عائلی مسائل اور اُن کا حل
اسلام مکمل ضابطۂ حیات
حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ نے ایک احمدی مسلمان عورت کی اہم ذمہ داریوں کی طرف توجہ دِلاتے ہوئے ارشاد فرمایا :
’’حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃوالسلام ہم میں جو تبدیلیاں پیدا کرنا چاہتے ہیں ان کو اپنی زندگیوں کا حصہ بنانے کی کوشش کرنی چاہئے۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں بے شمار احکامات دئیے ہیں۔ بعض جگہ صرف مومنو !یہ کام کرو کہہ کر مخاطب کیا ہے۔ بعض جگہ عورت، مرد دونوں کو علیحدہ علیحدہ مخاطب کرکے احکامات عطا فرمائے ہیں۔ جہاں بھی یہ حکم ہے کہ اے مومنو یہ کام کرو اس سے مراد مرد و عورت دونوں ہیں اور اس بات کی وضاحت بھی فرمادی کہ جو احکامات قرآن کریم میں ہیں وہ تم سب مومن مردوں اور مومن عورتوں پر عائد ہوتے ہیں اس لئے اُن کی بجا آوری کی کوشش کرو اور اگر تم یہ اعمال صالح بجا لاؤ گے تو اللہ تعالیٰ ہمیشہ کی زندگی بخش انعامات سے نوازے گا۔ جو اس زندگی میں بھی تمہیں اللہ تعالیٰ کے انعامات سے بھر دیں گے اور آخرت میں بھی‘‘۔
پھر فرمایا:
’’قرآن کریم ایک مکمل تعلیم ہے اس کو سیکھیں اور اس پرعمل کریں کسی قسم کے احساس کمتری میں مبتلا نہ ہوں۔ بلکہ جیسا کہ میں نے کہا کہ اس تعلیم پرعمل کرتے ہوئے دنیا کو اس طرف بلائیں ایسے عمل دکھائیں تاکہ آپ کے اعلیٰ معیار دیکھ کر غیر عورتیں آپ سے رہنمائی حاصل کریں۔ دنیا کی عورتیں آپ کے پاس یہ سوال لے کر آئیں کہ گو ہم بعض دنیاوی علوم میں آگے بڑھی ہوئی ہیں بظاہر ہم آزاد ماحول میں اپنی زندگیاں گزار رہی ہیں لیکن اس کے باوجود ہم دل کا سکون اور چین حاصل نہیں کرسکیں۔ ہمارے اندر ایک بے چینی ہے ہمارے خاندانوں میں بٹوارہ ہے ایک وقت کے بعد خاوند بیویوں میں اختلافات کی خلیج بڑھتی چلی جاتی ہے۔ جس سےبچے بھی متاثر ہوتے ہیں اور سکون اور یکسوئی سے نہیں رہ سکتے جب کہ تمہارے گھروں کے نقشے ہمارے گھروں سے مختلف نظر آتے ہیں۔ تمہارے گھر ہمیں پرسکون نظر آتے ہیں ہم تمہیں ماڈل سمجھتے ہیں۔ ہمیں بتاؤ کہ ہم یہ سکون کس طرح حاصل کریں ؟یہ غیروں کو آپ کے پاس آکر سوال پوچھنا چاہیے۔ پھر آپ بتائیں کہ اللہ تعالیٰ نے انسان کو جس مقصد کے لئے پیدا کیا ہے اُسے تم بھول رہی ہو۔ نہ مرد اس پرعمل کر رہے ہیں نہ عورتیں اُس پرعمل کر رہی ہیں اور وہ ہے اس کی عبادت کرنا اور نیک اور صالح اعمال بجا لانااور یہ تمہیں حقیقی اسلام میں ہی نظر آئے گا‘‘۔ (جلسہ سالانہ یوکے، خطاب از مستورات فرمودہ ۲۹ جولائی ۲۰۰۶ء)
مزیدفرمایا:
’’حدیث میں آتا ہے کہ خاوند کو چاہئے کہ اللہ کی رضا حاصل کرنے کے لئے بیوی کے منہ میں لقمہ اگر ڈالتا ہے تو اس کا بھی ثواب ہے۔ اب اس کا مطلب صرف یہ نہیں کہ صرف لقمہ ڈالنا بلکہ بیوی بچوں کی پرورش ہے، ان کی ضروریات کو پورا کرنا ہے۔ ایک مرد کا فرض ہے کہ اپنے گھر کی ذمہ داری اٹھائے۔ لیکن اگر یہی فرض وہ اس نیت سے ادا کرتا ہے کہ خداتعالیٰ نے میرے پر یہ ذمہ داری ڈالی ہے اور خدا کی خاطر میں نے اپنی بیوی، جو اپنا گھر چھوڑ کے میرے گھر آئی ہے، اس کا حق ادا کرنا ہے، اپنے بچوں کا حق ادا کرنا ہے تو وہ ہی فرض ثواب بھی بن جاتا ہے۔ یہ بھی عبادت ہے۔ اگر یہ خیالات ہوں ہر احمدی کے تو آج کل کے جو عائلی جھگڑے ہیں، تُوتکار اور چھوٹی چھوٹی باتوں پر ناراضگیاں ہیں ان سے بھی انسان بچ جاتا ہے۔ بیوی اپنی ذمہ داریاں سمجھے گی کہ میرے پر یہ ذمہ داری ڈالی ہے کہ میں خاوند کی خدمت کروں، اس کا حق ادا کروں اور اگر اللہ تعالیٰ کی خاطر میں یہ کر رہی ہوں گی تو اس کا ثواب ہے۔ تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے دونوں فریقوں کو یہ بتا یا کہ اگر تم اس طرح کرو تو تمہارا یہ فعل بھی اللہ تعالیٰ کی رضا کی وجہ سے عبادت بن جائے گا۔ اس کا ثواب ملے گا۔ تو یہ چیزیں ہیں جو انسان کو سوچنی چاہئیں اور یہی چھوٹی چھوٹی چیزیں ہیں جو بعض گھروں کو جنت نظیر بنا دیتی ہیں ‘‘۔ (خطبہ جمعہ فرمودہ 13 مارچ2009ء بمقام بیت الفتوح، لند ن۔ مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل 3اپریل 2009ء)
عورت اور مرد ایک دوسرے کا لباس ہیں
حضور انور ایّدہ اللہ تعالیٰ نےارشادِ خداوندی کہ میاں بیوی ایک دوسرے کا لباس ہیں، کے ضمن میں اپنے ایک خطبہ جمعہ میں فرمایا:
’’گزشتہ خطبہ میں میں نے میاں بیوی کے تعلقات کا بھی مختصراً ذکر کیا تھا کہ بعض حالات میں کس طرح آپس کے اختلافات کی صورت میں ایک دوسرے پر گند اچھالنے سے بھی دونوں فریق باز نہیں رہتے اور یہ بات خداتعالیٰ کو سخت ناپسند ہے۔ اللہ تعالیٰ نے دونوں کو، میاں کو بھی اور بیوی کو بھی، کس طرح ایک دوسرے کی ذمہ داریوں کی ادائیگی کا احساس دلایا ہے۔ فرماتا ہے: ہُنَّ لِبَاسٌ لَّکُمۡ وَ اَنۡتُمۡ لِبَاسٌ لَّہُنَّ۔ (البقرۃ:188)
یعنی وہ تمہارا لباس ہیں اور تم ان کا لباس ہو۔ یعنی آپس کےتعلقات کی پردہ پوشی جو ہےوہ دونوں کی ذمہ داری ہے۔ قرآن کریم میں ہی خداتعالیٰ نے جو لباس کے مقاصد بیان فرمائے ہیں وہ یہ ہیں کہ لباس ننگ کو ڈھانکتا ہے، دوسرے یہ کہ لباس زینت کا باعث بنتا ہے، خوبصورتی کا باعث بنتا ہے، تیسرے یہ کہ سردی گرمی سے انسان کو محفوظ رکھتا ہے۔ پس اس طرح جب ایک دفعہ ایک معاہدے کے تحت آپس میں ایک ہونے کا فیصلہ جب ایک مرد اور عورت کر لیتے ہیں تو حتی المقدو ر یہ کوشش کرنی چاہئے کہ ایک دوسرے کو برداشت بھی کرنا ہے اور ایک دوسرے کے عیب بھی چھپانے ہیں۔ چھوٹی چھوٹی باتوں پر نہ مردوں کو بھڑکنا چاہئے اور نہ ہی عورتوں کو۔ بلکہ ایسے تعلقات ایک احمدی جوڑے میں ہونے چاہئیں جو اس جوڑے کی خوبصورتی کو دو چند کرنے والے ہوں۔ ایسی زینت ہر احمدی جوڑے میں نظر آئے کہ دوسروں کے لئے ایک نمونہ بن جائیں ‘‘۔
مزید فرمایا:
’’جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے بھی فرمایا ہے کہ یہ سب پردے اس وقت چاک ہوتے ہیں جب جوش اور غیظ و غضب میں انسان بڑھ جاتا ہے۔ اس لئے اسے دبانے کی ضرورت ہے۔ غصّہ کو دبانا وہ عمل ہے جو خداتعالیٰ نے پسند فرمایا ہے اور اسے نہ کرنے کا حکم دیا ہے۔ پس ہر احمدی جس نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی بیعت کرکے یہ عہد باندھا ہے کہ میں اپنی حالت میں پاک تبدیلی پیدا کروں گا، اپنے گھریلو تعلقات میں بہتری پیدا کرنے کی کوشش کروں گاتو اُس کو اس عہد کو پورا کرنے کی کوشش کرنی چاہئے۔
مجھے جب ایسے جھگڑوں کا پتہ لگتا ہے اور چھوٹی چھوٹی رنجشوں کے اظہار کرکے گھروں کے ٹوٹنے کی باتیں ہو رہی ہوتی ہیں۔ تو ہمیشہ ایک بچی کا واقعہ یاد آ جاتا ہےجس نے ایک جوڑے کو بڑا اچھا سبق دیا تھا۔ اُس کے سامنے ایک جوڑا لڑائی کرنے لگا یا بحث کرنے لگے یا غصّہ میں اونچی بولنے لگے تو وہ بچی حیرت سے ان کو دیکھتی چلی جا رہی تھی۔ خیر اُن کو احساس ہوا، انہوں نے اس سے پوچھا کہ تمہارے اماں ابا کبھی نہیں لڑے؟ ان کو غصہ کبھی نہیں آتا؟ اس نے کہا ہاں ان کو غصّہ تو آتا ہے لیکن جب امی کو غصّہ آتا ہے تو اباخاموش ہو جاتے ہیں اور جب میرے باپ کو غصّہ آتا ہے تو میری ماں خاموش ہو جاتی ہے۔ تو یہ برداشت جو ہے اسے پیدا کرنے کی ضرورت ہے۔ بعض دفعہ تو ان چھوٹی چھوٹی باتوں سے ابتداء میں ہی گھر ٹوٹنے شروع ہو جاتے ہیں۔ چند دن شادی کو ہوئے ہوتے ہیں اور فیصلہ یہ ہوتا ہے کہ ہمارے دل نہیں مل سکتے۔ حالانکہ رشتے کئی کئی سال سےقائم ہوتے ہیں اس کے بعد شادی ہوئی ہوتی ہےاور پھر اصل بات یہ ہے کہ یہ جب ایک دوسرے کے راز نہیں رکھتے، باتیں جب باہر نکالی جاتی ہیں تو باہر کے لوگ بھی جو ہیں مشورہ دینے والے بھی جو ہیں وہ اپنے مزے لینے کے لئے یا ان کو عادتاً غلط مشورے دینے کی عادت ہوتی ہے وہ پھر ایسے مشورے دیتے ہیں کہ جن سے گھر ٹوٹ رہے ہوتے ہیں۔ اس لئے مشورہ بھی ایک امانت ہے۔ جب ایسے لوگ، ایسے جوڑے، مرد ہوں یا عورت، لڑکا ہو یا لڑکی، کسی کے پاس آئیں تو ایک احمدی کا فرض ہے کہ ان کو ایسے مشورے دیں جن سے ان کے گھر جڑیں، نہ کہ ٹوٹیں ‘‘۔ (3 اپریل 2009 خطبہ جمعہ مسجدبیت الفتوح، لندن۔ مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل 24 اپریل 2009ء)
غصّہ پر قابو
عائلی مسائل کو پیدا ہونے سے روکنے کیلئےفریقین کا اپنے غصّہ پر قابو پانانہایت ضروری ہے۔ اِس ضمن میں حضور انور ایّدہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :
’’پس مرد اور عورت کو پھر میں یہ کہتا ہوں کہ پردہ پوشی بھی اس وقت ہوتی ہے جب غصّہ پر قابو ہو اور یہ اس وقت ہو گا جب خداتعالیٰ کا خوف ہو گا۔ اس لئے اللہ تعالیٰ نے ایک جگہ لباسِ تقویٰ کی طرف بھی توجہ دلائی ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے :
یٰبَنِیۡۤ اٰدَمَ قَدۡ اَنۡزَلۡنَا عَلَیۡکُمۡ لِبَاسًا یُّوَارِیۡ سَوۡاٰتِکُمۡ وَ رِیۡشًا ؕ وَ لِبَاسُ التَّقۡوٰی ۙ ذٰلِکَ خَیۡرٌ ؕ ذٰلِکَ مِنۡ اٰیٰتِ اللّٰہِ لَعَلَّہُمۡ یَذَّکَّرُوۡنَ۔ (الاعراف:27)
اے بنی آدم یقیناً ہم نے تم پر لباس اتارا ہے جو تمہاری کمزوریوں کو ڈھانپتا ہے اور زینت کے طور پر ہے اور رہا تقویٰ کا لباس تو وہ سب سے بہتر ہے۔ یہ اللہ تعالیٰ کی آیات میں سے کچھ ہیں تاکہ وہ نصیحت پکڑیں۔ یہاں پھر اس بات کا ذکر ہے جو میں پہلے بھی کر چکا ہوں کہ اللہ تعالیٰ نے تمہیں لباس دیا ہے۔ تمہارا ننگ ڈھانپنے کے لئے اور تمہاری خوبصورتی کے سامان کے لئے۔ یہ تو ظاہری سامان ہے جو ایک تو اللہ تعالیٰ نے اس کا ذکر فرمایا۔ انسان کو دوسری مخلوق سے ممتاز کرنے کے لئے ایک لباس دیا ہے جس سے اس کی زینت بھی ظاہر ہو اور اس کا ننگ بھی ڈھانپے۔ لیکن ساتھ ہی فرمایا کہ اصل لباس، لباسِ تقویٰ ہے۔
یہاں میں ایک اور بات کی بھی وضاحت کر دوں کہ ایک مومن کے اور ایک غیر مومن کے لباس کی زینت کا معیار مختلف ہوتا ہے اور کسی بھی شریف آدمی کے لباس کا، جو زینت کا معیار ہے وہ مختلف ہے۔ آج کل مغرب میں اور مشرق میں بھی فیشن ایبل Fashionable اور دنیا دار طبقے میں لباس کی زینت اُس کو سمجھا جاتا ہے بلکہ مغرب میں تو ہر طبقہ میں سمجھا جاتا ہے جس میں لباس میں سے ننگ ظاہر ہو رہا ہو اور جسم کی نمائش ہو رہی ہو۔ مرد کے لئے تو کہتے ہیں کہ ڈھکا ہوا لباس زینت ہے۔ لیکن مرد ہی یہ بھی خواہش رکھ رہے ہوتے ہیں کہ عورت کا لباس ڈھکا ہوا نہ ہو۔ اور عورت جو ہے، اکثر جگہ عورت بھی یہی چاہتی ہے۔ وہ عورت جسے اللہ تعالیٰ کا خوف نہیں ہوتا، اس کے پاس لباس تقویٰ نہیں ہے۔ اور ایسے مرد بھی یہی چاہتے ہیں۔ ایک طبقہ جو ہے مردوں کا وہ یہ چاہتا ہے کہ عورت جدید لباس سے آراستہ ہو بلکہ اپنی بیویوں کے لئے بھی وہی پسند کرتے ہیں تاکہ سوسائٹی میں ان کو اعلیٰ اور فیشن ایبل سمجھا جائے۔ چاہے اس لباس سے ننگ ڈھک رہا ہو یا نہ ڈھک رہاہو۔
لیکن ایک مومن اور وہ جسے اللہ تعالیٰ کا خوف ہے۔ چاہے مرد ہو یا عورت وہ یہی چاہیں گے کہ خدا کی رضا حاصل کرنے کے لئے وہ لباس پہنیں جو خد اکی رضا کے حصول کا ذریعہ بھی بنے اور وہ لباس اس وقت ہو گا جب تقویٰ کے لباس کی تلاش ہو گی۔ جب ایک خاص احتیاط کے ساتھ اپنے ظاہری لباسوں کا بھی خیال رکھا جا رہا ہو گا اور جب تقویٰ کے ساتھ میاں بیوی کا جو ایک دوسرے کا لباس ہیں اس کا بھی خیال رکھا جائے گا اور اسی طرح معاشرے میں ایک دوسرے کی عیب پوشی کرنے کے لئے آپس کے تعلقات میں بھی کسی اونچ نیچ کی صورت میں تقویٰ کو مدنظر رکھا جائے گا‘‘۔ (3 اپریل 2009 خطبہ جمعہ مسجدبیت الفتوح، لندن۔ مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل 24 اپریل 2009ء)
حضورایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزنے مذکورہ بالامضمون کوقرآنی تعلیمات کے حوالے سےذیل میں یوں بیان فرمایا:
’’ہُنَّ لِبَاسٌ لَّکُمۡ وَ اَنۡتُمۡ لِبَاسٌ لَّہُنَّ۔ (البقرۃ:188)
یعنی وہ تمہارا لباس ہیں اور تم ان کا لباس ہو۔ پھر یہ بھی حکم دیا کہ مرد اور عورت ایک دوسرے کے لباس ہیں یعنی مرد اور عورت ایک دوسرے کے رازداربھی ہیں۔ یہاں مردوں اور عورتوں دونوں کو حکم ہے۔ یہ رازداری ہمیشہ راز داری ہی رہنی چاہئے۔ یہ نہیں کہ کبھی جھگڑے ہوئے تو ایک دوسرے کی غیر ضروری باتوں کی تشہیر شروع کر دو، لوگوں کو بتانا شروع کر دو۔ پھر یہ بھی ہے کہ خاوند بیوی کے اگر آپس میں اچھے تعلقات ہیں، معاشرے کو پتہ ہے کہ اچھے تعلقات ہیں، تو معاشرے میں بھی عورت اور مرد کا ایک مقام بنا رہتا ہے۔ کسی کو نہ عورت پر انگلی اٹھانے کی جرأت ہوتی ہے اور نہ کسی کو مرد پر انگلی اٹھانے کی جرأت ہوتی ہے۔ تو یہاں خاوند اور بیوی کی ذمہ داری ہے کہ اپنی اپنی ذمہ داریوں کو سمجھیں۔ نہ مرد، عورت کے اعتماد کو ٹھیس پہنچائے اور نہ عورت، مرد کے اعتماد کو ٹھیس پہنچائے۔ فرمایاکہ اس سے نہ صرف تم اپنی گھریلو زندگی خوشگوار بناؤ گے، اچھے تعلقات رکھ کر، بلکہ اپنی نسلوں کو بھی محفوظ کر رہے ہو گے۔ ان کو محفوظ کرنے کے بھی سامان کر رہے ہو گے۔ تو اس طرح بہت سے حقوق اور فرائض اللہ تعالیٰ نے عورت اور مردکے رکھے ہیں اور دونوں پر یہ ذمہ داری ڈالی گئی ہے کہ ان کی ادائیگی کریں۔ عورت بھی معاشرے کا اسی طرح اہم حصہ ہے جس طرح مرداور دونوں اگر صحیح ہوں گے تو اگلی نسل بھی صحیح طریق پر پروان چڑھے گی، اس کی تربیت بھی صحیح ہو گی۔ اس لئے اللہ تعالیٰ نے دونوں کو اپنی ذمہ داریاں ادا کرنے کی طرف توجہ دلائی ہے‘‘۔ (جلسہ سالانہ جرمنی خطاب مستورات فرمودہ21 اگست2004ء۔ مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل یکم مئی 2015ء)
سیرت ِنبویﷺ کے حوالے سےحضور انورایّدہ اللہ تعالیٰ نےاپنے خطبہ جمعہ میں ارشاد فرمایا:
’’آپﷺ نے جہاں امانت و دیانت کے یہ اعلیٰ نمونے دکھائے وہاں اُمت کو بھی نصیحت کی کہ اس کی مثالیں قائم کرو اور پھر چھوٹی سے چھوٹی بات میں بھی اس کا خیال رکھو۔ مثلاً میاں بیوی کے تعلقات ہیں۔ اس میں بھی آپﷺ نے نصیحت فرمائی کہ یہ تعلقات امانت ہوتے ہیں ان کا خیال رکھو۔
حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ: قیامت کے روز اللہ تعالیٰ کے نزدیک سب سے بڑی خیانت یہ شمار ہو گی کہ ایک آدمی اپنی بیوی سے تعلقات قائم کرے۔ پھر وہ بیوی کے پوشیدہ راز لوگوں میں بیان کرتا پھرے۔ (سنن ابی داؤد۔ کتاب الأدب باب فی نقل الحدیث)
آج کل کے معاشرے میں میاں بیوی کی آپس کی باتیں جو اُن کی ہوتی ہیں وہ لوگ اپنے ماں باپ کو بتا دیتے ہیں اور پھر اس سے بعض دفعہ بدمزگیاں پیدا ہوتی ہیں۔ لڑائی جھگڑے پیدا ہوتے ہیں۔ بعض دفعہ ماں باپ کو خود عادت ہوتی ہے کہ بچوں سے کرید کرید کے باتیں پوچھتے ہیں۔ پھر یہی جھگڑوں کا باعث بنتی ہیں۔ اس لئے آپﷺ نے فرمایا: میاں بیوی کی یہ باتیں کسی بھی قسم کی باتیں ہوں نہ ان کا حق بنتا ہے کہ دوسروں کو بتائیں اور نہ دوسروں کو پوچھنی چاہئیں اور سننی چاہئیں۔ اگر اس نصیحت پر عمل کرنے والے ہوں تو بہت سارے جھگڑے میرے خیال میں خود بخود ختم ہو جائیں ‘‘۔ (خطبہ جمعہ 15جولائی 2005ء بمقام مسجدبیت الفتوح، لندن۔ مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل 05 اگست 2005ء)
حضورِ انور ایّدہ اللہ تعالیٰ ایک اور موقع پر فرماتے ہیں :
’’اگر ان عائلی جھگڑوں میں، میاں بیوی کے جھگڑوں میں علیحدگی تک بھی نوبت آ گئی ہے تو ابھی سے دعا کرتے ہوئے، اس نیک ماحول سے فائدہ اٹھاتے ہوئے دعاؤں پر زور دیتے ہوئے، ان پھٹے دلوں کو جوڑنے کی کوشش کریں اور اسی طرح بعض اور وجوہ کی وجہ سے معاشرے میں تلخیاں پیدا ہوتی ہیں۔ جھوٹی اناؤں کی وجہ سے جو نفرتیں معاشرے میں پنپ رہی ہیں یا پیدا ہو رہی ہیں ان کو دور کریں۔ ایک دوسرے کی غلطیوں اور زیادتیوں اور کوتاہیوں سے پردہ پوشی کو اختیار کریں۔ ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کے لئے ان کی برائیاں مشہور کرنے کی بجائے پردہ پوشی کا راستہ اختیار کریں۔ ہر ایک کو اپنی برائیوں پر نظر رکھنی چاہئے۔ اللہ کا خوف کرنا چاہئے‘‘۔ (خطبہ جمعہ24 جون 2005ء بمقام انٹرنیشنل سینٹر۔ ٹورانٹو، کینیڈا۔ مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل 08 جولائی 2005ء)