے حمل گرائے گئے، نام بگاڑے گئے، عبادت گاہیں گرا دی گئیں، خدائے واحد کی عبادت کرنے سے روکا گیا۔ غرضیکہ ہر روز نئے ستم ایجاد کیے گئے۔ ہر رات نئے ظلم تراشے گئے۔ صبح و شام کو مصائب و آلام کی چکیوں میں تبدیل کر دیا گیا۔ زندگی کی ہر گھڑی موت کا الارم سناتی تھی، ہر سانس زہر ہلاہل تھا۔
مگر اے خدا کے شیرو! اے استقامت کے شہزادو! تم نے اذیتوں کے یہ سارے پتھر اپنے پائے استقامت سے روند ڈالے۔ تم نے توحید کا پرچم سربلند کیا تو خدا نے قیامت تک تمہارے نام زندۂ جاوید کر دیے۔ آج قومیں تم پر فخر کرتی ہیں اور ابدالآباد تک کرتی رہیں گی۔