صبرو استقامت کے شہزادے

فہرست مضامین

جائیداد سے محرومی

حابہؓ نے اپنی جانیں، اپنے جسم، اپنی عزتیں اپنے تمام دنیوی تعلقات کے ساتھ اپنے تمام اموال بھی راہ مولیٰ میں قربان کر دیے مگر ایمان پر آنچ نہ آنے دی۔ عاص بن وائل پر حضرت خبابؓ کی اُجرت باقی تھی۔ انہوں نے تقاضا کیا تو اس نے کہا: جب تک محمد کی نبوت سے انکا رنہ کرو گے مال نہ دوں گا۔ مگر خبابؓ نے جواب دیا مال دو یا نہ دو یہ انکار قیامت تک نہیں ہو سکتا۔ (بخاری کتاب التفسیر۔ سورۃ مریم)

نفع مند سودا

حضرت صہیبؓ بھی ابتدائی مسلمانوں میں سے تھے۔ آپ کمزور طبقہ سے تعلق رکھتے تھے اور حضرت عمار بن یاسرؓ کے ساتھ اسلام لائے تھے۔ انہوں نے ہجرت کرنا چاہی تو کفار نے سخت مزاحمت کی اور کہا کہ تم مکہ میں محتاج ہو کر آئے تھے لیکن یہاں آ کر دولتمند ہوگئے۔ اب یہ مال لے کر ہم تمہیں یہاں سے نہیں جانے دیں گے۔

حضرت صہیبؓ نے کہا اگر میں یہ سارا مال تمہیں دے دوں تو پھر جانے دو گے۔ اس پر کفار راضی ہوگئے اور حضرت صہیبؓ سارا مال دے کر متاع ایمان کے ساتھ مدینہ پہنچ گئے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو معلوم ہوا تو فرمایا: صہیبؓ نے نفع بخش سودا کیا ہے۔ (طبقات ابن سعد جلد4 صفحہ227 داربیروت۔ بیروت1957ء)

ذوالبجادین

حضرت عبداللہ ذُوالْبجادَینؓ نے جب اسلام قبول کیا تو ان کی قوم نے ان کے تمام کپڑے اُتروا لیے۔ وہ اپنی ماں کے پاس گئے تو اس نے انہیں ایک چادر دے دی۔ انہوں نے اس کے دو ٹکڑے کیے ایک تو تہبند بنا لیا اور ایک اوپر قمیض کے طور پر لے لی۔ یہی اُن کی جائیداد تھی جسے لے کر وہ خوش خوش حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آگئے اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو دو چادروں کی وجہ سے ہی انہیں ذوالبجادین کا لقب عطا فرمایا۔ (اسدالغابہ جلد3صفحہ 122۔ از عبدالکریم جزری۔ مکتبہ اسلامیہ طہران)

یہ کیفیت دو چار صحابہ کی نہیں سب مہاجرین کی تھی۔ وہ جہاں جہاں سے بھی آتے اپنے تمام اموال اور جائیدادیں یا خود چھوڑ کر آگئے یا دشمنوں نے زبردستی چھین لیں اور ان پر قبضہ کر لیا۔ چنانچہ بڑے بڑے مالدار اور تاجر صحابیؓ اس حال میں مدینہ پہنچے کہ تن کے کپڑوں کے سوا اور کوئی چیز ان کے پاس نہ تھی۔ ہاں آسمان سے حاصل ہونے والی رضائے الٰہی کی رِدا اُن پر سایہ فگن تھی۔

آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی اپنی تمام آبائی جائیداد جو مکہ میں تھی اس پر عقیل (جو ابھی مسلمان نہ ہوئے تھے) نے قبضہ کر لیا اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فتح مکہ کے موقع پر فرمایا: کیا عقیل نے ہمارے لیے کوئی جگہ چھوڑی ہے جہاں ہم ٹھہر سکیں اور ایسی عالی ظرفی کا مظاہرہ کیا کہ فتح کے باوجود وہ مکانات اور جائیدادیں ان سے واپس نہ لی گئیں۔ (بخاری کتاب المغای باب این رکز النبی صلی اللہ علیہ وسلم)

خوش قسمت قوم

الغرض یہ ایک عجیب خوش قسمت قوم تھی۔ انہوں نے ایک ہاتھ سے ساری دنیا ردّ کر دی اور دوسرے ہاتھ سے وہ سب کچھ پا لیا جس کی ایک سعادت مند انسان تمنا کر سکتا ہے۔

انہوں نے جو بھی کھویا اس سے ہزاروں گنا بڑھ کر پایا کیونکہ خدا اپنے سچے عاشقوں اور ایمانداروں کو کبھی ضائع نہیں کرتا۔ اورہمیشہ اُن کے حق میں تائیدونصرت کے وعدے پورے کرتا رہتا ہے۔ آج ان صحابہؓ کے تمام دشمن ملیا میٹ ہوچکے ہیں مگر ان عالی ہمت انسانوں کو ہمیشہ عزت اور فخر کے ساتھ یاد کیاجاتا ہے۔ یہی تاریخ ہے جو آج بھی دہرائی جائے گی۔ یہی قربانیاں ہیں جن کے مقدر میں کبھی فنا نہیں لکھی گئی۔ یہی عظمتیں ہیں جو ناقابل تسخیر ہیں۔

٭۔۔۔ ٭۔۔۔ ٭