صبرو استقامت کے شہزادے
شہادت کے مناظر
یہ وہ لوگ تھے جو موت کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر مسکراتے تھے۔ جن کے لیے ایمان کے مقابل پر یہ فانی دنیا کوئی حیثیت نہ رکھتی تھی۔ اسلام لانے کے بعد ان سب نے اپنی جانیں خدا کے حضور پیش کر دی تھیں۔ کچھ کو براہ راست شہادت کی نعمت عطا ہوئی اور بہت سے ایسے تھے جو دشمنوں کے ہاتھوں مدتوں زنجیروں میں گرفتار رہے اور مَر مَر کر جیتے رہے۔
آئیے !پہلے ان جوانمردوں کا تذکرہ کریں جنھوں نے اس دنیا کے بدلے دائمی زندگی قبول کی۔ اس باب میں سب سے پہلے حضرت یاسرؓ اور ان کے تمام گھرانے کی غیر معمولی قربانی قابل ذکر ہے۔
آل یاسر
حضرت عمارؓ کے والد یاسرؓ یمن سے آ کر مکہ میں آباد ہوئے تھے اور ان کے حلیف ابوحذیفہ نے اپنی لونڈی حضرت سمیہؓ کے ساتھ ان کی شادی کر دی تھی۔ جب مکہ میں آفتاب رسالت طلوع ہوا تو حضرت یاسرؓ اور ان کی اہلیہ سمیہؓ اور بیٹا عمارؓ سب ابتدائی ایام میں ہی اس نور سے منور ہوگئے۔ اس وقت ابھی مسلمانوں کی تعداد 35-30 سے زیادہ نہ تھی اور یہ وہ زمانہ تھا جب مکہ کے ذی وجاہت مسلمان بھی قریش کی ستم رانیوں کا شکار تھے تو اس غریب الوطن خاندان کے حالات کا اندازہ کیا جا سکتا ہے۔
بنو مخزوم نے اس خاندان پر ظلم و بربریت کی انتہا کر دی۔ بظاہر ان کی زندگی موت سے بدتر بنا دی گئی۔ ایک دفعہ اس سارے گھرانے کو تکلیف دی جا رہی تھی کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا اِدھر سے گذر ہوا تو آپ نے انہیں مخاطب کر کے فرمایا: اے آل یاسر! صبر کرو اور خوش ہو جاؤ کیونکہ تمہاری وعدہ گاہ جنت ہے۔ (مستدرک حاکم کتاب معرفۃ الصحابہ ذکر مناقب عمار جلد3 صفحہ383 مکتبہ النصر الحدیثہ۔ ریاض)
پہلی شہادت
جب دشمن اپنی پوری طاقت کے باوجود اس پاکیزہ گھرانے کے پائے ثبات میں کوئی جنبش پیدا نہ کر سکے تو غصہ سے آگ بگولا ہو کر ابوجہل نے حضرت سمیہ کی شرمگاہ میں نیزہ مار کر ان کو شہید کر دیا۔ یہ اسلام میں عورت کی پہلی شہادت تھی جو اہل ایمان کو سورج چاند کی طرح روشنی دکھاتی رہے گی۔
جلتے انگاروں پر
مگر یہ انجام دیکھنے کے باوجود باپ اور بیٹا ایمان پر ثابت قدم رہے۔ تھوڑے دنوں بعد حضرت یاسرؓ بھی بوجہ ضعیف العمری کے ان شدائد سے جانبر نہ ہو سکے اور انتقال کر گئے۔
حضرت عمار کو قریش دوپہر کے وقت انگاروں پر لٹاتے اور پانی میں غوطے دیتے۔ ایک مرتبہ اُنہیں انگاروں پر لٹایا جا رہاتھا کہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کا اِدھر سے گزر ہوا۔ آپ نے حضرت عمارؓ کے سر پر ہاتھ پھیر کر یہ دعا کی:۔
یَا نَارُ کُوْنِیْ بَرْدًا وَّ سَلَامًا عَلٰی عَمَّارٍ کَمَا کُنْتِ عَلٰیِابْرَاہِیْمَ
اے آگ! عمار کے لیے اسی طرح ٹھنڈک اور سلامتی کا موجب بن جاجس طرح ابراہیم کے لیے بنی تھی۔ (طبقات ابن سعد جلد3 صفحہ353 مطبوعہ ایجوکیشنل پریس کراچی طبع اوّل1970ء)
حضرت عمارؓکی پیٹھ پر وہ نشان موت تک باقی رہے۔ مگر ان کے ایمان میں کوئی لغزش نہ آئی۔ (طبقات ابن سعدجلد3ص246)
یہی نعرہ ان کے وردِ زبان رہا۔
یہ جان و دل نثار محمدؐ کی آن پر
اس راہ میں ہر ایک اذیت قبول ہے
تختۂ دار کو چوم لیا
غزوہ اُحد کے قریب زمانہ میں دس صحابہ کو بے قصور ظالمانہ طور پر موت کے گھاٹ اُتار دیا گیا۔ مگر کسی نے صداقت سے منہ نہ موڑا۔ ان میں سے ایک صحابی حضرت خبیبؓ نے شہادت سے قبل دو نفل ادا کیے اور یہ شعر پڑھتے ہوئے تختہ دار کو چوم لیا۔
لَسْتُ اُبَالِیْ حِیْنَ اُقْتَلُ مُسْلِمًا
عَلٰی اَیِّ جَنْبٍ کَانَ لِلّٰہِ مَصْرَعِیْ
وَ ذٰلِکَ فِیْ ذاتِ الْاِ لٰہِ وَ اِنْ یَّشَاْ
یُبَارِکْ عَلٰی اَوْ صَالِ شِلْوٍ مُمَزَّعِ
یعنی جب میں مسلمان ہونے کی حالت میں قتل کیا جاؤں تو مجھے اس بات کی کوئی پرواہ نہیں کہ میں کس پہلو پر گرتا ہوں۔ میری یہ سب قربانی اللہ کی رضا کے لیے ہے۔ وہ اگر چاہے گا تو میرے ریزہ ریزہ اعضاء میں بھی برکت ڈال دے گا۔
فُزْتُ بِرَبِّ الْکَعْبَۃ
اسی زمانہ میں ستر صحابہ کو دھوکہ سے تبلیغ کے بہانے بلایا گیا مگر انتہائی سفاکی کے ساتھ شہید کر دیا گیا۔ ان کے
سردار حضرت حرام بن ملحانؓ کو پشت کی طرف سے نیزہ مارا گیا جو جسم سے پار ہو گیا۔ جب خون کا فوارہ پھوٹا تو حضرت حرامؓ نے اس سے چلّو بھر کر منہ اور سر پر پھیرا اور فرمایا: فُزْتُِبرَبِّ الْکَعْبَۃِ کعبہ کے رب کی قسم میں کامیاب ہو گیا۔ (صحیح بخاری کتاب المغازی باب غزوۃ الرجیع)
حضرت خبیبؓ، یحضرت حرامؓ اور ان کے ساتھیوں کی قربانیاں رائیگاں نہیں گئیں۔ ان کے عزم اور استقلال نے کئی سعادت مندوں پر گہرے اثرات چھوڑے اور وہ بالآخر آغوش اسلام میں آ گرے۔