صبرو استقامت کے شہزادے
ہر خوف سے آزاد
رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابی حضرت عبداللہؓ بن حذافہ حضرت عمرؓ کے زمانہ میں رومیوں کے ساتھ ایک جنگ میں گرفتار ہوگئے۔ ان کو بادشاہ کے سامنے پیش کیا گیا اور بتایا گیا کہ یہ اصحاب محمدؐ میں سے ہیں۔ بادشاہ نے اولاً تو انہیں لالچ دیا اور کہا: اگر تم عیسائی ہو جاؤ تو میں تمہیں اپنی حکومت اور سلطنت میں شریک کر لوں گا۔ حضرت عبداللہؓ نے ان سے کہا کہ اگر تم اپنی ساری سلطنت اور دولت بھی مجھے اس شرط پر دے دو کہ میں دین محمدؐسے پھر جاؤں تب بھی میں یہ بات ایک لمحہ کے لیے بھی قبول نہیں کروں گا۔ تب بادشاہ نے انہیں موت کی دھمکی دی تو انہوں نے کہا :یہ تیرا اختیار ہے تو جو مرضی کر۔
چنانچہ بادشاہ کے حکم سے انہیں صلیب پر لٹکا دیا گیا اور اس نے تیر اندازوں سے کہا :ان پر اس طرح سے تیر چلاؤ کہ ان کو نہ لگیں، ہاتھوں اورپاؤں کے قریب سے گزر جائیں۔ اس کے ساتھ ہی بادشاہ کہہ رہا تھا کہ اگر تم عیسائی ہو جاؤ تو بچ جاؤ گے مگر وہ مسلسل انکار کرتے رہے۔ آخر بادشاہ نے ایک اور چال چلی۔ ان کو صلیب سے اُتروا لیا۔ ایک دیگ منگوائی اور اس کو لبالب پانی سے بھروایا، نیچے آگ جلوائی اور خوب جوش دلوایا۔ پھر دو مسلمان قیدیوں کو بلوایا۔ ان میں سے ایک کو دیگ میں پھینکنے کا حکم دیا اور اسے پھینک دیا گیا۔ اس طرح بادشاہ نے اپنے خیال میں حضرت عبداللہ پر اذیت ناک موت کا خوف طاری کر کے انہیں پھر عیسائی ہو جانے کا مشورہ دیا مگر انہوں نے اسے پائے حقارت سے ٹھکرا دیا۔
تب بادشاہ نے کہا کہ انہیں بھی اسی دیگ میں ڈال دیا جائے جب ان کو لے جایا جانے لگا تو حضرت عبداللہؓ رو پڑے۔ بادشاہ کو پتہ لگا تو وہ سمجھا کہ موت سے خوفزدہ ہوگئے ہیں۔ چنانچہ انںی قریب بلا کر پھر عیسائیت کا پیغام پیش کیا تو انہوں نے انکار کر دیا۔ اس پر بادشاہ نے تعجب سے کہا کہ پھر رونے کی کیا وجہ تھی۔
حضرت عبداللہؓ نے فرمایا: میں نے سوچا کہ ابھی مجھے دیگ میں ڈال دیا جائے گا اور میری ایک ہی جان ہے جو چلی جائے گی۔ میری خواہش تو یہ ہے کہ میرے جسم کے بالوں جتنی تعداد میں یعنی ہزاروں لاکھوں جانیں ہوتیں جو سب کی سب راہ خدا میں آگ میں ڈال دی جاتیں۔ اس صدمہ سے مجھے رونا آ گیا۔
بالآخر بادشاہ نے ان سے کہا کہ اگر تم میرے سر پر بوسہ دو تو میں تمہیں چھوڑ دوں گا۔ اس پر حضرت عبداللہؓنے تمام مسلمان قیدیوں کی رہائی کا وعدہ لیا اور سوچا کہ اس کے سر کو بوسہ دینے سے میرے تمام ساتھیوں کو بریت نصیب ہوتی ہے تو اس میں کیا حرج ہے۔
چنانچہ تمام قیدی رہا ہو کر حضرت عمرؓ کے پاس پہنچے اور انہیں یہ سارا واقعہ بتایاگیا تو حضرت عمرؓ نے فرمایا: ہر مسلمان پر فرض ہے کہ وہ عبداللہ بن حذافہ کے سر کو بوسہ دے اور اس کا آغاز میں کروں گا۔ (کنزالعمال کتاب الفضائل جلد7 صفحہ62 مطبع دائرہ المعارف النظامیہ حیدر آباد 1314ھ)
معجزانہ رزق
اسی قید وبند اور اذیت کے عالم میں خدا تعالیٰ نے ایسے معجزانہ طور پر صحابہ کو رزق عطا فرمایا کہ دشمن حیران رہ گئے اور یہ امر ان کے لیے ہدایت کا موجب بن گیا۔
لذیذ پانی
حضرت ابو امامہ باہلیؓ اپنی قوم کو تبلیغ کر رہے تھے مگر قوم مسلسل انکار کر رہی تھی۔ اس موقع پر انہیں سخت پیاس لگی۔ انہوں نے پانی طلب کیا تو ان کی قوم نے کہا :ہم تمہیں ہرگز پانی نہیں دیں گے۔ یہاں تک کہ تم پیاس سے مر جاؤ۔
حضرت ابوامامہؓ سر پر کپڑا لپیٹ کر سخت گرمی میں پتھروں پر لیٹ گئے اور بعید نہیں تھا کہ شدت پیاس اور گرمی سے ان کی جان نکل جاتی۔ مگر خدا اپنے فدائیوں کے لیے غیر معمولی معجزے بھی دکھاتا ہے۔ انہوں نے خواب میں دیکھا کہ ایک آدمی ان کے لیے ایک قیمتی پیالہ میں ایسا پانی لایا ہے جس سے زیادہ خوبصورت پیالہ اور لذیذ پانی کبھی کسی نے نہیں دیکھا۔ انہوں نے وہ پانی سیر ہو کر پیا۔ یہ معجزہ جب انہوں نے ثبوت کے ساتھ پیش کیا تو ساری قوم ایمان لے آئی۔ (مستدرک حاکم جلد3 صفحہ642 کتاب معرفۃ الصحابہ مکتبہ النصر الحدیثہ۔ ریاض)
تمہارا دین بہتر ہے
حضرت اُمّ شریک قبیلہ بنو عامر بن لوئی میں سے تھیں۔ مکہ میں اسلام قبول کیا۔ آپ خفیہ طور پر قریش کی عورتوں کے پاس جاتیں اور اسلام کی تبلیغ کرتیں۔ جب اہل مکہ کو پتہ لگا تو انہوں نے حضرت اُمّ شریک کو پکڑ لیا اوران کے لیے سزا تجویز کی اور انہیں اونٹ کی ننگی پیٹھ پر سوار کرا دیا اور انہیں نا معلوم منزل کی طرف لے کر چل پڑے انہیں تین دن تک کھانے پینے کے لیے کچھ نہ دیا گیا۔ جب کسی منزل پر رکتے تو خود سائے میں بیٹھ جاتے اور ان کو دھوپ میں باندھ دیتے۔ خود کھاتے پیتے اور ان کو بھوکا پیاسا رکھتے۔ مگر خدا تعالیٰ نے ان کے ساتھ یہ سلوک فرمایا کہ رؤیا میں انہیں بہترین ٹھنڈا اور میٹھا پانی پلایا گیاجو انہوں نے اپنے اوپر بھی چھڑک لیا اور ان کی حالت بہت بہتر ہوگئی۔ جب ان کے مخالفین نے ان کی یہ کیفیت دیکھی تو سمجھا کہ شاید انہوں نے ان کے مشکیزوں سے پانی لے لیا ہے۔ مگر حضرت اُمّ شریک نے انہیں اپنا رؤیا بتایا اور انہوں نے دیکھ لیا کہ ہمارے مشکیزے باقاعدہ اسی طرح بھرے ہوئے ہیں تو انہوں نے کہا کہ تمہارا دین ہمارے دین سے بہتر ہے اور پھر اسلام لے آئے۔ (الاصابہ جلد4 صفحہ446 از ابن حجر عسقلانی مطبع مصطفی محمد۔ مصر 1939ء)