عائلی مسائل اور اُن کا حل
احمدی عورت کا اہم کردار اور اس کی ذمہ داریاں
معاشرے میں عورت کا کردار
حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ نےجماعت احمدیہ گھانا کے جلسہ سالانہ 2004 ء کے خطاب میں خاص طور خواتین سے بھی چند منٹ کے لئےخطاب فرمایا۔ حضور انور نے فرمایا:
’’خواتین کا معاشرے میں ایک اہم کردار ہے۔ ایک عورت کا بنیادی کردار اس کے گھر سے شروع ہوتا ہے جہاں وہ ایک بیوی اور ایک ماں کی حیثیت سے عمل کر رہی ہوتی ہے یا مستقبل کی ماں کی حیثیت سے اگر ابھی شادی نہیں ہوئی۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ہماری توجہ اس طرف مبذول کروائی ہے کہ ہمیشہ تقویٰ کی راہوں پر قدم مارو۔ اگر عورتیں اس بات کو سمجھ لیں اور خدا کا خوف کرنے لگیں اور تقویٰ کی راہوں پر چلیں تو وہ اس قابل ہوجائیں گی کہ ایک انقلاب معاشرے میں پیدا کردیں۔ ایک عورت اپنے خاوند کے گھر کی نگران ہے اور جب خاوند گھر پر نہ ہو تو وہ اس بات کی ذمہ دار ہے کہ اپنے بچوں کی صحیح تربیت پر زیادہ توجہ دے‘‘۔
پھر فرمایا: ’’پس اے احمدی عورتو! تم اپنے اس اعلیٰ مقام کو پہچانواور اپنی نسلوں کو معاشرے کی برائیوں سے بچاتے ہوئے ان کی اعلیٰ اخلاقی تربیت کرواور اس طرح سے اپنی آئندہ نسلوں کے بچاؤ کی ضمانت بن جاؤ۔ اللہ ان لوگوں کی مدد نہیں کرتا جو اس کے احکام کو وقعت نہیں دیتے۔ اللہ آپ کو اپنا مقام سمجھنے کی توفیق عطا فرمائے اور آپ اپنی آئندہ نسل کو سنبھالنے والی بن سکیں۔ آمین‘‘۔ (جلسہ سالانہ گھانا 2004ء۔ اَلاَزْھَارُلِذَوَاتِ الْخِمَار۔ ’’اوڑھنی والیوں کیلئے پھول‘‘ جلد سوم حصہ اول)
2004 ء میں نائیجیریا میں منعقد ہونے والے جلسہ سالانہ کے موقع پر حضرت امیرالمومنین خلیفۃالمسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اپنے خطاب میں احمدی خواتین کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا:
’’ عورتیں یاد رکھیں کہ اُن کا اسلامی معاشرے میں ایک بلند مقام ہے۔ اگر انہوں نے اپنے اس بلند مقام کو نہ پہچانا تو اس بات کی کوئی ضمانت نہیں دی جاسکتی کہ ان کی آئندہ نسلیں ایمان پر قائم رہیں گی۔ خواتین اپنے اس مقام کو پہچانیں جو اُن کا معاشرے میں ہے۔ نہیں تو وہ اپنے خاوندوں اور آئندہ نسلوں کی نافرمان اور اُن کا حق ادا نہ کرنے والی سمجھی جائیں گی اور سب سے بڑھ کر وہ اپنے پیدا کرنے والے سے بے وفائی کر رہی ہوں گی۔ پس یہ انتہائی اہم ہے کہ ہر احمدی عورت اپنی اصلاح کی طرف توجہ دیتی رہے اور ہمیشہ یہ دعا کرتی رہے کہ اللہ تعالیٰ اس کی راہنمائی کرے اور اس کو اس قابل بنائے کہ وہ اپنی آئندہ نسلوں کی اسلامی تعلیمات کے مطابق پرورش کرسکے۔
حضرت عبدالرحمٰن بن عوفؓ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرتﷺ نے فرمایا کہ ایک عورت جو اپنی پانچ وقت نمازوں کی پابندی کرتی ہے اور جس نے رمضان کے روزے رکھے اور اپنے آپ کو اخلاقی برائیوں سے بچایا اور اپنے خاوند کی اخلاص اور وفا سے خدمت کی۔ ایسی عورت کا حق ہے کہ وہ جنت میں کسی بھی دروازے سے داخل ہوجائے۔ میری دعا ہے کہ ہر احمدی عورت اپنے خاوند کی ذمہ داریوں کو ادا کرنے والی ہو اور اپنے بچوں کے فرائض کا حق ادا کرنے والی ہو۔ اللہ کرے کہ وہ اپنے بچوں کی صحیح رنگ میں تربیت کرے اور ان کی پاک اور بااخلاق ماحول میں پرورش کرے اور اس وجہ سے جنتوں کی وارث بنے‘‘۔ (جلسہ سالانہ نائجیریا 2004 ء۔ اَلاَزْھَارُلِذَوَاتِ الْخِمَار۔ ’’اوڑھنی والیوں کیلئے پھول‘‘ جلد سوم حصہ اول)
حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ نے جلسہ سالانہ یوکے 2006ءکے موقع پر احمدی مسلمان عورتوں کی ذمہ داریوں کی طرف توجہ دلاتے ہوئے ارشادفرمایا:
’’عورت کو ہمارے دین نے گھر کا نگران اور خاوند کے گھر کی حفاظت کی ذمہ داری سونپی ہے۔ جب تک تم اللہ تعالیٰ کو نہیں پہچانو گی اور اپنی ذمہ داری نہیں سمجھوگی تمہارے ہاں سکون نہیں پیدا ہوسکتا ‘‘۔
مزید فرمایا:
’’ آپ احمدی عورتیں کسی قسم کے احساس کمتری کے بجائے احساس بر تری کی سوچ پیدا کریں۔ اپنی تعلیم کو کامل اور مکمل سمجھیں۔ قرآن کریم کی تعلیم پر پوری توجہ دیں اس پر کاربند ہوں تو آپ انشاء اللہ تعالیٰ دنیا کی رہنما کا کردار ادا کریں گی۔ ورنہ اگر صرف اس دنیا کے پیچھے ہی دوڑتی رہیں تو جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے وہ سب کچھ ختم ہوجائے گا اور ہاتھ ملتی رہ جائیں گی اللہ تعالیٰ اپنے وعدوں کے مطابق حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو ایسی قومیں عطا فرمائے گا جو اس کام کو آگے بڑھائیں گی۔ لیکن مجھے امید ہے کہ انشاء اللہ تعالیٰ یہ اعزاز ان پرانی نسلوں اور پرانے خاندانوں ان احمدی عورتوں کے ہاتھ میں ہی رہے گا جو مشکل وقت میں جن کو احمدیت قبول کرنے کی سعادت ملی۔ پس آپ لوگ اپنے اندر یہ احساس ذمہ داری کبھی ختم نہیں ہونے دیں گی۔ انشاء اللہ تعالیٰ۔ اللہ آپ کو توفیق دے۔ پس اس نعمت عظمیٰ کی قدر کریں جو اللہ تعالیٰ نے آپ کو عطا فرمائی ہے تاکہ آپ کا ہر قدم اللہ تعالیٰ کے احکامات پر عمل کرنے میں آگے سے آگے بڑھتا چلاجانے والا قدم ہو اور آپ اپنے پیچھے ایسی نسل چھوڑ کر جانے والی ہوں جو اگلی نسلوں کے دلوں میں بھی اللہ کے دین کی عظمت پیدا کرنے والی ہوں۔ اللہ کرے کہ ایسا ہی ہو ‘‘۔ (جلسہ سالانہ یوکے خطاب از مستورات فرمودہ 29؍ جولائی2006ء۔ مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل 26؍جون 2015ء)
بچوں کوبد ظنیوں اور کدورتوں سے بچائیں
27 اگست2005ء کوجلسہ سالانہ جرمنی کے موقعہ پر خواتین سے خطاب میں حضور انور ایّدہ اللہ تعالیٰ نے احمدی خواتین کوذمہ داریوں کی طرف توجہ دلاتے ہوئےفرمایا:
’’ ایک عورت کیونکہ ایک بیوی بھی ہے، ایک ماں بھی ہے۔ اس وجہ سے اپنے خاوند کے لئےبھی مسائل کھڑے کررہی ہوتی ہے، اپنے بچوں کی تربیت بھی خراب کررہی ہوتی ہے۔ کیونکہ ان بد ظنیوں کا پھر گھر میں ذکر چلتا رہتا ہے۔ بچوں کے کان میں یہ باتیں پڑتی رہتی ہیں وہ بھی ان باتوں سے متاثر ہوتے ہیں، اثر لیتے ہیں۔ ان کی اٹھان بھی اس بدظنی کے ماحول میں ہوتی ہے اور یوں بڑے ہو کر وہ بھی اس وجہ سے اس برائی میں مبتلا ہوجاتے ہیں۔ تو ایسی مائیں اس قسم کی باتیں بچوں کے سامنے کرکے جس میں فساد کا خطرہ ہو جو ایک دوسرے کے متعلق دلوں میں رنجشیں پیدا کرنے والی ہو، جو بدظنیوں میں مبتلا کرنے والی ہو، جن سے کدورتیں پیدا ہونے کا خطرہ ہو، جہاں اپنے بچوں کو برباد کررہی ہوتی ہیں وہاں جماعت کی امانتوں کے ساتھ بھی خیانت کررہی ہوتی ہیں ‘‘۔ (مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل 25؍ستمبر2015ء)
عورت بحیثیت بیوی
اپنے ایک خطبہ جمعہ میں حضور انور ایّدہ اللہ بنصرہ العزیزنے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک حدیث کی تشریح کرتے ہوئے ہر شخص کے نگران ہونے کے نتیجہ میں اُس پر عائد ہونے والی ذمہ داریوں کو بیان فرمایا۔ حضورانور نےفرمایا:
’’پھر بیوی کو توجہ دلائی کہ خاوند کے گھر کی، اس کی عزت کی، اس کے مال کی اور اس کی اولاد کی صحیح نگرانی کرے۔ اس کا رہن سہن، رکھ رکھاؤ ایسا ہو کہ کسی کو اس کی طرف انگلی اٹھانے کی جرأت نہ ہو۔ خاوند کا مال صحیح خرچ ہو۔ بعضوں کو عادت ہوتی ہے بلا وجہ مال لٹاتی رہتی ہیں یا اپنے فیشنوں یا غیر ضروری اشیاء پر خرچ کرتی ہیں ان سے پرہیز کریں۔ بچوں کی تربیت ایسے رنگ میں ہو کہ انہیں جماعت سے وابستگی اور خلافت سے وابستگی کا احساس ہو۔ اپنی ذمہ داری کا احسا س ہو۔ پڑھائی کا احساس ہو۔ اعلیٰ اخلاق کے اظہار کا احساس ہو تاکہ خاوند کبھی یہ شکوہ نہ کرے کہ میری بیوی میری غیر حاضری میں (کیونکہ خاوند اکثر اوقات اپنے کاموں کے سلسلہ میں گھروں سے باہر رہتے ہیں ) اپنی ذمہ داریاں صحیح اد انہیں کر رہی اور پھر یہی نہیں، اللہ تعالیٰ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ خاوند کا شکوہ یا زیادہ سے زیادہ اگر سزا بھی دے گاتو یہ تو معمولی بات ہے۔ یہ تو سب یہاں دنیا میں ہو جائیں گی لیکن یاد رکھو تم جزا سزا کے دن بھی پوچھی جاؤ گی اور پھر اللہ بہتر جانتا ہے کہ کیا سلوک ہونا ہے۔ اللہ ہر ایک پہ رحم فرمائے‘‘۔ (خطبہ جمعہ فرمودہ 6؍اپریل 2007ء بمقام مسجد بیت الفتوح، لندن۔ مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل 27؍اپریل 2007ء)
عورت بحیثیت ماں
سیدنا حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے ایک احمدی مسلمان عورت کی عائلی ذمہ داریوں کی طرف توجہ دلاتے ہوئےایک اور موقع پر ارشاد فرمایا:
’’ ایک عورت ماں کے ناطے بچوں کے ساتھ زیادہ تعلق رکھنے والی ہوتی ہے، اس کا زیادہ اٹھنا بیٹھنا ہوتا ہے۔ بچپن میں بچے باپ کی نسبت ماں سے زیادہ attachہوتے ہیں۔ تو اگر ابتدا سے ہی اپنے عمل سے اور اپنی باتوں سے بچوں کے ذہن میں یہ بات راسخ کردیں، بٹھادیں تو نسلاً بعد نسل عبادت گزار پیدا ہوتے چلے جائیں گے اور نتیجتاً احمدیت کے پیغام کو پھیلانے والوں کی ایک کے بعد دوسری فوج تیار ہوتی چلی جائے گی۔ لیکن عام طور پر دیکھا گیا ہے کہ عورتیں اچھے حالات کی وجہ سے پہلے کے گزارے ہوئے تنگی کے دنوں کو زیادہ جلدی بھول جاتی ہیں اور یہ عورت کی فطرت ہے اور اس کی ترجیحات مختلف ہوتی ہیں۔ لیکن ایک احمدی عورت کو چاہئے کہ اپنی ترجیحات کو دنیا داری کی طرف لے جانے کے بجائے اللہ تعالیٰ کے احکامات کے نیچے لائیں۔ اپنے گھروں کو عبادتوں سے ہر وقت سجائے رکھیں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی اس حدیث کو ہمیشہ مدنظر رکھیں۔ آپﷺ نے فرمایا:وہ گھر جس میں خدا تعالیٰ کا ذکر ہوتا ہے اور وہ گھر جس میں خدا تعالیٰ کا ذکر نہیں ہوتا ان کی مثال زندہ اور مردہ کی طرح ہے۔ پس اپنے گھروں کو اللہ تعالیٰ کی عبادت اور ذکر الٰہی سے سجائے رکھیں تاکہ آپ کے گھروں میں زندگی کے آثار ہمیشہ نظر آتے رہیں۔ بجائے اس کے آپ کے خاوند آپ کو عبادت کی طرف توجہ دلانے والے ہوں آپ اپنے خاوندوں کو نمازوں کے لئے جگانے والی اور توجہ دلانے والی ہوں ‘‘۔
پھر فرمایا:
’’عورت پراپنے بچوں کے نگران ہونے کی وجہ سے ان کے جگانے کی ذمہ داری بھی ہے اور نمازوں کے لئے ان کو توجہ دلانے کی ذمہ داری بھی ہے۔ پس جس گھر میں عورتیں عبادت کے لئے اپنی راتوں کو زندہ کرنے والی ہوں گی اور اپنے مردوں اور بچوں کوعبادت کی طرف توجہ دلانے والی ہوں گی وہ گھر اللہ تعالیٰ کے فضلوں کے وارث بنتے چلے جائیں گے‘‘۔ (خطاب ازمستورات جلسہ سالانہ آسٹریلیا 15اپریل 2006ءمطبوعہ الفضل انٹرنیشنل 12؍جون2015ء)
17 ستمبر2005ءکو جلسہ سالانہ سویڈن کے موقع پر مستورات سے اپنےخطاب میں حضور انور ایّدہ اللہ تعالیٰ نے متعدد مختلف امور سے متعلق احمدی خواتین کی رہنمائی فرمائی اور خاوندوں کے حقوق کا ذکر کرتے ہوئے حضور انور نے فرمایا:
’’ اللہ تعالیٰ کے رسولﷺ نے فرمایا ہے کہ عورت گھر کی نگران ہے۔ خاوند کی جو اولاد ہے اُس کی وہ نگران ہے۔ اس لئے ماؤں کو، عورتوں کو بہرحال بچوں کی خاطر قربانی دینی چاہئے، گھر میں رہنا چاہئے۔ جب بچے سکول سے آئیں تو ان کو ایک پرسکون محبت والاماحول میسر آنا چاہئے۔ جائزہ لے لیں اس ماحول میں اکثر بچے اس لئے بگڑ رہے ہیں کہ وہ ماں باپ کے پیار سے محروم ہوتے ہیں۔ ماں باپ کے پیار کے بھوکے ہوتے ہیں اور وہ ان کو ملتا نہیں۔ ان کو توجہ چاہئےاور جو توجہ وہ چاہتے ہیں وہ ماں باپ ان کو دیتے نہیں اور ماں باپ جو ہیں وہ پیسے کمانے کی دوڑ میں لگے ہوئے ہیں، اپنی دلچسپیوں میں مصروف ہیں ‘‘۔
پھر فرمایا:
’’پھراب بعض دفعہ رشتے کرنے کے معاملات آجاتے ہیں تو اس کا یہ بھی مطلب ہے کہ ایسی جگہ رشتہ نہ کریں جہاں دین نہ ہو اور صرف دنیاوی روپیہ پیسہ نظر آرہا ہو۔ اس کو دیکھ کر رشتہ کررہے ہو کہ ہماری بیٹی کے حالات اچھے ہو جائیں گے یا ہمارا بیٹا کاروبار میں ترقی کرے گا تو یہ چیزیں بیشک دیکھیں لیکن ایسے خاندان کا جہاں رشتے کررہے ہیں یا ایسے لڑکے یا لڑکی کا جہاں رشتہ کررہے ہیں دین بھی دیکھیں۔ آنحضرتﷺ نے فرمایا ہے کہ رشتہ کرتے وقت سب سے اہم چیزدین ہے جو تمہیں دیکھنا چاہئے۔ بعض کہتے ہیں ہم نے اس خاندان کو دیکھا ہے۔ بڑا نیک خاندان تھا یہ تھا وہ تھا اور اس کے باوجود ایسے حالات ہو گئے۔ تو آج کل تو لڑکے کی اپنی دینی حالت کو بھی دیکھنا چاہئے۔ ہر جگہ حالات ایک جیسے ہیں۔ دنیا اتنا زیادہ دنیاداری میں پڑ چکی ہے کہ جب تک خود لڑکے کی تسلی نہ ہو جائے، کسی قسم کے رشتے نہیں کرنے چاہئیں کہ صرف پیسہ ہے اس کو دیکھ کر رشتہ کر لیا۔ ایسے بہت سارے رشتے تکلیف دہ ثابت ہوئے ہیں۔ لیکن اگر صرف دنیا دیکھیں گے تو یہ بچیوں کو دین سے دور کرنے والی بات ہو گی۔ کئی ایسی بچیاں ہیں جو ایسے رشتوں کی وجہ سے جماعت سے تو کٹی ہیں، اپنے گھر والوں سے بھی کٹ گئی ہیں۔ ان سے بھی وہ ملنے نہیں دیتے۔ پس صرف روپیہ پیسہ دیکھ کر رشتے نہیں کرنے چاہئیں۔ اللہ سے دعا کر کے ہمیشہ رشتے ہونے چاہئیں اور اسی طرح اور بھی قتل اولاد کی بہت ساری مثالیں ہیں۔ جہاں جہاں تربیت میں کمی ہے وہ قتل اولاد ہی ہے۔
پس ہمیشہ اولاد کی فکر کے ساتھ تربیت کرنی چاہئے اور ان کی رہنمائی کرنی چاہئے۔ عورتوں کو اپنے گھروں میں وقت گزارنا چاہئے۔ مجبوری کے علاوہ جب تک بچوں کی تربیت کی عمر ہے ضرورت نہیں ہے کہ ملازمتیں کی جائیں۔ کرنی ہیں تو بعد میں کریں۔ بعض مائیں ایسی ہیں جو بچوں کی خاطر قربانیاں کرتی ہیں حالانکہ پروفیشنل ہیں، ڈاکٹر ہیں اور اچھی پڑھی لکھی ہیں لیکن بچوں کی خاطر گھروں میں رہتی ہیں اور جب بچے اس عمر کو چلے جاتے ہیں جہاں ان کو ماں کی فوری ضرورت نہیں ہوتی، اچھی تربیت ہو چکی ہوتی ہے تو پھر وہ کام بھی کر لیتی ہیں۔ تو بہرحال اس کے لئے عورتوں کو قربانی کرنی چاہئے۔ اللہ تعالیٰ نے عورت کو جو اعزاز بخشا ہے کہ اس کے پاؤں کے نیچے جنت ہے وہ اسی لئے ہے کہ وہ قربانی کرتی ہے۔ عورت میں قربانی کا مادہ بہت زیادہ ہوتا ہے۔ جو عورتیں اپنی خواہشات کی قربانی کرتی ہیں ان کے پاؤں کے نیچے جنت ہے‘‘۔ (مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل 15؍مئی 2015ء)
حضورایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزنےجلسہ سالانہ آسٹریلیا 2006ء کے موقع پرعورت کے مقام کے حوالہ سے نصائح کرتے ہوئے ارشادفرمایا:
’’یہ آپ کی تربیت ہی ہے جو آپ کے بچوں کو اس دنیا میں بھی جنت کا وارث بنا سکتی ہے اور اگلے جہان میں بھی۔ بچوں کے یہ عمل اور آپ کے بچوں کی یہ اعلیٰ تربیت ہی ہے جو ہر وقت بچو ں کو خدا سے جوڑے رکھے گی اور بچوں کو بھی آپ کے لئے دعائیں کرنے کی عادت پڑے گی۔ تو بچوں کی جو آپ کے لئے دعائیں ہیں وہ آپ کو بھی اگلے جہان میں جنت کے اعلیٰ درجوں تک لے جانے کا باعث بن رہی ہوں گی۔
پس اگر احمدی بچوں کی مائیں اپنی ذمہ داریوں کو سمجھنے والی بنی رہیں۔ آج اگر آپ اپنی ذ مہ داریوں کو صحیح رنگ میں ادا کرتی رہیں، آپ کے قول اور فعل میں کوئی تضاد نہ ہو۔ آپ کی ہر بات سچ اور صرف سچ پر بنیاد رکھنے والی بنی رہی تو جماعت احمدیہ کی آئندہ نسلیں انشاء اللہ، اللہ سے تعلق جوڑنے والی نسلیں رہیں گی۔ پس ہر وقت اپنے ذہنوں میں اپنے اس مقام کو بٹھائے رکھیں اور اپنی عبادتوں اور اپنے عملی نمونے کے اعلیٰ معیار حاصل کرنے کی کوشش کرتی رہیں۔ قرآن کریم کے جتنے حکم ہیں ان پر عمل کرنے کی کوشش کرتی رہیں۔ تمام اعلیٰ اخلاق جن کی طرف ہمیں اللہ تعالیٰ نے توجہ دلائی ہے انہیں حاصل کرنے کی کوشش کریں۔ ہمیشہ نیکیاں بجا لانے کے ساتھ ساتھ نیکیوں کی تلقین بھی کرتی رہیں۔ برائیوں کو ترک کرنے والی بنیں اور پھر اپنے ماحول میں برائیوں کو روکنے والی بنیں۔ معاشرے میں بھی برائیاں پھیلنے نہ دیں۔ آپس میں ایک دوسرے سے حسن سلوک سے پیش آئیں۔ اپنی رنجشوں اور اپنی ناراضگیوں کو بھلا دیں۔ عام طور پر دیکھا گیا ہے کہ عورتیں زیادہ دیر تک اپنی رنجشوں کو دلوں میں بٹھائے رکھتی ہیں۔ اگر آپ کے دل میں بغض و کینہ پلتے رہے توپھرخدا تعالیٰ تو ایسے دلوں میں نہیں اترتا۔ ایسے دلوں کی عبادت کے معیاروہ نہیں ہوتے جو خدا تعالیٰ چاہتا ہے‘‘۔ (جلسہ سالانہ آسٹریلیا15 اپریل2006ء خطاب از مستورات مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل 12؍جون2015ء)
آگے چل کر فرمایا’’پھر چھوٹے بچوں سے شفقت کا سلوک کرنا چاہئے۔ جیساکہ ایک حدیث میں عورت کی جو خصوصیات بیان کی گئیں ہیں ان میں آیا ہے کہ بچوں سے شفقت کرتی ہیں اور خاوندوں کی فرمانبردارہیں تاکہ اُن کی تربیت بھی اچھی ہو، اُن کی اُٹھان اچھی ہو اور وہ معاشرے کا مفید وجود بن سکیں ‘‘۔ (جلسہ سالانہ جرمنی خطاب ازمستورات فرمودہ23؍اگست2003ء۔ مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل18نومبر2005ء)
نیز فرمایا:
’’بچوں کی حفاظت اور تربیت کی بہت بڑی ذمہ داری عورت پر ہے۔ پس ہر احمدی عورت کو اس بات کو سامنے رکھنا چاہئے‘‘۔ (جلسہ سالانہ جرمنی خطاب از مستورات 25؍جون 2011ء۔ مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل 13؍اپریل2012ء)
عورت بحیثیت گھر کی نگران
حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نےجلسہ سالانہ جرمنی کے موقعہ پر مستورات سے خطاب کرتےہوئےانہیں ان کی ذمہ داریوں کی طرف توجہ دلاتے ہوئے فرمایا:
’’عورت اپنے خاوندکے گھرکی نگران ہے۔ اُس کی دیکھ بھال، صفائی، سُتھرائی، ٹکاؤ، گھر کا حساب کتاب چلانا، خاوند جتنی رقم گھر کے خرچ کے لئے دیتاہے اُسی میں گھر چلانے کی کوشش کرنا، پھر بعض سگھڑ خواتین ایسی ہوتی ہیں جو تھوڑی رقم میں بھی ایسی عمد گی سے گھر چلارہی ہوتی ہیں کہ دیکھ کر حیرت ہوتی ہے کہ کس طرح اتنی تھوڑی رقم میں اس عمدگی سے گھر چلا رہی ہیں اور اگر معمول سے بڑھ کر رقم ملے تو پس انداز بھی کرلیتی ہیں، بچا بھی لیتی ہیں اور اس سے گھر کے لئے کوئی خوبصورت چیز بھی خرید لیتی ہیں یا پھر بچیوں کے جہیز کے لئے کوئی چیز بنا لی۔ تو ایسی مائیں جب بچوں کی شادی کرتی ہیں تو حیرت ہوتی ہے کہ اتنی تھوڑی آمدنی والی نے ایسا اچھا جہیز کس طرح اپنی بچیوں کو دے دیا۔ اس کے مقابل پر بعض ایسی ہیں جن کے ہاتھوں میں لگتا ہے کہ سوراخ ہیں۔ جتنی مرضی رقم ان کے ہاتھوں میں رکھتے چلے جاؤ، پتہ ہی نہیں چلتا کہ پیسے کہاں گئے۔ اچھی بھلی آمدنی ہوتی ہے اور گھروں میں ویرانی کی حالت نظر آرہی ہوتی ہے۔ بچوں کے حلیے، ان کی حالت ایسی ہوتی ہے لگتا ہے کہ جیسے کسی فقیر کے بچے ہیں۔ ایسی ماؤں کے بچے پھر احساسِ کمتری کا بھی شکار ہو جاتے ہیں اور پھر بڑھتے بڑھتے ایسی حالت کو پہنچ جاتے ہیں جب وہ بالکل ہی ہاتھوں سے نکل جائیں اور اس وقت پچھتانے کا کوئی فائدہ نہیں ہوتا۔
پس اللہ کے رسول نے آپ کو متنبہ کردیا ہے، وارننگ دے دی ہے کہ اگر تم اپنے خاوندوں کے گھروں کی صحیح رنگ میں نگرانی نہیں کرو گی توتمہیں پوچھا جائے گا، تمہاری جواب طلبی ہوگی اور جیسا کہ میں نے اوپر کہا ہے اس کے نتائج پھر اس دنیا میں بھی ظاہر ہونے لگ جاتے ہیں۔ اس لئے اب تمہارے لئے خوف کا مقام ہے۔ ہر عورت کو اپنے گھر کی طرف توجہ دینی چاہئےاور جب آپ اپنے خاوندوں کے گھروں کی نگرانی کے اعلیٰ معیار قائم کریں گی، بچوں کا خیال رکھیں گی، خاوند کی ضروریات کا خیال رکھیں گی اور ان کا کہنا ماننے والی ہوں گی تو ایسی عورتوں کو اللہ کا رسول اتنا ہی ثواب کا حق دار قرار دے رہا ہے جتنا کہ عبادت گزار مرد اور اس کی راہ میں قربانی کرنے والے مرد کو ثواب ملے گا اور پھر ساتھ ہی جنت کی بھی بشارت ہے۔
پھر ایک حدیث میں آتا ہے کہ:۔
’’جس عورت نے پانچوں وقت کی نماز پڑھی اور رمضان کے روزے رکھے اور اپنے آپ کو بُرے کاموں سے بچایا اور اپنے خاوند کی فرمانبرداری کی اور اُس کا کہنا مانا، ایسی عورت کو اختیار ہے کہ جنت میں جس دروازے سے چاہے داخل ہوجائے‘‘۔ (مجمع الزوائد۔ کتاب النکاح۔ باب فی حق الزوج علی المرأ ۃ) (جلسہ سالانہ جرمنی خطاب ازمستورات فرمودہ 23؍اگست 2003ء۔ مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل 18نومبر 2005ء)
حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے خواتین کو ان کی ذمہ داریوں کی طرف توجہ دلاتے ہوئے31 جولائی2004ءکو جلسہ سالانہ برطانیہ کے موقعہ پر خطاب کرتے ہوئےفرمایا:
’’جو عورتیں اپنے گھروں کی حفاظت کرنے والیاں ہیں، اپنے خاوندوں کی وفادار اور اولاد کی صحیح تربیت کرنے والیاں ہیں اُن کے متعلق اللہ تعالیٰ کے رسولﷺ کیا فرماتے ہیں۔ اس کی وضاحت اس حدیث سے ہوتی ہے۔
اسماء ؓ بنت یزید انصاریہ سے روایت ہے کہ وہ آنحضورﷺ کی خدمت میں حاضرہوئیں۔ اس وقت آنحضورﷺ صحابہ کے درمیان تشریف فرما تھے۔ وہ کہنے لگیں :آپ پر میرے ماں باپ فدا ہوں۔ میں آپﷺ کے پاس مسلمان عورتوں کی نمائندہ بن کر آئی ہوں۔ میری جان آپﷺ پر فدا ہو۔ شرق و غرب کی تمام عورتیں میر ی اس رائے سے اتفاق کرتی ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے آپﷺ کو حق کے ساتھ مردوں اور عورتوں کے لئے بھیجا ہے۔ ہم آپﷺ پر ایمان لائیں اور اس خدا پر بھی جس نے آپﷺ کو معبوث فرمایا۔ ہم عورتیں گھر میں ہی قید اور محصورہوکر رہ گئی ہیں۔ ہم آپ مردوں کی خواہشات کی تکمیل کا سامان کرتی ہیں اور آپ کی اولاد سنبھالے پھرتی ہیں اور آپ مردوں کے گروہ کو جمعہ، نماز باجماعت، عیادت مریضان، جنازوں پر جانا اور حج کے باعث ہم پر فضیلت حاصل ہے۔ اس سے بڑھ کر جہاد کرنا بھی ہے۔ آپ میں سے جب کوئی حج کرنے، عمرہ کرنے، یا جہاد کرنے کے لئے چل پڑتا ہے تو ہم آپ کے اموال کی حفاظت کرتی ہیں۔ لباس کے لئے روئی کاتتی اور آپ کی اولا د کو پالتی ہیں۔ تویا رسول اللہ پھر بھی ہم آپ کے ساتھ اجر میں برابر کی شریک نہیں ہیں۔ حضورﷺ نے اپنا رُخِ مبارک صحابہ کی طرف پھیرا اور فرمایا کہ کیا تم نے دین کے معاملہ میں اپنے مسئلہ کو اس عمدگی سے بیان کرنے میں اس عورت سے بہتر کسی کی بات سنی ہے؟ صحابہ نے عرض کیا: یا رسول اللہ! ہمیں یہ ہرگز خیال نہ تھاکہ ایک عورت ایسی(گہری) سو چ رکھتی ہے۔ آنحضورﷺ اس کی طرف متوجہ ہوئے اور فرمانے لگے کہ: اے عورت !واپس جاؤ اور دوسری سب عورتوں کو بتا دو کہ کسی عورت کے لئے اچھی بیوی بننا، خاوند کی رضا جوئی اور اس کے موافق چلنا، مردوں کی ان تمام نیکیوں کے برابر ہے۔ وہ عورت واپس گئی اور خوشی سے لَا اِلَہَ اِلَّا اللّٰہ اور اَللّٰہُ اَکْبَرُ کے الفاظ بلند کرتی گئی۔ (تفسیر الدر المنثور)
تو فرمایا :
’’ جو اس طرح تعاون کرنے والی اور گھروں کو چلانے والیاں ہیں اور اچھی بیویاں ہیں ان کا اجر بھی ان کے عبادت گزار خاوندوں اور اللہ کی خاطر جہاد کرنے والے خاوندوں کے برابر ہے۔ تو دیکھیں عورتوں کو گھر بیٹھے بٹھائے کتنے عظیم اجروں کی خوشخبری اللہ تعالیٰ دے رہا ہے، اللہ کا رسول دے رہا ہے‘‘۔ (جلسہ سالانہ یوکے خطاب ازمستورات فرمودہ 31؍جولائی 2004ء۔ مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل 24؍اپریل 2015ء)
ایک اور موقع پر حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزنے قرآن کریم کے حوالہ سے عورتوں کو نصیحت فرماتے ہوئے فرمایا:
’’ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ: فَالصّٰلِحٰتُ قٰنِتٰتٌ حٰفِظٰتٌ لِّلْغَیْبِ بِمَا حَفِظَ اللّٰہُ۔ (النساء:35) پس نیک عورتیں فرمانبردار اور غیب میں بھی ان چیزوں کی حفاظت کرنے والی ہوتی ہیں جن کی حفاظت کی اللہ تعالیٰ نے تاکید کی ہے۔ غیب میں بھی وہی نیکیوں پر قائم رہ سکتی ہے یا رہ سکتا ہے، وہی شخص فرمانبردار ہو سکتا ہے وہی عورت فرمانبردار ہو سکتی ہے، وہی اپنے اور اپنے خاوندوں کے رازوں کی حفاظت کر سکتی ہے جس کو اللہ تعالیٰ پر یقین ہو، اُس کا خوف ہو۔ اللہ تعالیٰ کی خشیت اُس کے دل میں ہو۔
غیب میں جن چیزوں کی حفاظت کا حکم ہے اُن میں اپنے خاوند کے بچوں کی تربیت کی نگرانی اور اُن کی دیکھ بھال بھی ہے۔ یہ نہیں کہ خاوند گھر سے باہر اپنے کام کیلئے نکلا تو عورت نے بھی اپنا بیگ اٹھایا اور بچوں کو گھر میں چھوڑا اور اپنی مجلسیں لگانے کیلئے نکل پڑیں۔ یا بچوں کی تربیت کی طرف صحیح توجہ نہیں دی۔ ایک بہت بڑی ذمہ داری عورت پر بچوں کی تربیت کی ہے۔ اس کو پورا نہ کرکے وہ نہ صالحات میں شمار ہوسکتی ہیں نہ قانتات میں شمار ہوسکتی ہیں، نہ اُس نسل کی حفاظت کا حق ادا کرسکتی ہیں جس کی حفاظت کی ذمہ داری اللہ تعالیٰ نے اُس پر ڈالی ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ عورت اپنے گھر کی نگران ہے اور اس کےبارے میں پوچھا جائے گا۔ (بخاری کتاب الاستقراض واداالدین 133باب العبدراع فی مال سیدہ133حدیث 2409)(جلسہ سالانہ جرمنی خطاب ازمستورات فرمودہ 25؍جون 2011ء مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل 13؍اپریل 2012ء)
امّ المومنین حضرت امّاں جانؓ کی نصائح
حضورِ انور حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ نے سالانہ اجتماع لجنہ اماء اللہ برطانیہ کے موقعہ پر عورتوں سے امّ المومنین حضرت امّاں جان ؓ کی نصائح کے حوالہ سےخطاب کرتے ہوئےفرمایا:
’’اس وقت میں امّ المؤمنین حضرت اماں جان رضی اللہ عنہاکی بعض نصائح بھی آپ کے سامنے رکھتا ہوں جو آپؓ نے اپنی اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی بڑی بیٹی حضرت نواب مبارکہ بیگم صاحبہؓ کی رخصتی کے وقت اُنہیں کی تھیں۔ اُن میں سے بعض باتیں آپ کے سامنے رکھوں گا۔ آپؓ نے فرمایا کہ:اپنے خاوند سے چھپ کر یا وہ کام جسے خاوند سے چھپانے کی ضرورت سمجھو، ہر گز کبھی نہ کرنا۔ شوہر نہ دیکھے مگر خدا دیکھتا ہے اور بات آخرکار ظاہر ہو کر عورت کی وقعت کھو دیتی ہے۔ اس کی عزت اور احترام نہیں رہتا۔ فرمایا اگر کوئی کام خاوند کی مرضی کے خلاف سرزد ہوجائے تو ہرگز کبھی نہ چھپانا۔ صاف کہہ دینا کیونکہ اسی میں عزت ہے اور چھپانے میں آخربےعزتی اور بے وقری کا سامنا ہوتا ہے۔ عورت کا وقار گرجاتا ہے۔
پھر فرمایا کہ :کبھی خاوند کے غصے کے وقت نہ بولنا۔ اگر بچہ یا کسی نوکر پر خفا ہو اور تمہیں معلوم ہو کہ خاوند حق پر نہیں ہے، خاوند غصے کی حالت میں ہے، کسی بچے کو ڈانٹ رہا ہے یا کسی اور کو کچھ کہہ رہا ہے اور تمہیں صاف نظر آرہا ہو کہ وہ غلط کر رہا ہے تب بھی اُس کے سامنے اُس وقت نہ بولو۔
فرمایا کہ: غصے میں مرد سے بحث کرنے والی عورت کی عزت نہیں رہتی۔ اکثر جھگڑے اسی لئے بے صبری کی وجہ سے ہورہے ہوتے ہیں کہ فوراً ردّ عمل دکھاتی ہیں اور جھگڑے بڑھتے چلے جاتے ہیں۔ فرمایا کہ اگر غصے میں اس ٹوکنے کی وجہ سے تمہیں بھی کچھ کہہ دے تو تمہاری بڑی بے عزتی ہوجائے گی۔ بعد میں جب خاوند کا غصہ ٹھنڈا ہوجائے تو بے شک آرام سے اُس کی غلطی کی نشاندہی کر دینی چاہئے۔ اصلاح بھی فرض ہے۔
مرد اور عورتوں کو یہ نسخہ بھی یاد رکھنا چاہئے جس کا حدیث میں ذکر ملتا ہے کہ غصے کی حالت میں کھڑے ہوتو بیٹھ جاؤ یا وضو کرو تو غصہ ٹھنڈا ہوجاتا ہے۔ میرے پاس جو بعض شکایات آتی ہیں تو میں مردوں کو یہی کہا کرتا ہوں کہ یہاں اس ملک میں تو پانی کی کوئی کمی نہیں۔ تم اپنے شاور یا پانی کی ٹوٹی کھولا کرو اور اُس میں سر نیچے رکھ دیا کرو تو غصہ ٹھنڈا ہوجائے گا۔
بہر حال حضرت اماں جانؓ پھر اپنی بیٹی کو یہ نصیحت فرماتی ہیں کہ: خاوند کے عزیزوں کو اور عزیزوں کی اولاد کو اپنا جاننا۔ جیسا کہ حدیث میں بھی ذکر آگیا ہے۔ حضرت مسیح موعود ؑ کے حوالے سے بھی میں نے بات کی ہے کہ ایک دوسرے کے رحمی رشتوں کو اپنا سمجھو۔ فرمایا کہ کسی کی برائی تم نہ سوچنا خواہ تم سے کوئی برائی کرے تم سب کا بھلادل میں بھی چاہنا۔ تمہارے سے کوئی برائی کرتا ہے کرے لیکن تم اپنے دل میں کبھی کسی کی برائی کا خیال نہ لانااور عمل سے بھی بدی کا بدلہ نہ لینا۔ دیکھنا پھر خدا ہمیشہ تمہارا بھلا کرے گا۔
پھر آپؓ اکثر بچوں اور بچیوں کو یہ نصیحت بھی فرمایا کرتی تھیں کہ: اپنے نئے گھر میں جارہی ہو وہاں کوئی ایسی بات نہ کرنا جس سے تمہارے سسرال والوں کے دلوں میں نفرت اور میل پیدا ہو اور تمہاری اور تمہارے والدین کے لئے بدنامی کا باعث ہو۔ پس سسرال کے معاملات میں کبھی دخل نہیں دینا چاہئے۔ جو اُن کے معاملے ہورہے ہیں، ہونے دو۔ نہ ہی ساس کی اور نندوں کی باتیں خاوند سے شکوے کے رنگ میں کرنی چاہئیں۔ حضرت نواب مبارکہ بیگم صاحبہؓ جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بڑی بیٹی تھیں جیسا کہ میں نے کہا انہوں نے حضرت خلیفہ اولؓ کی بھی ایک نصیحت بیان فرمائی ہے۔ جو حضرت خلیفہ اولؓ اُن کو بھی کرتے تھے اور دوسری بچیوں کوبھی کیا کرتے تھے اور میں سمجھتا ہوں کہ آج یہ نصیحت اور اس پر جو عمل ہے پہلے سے زیادہ اہم ہےاور بارہ تیرہ سال کی جو بچیاں ہیں، جوانی کی عمر میں قدم رکھ رہی ہوتی ہیں، اُن کو ضرور یہ دعا کرنی چاہئے۔ حضرت خلیفہ اولؓ نے آپؓ کو کئی مرتبہ فرمایا کہ :دیکھو اللہ تعالیٰ کے آگے کوئی شرم نہیں، تم چھوٹی ضرور ہو مگر خدا سے دعا کرتی رہا کرو کہ اللہ مبارک اور نیک جوڑا دے‘‘۔ (سالانہ اجتماع لجنہ اماء اللہ یوکے خطاب فرمودہ 4؍اکتوبر2009ء۔ مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل 18؍دسمبر 2009ء)
بیٹیاں آگ سے نجات کا ذریعہ
بیٹیوں کی پیدائش پر پیدا ہونے والے بے جا عائلی مسائل کے ضمن میں حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزنے اپنے ایک خطبہ جمعہ میں نصیحت کرتے ہوئےفرمایا:
’’آج میں سب سے پہلے جو حدیث پیش کروں گا اس کا تعلق دشمنوں کے ساتھ نہیں بلکہ عائلی زندگی کے صبر کے ساتھ ہے کہ خاوند اور بیوی کو عائلی زندگی کس طرح گزارنی چاہئے۔ کئی عورتوں کے بھی خطوط آتے ہیں اور اگر ملاقات کا موقع مل جائے تو اس میں بھی شکایات کرتی ہیں کہ ہماری بیٹیاں ہیں مثلاً اور بیٹا کوئی بھی نہیں جس کی وجہ سے خاوند اور سسرال مستقل طعنہ دیتے رہتے ہیں۔ گھریلو زندگی اجیرن ہوئی ہوئی ہے۔ یا بیٹیاں خود بھی لکھ دیتی ہیں کہ ہمارے باپ کا ہمارے ساتھ بیٹی ہونے کی وجہ سے نیک سلوک نہیں ہے اور ہماری زندگی مستقل اذیت میں ہے۔
اس بارے میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک حدیث ایسی ہے جو لوگوں کے سامنے رکھنا چاہتا ہوں۔ کیونکہ بہت سارے ایسے ہیں جودینی علم رکھتے ہیں، جماعتی کام بھی کرنے والے ہیں لیکن پھر بھی گھروں میں ان کے سلوک اچھے نہیں ہوتے۔ اس حدیث کے سننے کے بعد میں سمجھتا ہوں کہ کوئی انسان جس میں ہلکی سی بھی ایمان کی رمق ہو، اپنی بیٹیوں کو بیوی یا بیٹیوں کے لئے طعنہ کا ذریعہ نہیں بنائے گا۔
حضرت عائشہ ؓ بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ: جو صرف بیٹیوں کے ذریعے سے آزمائش میں ڈالا گیا اور اس نے اس پر صبر کیا تو وہ بیٹیاں اس کے اور آگ کے درمیان روک ہوں گی‘‘۔ (سنن ترمذی۔ کتاب البرو الصلۃ۔ باب ماجاء فی النفقۃ علی البنات والاخوات)
دنیا میں کون شخص ہے جس سے چھوٹی موٹی غلطیاں اور گناہ سرزد نہ ہوتے ہوں۔ کون شخص ہے جو اللہ تعالیٰ کی پناہ میں نہیں آنا چاہتا۔ یقینا ہر ایک اس پناہ کی خواہش رکھتا ہے۔ تو بیٹیوں والوں کو یہ خوشخبری ہے کہ مومن بیٹیوں کی وجہ سے اللہ تعالیٰ کی پناہ میں آ جائے گا۔ بعض مسائل پیدا ہوتے ہیں ان کو حل کرنا اور اس معاشرے میں بھی ہمیں بیٹیوں کی وجہ سے بہت سارے مسائل نظر آتے ہیں ان کو برداشت کرنا اور کسی بھی طرح بیٹیوں پر یہ اظہار نہ ہونے دینا یا ماؤں کو بیٹیوں کی وجہ سے نشانہ نہ بنانا، یہ ایک مو من کی نشانی ہے اور اس کی وجہ سے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ پھر یہ باتیں جو ہیں اس کے اور آگ کے درمیان روک بن جاتی ہیں ‘‘۔ (خطبہ جمعہ مؤرخہ 19نومبر 2010ء بمقام مسجد بیت الفتوح لند ن)
فریقین کےدوستوں اور سہیلیوں کا کردار
میاں بیوی کے درمیان لڑائی جھگڑے اور عائلی مسائل میں فریقین کے دوست اور سہیلیاں بھی ایک بڑا کردار ادا کرتے ہیں۔ حضور ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزاپنے ایک خطبہ جمعہ میں فرماتے ہیں :
’’میاں بیوی کے دوستوں اور سہیلیوں کی وجہ سے بعض مسائل پیدا ہو رہے ہوتے ہیں۔ تو ان دوستوں کے اپنے کردار ایسے ہوتے ہیں کہ آپس میں میاں بیوی کے تعلقات غیر محسوس طریقے سے وہ بگاڑ رہے ہوتے ہیں۔ تو یہ شیطان ہے جو غیر محسوس طریقوں پر ایسے گھروں کو اپنے راستوں پرچلانے کی کوشش کرتاہے‘‘۔ (خطبہ جمعہ12؍دسمبر2003ءبمقام مسجد بیت الفتوح، لندن۔ مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل 06؍فروری2004ء)
اسی حوالہ سے ایک اور موقع پر حضور ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزایک روایت بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں :
’’سلیمان بن عمرو بن احوص اپنے والد عمرو بن احوص رضی اللہ عنہ کے واسطہ سے ایک لمبی روایت کرتے ہیں جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے حجۃالوداع کے موقع پر آپؑ نے فرمایا تھا اس میں کچھ حصہ جو عورتوں سے متعلق ہے وہ یہ ہے کہ : سنو! تمہارا تمہاری بیوی پر ایک حق ہے، اسی طرح تمہاری بیوی کا بھی تم پر ایک حق ہے تمہارا حق تمہاری بیویوں پر یہ ہے کہ وہ تمہارے بستروں پر ان لوگوں کو نہ بٹھائیں جن کو تم ناپسند کرتے ہو اور نہ وہ ان لوگوں کو تمہارے گھروں میں آنے کی اجازت دیں جن کو تم ناپسند کرتے ہو، اور تمہاری بیویوں کا تم پر یہ حق ہے کہ تم ان سے ان کے کھانے کے معاملے میں اور ان کے لباس کے معاملے میں احسان کا معاملہ کرو۔ (ترمذی کتاب الرضاع باب ما جاء فی حق المرأۃ علی زوجھا)
اس روایت میں یہ بیان ہوا ہے کہ گھر کے ماحول کو انصاف اور عدل کے مطابق چلانا ہے تو میاں اور بیوی دونوں کو ایک دوسرے کا خیال رکھنا ہو گا ان کے حقوق کی حفاظت کرنی ہو گی، عورتوں کو کس بات کا خیال رکھنا چاہئے کہ ان کے گھروں میں آنے والیاں عورتوں کی سہیلیاں ہی ہوتی ہیں ایسی نہ ہوں جن کو خاوند گھروں میں آنا پسند نہیں کرتے اور اپنی دوستیاں بھی ان سے ناجائز یا جائز نہ بنائیں، اگر خاوند پسند نہیں کرتا کہ گھروں میں یہ لوگ آئیں تو نہ آئیں۔ ہو سکتا ہے کہ بعض گھروں کے معاملے میں خاوند کو علم ہو اس کی وجہ سے وہ پسند نہ کرتا ہو کہ ایسے لو گ گھروں میں آئیں۔ یہ باتیں ایسی ہی ہیں کہ خاوند کی خوشی اور رضا مندی کی خاطر عورتوں کو برا ماننا بھی نہیں چاہئے اور جو خاوند کہتے ہیں مان لینا چاہئے۔ اس حدیث میں دوسری بات یہ بیان کی گئی ہے کہ خاوندوں کا بھی یہ فرض ہے کہ وہ اہل و عیال کا جو حق ہے وہ ادا کریں، گھر کے اخراجات اور ان کے لباس وغیرہ کا خیال رکھیں ‘‘۔ (خطبہ جمعہ فرمودہ 5؍ مارچ 2004ء بمقام بیت الفتوح، لندن۔ مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل 19؍مارچ 2004ء)