صبرو استقامت کے شہزادے
دشمن تھک گیا
حضرت عثمانؓ اسلام لائے تو ان کے چچا حکم بن ابی العاص نے ان کو پکڑ کر رسیوں سے باندھ دیا اور کہا کہ تو اپنے باپ دادا کے دین سے نئے دین کی طرف پھر گیا ہے۔ میں تجھے نہیں کھولوں گا جب تک تو اس دین کو چھوڑ نہ دے۔ مگر اس عاشق رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب دیا کہ میں کبھی اس دین کو چھوڑ نہیں سکتا۔ حکم بن ابی العاص نے جب دیکھا کہ یہ اپنے دین کے بارہ میں انتہائی سخت ہیں تو ان کوچھوڑ دیا۔ (طبقات ابن سعد جلد3صفحہ 55 داربیروت۔ بیروت 1957ء)
روپ بدل گیا
حضرت مصعب بن عمیرؓ مکہ کے ایک مالدار گھرانے کے چشم و چراغ تھے۔ انہوں نے اس قدر نازو نعم سے پرورش پائی تھی کہ مکہ میں کوئی ثانی نہ رکھتے تھے۔ عمدہ سے عمدہ لباس پہنتے اور اعلیٰ سے اعلیٰ خوراک کھاتے۔ نہایت بیش قیمت خوشبوئیں اور عطریات استعمال کرتے۔ اسلام لانے کے بعد ایک عرصہ تک تو اسے پوشیدہ رکھا مگر ایک روز ایک مشرک نے انہیں نماز پڑھتے دیکھ لیا اور آپ کی ماں اور دوسرے اہل خاندان کو خبر کر دی جنھوں نے آپ کو فوراً بند کر دیا۔ ایک عرصہ تک آپ قید و بند کے مصائب نہایت صبر کے ساتھ برداشت کرتے رہے اور موقع ملنے پر حبشہ کی راہ لی۔
لکھا ہے کہ قید میں ان کابدن بھاری ہو گیا۔ رنگ و روپ بدل گیا۔ اس حال کو دیکھ کر ماں بھی لعنت ملامت کرنے سے باز آگئی تھی۔ (طبقات ابن سعد جلد3 صفحہ116 داربیروت۔ بیروت1957ء)
اسی دین پر رہوں گا
حضرت خالد بن سعیدؓ ایک خواب کی بناء پر اسلام لائے۔ ان کے والد کو معلوم ہوا تو خالد کو پکڑنے کے لیے کئی آدمی
بھیجے۔ جب وہ انہیں لے آئے تو والد نے انہیں شدید زدوکوب کیا اور انہیں ایک کوڑے سے مارا یہاں تک کہ ان کے سر پر مارتے مارتے وہ کوڑا ٹوٹ گیا۔ ان کے والد نے سمجھا کہ اب شاید ان کے خیالات بدل گئے ہوں گے اور پوچھا: کیا تم اب بھی محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کی اتباع کرو گے؟
خالدؓ نے جواب دیا: خدا کی قسم یہ سچا دین ہے۔ میں اِسی پر رہوں گا۔ اس پر والد نے بہت گالیاں دیں اور انہیں قید کر دیا۔ بھوکا پیاسا رکھا یہاں تک کہ تین دن اسی حال میں گذر گئے۔ آخر ایک دن موقع پا کر فرار ہوگئے اور حبشہ کی طرف ہجرت کرگئے۔ (طبقات ابن سعد جلد4 صفحہ 95-94 داربیروت۔ بیروت 1957ء)
اسیران راہ مولیٰ
عیاش بن ربیعہؓ ماں کی طرف سے ابوجہل کے بھائی تھے۔ اسلام لائے اور ہجرت کر کے مدینہ کی نواحی بستی قبا پہنچے تو
ابوجہل اور حارث بن ہشام وہاں آ گئے اور ان کو بہلا پھسلا کر مکہ لے آئے اور قید کر دیا۔ حضرت سلمہ بن ہشامؓ بھی قدیمی مسلمانوں میں سے ہیں۔ آپ ہجرت کر کے حبشہ چلے گئے تھے۔ واپس آئے تو ابوجہل نے انہیں قید کر دیا اور بھوکا اور پیاسا رکھا۔
فرار ہوکر
حضرت ولیدؓ خالد بن ولید کے بھائی تھے۔ وہ اسلام لائے تو انہیں حضرت سلمہؓ اور عیاش بن ابی ربیعہؓ کے ساتھ قید کر دیا گیا۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم ان تینوں کی رہائی کے لیے دعا کیا کرتے تھے۔ ولید کسی طرح قید سے چھوٹ کر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس پہنچے تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے باقی دو ساتھیوں کا حال پوچھا۔ انہوں نے بتایا کہ وہ سخت اذیت اور مصیبت میں ہیں۔ ایک کا پاؤں دوسرے کے پاؤں کے ساتھ باندھا ہوا ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد پر حضرت ولیدؓ مکہ گئے اور ایک خفیہ طریق سے ان دونوں کو لے کر مدینہ کی طرف روانہ ہوئے۔ خالد بن ولید نے پیچھا کیا مگر یہ بچ کر مدینہ پہنچ گئے۔ (طبقات ابن سعد جلد4 صفحہ 129تا 133 داربیروت۔ بیروت 1957ء)
پابجولاں
قریش کے ایک لیڈر سہیل بن عمرو کے بیٹے ابوجندلؓ مسلمان ہوئے تو ان کے والد نے بیڑیاں پہنائیں اور کئی برس تک قید رکھا۔ اس دوران انہیں سخت عذابوں میں سے گزارا گیا۔ حدیبیہ کا معاہدہ طے ہو رہا تھاکہ وہ کسی نہ کسی طرح پابجولاں وہاں آ پہنچے مگر حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ایفائے عہد کا بلندنمونہ پیش کرتے ہوئے انہیں واپس کر دیا۔ وہ تعمیل حکم کرتے ہوئے پھر انہی مصائب میں گرفتار ہوگئے مگر پائے ثبات میں لغزش نہ آئی۔ (صحیح بخاری کتاب الشروط باب الشروط فی الجہاد)