صبرو استقامت کے شہزادے
ماں کا ظلم
حضرت مسعودؓ بن حراش بیان کرتے ہیں کہ میں صفا اور مروہ کے درمیان چکر لگا رہا تھا کہ میں نے دیکھاکہ بہت سے لوگ ایک نوجوان کو کھینچتے ہوئے لے جا رہے ہیں جس کے ہاتھ اس کی گردن میں بندھے ہوئے ہیں۔ میں نے پوچھا یہ کون ہے؟ تو لوگوں نے بتایا یہ طلحہ بن عبید اللہ ہے جو صابی یعنی مسلمان ہو گیا ہے۔
ایک عورت ان کے پیچھے غراتی اور گالیاں دیتی ہوئی چلی جا رہی تھی۔ میں نے اس کے متعلق پوچھا تو بتایا گیا کہ یہ طلحہ کی ماں صعبہ بنت حضرمی ہے۔ (التاریخ الکبیر جلد 7 صفحہ421۔ از امام بخاری۔ بیروت)
جو چاہو کر لو
حضرت عمر بن خطابؓ جیسا جری اور بے باک شخص بھی دشمنوں کے شر سے محفوظ نہ رہا۔ انہوں نے اسلام قبول کیا تو ایک شخص جمیل بن معمر نے مسجد حرام میں جا کر اعلان کیا کہ عمربے دین ہو گیا ہے۔ حضرت عمرؓ وہاں پہنچے اور کہا یہ جھوٹا ہے میں نے توحید کو قبول کیا ہے۔ یہ سن کر سب حضرت عمرؓ پر جھپٹ پڑے اور دیر تک ان سے لڑتے رہے حضرت عمرؓ فرماتے تھے: تم جو چاہو کر لو۔ اب تو میں یہ دین نہیں چھوڑ سکتا۔ (البدایہ و النہایہ جلد3 صفحہ82۔ از حافظ ابن کثیر طبع اولیٰ۔ 1966۔ مکتبہ معارف بیروت)
ہرگز نہیں
حضرت زبیر بن العوامؓ جب اسلام لائے تو ان کی عمر8 سال کی تھی۔ ان کا چچا انہیں چٹائی میں لپیٹ کر لٹکا دیتا تھا اور نیچے آگ جلا کران کی ناک میں دھواں پہنچاتا تھا اور ساتھ کہتا کہ اسلام سے انکار کر دے مگر حضرت زبیرؓ فرماتے:
میں کبھی اسلام سے انکار نہیں کروں گا۔ (مستدرک حاکم کتاب معرفۃ الصحابہ باب مناقب الزبیر جلد3 صفحہ360۔ ریاض)
گھسیٹے گئے
حضرت سعد بن عبادہؓ نے بیعت عقبہ ثانیہ میں اسلام قبول کرنے کی سعادت حاصل کی۔ وہاں سے واپسی پر دشمنوں نے پکڑ لیا۔ ان کے ہاتھ ان کی گردن سے باندھ دیے، ان کے بال کھینچے، زدوکوب کیا اور سخت اذیت دیتے ہوئے گھسیٹ کر مکہ میں لے آئے۔ ظلم و ستم کا سلسلہ جاری تھا کہ مطعم بن عدی نے آ کر انہیں نجات دلائی۔ (سیرۃ ابن ہشام جلد2 صفحہ91 مطبع البابی الحلبی۔ مصر1936)
بے قراری
حضرت عثمان بن مظعونؓ نے اسلام قبول کیا تو دشمنوں کے مظالم سے بچنے کے لیے ولید بن مغیرہ کی پناہ میں آ گئے۔ مگر جب انہوں نے دیکھا کہ دوسرے صحابہ تکالیف برداشت کر رہے ہیں اور میں امن سے پھر رہا ہوں تو انہوں نے ولید بن مغیرہ سے کہا کہ تم اپنی پناہ واپس لے لو اور اس کا اعلان مسجد حرام میں کر دیا گیا۔
اس واقعہ کے تھوڑے دن بعد ایک مشرک نے ان کی آنکھ پر ایسا مُکّامارا کہ ڈیلے سے باہر نکل آئی۔ اس پر ولید جو وہاں موجود تھا کہنے لگا کہ اگر تم میری پناہ واپس نہ کرتے تو یہ تکلیف نہ ہوتی تو حضرت عثمان بن مظعونؓ نے فرمایا: تم اس کی بات کرتے ہو میری تو دوسری آنکھ بھی خدا کی راہ میں قربان ہونے کے لیے بے تاب ہے۔ (البدایہ و النہایہ جلد3 صفحہ92۔ از حافظ ابن کثیر طبع اولیٰ۔ 1966۔ مکتبہ المعارف بیروت)
کل پھر
حضرت عبداللہؓ بن مسعود نے خانہ کعبہ میں قرآن کریم کی چند آیات بلند آوازسے کفار کو سنائیں تو انہوں نے اس قدر مارا کہ چہرے پر نشان پڑ گئے۔ جب دوسرے صحابہؓ نے ہمدردی کا اظہار کیا تو فرمایا: اگر کہو تو کل پھر اسی طرح ان لوگوں کو اونچی آواز میں قرآن سناؤں۔ (اسد الغابہ جلد3 صفحہ256 تذکرہ عبداللہ بن مسعود۔ مکتبہ اسلامیہ طہران)
حقیقت یہ ہے کہ سچا ایمان دل میں ایک غیر معمولی جرأت اور بے خوفی پیدا کر دیتا ہے جو ایک کمزور بے کس کو طاقتور مخالف کے مقابل کھڑا کر دیتا ہے۔ اس کی ایک اور مثال ملاحظہ ہو۔
سچ کی طاقت
حضرت ابوذر غفاریؓ اسلام لانے سے قبل مخالفین سے اتنے خوف زدہ تھے کہ اپنے قبیلہ غفار سے مکہ میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم ہی کی تلاش میں آئے مگر کسی سے آپ کا پتہ نہ پوچھتے تھے۔ یہاں تک کہ حضرت علیؓ نے بڑی حکمت سے آپ کو حضور صلی اللہ علیہ وسلم تک پہنچا دیا اور آپ نے اسلام قبول کر لیا۔
مگر اسلام قبول کرتے ہی ایسی شجاعت پیدا ہوئی کہ مسجد حرام میں جا کر ببانگ دہل کلمہ توحید کا اعلان کیا تو دشمن ان پر پل پڑے اور مارتے مارتے بے حال کردیا۔ یہاں تک کہ جب وہ بے دم ہو کر زمین پر گر پڑے تو سمجھا کہ ان کا کام تمام ہو گیا ہے۔ تب واپس جانے لگے۔ آپ بیان کرتے ہیں کہ مجھے جب ہوش آیا تو میں سر سے پاؤں تک لہولہان ہوچکا تھا۔
بعض روایتوں میں ہے کہ جب آپ مرنے کے قریب ہوگئے تو حضرت عباس نے آ کر دشمنوں سے چھڑایا مگر آپ پھر دوسرے دن اسی طرح مسجد حرام میں جا کر توحید کی منادی کرنے لگے تو دشمنوں نے پہلے کی طرح زدوکوب کرنا شروع کر دیا اور حضرت عباسؓ نے اس ظلم و ستم سے نجات دلائی مگر آپ کے پائے ثبات میں کوئی لغزش نہ آئی۔ (مستدرک حاکم جلد3صفحہ338۔ صحیح بخاری کتاب بنیان الکعبہ باب اسلام ابی ذر)
حضرت عمر کے بہنوئی حضرت سعیدؓ بن زید نے بھی بہت تکالیف برداشت کیں۔ حضرت عمرؓ اسلام لانے سے قبل انہیں رسیوں سے باندھ دیتے تھے۔ (صحیح بخاری کتاب الاکراہ باب من اختار الضرب )