صبرو استقامت کے شہزادے
مارپیٹ کے مناظر
بارگاہِ احدیت کے وہ جاں نثار جن کو تاریکی کے فرزند ابدی زندگی کا جام پلانے سے قاصر رہے ان کی زندگیاں تو لمحہ لمحہ عذاب تھیں۔ مارپیٹ اور جسمانی مظالم کا ایک بازار گرم تھا جس میں ان کے جسم اور عزتیں بلا خوف و خطر پامال کی جا رہی تھیں۔ مگر ان پر پڑنے والی ہر ضرب ان کے بلند روحانی مقامات کے بگل بجا رہی تھی۔
اس تشدد اور ظلم سے معزز گھرانوں کے مسلمان بھی محفوظ نہ تھے۔ اس لیے حضرت عبدالرحمنؓ بن عوف اور دوسرے صحابہ نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں ایک دفعہ عرض کیا تھا کہ:
یا رسول اللہ! جب ہم مشرک تھے تو معزز تھے اور کوئی شخص ہماری طرف آنکھ اُٹھا کر بھی نہیں دیکھ سکتا تھا مگر مسلمان ہو کر ہم کمزور اور ناتواں ہوگئے ہیں۔ (سنن نسائی کتاب الجہاد باب و جوب الجہاد)
ان لوگوں نے بظاہر دنیا کی ذلت قبول کر لی مگر سچائی کادامن نہیں چھوڑا اور ابدالآباد تک ایک ایسی عزت حاصل کی جس پر کبھی فنا نہیں آئے گی۔
حضرت ابوبکرؓ کا عشق
حضرت ابوبکرؓ قریش کے ایک معزز فرد تھے۔ اسلام لائے تو انہوں نے برملا اپنے ایمان کا اظہار کیا اور قریش کو بھی دعوتِ اسلام دی مگر یہ سنتے ہی مشرکین حضرت ابوبکرؓاور قریبی مسلمانوں پر ٹوٹ پڑے اور حضرت ابوبکرؓ کو گرا کر بہت مارا۔
بدبخت عتبہ بن ربیعہ اپنے مضبوط جوتے سے ان پر وار کرتا رہا اور ان کے چہرے پر اتنا مارا کہ ان کا چہرہ پہچانا نہ جاتا تھا۔ بالآخر آپ کے قبیلہ بنو تمیم کے لوگ آئے اور انہوں نے آپ کو دشمنوں سے بچایا۔ مگر حالت یہ تھی کہ حضرت ابوبکرؓ کے قریب المرگ ہونے میں کسی کو شبہ نہ تھا۔ لیکن دن کے آخری حصہ میں جب انہیں ہوش آیا تو ان کے منہ سے پہلا جملہ یہ نکلا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا کیا حال ہے۔ یہ سن کر قبیلہ کے لوگ واپس چلے گئے مگر آپ بہت اصرار کے ساتھ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا حال دریافت کرتے رہے اور جب آپ کے صحیح سالم ہونے کی اطلاع ملی تو والدہ کی منت کر کے ان کے ساتھ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے تو ان کی حالت دیکھ کر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی آنکھیں ڈبڈبا آئیں مگر حضرت ابوبکرؓ عرض کرتے تھے کہ سوائے چہرہ کے زخموں کے اور کوئی تکلیف نہیں۔
پھر آپ نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کی۔ میری والدہ کو اسلام کی طرف دعوت دیں اور ان کے لیے دعا بھی کریں۔ چنانچہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی تبلیغ سے وہ اسلام لے آئیں۔ (البدایہ والنہایہ جلد3 صفحہ30۔ از حافظ ابن کثیر طبع اولیٰ۔ 1966 مکتبہ معارف بیروت)
قرینین
حضرت ابوبکرؓ کی تبلیغ سے حضرت طلحہؓ اسلام لائے تو نوفل بن خویلد بن العدویہ نے ان دونوں کو پکڑ لیا۔ یہ شخص اسدِ قریش کہلاتا تھا یعنی قریش کا شیر۔ اس نے دونوں کو ایک رسی میں بندھوا دیا اسی لیے ان دونوں کو قَرِیْنَیْن بھی کہتے ہیں۔ حضرت ابوبکرؓ کے قبیلہ بنو تمیم نے بھی انہیں چھڑانے سے انکار کر دیا۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو اطلاع ہوئی تو آپ نے دعا کی:
اے اللہ! ہمیں ابن العدویہ کے شر سے بچا۔
تب خدا نے ان کی رہائی کے سامان پیدافرمائے۔ (البدایہ و النہایہ جلد3 صفحہ29۔ از حافظ ابن کثیر طبع اولیٰ۔ 1966۔ مکتبہ معارف بیروت)