عائلی مسائل اور اُن کا حل
ایک جامع پیغام
جلسہ سالانہ برطانیہ 2011ء کے موقع پر 23؍جولائی کو سیدنا حضرت امیرالمومنین خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے احمدی خواتین سے اپنےخطاب کےآغازسے قبل جن آیات کریمہ کی تلاوت کرنے کا ارشاد فرمایا وہ خطبہ نکا ح میں شامل وہی چار آیات ہیں جو اس کتاب کے آغاز میں مع ترجمہ شاملِ اشاعت کردی گئی ہیں۔ حضورِ انور ایّدہ اللہ تعالیٰ کا یہ جامع خطاب ایسی نصائح سے لبریز ہے جنہیں ہم احمدی خواتین کو ہمیشہ اپنے پیشِ نظر رکھنا چاہئے۔ حضور انور ایّدہ اللہ تعالیٰ نے تشہد، تعوّذ اور سورۃالفاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:
’’یہ آیات جو آپ کے سامنے، اجلاس کے شروع میں تلاوت کی گئی تھیں یہ تین مختلف سورتوں کی آیات ہیں جو نکاح کے موقع پرپڑھی جاتی ہیں۔ عام طور پر مردوں کی زیادہ تعداد نکاح میں شامل ہوتی ہے، اُن کو تو ان آیات کاپتہ ہے۔ کم از کم یہ پتہ ہے کہ یہ آیات نکاح پرپڑھی جاتی ہیں۔ یہ میں نہیں کہہ رہا کہ اُن کو اس پر عمل کرنے کا بھی پتہ ہے۔ لیکن خواتین بہت کم نکاحوں میں شامل ہوتی ہیں اُن کے سامنے اس کا مضمون بیان کرنے کے لئے مختصرا ًمیں نے آیات کا انتخاب کیا تھا۔
ان آیات میں عورت اور مرد کے لئے نکاح اور شادی کے اہم بندھن کو نبھانے کے لئے بڑی اہم باتوں کی طرف نشاندہی کی گئی ہے۔ پہلی اہم بات جس کی طرف توجہ دلائی گئی ہے وہ تقویٰ ہے۔ ان آیات میں سے پہلی آیت سورۃ النساء کی ہے جیسا کہ آپ کو بتایا گیا۔ دوسری اور تیسری سورۃ احزاب کی آیات ہیں۔ چوتھی سورۃ الحشر کی آیت ہے۔
جیسا کہ میں نے کہا کہ سب سے پہلی بات جس کی طرف توجہ دلائی گئی ہے وہ تقویٰ ہے۔ پہلی آیت میں تقویٰ کا لفظ دو مرتبہ استعمال ہوا ہے۔ پھر دوسری آیت میں تقویٰ کا ذکر ہے۔ پھر چوتھی اور آخری آیت میں دو مرتبہ تقویٰ کا ذکر ہے۔ گویا کہ خطبہ نکاح میں جو آیات پڑھی جاتی ہیں ان میں پانچ مرتبہ تقویٰ کا ذکر ہے۔ اور ہر مرتبہ جب تقویٰ کا ذکر آیا ہے تو فرمایا: اللہ کا تقویٰ اختیار کرو۔ اپنے ربّ کا تقویٰ اختیار کرو اور ساتھ ہی اس کے بعد ایک نئی ہدایت فرمائی کہ اس لئے تقویٰ اختیار کرو کہ یہ عمل تمہارے ہوں، اس لئے کہ یہ عمل تم نے سرانجام دینے ہیں، اس لئے کہ یہ اعمال ہیں جو تمہارے لئے اس بندھن کو نبھانے کے لئے ضروری ہیں۔ کل مَیں نے تقویٰ کا ذکر کیا تھا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام ہم میں تقویٰ کا بہت اونچا معیار دیکھنا چاہتے ہیں اور اللہ تعالیٰ نے آپ کو فرمایا کہ یہ تقویٰ کی جڑ ہی ہے جو انسان اگر اپنے اندر قائم کر لے تو اُسے سب کچھ مل جائے گا۔ نہ یہ دنیا کی جاہ و حشمت، نہ یہ دنیا، نہ یہ دنیا کا علم، سب کچھ کوئی بھی چیز نہیں ہے۔ اگر ایک مومن اور مومنہ یہ سمجھتی ہے اور سمجھتا ہے کہ میں نے دین کو دنیا پر مقدم کرنا ہے، یہ سمجھتا ہے کہ جو عہد میں دہرا رہا ہوں وہ اس لئے ہے کہ یہ میرے دل کی آواز بن جائے اور اس پر عمل کرنے والا بنوں تو اُس کی بنیاد تقویٰ ہے۔ اس کے بغیر نہ عہد پورے ہو سکتے ہیں، نہ ایک مومن اور مومنہ اپنے ایمان کی حالت کو قائم رکھنے والا بن سکتا ہے۔ اگر یہ قائم ہو جائے تو پھر دین بھی مل جائے گا اور دنیا بھی مل جائے گی۔ ایک انسان عورت ہو یا مرد جب ایمان کا دعویٰ کرتا ہے، مومن ہونے کا دعویٰ کرتا ہے تو یقینا اُس کی یہ خواہش ہوتی ہے اور سب سے بڑی خواہش ہوتی ہے اور ہونی چاہئے کہ وہ خدا کو پا لے تا کہ اُس کا دین سنور جائے اور اُس کی دنیا بھی سنور جائے۔ پس اگر خدا کو پانا ہے، اُس کی رضا کو حاصل کرنا ہے تو پھر تقویٰ پر چلنا انتہائی ضروری ہے اور تقویٰ یہی ہے کہ ہر چھوٹی سے چھوٹی برائی کو بھی بیزار ہو کر ترک کرنا، ہر چھوٹی سے چھوٹی نیکی کو دل کی گہرائیوں سے چاہتے ہوئے اختیار کرنا۔ اور برائیوں کی تعریف یا نیکیوں کی تعریف خود انسان نے نہیں کرنی بلکہ تقویٰ یہ ہے کہ پھر اُس کو اللہ تعالیٰ کے احکامات میں تلاش کرو۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات اور سنّت میں تلاش کرو۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام جن کو اس زمانے کے لئے امام بنا کر بھیجا گیا تا کہ اسلام کی حقیقی تعلیم لوگوں پر واضح کریں اُن کے ارشادات کو پڑھو اور نوٹ کرو اور اُن پر عمل کرنے کی کوشش کرو کہ اُن میں سے کون کون سی ایسی باتیں ہیں جن سے ہمیں روکا گیا ہے، جو برائیاں ہیں۔ اور کون کون سی ایسی باتیں ہیں جنہیں کرنے کا ہمیں کہا گیا ہے جو نیکیاں ہیں اور اچھائیاں ہیں۔ صرف ان آیات میں تقویٰ کی تلقین نہیں کی گئی بلکہ قرآنِ کریم میں بیشمار جگہ پر اس کی تلقین فرمائی گئی ہے۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ :
’’قرآن شریف میں تمام احکام کی نسبت تقویٰ اور پرہیزگاری کے لئے بڑی تاکید ہے۔ وجہ یہ کہ تقویٰ ہر ایک بدی سے بچنے کے لئے قوت بخشتی ہے اور ہر ایک نیکی کی طرف دوڑنے کے لئے حرکت دیتی ہے۔ اور اس قدرتاکید فرمانے میں بھید یہ ہے کہ تقویٰ ہر ایک باب میں انسان کے لئے سلامتی کا تعویذ ہے۔ اور ہر ایک قسم کے فتنہ سے محفوظ رہنے کے لئے حصنِ حصین ہے۔ ایک متقی انسان بہت سے ایسے فضول اور خطرناک جھگڑوں سے بچ سکتا ہے جن میں دوسرے لوگ گرفتار ہو کر بسااوقات ہلاکت تک پہنچ جاتے ہیں۔ اور اپنی جلدبازیوں اور بدگمانیوں سے قوم میں تفرقہ ڈالتے اور مخالفین کو اعتراض کا موقعہ دیتے ہیں ‘‘۔ (ایام الصلح۔ روحانی خزائن جلد 14صفحہ 342)
پھر آپ فرماتے ہیں :
’’ انسان کی تمام روحانی خوبصورتی تقویٰ کی تمام باریک راہوں پر قدم مارنا ہے۔ تقویٰ کی باریک راہیں روحانی خوبصورتی کے لطیف نقوش اور خوشنما خط و خال ہیں اور ظاہر ہے کہ خداتعالیٰ کی امانتوں اور ایمانی عہدوں کی حتی الوسع رعایت کرنا اور سر سے پیر تک جتنے قویٰ اور اعضاء ہیں جن میں ظاہری طور پر آنکھیں اور کان اور ہاتھ اور پیر اور دوسرے اعضاء ہیں اور باطنی طور پر دل اور دوسری قوتیں اور اخلاق ہیں ان کو جہاں تک طاقت ہو ٹھیک ٹھیک محلِ ضرورت پر استعمال کرنا اور ناجائز مواضع سے روکنا اور ان کے پوشیدہ حملوں سے متنبہ رہنا اور اسی کے مقابل پر حقوق عباد کا بھی لحاظ رکھنا یہ وہ طریق ہے جو انسان کی تمام روحانی خوبصورتی اس سے وابستہ ہے۔ اور خداتعالیٰ نے قرآن شریف میں تقویٰ کو لباس کے نام سے موسوم کیا ہے۔ چنانچہ لِبَاسُ التَّقْویٰ قرآن شریف کالفظ ہے۔ یہ اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ روحانی خوبصورتی اور روحانی زینت تقویٰ سے ہی پیدا ہوتی ہے۔ اور تقویٰ یہ ہے کہ انسان خدا کی تمام امانتوں اور ایمانی عہد اور ایسا ہی مخلوق کی تمام امانتوں اور عہد کی حتّی الوسع رعایت رکھے۔ یعنی ان کے دقیق در دقیق پہلوؤں پر تابمقدور کاربند ہوجائے‘‘۔ (براہین احمدیہ حصہ پنجم روحانی خزائن جلد نمبر 21 صفحہ 210-209)
پس یہ وہ معیار ہے جو اگر حاصل ہو جائے تو معاشرے کو بہت سے مسائل سے بچا لیتا ہے۔ یہ وہ معیار ہے جو ہمارے اندر پیدا ہو جائے تو ہماری دنیا بھی دین بن جاتا ہے۔ ہماری ہر خواہش جو بھی ہو گی وہ اللہ تعالیٰ کی رضا کے لئے ہو گی۔ اور اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے والے کی کوئی خواہش ایسی نہیں ہوتی جو صرف دنیا میں پڑے رہنے سے حاصل ہو۔ اور یہ تقویٰ اگر حاصل ہو جائے تو پھر معاشرے کی بنیادی اکائی مرد اور عورت ہیں جو گو مختلف صنف سے اُن کا تعلق ہے۔ لیکن میاں بیوی کے رشتے میں منسلک ہونے کے بعد ایک اکائی بن جاتے ہیں۔ یہی وہ رشتہ اور جوڑ ہے جس سے آگے نسل چلتی ہے۔ اگر اس اکائی میں تقویٰ نہ ہو، اس جوڑے میں تقویٰ نہ ہو تو پھر آئندہ نسل کے تقویٰ کی بھی ضمانت نہیں اور معاشرے کے اعلیٰ اخلاق اور تقویٰ کی بھی ضمانت نہیں، کیونکہ ایک سے دو اور دو سے چار بن کے ہی معاشرہ بنتا ہے۔ پس ایک مومن جب تقویٰ کی تلاش میں ہوتا ہے تو وہ صرف اپنے لئے نہیں ہوتا بلکہ اپنی نسلوں کے لئے بھی، اپنے معاشرے کے لئے بھی۔ اور جب اس بنیادی اکائی میں یہ تقویٰ ہوگا تو آئندہ نسل میں بھی تقویٰ کی ضمانت بن جائے گی اور پھر معاشرے کے تقویٰ کی ضمانت ہو گی۔ اعلیٰ اخلاق معاشرے میں ہمیں نظرآئیں گے۔
پس جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا ہے کہ تقویٰ سلامتی کا تعویذ ہے۔ پس اگر تو آپ سلامتی چاہتی ہیں اور یقینا ًہر شخص چاہتا ہے، چاہے وہ کسی بھی مذہب کا ہو، یامذہب پہ یقین نہ بھی رکھتا ہو تو وہ یہ چاہتا ہے کہ سلامتی کے حصار میں ہو۔ اُس کو سلامتی پہنچتی رہے۔ دوسرے کو چاہے وہ سلامتی پہنچانے والا ہو نہ ہو، اپنے لئے وہ سلامتی چاہتا ہے۔ ایک بدمعاش ہے، ایک چور ہے، ایک ڈاکو ہے، وہ دوسرے کو بیشک نقصان پہنچاتاہو اپنے آپ کو وہ چاہے گا کہ ہر قسم کے نقصانات سے محفوظ رہوں۔ پس جب ہر ایک کی یہ خواہش ہے کہ اُس کو سلامتی ملے اور اُس کو کوئی نقصان نہ پہنچے، اُس کے دن اور رات خیریت اور عافیت سے گزریں، ہر دشمن سے وہ محفوظ رہے، ہر پریشانی سے بچتا رہے، اُس کومشکلات کا سامنا نہ کرنا پڑے، تو پھر ایک مومن اگر یہ چاہتا ہے تو اُس کے لئے یہ راستہ ہے کہ وہ تقویٰ اختیار کرے۔ پس حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ہم پر یہ نکتہ واضح فرمایا ہے کہ اگر تم سلامتی چاہتے ہو تو تقویٰ کو اختیار کرو کہ تقویٰ ہی سلامتی کا ایک تعویذ ہے جو تمہاری سلامتی کی ضمانت ہے۔ تم تقویٰ سے اللہ تعالیٰ کی پناہ میں آ جاتے ہو۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام ایک جگہ فرماتے ہیں کہ:
’’اگر تم خدا کے ہو جاؤ گے تو یقینا سمجھو کہ خدا تمہارا ہی ہے۔ تم سوئے ہوئے ہو گے اور خدا تعالیٰ تمہارے لئے جاگے گا‘‘۔ (کشتی نوح روحانی خزائن جلد نمبر19صفحہ22)
پس جس کے لئے خدا جاگے اور اُس کی ہر شر سے حفاظت فرمائے تو وہ سلامتی کے ایک ایسے زبردست حصارمیں آ جاتا ہے جس کو دنیاکی کوئی طاقت نہیں توڑ سکتی۔ لیکن جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے بھی قرآنِ کریم میں فرمایا ہے اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے بھی وضاحت فرمائی ہے کہ اس سلامتی کے لئے تقویٰ شرط ہے۔ خدا تعالیٰ کا خوف رکھتے ہوئے ہر برائی سے بچنا ضروری ہے اور ہر نیکی کو اختیار کرنا ضروری ہے۔ جب حقیقی رنگ میں خدا کا خوف پیدا ہو جائے تو پھر بدیوں سے انسان بچتا ہے۔ اس لئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا کہ تقویٰ ہر ایک بدی سے بچنے کی قوت بخشتی ہے اور جب یہ قوت حاصل ہو جائے تو پھر انسان کے پاس وہ انمول تعویذ آ جاتا ہے جو سلامتی کی ضمانت ہے۔ انسان ایک ایسے مضبوط قلعے میں آ جاتا ہے جس کے ارد گرد خدا تعالیٰ نے پہرہ بٹھایا ہوا ہے جس تک کوئی شیطانی حربہ نہیں پہنچ سکتا۔ شیطانی خیالات اور جذبات اُسی وقت اُبھرتے ہیں جب انسان خدا تعالیٰ کو بھول جاتا ہے، جب خدا تعالیٰ کا خوف نہیں رہتا۔ پس اگر خدا تعالیٰ کا خوف ہو تو کبھی کوئی ایسی حرکت انسان سے سرزد نہیں ہو سکتی جو اللہ تعالیٰ کو ناراض کرنے والی ہو اور دنیا کے امن کو برباد کرنے والی ہو، اپنے معاشرے کے امن کو برباد کرنے والی ہو، اپنے گھروں کے سکون اور امن کو برباد کرنے والی ہو۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں تم اس قلعہ میں آ کر بہت سے فتنوں سے بچ جاتے ہو، محفوظ ہو جاتے ہو۔ فضول اور خطرناک جھگڑوں سے بچ جاتے ہو۔ پس آج کے معاشرے میں ہمیں اس بات کی ضرورت ہے کہ ہم لغویات اور فضولیات سے بچیں۔ اپنی زندگیوں میں امن و سکون پیدا کریں۔ اللہ تعالیٰ نے مختلف طریقوں سے انسان کو مختلف قسم کے فتنوں سے بچنے، فتنوں اور خطرناک جھگڑوں سے بچنے اور بچانے کے راستے سکھائے ہیں۔ لیکن بدقسمتی سے انسان ان راستوں پر توجہ نہ دے کر اپنی زندگیوں کو برباد کر لیتا ہے۔ اس خوبصورتی سے اپنے آپ کو محروم کر لیتا ہے جو اللہ تعالیٰ نے ایک مومن اور مومنہ کے لئے مہیا فرمائی ہے۔ جو ایک مومن اور مومنہ کا طرّہ امتیاز ہونا چاہئے جو اس کے حسن کو چار چاند لگا دے۔
کپڑے یا ظاہری حسن کوئی چیز نہیں ہے۔ اصل حسن وہ ہے جو اللہ تعالیٰ عطا فرماتا ہے۔ عورت کو اپنے حسن اور زینت کا بڑا خیال رہتا ہے لیکن بہت سی ایسی ہیں جو اپنی اصل زینت سے بے خبر رہتی ہیں۔ میک اَپ کرنے سے، کپڑے پہننے سے، زیور پہننے سے زینت نہیں ملتی۔ اصل زینت وہ ہے جو اللہ تعالیٰ نے ہمیں بتائی ہے۔ اُس حسن سے بے خبر رہتی ہیں جس سے اُن کا حسن و زینت کئی گنا بڑھ جاتا ہے اور جو آزادی حاصل کر کے نہیں ملتی۔ اس معاشرے کی فضولیات میں گم ہو کر نہیں ملتی۔ جو حجاب ختم کر کے نہیں ملتی۔ جو سر ننگے کرنے سے نہیں ملتی۔ جو اپنے خاوندوں کے سامنے دنیاوی خواہشات پیش کرنے سے نہیں ملتی۔ یا مردوں کے لئے بھی ایک زینت ہے، مردوں کو وہ زینت، فیشن ایبل عورت سے رشتہ کرنے سے نہیں ملتی، بلکہ یہ اللہ تعالیٰ کا تقویٰ اختیار کرنے سے ملتی ہے۔ آجکل مغرب کے زیرِ اثر ہو کر ہماری بعض عورتیں بھی اس قسم کا اظہار کر دیتی ہیں کہ شاید یہی زینت ہے۔ ہمیشہ یاد رکھنا چاہئے کہ یہ زینت تقویٰ کا لباس پہننے سے ملتی ہے۔ اور لباسِ تقویٰ اُن کو میسر آتاہے جو اپنے ایمانی عَہدوں اور اَمانتوں کو اپنی تمام تر صلاحیتوں اور استعدادوں کے ساتھ پورا کرنے کی کوشش کرتے ہیں چاہے وہ مرد ہوں یا عورتیں ہوں۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ اپنے جسم کے تمام اعضاء کو جو ظاہری اعضاء ہیں ان امانتوں کا حق ادا کرنے والا بناؤ۔ ہر مرد اور عورت کا کام ہے کہ اپنے کان، آنکھ، زبان اور ہر عضو کے استعمال کو اللہ تعالیٰ کی رضا کے تابع کر کے استعمال کریں۔ اب عائلی جھگڑوں میں دیکھا گیا ہے کہ زبان، کان، آنکھ جو ہیں بہت بڑا کردار ادا کرتے ہیں۔ مرد ہیں تو وہ ان کا صحیح استعمال نہیں کرتے۔ عورتیں ہیں تو وہ ان کا صحیح استعمال نہیں کر رہیں۔ میں نے پہلے بھی بتایا تھا کہ میں اکثر اُن جوڑوں کو جو کسی نصیحت کے لئے کہتے ہیں یہ کہا کرتا ہوں کہ ایک دوسرے کے لئے اپنی زبان، کان، آنکھ کا صحیح استعمال کرو تو تمہارے مسائل کبھی پیدا نہیں ہوں گے۔ زبان کا استعمال اگر نرمی اور پیار سے ہو تو کبھی مسائل پیدا نہ ہوں۔ اسی طرح اب عموماً دیکھا گیا ہے چاہے وہ مرد ہیں یا عورتیں ہیں، جب مقدمات آتے ہیں، جھگڑے آتے ہیں تو یہ مرد یا عورت کی زبان ہے جو ان جھگڑوں کو طول دیتی چلی جاتی ہے۔ اور ایک وقت ایسا آتا ہے جب پھر انہوں نے فیصلہ کر لیا ہوتا ہے یا فیصلہ کرنے کی طرف جاتے ہیں کہ ہم اکٹھے نہیں رہ سکتے۔ اسی طرح دونوں طرف کے رحمی رشتوں یا دوسری ایسی باتوں کو جن کے سننے سے کسی قسم کی بھی تلخی کا احتمال ہو اُن سے اپنے کان بند کر لو۔ بعض دفعہ اگر ایک شخص یا ایک فریق کوئی غلط بات کرتا ہے تو دوسرا بھی اُس کو اسی طرح تُرکی بہ تُرکی جواب دیتا ہے۔ اگر جھگڑے کو ختم کرنے کے لئے تھوڑے وقت کے لئے کان بند کرلئے جائیں تو بہت سارے مسائل وہیں دب سکتے ہیں سوائے اس کے کہ وہ مرد یا عورتیں عادی جھگڑنے والے ہوں اُن کے علاوہ عموماً جھگڑے نہیں ہوتے۔ پس کان بند کرو، امن میں آ جاؤ گے۔ میں ایک واقعہ بتایا کرتا ہوں اور یہ سچا واقعہ ہے کہ ایک خاوند اور بیوی جھگڑا کر رہے تھے۔ ایک چھوٹی بچی اُن کو دیکھ رہی تھی اور بڑی حیران ہو کر دیکھ رہی تھی۔ تھوڑی دیر بعد اُن دونوں کو خیال آیا کہ ہم غلط کام کر رہے ہیں۔ اپنی شرمندگی مٹانے کے لئے ویسے ہی بچی سے پوچھا کہ کیا تمہارے ماں باپ نہیں لڑتے، اُمی ابا نہیں لڑتے یا ایک دوسرے سے سختی سے نہیں بولتے؟ یا ناراض نہیں ہوتے؟ اُس نے کہا :ہاں۔ اگر میرے باپ کو غصہ آتا ہے تو میری ماں خاموش ہو جاتی ہے اور ماں کو غصہ آتا ہے تو باپ خاموش ہو جاتاہے تو ہمارے ہاں لڑائی آگے نہیں بڑھتی۔ تو پھر اس سے یہ نیک اثر بھی بچوں پر پڑتاہے۔ ایک دوسرے کی برائیوں کو دیکھنے کے لئے آنکھیں بند رکھو اور ایک دوسرے کی اچھائیاں دیکھنے کے لئے اپنی آنکھیں کھلی رکھو۔ آخر ہر شخص میں چاہے وہ عورت ہے یا مرد ہے اچھائیاں بھی ہوتی ہیں، برائیاں بھی ہوتی ہیں۔ میں نے دیکھا ہے عموماً مرد پہل کرتے ہیں کہ اُن کو عورتوں کی برائیاں نظر آنی شروع ہو جاتی ہیں اور پھر جواباً جب عورتیں برائیاں تلاش کرنا شروع کرتی ہیں تو اتنی دور تک نکل جاتی ہیں کہ پھر واپسی کے راستے نہیں رہتے۔ پھر ایسی ناجائز چیزوں کی طرف آنکھ اُٹھا کربھی نہیں دیکھنا چاہئے جن سے تمہارے تقویٰ پر حرف آتا ہو۔ پھر گھر کے مسائل جن سے آپس کے اعتماد کو ٹھیس لگتی ہے اگر آنکھوں کی پاکیزگی رکھو تو پھر یہ ٹھیس نہیں لگتی اور یہ مسائل ختم ہو جاتے ہیں۔ پھر اپنے دل کو ناجائز باتوں کی آماجگاہ نہ بننے دو۔ اس کو اللہ تعالیٰ کے خوف سے بھرے رکھو تو پھر کبھی مسائل نہیں پیدا ہوتے۔ کبھی شیطان چور دروازے سے دل میں داخل ہو کر گھروں میں فساد نہیں کرتا۔ شیطان کوئی ایسی شخصیت نہیں ہے جس کا پتہ لگ جائے کہ کس طرح آیا ہے؟ ہر بُری صحبت، ہر بُرا دوست جو تمہارے گھر کو برباد کرنے کی کوشش کرے، جو خاوند کے خلاف یا ساس کے خلاف یا نند کے خلاف یا خاوند کو بیوی کے خلاف بھڑکانے کی کوشش کرے، یا کوئی ایسی چھوٹی سی بات کر دے جس سے دل میں بے چینی پیدا ہو جائے تو وہ شیطان ہے۔ پس ایسے شیطانوں کا خیال رکھنا ہر مومنہ اور مومن کا فرض ہے۔ اور پھر جب یہ اعتماد قائم ہو جاتا ہے تبھی اس بندھن کی جو بنیاد ہے وہ مضبوط ہو جاتی ہے۔ اگر یہ اعتماد ختم ہو جائے تو وہی محل جو پیار اور محبت کے عہد کے ساتھ تعمیر کیا گیا ہوتا ہے زمین بوس ہو جاتا ہے بلکہ کھنڈر بن جاتا ہے۔
پس ایک مومن جہاں اپنے خدا سے کئے گئے عہد کو پورا کرنے کی بھرپور کوشش کرتا ہے وہاں مخلوق کے عہد کو بھی پورا کرنے کی بھرپور کوشش ہوتی ہے۔ جیسا کہ میں نے کل بھی کہا تھا کہ حقوق العباد کی ادائیگی کے بغیر حقوق اللہ کی ادائیگی کے معیار حاصل نہیں ہو سکتے۔ اُس میں بھی بال آنے لگ جاتے ہیں، کریک آ جاتے ہیں اور جب کسی برتن میں ایک دفعہ کریک(Crack) آ جائے تو پھر وہ آہستہ آہستہ بڑھتا چلا جاتا ہے۔ پس حقوق العباد کی ادائیگی بھی بہت ضروری ہے۔ اور حقوق العبادمیں خاوند اور بیوی کے ایک دوسرے پر حقوق بہت زیادہ اہمیت رکھتے ہیں۔ معاشرے اور اگلی نسل کی بہتری کے لئے ان کی بہت اہمیت ہے اس لئے ان کو بجالانا ایک حقیقی مومن کی بہت بڑی ذمہ داری ہے۔
اللہ تعالیٰ نے میاں بیوی کے حقوق کی ادائیگی کے لئے اس لئے توجہ دلائی ہے اور یہ آیات آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس لئے نکاح کے موقع پر رکھی ہیں کہ تقویٰ پر قائم ہوتے ہوئے ایک دوسرے کے حقوق ادا کرو، تبھی تم خدا تعالیٰ کی امانتوں اور ایمانی عہدوں کی بھی صحیح رنگ میں ادائیگی کر سکو گے۔ اور اپنے معاشرے کی امانتوں اور عہدوں کی بھی صحیح طرح ادائیگی کر سکو گے۔ پس ہر مومن اور مومنہ کو یاد رکھنا چاہئے، ہر احمدی عورت اور مرد کو یہ یاد رکھنا چاہئے کہ وہ اپنے عہد کے دعوے کو تبھی پورا کرنے والے بن سکتے ہیں جب اپنے ہر رشتے کی جو بنیاد ہے اُس کا حق ادا کرنے کی کوشش کریں گے۔
شادی کا پاک رشتہ جہاں خدا تعالیٰ نے ایک دوسرے کی تسکین کے سامان کے لئے قائم فرمایا ہے وہاں انسانی نسل کے چلانے کا ذریعہ بھی ہے۔ اور پھر اس سے وہ نسل پیدا ہو گی جس کی اگر صحیح تربیت کی جائے توپھر وہ معاشرے کے امن کی ضمانت بن جاتی ہے۔ صرف جسمانی تسکین اور نسل چلانا ہی کام نہیں ہے۔ یہ تو جانوروں میں بھی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کو اشرف المخلوقات بنایا ہے تو اس کے کچھ لوازمات بھی ہیں۔ انسان کے لئے اس کے ساتھ ذہنی تسکین بھی ہے۔ اس لئے رشتوں کے بارہ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کفو کا بھی خیال رکھو اور کفو میں بہت ساری چیزیں آجاتی ہیں۔ خاندان بھی آ جاتے ہیں، تعلیم بھی آ جاتی ہے۔ لیکن اس کو بہانہ بنا کر پھر رشتے نہ کرنے یا رشتے توڑنے کے بھی جواز پیدا کر لئے جاتے ہیں۔ اگر تقویٰ پر چلا جائے تو پھر یہ بہانے نہیں بنتے۔ پھر صحیح فیصلے کئے جاتے ہیں۔ پھر علمی تسکین بھی ہے جو رشتوں سے حاصل ہوتی ہے۔ روحانی سکون کے سامان بھی ہیں جو ان رشتوں سے میسر آتے ہیں۔ اگر مرد اور عورت میں ہم آہنگی ہو تو اس میں اگلی نسلوں کی ذہنی، روحانی اور علمی تربیت کے سامان بھی بہت ہو رہے ہوتے ہیں۔ پس ایک مرد اور عورت جو ایک خاندان کی بنیاد ڈالنے والے ہوتے ہیں وہ ایک معاشرے کی بنیاد ڈال رہے ہوتے ہیں۔ ایک قوم کو اچھا یا برا بنانے کی بنیاد ڈال رہے ہوتے ہیں۔ پس اس طرف بہت غور کرنے کی ضرورت ہے۔ اس لئے اللہ تعالیٰ نے پانچ جگہ نکاح کے موقع پر تقویٰ کا لفظ استعمال کر کے ہمیں اس کی طرف توجہ دلائی ہے کہ تمہارا ہر فعل، تمہارا ہر قول، تمہارا ہر عمل صرف اپنی ذات کے لئے نہ ہو بلکہ تقویٰ پر بنیاد رکھتے ہوئے، اللہ تعالیٰ کا خوف رکھتے ہوئے اللہ کے بھی حقوق ادا کرنے والا ہواور ایک دوسرے کے بھی حقوق ادا کرنے والا ہو۔ اور پھر جب یہ ہو جاتا ہے تو پھر وہ نسل پیدا ہوتی ہے جو ماں باپ کے لئے دعائیں کرنے والی ہوتی ہے۔ جیسا کہ قرآنِ کریم میں بھی ذکر ملتا ہے کہ اس نیک تربیت کی وجہ سے جو اُن کے ماں باپ نے بچوں کی کی ہوتی ہے، وہ یہ دعا مانگ رہے ہوتے ہیں کہ رَبِّ ارْحَمْہُمَا کَمَا رَبَّیٰنِیْ صَغِیْرًا(بنی اسرائیل:25) کہ اے میرے ربّ! اُن پر رحم فرما کہ انہوں نے بچپن کی حالت میں میری پرورش کی ہے۔ صرف پالا نہیں ہے، میری تعلیم اور تربیت کی طرف بھی توجہ دی ہے۔ میری روحانی بہتری کی طرف بھی توجہ دی ہے۔ میری اخلاقی تربیت کی طرف بھی توجہ دی ہے۔ میری دنیاوی تعلیم کی طرف بھی توجہ دی ہے تا کہ میں معاشرے کا ایک فعال حصہ بن جاؤں۔ لیکن جن گھروں میں، عورتوں کی طرف سے بھی، مردوں کی طرف سے بھی جھگڑے ہوتے رہیں، جن گھروں میں صرف اپنی اَناؤں کی باتیں ہوتی رہیں وہاں پھر ایسے لوگ پیدا نہیں ہوتے اِلاَّ ماشاء اللہ، سوائے اس کے کہ بعض گھر ایسے ہوتے ہیں جہاں پھر بچے reaction دکھا رہے ہوتے ہیں اور اپنے ماں باپ سے جس کی بھی زیادتی ہو، ماں کی یا باپ کی، اُس سے متنفر ہو جاتے ہیں، گھروں سے چلے جاتے ہیں اور خود اپنی تربیت کی طرف بھی توجہ کرتے ہیں، گو ایسے بہت کم ہوتے ہیں۔ پس اپنی نسلوں کو بچانے کے لئے بہت ضروری ہے کہ صرف اپنی ذات کو اپنا محور نہ بنائیں بلکہ اپنے خیالات کو، اپنے جذبات کو قربان کرنے کی عادت ڈالنا ضروری ہے۔ تبھی ایک حسین معاشرہ پیدا ہو سکتا ہے۔
اس دعا کا خیال بھی ایک ایسے مومن بچے کو ہی آ سکتا ہے۔ ایک ایسے شخص کو ہی آ سکتا ہے جو اس بات کا ادراک رکھتا ہو کہ تقویٰ کیا ہے؟ اور پھر اُس کو پتہ لگتا ہے کہ تقویٰ یہی ہے کہ مَیں اپنے والدین کے احسانوں کا شکر گزار بنتے ہوئے اُن کے لئے خدا تعالیٰ سے مدد مانگوں، دعا مانگوں، اُن کی بہتری کی دعا کروں۔ اللہ تعالیٰ نے بکثرت مردو عورت پھیلائے ہیں اور کافروں کے ذریعے سے بھی پھیلائے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ اے لوگو! تمہیں جو کثرت سے مرد اور عورت کی صورت میں پھیلایا گیا ہے تو تقویٰ اختیار کرو۔ یعنی کہ وہ خاص لوگ جن کو دین کی طرف بھی رغبت ہے اگر تمہیں خدا کی رضا مطلوب ہے، اگر تم دین چاہتے ہو تو پھر اُس تقویٰ کی تلاش کرو جو خدا تک پہنچاتا ہے۔ اُس خشیت اور اُس خوف کی تلاش کرو جو تمہیں اللہ تعالیٰ کی خاطر برائیوں سے روکے اور نیکیاں کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ بلکہ ہم دنیا میں دیکھتے ہیں کہ آبادی کے لحاظ سے تو کافروں کی مومنوں کے مقابلہ میں زیادہ کثرت ہے، لیکن یہاں توجہ دلائی ہے کہ حقیقی کثرت وہ ہے جو تقویٰ پر چلنے والوں کی ہے۔ کیونکہ آخری انجام، بہتر انجام اُنہی لوگوں کا ہے اور اُنہی سے دنیا کا امن اور سکون بھی قائم ہوتا ہے۔ اس لئے تم دنیا داروں سے متاثر نہ ہو جاؤ۔ اُن کی طرف دیکھ کر متاثر نہ ہو بلکہ تقویٰ پر چلو تو اللہ تعالیٰ کے انعامات کے وارث بنو گے۔ تمہاری اولادیں بھی تمہارے لئے دعائیں کرنے والی ہوں گی اور تمہارے درجات بلند کرنے کا باعث بنیں گی۔
عائلی مسائل جو ہمارے سامنے آتے ہیں اُن میں بسا اوقات کبھی عورت کی طرف سے اور کبھی مرد کی طرف سے یہ ایشو بہت اُٹھایا جاتا ہے کہ ہمارے ماں باپ یا بہن بھائیوں کو کسی ایک نے بُرا کہا۔ مرد یہ الزام لگاتا ہے کہ عورتیں کہتی ہیں، عورتیں الزام لگاتی ہیں کہ مرد کہتے ہیں کہ میرے ماں باپ کی برائی کی۔ اُن کو یہ کہا، اُن کو وہ کہا۔ اُن کو گالیاں دیں۔ تو یہ چیز جو ہے یہ تقویٰ سے دور ہے۔ یہ چیز پھر گھروں میں فساد پیدا کرتی ہے۔ پھر یہی نہیں بعض دفعہ یہ بھی ہوتا ہے کہ یہاں صرف الزام کی بات نہیں ہے بلکہ ایسے بھی لوگ ہوتے ہیں اور بعض الزامات سچے بھی نکلتے ہیں کہ بچوں کو دادا دادی یا نانا نانی کے خلاف بھڑکایا جاتا ہے۔ ایک دوسرے کے قریبی رشتوں کے خلاف نازیبا الفاظ استعمال کئے جاتے ہیں۔ بچوں کو اُن سے متنفر کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ یہ تقویٰ سے بعید ہے۔ یہ تقویٰ نہیں ہے۔ تم تو پھر تقویٰ سے دور چلتے چلے جا رہے ہو۔ اس لئے اپنے رحمی رشتوں کا بھی خیال رکھو۔
ان آیات میں، پہلی آیت میں ہی اس طرف بھی توجہ دلائی ہے کہ اپنے رحمی رشتوں کا بھی خیال رکھو۔ ماں باپ صرف خود ہی خیال نہ رکھیں اپنے بچوں کو بھی ان رحمی رشتوں کا تقدس اور احترام سکھائیں۔ تبھی ایک پاک معاشرہ قائم ہو سکتا ہے۔ اور خود بھی اس کے تقدس کا خیال بہت زیادہ رکھیں کیونکہ ماں باپ کے نمونے جو ہیں وہ بچوں پر اثر انداز ہوتے ہیں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم جو انسانوں میں سے انسانی فطرت کو سب سے زیادہ جاننے والے تھے، آپ نے نکاح کے خطبے میں ان آیات کا انتخاب فرما کر مرد اور عورت کو شادی یا رشتہ ازدواج میں منسلک ہوتے وقت یہ احساس پیدا کروا دیا ہے یا پیدا کروانے کی کوشش کی ہے کہ اللہ تعالیٰ کے اس حکم کو ہمیشہ یاد رکھنا کہ میاں بیوی کا بندھن ایک ایسا بندھن ہے جس میں جہاں تم نے آپس میں ایک دوسرے کے لئے نیک جذبات اور احساسات رکھنے ہیں وہاں ایک دوسرے کے رحمی رشتوں اور قریبی رشتوں کا بھی احترام کرنا ہے۔ اگر تم حقیقی مومن ہو تو یہ ضروری ہے۔ اگر اللہ تعالیٰ کا خوف ہے تو لازماً تمہیں اپنے ظاہری اعضاء کا بھی اور دل کا بھی استعمال ان رحمی رشتوں کی بہتری کے لئے کرنا ہو گا۔ اگر تم یہ نہیں کر رہیں یا مرد نہیں کر رہے تو یاد رکھو، اللہ تعالیٰ تم پر نگران ہے۔ تمہارے عملوں اور تمہاری حالتوں کو دیکھ رہا ہے۔ اور جب اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ میں نگران ہوں تو پھر وہ ایسے مردوں اور عورتوں کے اس عمل کو جس میں ایک دوسرے کے رحمی رشتوں کے حق ادا نہیں ہو رہے ہوتے اپنی پکڑ میں بھی لاتا ہے۔ پس پہلے دن سے ہی اس سوچ کے ساتھ ایک مرد اور عورت کو شادی کے رشتہ میں منسلک ہونا چاہئے کہ صرف ایک رشتہ ہی میں نے نہیں نبھانا۔ خاوند نے بیوی کے ساتھ یا بیوی نے خاوندکے ساتھ رشتہ نہیں نبھانا بلکہ جو بھی قریبی رشتے ہیں وہ سب نبھانے ہیں۔ اس سوچ کے ساتھ عورت کو خاوند کے گھر جانا چاہئے اور اس سوچ کے ساتھ مرد کو عورت کو بیاہ کر لانا چاہئے کہ ہم نے اپنے وسیع تعلقات کو نبھانا ہے، یعنی رشتوں کے آگے رحمی رشتوں کو بھی نبھانا ہے۔ اگر ہم اپنے معاشرے میں اس سوچ کو اچھی طرح سمجھتے ہوئے پیدا کریں گے تو ہمارے معاشرے میں جو چھوٹی چھوٹی باتوں پر لڑائی جھگڑے شروع ہو کر مار پٹائی اور پولیس کیس اور خلع اور طلاق تک پہنچ جاتے ہیں اُن میں غیر معمولی کمی آ جائے گی۔
پھرسچائی ایک ایسی چیز ہے جو تمام نیکیوں کی جڑ ہے۔ اس لئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک شخص کے یہ کہنے پر کہ میں صرف ایک برائی چھوڑ سکتا ہوں مجھے بتائیں کہ مَیں کیا برائی چھوڑوں ؟ آپﷺ نے فرمایا کہ جھوٹ بولنا چھوڑ دو اور ہمیشہ سچ بات کہنی ہےاور اس وجہ سے جب بھی اُس نے کسی برائی کا ارادہ کیا تو ایک ایک کر کے تمام برائیاں اُس کی چُھٹ گئیں۔ (التفسیر الکبیر از امام رازی ؒ جلد نمبر16سورۃ التوبۃ آیت یا ایھا الذین امنوا اتقوااللہ …صفحہ 176دار الکتب العلمیۃ بیروت 2004)
تو اسی لئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ سچائی اختیار کرو۔
دوسری آیت جو نکاح کے موقع پر پڑھی جاتی ہے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کا انتخاب فرمایا ہے، اُس میں فرمایا کہ تقویٰ یہی ہے کہ سیدھی اور کھری اور صاف بات کرو۔ بعض باتیں بیشک سچی ہوتی ہیں لیکن بعض اوقات اُن کے کئی مطلب نکل سکتے ہیں۔ حق میں بھی اور خلاف بھی جا سکتے ہیں۔ بعض بڑے ہوشیار لوگ اپنے مطلب کی بات کر جاتے ہیں اور کہتے ہیں میرا مطلب تو یہ تھا۔ لیکن ہر ایک کی نظر میں اُس کا مطلب کچھ اور ہو رہا ہوتا ہے۔ تو یہاں فرمایا کہ قولِ سدید اختیار کرو اور قولِ سدید یہ ہے کہ غیر معمولی طور پر سیدھی اور کھری بات کرو۔
بعض لوگ، عورتیں بھی اور مرد بھی، بڑی ہوشیاری سے جیسا کہ میں نے کہا خاص طور پر جب ان کے کیس پیش ہو رہے ہوتے ہیں یا معاملات سامنے آتے ہیں تو بات کر دیتے ہیں۔ فرمایا کہ ایک تو رشتوں کے طے کرتے وقت ہر بات کی حقیقت بتاؤ۔ لڑکی کا رشتہ آ رہا ہے تو لڑکی کی صحت، عمر اور قد وغیرہ جو بھی ہے وہ صاف صاف بتانا چاہئے۔ اس کی تمام معلومات جو ہیں لڑکے کو مہیا کر دینی چاہئیں۔ لیکن لڑکوں کا بھی یہ فرض ہے کہ جب یہ معلومات مہیا ہو جاتی ہیں تو پھر صرف لڑکیاں دیکھنے کے لئے نہ پہنچ جایا کریں بلکہ جب معلومات مہیا ہو گئیں تو پھر دعا کر کے اس نیت سے جانا چاہئے کہ ہم نے رشتہ کرنا ہے۔ اگر اس نیت سے جائیں گے تو ایک پاک معاشرہ پیدا ہو گا۔ تقویٰ سے جب ایک دوسرے کے رشتے تلاش کئے جائیں گے تو پھر جو لڑکیوں میں بے چینیاں پیدا ہو جاتی ہیں وہ بھی پیدا نہیں ہوں گی۔ اسی طرح لڑکوں کو اپنی تعلیم اور صحت وغیرہ اور جو کوئی بھی اگر برائیاں ہیں تو صاف صاف بتا دینی چاہئیں۔ کیونکہ قولِ سدید یہی ہے کہ رشتہ طے کرنے سے پہلے کھل کر ہر بات سامنے آ جائے۔ اگر یہ باتیں سامنے آ جائیں تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کہ بعد میں پھر لڑائیاں اور جھگڑے بڑھیں۔ بعض رشتے آتے ہیں پاکستان سے لڑکیاں بھی آتی ہیں یا انڈیا سے آتی ہیں یا دوسرے ملکوں سے آتی ہیں یا لڑکے وہاں سے لڑکیوں کو لے کر آتے ہیں اور صحیح اور صاف بات نہیں کی جاتی، جھوٹ بولے جاتے ہیں جس کی وجہ سے پھر یہاں آ کے چند دنوں بعد ہی خلع اور طلاق کی نوبت آ جاتی ہے جو اللہ تعالیٰ کی نظر میں ایک انتہائی مکروہ فعل ہے۔ باوجود اس کے کہ یہ حرام نہیں ہے۔ اسے جائز قرار دیا لیکن بڑا مکروہ ہے۔ اس سے بچنا چاہئے۔
اگر اسی طرح شروع میں معلومات دے دی جائیں تو بہت سی خلع اور طلاقیں جو ابتدا میں ہو جاتی ہیں جیسا کہ مَیں نے کہا اُن سے بچت ہوسکتی ہے۔
بعض لڑکے اور لڑکیاں کہیں اور رشتے کرنا چاہتے ہیں لیکن جہاں ماں باپ نے زور دیا وہاں ماں باپ کے کہنے پر کر لیتے ہیں۔ پھر تھوڑے عرصے کے بعد رشتے ٹوٹ جاتے ہیں۔ ماں باپ کا بھی کام ہے کہ قولِ سدید سے کام لیں اور جہاں رشتے کر رہے ہوں وہ پہلے اُن رشتے والوں کوبتائیں کہ میرا لڑکا جو ہے یا لڑکی جو ہے اُس کو ہم نے اس رشتے کے لئے مجبور کیا ہے تا کہ اگلا بھی سوچ سمجھ کر فیصلے کرے۔
پھر شادی کے بعد ایک دوسرے سے جب اعتماد کا تعلق قائم ہو تو اُس کی بنیاد بھی قولِ سدید پر ہونی چاہئے۔ صاف اور کھری اور سچی باتوں پر ہونی چاہئے۔ اللہ تعالیٰ جو انسان کی فطرت کو جانتا ہے اس نے معاشرے کے امن کے لئے یہ بنیادی نصیحت فرمائی ہے کہ سچائی کو قائم کرو۔ تبھی تم آپس کے رشتوں کو بھی نبھا سکتے ہو اور امن اور سلامتی سے بھی رہ سکتے ہو۔ ایسی سچائی جس میں کسی بھی قسم کی الجھن نہ ہو۔ فرمایا اگر یہ عہد کر لو کہ ہمیشہ صاف اور کھری بات کہنی ہے، جھوٹ اور غلط بیانی کے قریب نہیں جانا تو خدا تعالیٰ تمہارے گناہوں کے بخشنے کی ضمانت دیتا ہے۔ تمہارے اعمال کی اصلاح ہوجائے گی۔ ظاہر ہے جب اعمال کی اصلاح ہو جائے اور اللہ تعالیٰ کی رضا کی خاطر انسان کام کرنے لگے تو اللہ تعالیٰ بھی پھر اس کو پیار کرنے لگتا ہے۔ جیسا کہ میں نے حدیث کی مثال دے کر کہا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جھوٹ بولنا چھوڑ دو تو تمہاری برائیاں چھُٹ جائیں گی۔ یہی اصول ہر ایک کو اپنانا چاہئے۔
پس اللہ اور رسول کے احکامات کی اطاعت میں ہی ہر شخص کی بقا ہے۔ اگر مومن ہونے کا دعویٰ ہے تو چاہے وہ مَرد ہے یا عورت ہے ان کی پابندی کرنا بہرحال ضروری ہے۔ اسی میں ہماری کامیابیاں ہیں۔ اس دنیا میں بھی ہماری زندگی اللہ تعالیٰ کے فضلوں کو سمیٹنے والی ہو گی اور تمہاری اُخروی زندگی بھی تمہیں انعامات کا وارث بنائے گی۔
پھر ان آیات میں سے آخری آیت میں تقویٰ کے حوالے سے اس طرف بھی توجہ دلائی گئی ہے کہ صرف اس دنیا کو ہی اپنی متاع نہ سمجھو۔ یہی نہ سمجھو کہ یہ دنیا ہی سب کچھ ہے۔ یہ بھی دیکھو اور نظر رکھو کہ یہ کوئی معمولی بات نہیں ہے بلکہ خاص طور پر نظر رکھو کہ تم نے کل کے لئے آگے کیابھیجا ہے؟ کیا نیکیاں ہیں جو تم کر رہے ہو؟ کون سا تقویٰ ہے جو تم نے اختیار کیا ہے؟ اپنی نمازوں کی حفاظت کی ہے؟ اپنے خاوندوں کے حق ادا کئے ہیں ؟ خاوندوں نے بیویوں کے حق ادا کئے ہیں ؟ بچوں کے حقوق ادا کئے ہیں ؟ اپنے عہدوں کی حفاظت کی ہے؟ اپنے رحمی رشتوں کی حفاظت کی ہے؟۔ ان سب کا اللہ تعالیٰ نے حساب لینا ہے۔ اس لئے نظر رکھو کہ تم نے آگے کیا بھیجا ہے؟ کیونکہ اصل انعامات جو نہ ختم ہونے والے انعامات ہیں وہ تو اُخروی زندگی کے انعامات ہیں۔ یاد رکھو جو کچھ تمہارے اس دنیا کے اعمال ہیں یہ نہ سمجھو کہ وہ اللہ تعالیٰ کی نظر سے مخفی ہیں۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ وہ تمہارے سب کاموں سے اور تمہاری تمام حرکات سے باخبر ہے۔ پس یہ آیت پھر یاد کروا رہی ہے کہ ہر برائی کی جڑ تقویٰ پر نہ چلنا اور اس پر توجہ نہ دیناہے۔ پس اگر تم حقیقی، اخلاقی اور روحانی ترقی چاہتے ہو تو یاد رکھو کہ یہ خدا تعالیٰ پر ایمان اور یقین اور اُس کے احکامات پر اخلاص و وفا سے عمل کئے بغیر نہیں ہو سکتا۔
پس شادی بیاہ کے معاملات اور رشتوں کو نبھانا توبظاہر ایک دنیاوی کام لگتاہے۔ لیکن ایک مومن کی دنیا بھی دین ہوتی ہے۔ ایک احمدی مومن عورت اور مَرد کو اپنی زندگی اس نہج پر چلانی ہو گی اور چلانی چاہئے تا کہ وہ اُن کے جو عہد ہیں ان کو پورے کرنے والے ہوں۔ تبھی وہ انعامات کے وارث بھی بنیں گے اور تبھی وہ اُس عہد کو پورا کرنے والے بھی بنیں گے جو زمانے کے امام کے ساتھ، حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ساتھ جماعت میں آ کر ایک احمدی نے عہدِ بیعت کی صورت میں کیا ہے۔ ہماری لڑکیوں کو بھی اور عورتوں کو بھی یہ ذہن میں رکھنا چاہئے کہ میرا اول فرض تقویٰ پر چلنا اور خدا تعالیٰ کی رضا ہے اور شادی بیاہ بھی خدا تعالیٰ کی رضا کے حصول کے لئے اور نیک نسل چلانے کے لئے ہے۔ اور اسی لئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مردوں کو رشتوں کی تلاش میں جن خوبیوں کی طرف توجہ دلائی کہ رشتے تلاش کرتے وقت کن خوبیوں کو تمہیں ترجیح دینی چاہئے جو ایک عورت میں ہونی چاہئیں وہاں فرمایا جو ترجیح ہے وہ عورت کی نیکی ہو۔
ایک حدیث میں یہ بھی آتا ہے۔ حضرت عبداللہ بن عمرؓ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ دنیا تو سامانِ زیست ہے اور نیک عورت سے بڑھ کر کوئی سامانِ زیست نہیں۔ (سنن ابن ماجہ کتاب النکاح باب أفضل النساء حدیث نمبر1855)
کہ اس دنیا کے زندگی گزارنے کے لئے جو سامان ہیں اُس میں سے سب سے اچھا ایک نیک عورت ہے۔
اسی طرح ایک اور حدیث میں آتا ہے، حضرت ابوہریرہؓ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کسی عورت سے نکاح کرنے کی چار ہی بنیادیں ہو سکتی ہیں۔ یا تو اس کے مال کی وجہ سے یا اُس کے خاندان کی وجہ سے یا اُس کے حسن و جمال کی وجہ سے، یا اُس کی دینداری کی وجہ سے۔ لیکن تُو دیندار عورت کو ترجیح دے۔ اللہ تیرا بھلا کرے اور تجھے دیندار عورت حاصل ہو۔ (بخاری کتاب النکاح باب الأکفاء فی الدین حدیث نمبر5090)
پس اگر ہمارے مرد بھی تقویٰ پر چلنے والے ہوں اور ان خوبیوں کو دیکھیں تو ہر لڑکی پہلے سے بڑھ کر نیکیوں کی طرف چلنے والی ہو گی۔ اللہ تعالیٰ کے فضل سے عموماً ہماری لڑکیاں، ہماری بچیاں نیکیوں پر چلنے والی ہیں۔ لیکن وہ جو معاشرے سے متاثر ہوجاتی ہیں وہ بھی اپنی نیکیوں کے معیار بلند کریں اور جب نیکیوں کے معیار بلند ہوں گے تو پھر اس لئے کہ ہمارے رشتہ کا جو معیار ہے وہ نیکی ہے لڑکیاں بھی یہ کوشش کریں گی کہ لڑکے بھی اُن کو وہ ملیں جو نیکی میں اعلیٰ معیار کے ہوں۔ کیونکہ کفو تو تب ہی ملتا ہے جب نیکی اور تقویٰ کا معیار بھی برابر ہو۔ یہ تو نہیں ہو سکتا کہ بدمعاش اور ڈاکو شخص ہو اور وہ کہے کہ مجھے نیک اور پارسا اور تقویٰ پر چلنے والی بیوی چاہئے۔ صرف یہ نہیں سمجھنا چاہیے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مرد کو نیک سمجھ کر کہا ہے کہ تم مرد سب کے سب نیک ہو اور نیکیوں کے اعلیٰ معیاروں کو چھو رہے ہو اس لئے نیک عورت تلاش کرو۔ اُس شخص کو تو یقینا دعا دی ہے کیونکہ اُس کی نیکی کا پتہ ہو گا لیکن ایک اصولی بات بھی بتا دی کہ مردوں کو بھی فرمایا کہ تم بھی نیک بنو۔ تم نیک بنو گے تو پھر رشتے بھی نیک عورت سے کرو گے۔ اگر تم نیک نہیں، برائیوں میں ملوث ہو تو پھرتم نیک بیوی کی تلاش کس طرح کر سکتے ہو؟ پس نیک مرد ہی ہے جو نیک بیوی کی تلاش کرے گا۔ اور یوں مرد اور عورت تقویٰ پر چلتے ہوئے اپنے رشتے قائم کرنے اور نیک نسل کی طرف توجہ دینے والے ہوں گے۔ پس اس میں اس طرف توجہ دلائی گئی ہے کہ دونوں نیکیوں پر قائم ہوں تاکہ نیک نسل چلے اور وہ نسل ایسی ہو جوپھر ایک ایسا حسین معاشرہ بنانے والی ہو جو تقویٰ پر چلنے والا ہو۔ ایسا خاندان بنانے والی ہو جو تقویٰ پر چلنے والا ہو۔
پس آج کل جو دنیا میں بے صبری اور دنیا کی چاہت اور تقویٰ سے دوری ہے اُس نے میاں بیوی کے پاکیزہ رشتوں میں دراڑیں ڈال دی ہیں، اُن کا حل انہی قرآنی احکامات پر عمل کرنے میں ہے۔ اور مجھے افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ ہماری لڑکیاں بھی اور عورتیں بھی اور مَرد بھی دنیا کے آجکل کے جو طریقے ہیں اس سے متاثر ہو رہے ہیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ :
’’ غیر قوموں کی تقلید نہ کرو کہ جو بکلّی اسباب پر گر گئی ہیں ‘‘۔ (کشتی نوح روحانی خزائن جلد نمبر19صفحہ22)
تم اُن لوگوں کے پیرو مت بنوجنہوں نے سب کچھ دنیا ہی کو سمجھ رکھا ہے۔ دنیا میں، ان ملکوں میں خاص طور پر طلاقوں کی شرح بہت بڑھ گئی ہے۔ دنیاوی لوگوں میں تو بہت پرانی بڑھی ہوئی ہے۔ ان میں کچھ عرصہ شادیاں قائم رہتی ہیں اور پھر ٹوٹ جاتی ہیں۔ اس کا اثر ماحول کی وجہ سے احمدیوں پر بھی ہو رہا ہے اور صرف یہیں نہیں، بلکہ پاکستان میں بھی ہے، ہندوستان میں بھی ہے اور دوسری جگہوں پر بھی ہے۔ پس ہمیں اپنی اصلاح کی طرف توجہ دینی چاہئے۔ دنیا کی دیکھا دیکھی ہم اپنے آپ کو بھی اُن اندھیروں میں نہ ڈبو لیں جو دنیا کی تباہی کے ذمہ دار ہیں۔ بلکہ ہمیں اپنی کمزوریوں پر نظر رکھتے ہوئے اپنی اصلاح کی طرف توجہ دینی چاہئے۔
مختلف ملکوں سے یہ بہت قابلِ فکر جائزہ میرے سامنے آیا ہے۔ جب میں اسے دیکھتا ہوں تو عموماً یہی حالت ہے کہ ہمارے ہاں طلاق اور خلع کی شرح بڑھتی چلی جا رہی ہے اور اس کی یہی وجہ ہے کہ بے صبر ی، نیکیوں میں کمی، تقویٰ سے دوری۔ اب یہاں یوکے میں ہی تین سالوں کا جب میں نے جائزہ لیا تو میں حیران رہ گیا کہ تقریباً تین فیصد طلاق اور خلع کی شرح بڑھ چکی ہے اور بیس فیصد طلاقیں ہونے لگ گئی ہیں۔ جتنے رشتے طے ہوتے ہیں اُن میں سے بیس فیصد ٹوٹنے لگ گئے ہیں اور یہ قابلِ فکر بات ہے۔ اس طرف ہمیں بہت توجہ دینے کی ضرورت ہے اور وجوہات یہی ہیں۔ جب وجہ پتہ کرو جیسا کہ میں نے پہلے بتایا کہ میاں بیوی کا گندی زبان کا استعمال ہے۔ بداخلاقیاں ہیں۔ برداشت کی کمی ہے۔ والدین، بہن بھائیوں اور رشتے داروں کی دخل اندازیاں ہیں۔ چاہے وہ لڑکے کے والدین بہن بھائی ہوں یا لڑکی کے ہوں۔ جب ایک دوسرے کے رشتوں میں دخل اندازیاں کرتے ہیں تو پھر اُن میں مزید بگاڑ پیدا ہوتا ہے۔ گو رحمی رشتوں کی ادائیگی کا تو حکم ہے لیکن والدین اور بہن بھائیوں کو بھی حکم ہے کہ تم لوگ بھی فساد پیدا نہ کرو۔ میاں بیوی کو آرام اور سکون سے رہنے دو۔ اگر یہ ہو جائے تو کبھی رشتے اتنے تیزی سے نہ ٹوٹیں۔ پھر سچائی کا نہ استعمال کرنا ہے۔ لڑکے باہر سے شادی کر کے یہاں آتے ہیں۔ یہاں پڑھی لکھی لڑکیاں ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ گریجویٹ ہے جب پتہ کریں تو پتہ لگتا ہے کہ میٹرک فیل لڑکا آیا ہے۔ اس سے بھی رشتے ٹوٹتے ہیں۔ اسی طرح لڑکیوں کے بارے میں بعض کمیوں کا پتہ لگ رہا ہوتا ہے۔ تو ہمیشہ سچائی کا استعمال کرنا چاہئے۔ پھر حد یہاں تک ہے کہ اب میں بڑی عورتوں کو یہ کہنا چاہتا ہوں کہ رشتے ٹوٹنے کی یہ بھی شکایتیں ہیں کہ ساس اور سسر اپنی بہوؤں کو مارتے ہیں۔ صرف اُن کے خاوندوں سے مار نہیں پڑواتے بلکہ خود بھی ہاتھ اُٹھانا شروع کر دیتے ہیں جو کسی طرح بھی جائز نہیں ہے۔ پھر یہاں آ کے لڑکے بعض غلط کاموں میں پڑ جاتے ہیں اور بیویوں کو چاہتے ہیں کہ اُن کے ساتھ نہ رہیں۔ اُن کو اگر وہ پاکستان سے آئی ہیں تو کسی نہ کسی بہانے سے پاکستان چھوڑ آئیں۔ ایک دوسرے کے حقوق ادا نہیں کرتے۔ پھر جب جماعت اصلاح کی کوشش کرتی ہے تو جماعت سے تعاون نہیں کرتے۔ تو بہت ساری وجوہات ہیں جن کی بنیاد یہی ہے کہ تقویٰ میں کمی ہے اور اس کی وجہ سے رشتے ٹوٹتے چلے جا رہے ہیں اور یہ تعداد بڑھتی چلی جا رہی ہے۔ اللہ تعالیٰ مَردوں کو بھی اور عورتوں کو بھی عقل دے اور تقویٰ پر قائم رہتے ہوئے اپنے رشتے نبھانے کی کوشش کرنے والے ہوں۔ پس اس طرف توجہ دینی چاہئے کہ اللہ تعالیٰ نے جماعت میں شامل کر کے جو احسان کیا ہے ہم اُس کی قدرکرنے والے بنیں۔ اور اللہ تعالیٰ کی رضا پر نظر ہو۔ ہم یہ دیکھیں کہ ہم نے کل کے لئے آگے کیا بھیجا ہے؟ نہ یہ کہ ہم نے اپنے لئے اس دنیا میں کیاحاصل کر لیا ہے۔ اللہ تعالیٰ تمام مردوں اور عورتوں کو اس کی توفیق عطا فرمائے۔ (خطاب از مستورات جلسہ سالانہ برطانیہ 23؍جولائی 2011ء۔ مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل 4؍ مئی 2012ء)