عائلی مسائل اور اُن کا حل
تعلقات میں تلخی کی چند وجوہات
نا پسندکی شادیاں
مجبوری میں کی جانے والی بعض شادیوں میں بعد کے واقعات تلخی پر منتج ہوتے ہیں۔ اس حوالے سے حضور ایّدہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :
’’بعض لڑکیاں والدین کے کہنے پر شادی کر لیتی ہیں۔ پہلے سچ بولنے اور حق کہنے کی جرأت نہیں ہوتی اور جب شادی ہو جاتی ہے تو پھر بعض ایسی حرکتیں کرتی ہیں جن سے میاں بیوی میں اعتماد کی کمی ہو جاتی ہے اور پھر لڑائیاں بڑھنی شروع ہو جاتی ہیں۔ بعض دفعہ پاکستان سے رشتے کر کے آ جاتی ہیں، جماعتی جائزے نہیں لئے جاتے، رپورٹیں نہیں لی جاتیں۔ پھر کہا جاتا ہے کہ جماعت نے ہماری مدد نہیں کی۔ یہاں سے بعض لڑکے لڑکیوں کو بلا لیتے ہیں، اُن سے زیادتیاں کرتے ہیں اور پھر طلاقیں ہو جاتی ہیں۔ تو دونوں طرف سے ایک ایسی خوفناک صورتحال پیدا ہو رہی ہے جس کی جماعت کو فکر کرنی چاہئے۔
لڑکیاں بعض دفعہ شادی کے بعد بتاتی ہیں کہ ہمیں یہ رشتہ پسند نہیں ہے۔ ماں باپ نے کہا مجبوری تھی۔ بعض لڑکے بھی شادی کے بعد بتاتے ہیں۔ لڑکوں میں بھی اتنی جرأت نہیں ہے، یا پھر اُن کو پتہ چلتا ہے کہ وہ لڑکے یا لڑکی کہیں اور involve ہیں یا کسی دوسرے رشتہ کو پسند کرتے ہیں۔ وہ اپنی پسند کے ر شتے شروع میں بتا دیں تو کم از کم دو گھروں کی زندگیاں تو برباد نہ ہوں اور پھر ایسے بھی معاملات ہیں جہاں ماں باپ کو پہلے پتہ ہوتا ہے اور اس خیال سے شادی کروا دیتے ہیں کہ بعد میں ٹھیک ہو جائے گا لیکن یہ ہوتا نہیں ہے۔ لڑکا ہو یا لڑکی، ٹھیک تو نہیں ہوتے البتہ دونوں میں سے کسی ایک کی زندگی برباد ہو جاتی ہے‘‘۔ (جلسہ سالانہ جرمنی خطاب از مستورات فرمودہ 25 جون 2011ء مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل13؍اپریل 2012ء)
اسی حوالہ سے ایک اور موقع پر فرمایا:
’’پھر لڑکیاں بعض ایسی جگہ شادی کرنا چاہتی ہیں جہاں ماں باپ نہیں چاہتے، بعض وجوہ کی بنا پر، مثلا ً لڑکا احمدی نہیں ہے، یادین سے تعلق نہیں ہے۔ مگر لڑکی بضد ہے کہ میں نے یہیں شادی کرنی ہے۔ پھرلڑکے ہیں، بعض ایسی حرکات کے مرتکب ہو جاتے ہیں جو سارے خاندان کی بدنامی کا باعث ہو رہا ہوتاہے۔ تو اس لئے یہ دعا سکھائی گئی ہے کہ اے اللہ ہماری اولاد وں کی طرف سے ہمیں کسی قسم کے ابتلا کا سامنانہ کرنا پڑے بلکہ ان میں ہمارے لئے برکت رکھ دے اور یہ دعا بچے کی پیدائش سے بلکہ جب سے پیدائش کی امید ہو تب سے شروع کر دینی چاہئے ‘‘۔ (خطبہ جمعہ12؍دسمبر2003ءبمقام مسجد بیت الفتوح، لندن۔ مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل 6؍فروری2004ء)
سیدنا حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ نے اپنےایک خطاب میں احمدی خواتین کویہ دردمندانہ نصیحت فرمائی کہ :
’’مذہب کا ہمیشہ ایک احمدی لڑکی کو یہ احساس ہونا چاہئے کہ میں احمدی ہوں اور اگر میں کہیں باہر رشتہ کرتی ہوں تو میری آنے والی نسل جو ہے اس میں بگاڑ پیدا ہو سکتا ہےاور میرے مذہب میں بھی بگاڑ پیدا ہوسکتا ہے کیونکہ دوسرے گھر میں جاکر، ایک غیر مذہب میں جا کر ان کے زیرِاثر میں آ سکتی ہوں ‘‘۔ (جلسہ سالانہ یوکے خطاب ازمستورات فرمودہ 28جولائی2007ء۔ مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل 13؍نومبر2015ء)
پھر ایک اور موقع پر فرمایا:
’’پھر یہ معاملات بھی اب سامنے آنے لگے ہیں کہ شادی ہوئی توساتھ ہی نفرتیں شروع ہو گئیں بلکہ شاد ی کے وقت سے ہی نفرت ہو گئی۔ شادی کی کیوں تھی؟ اور بدقسمتی سے یہاں ان ملکوں میں یہ تعداد بہت زیادہ بڑھ رہی ہے، شاید احمدیوں کو بھی دوسروں کا رنگ چڑھ رہا ہے حالانکہ احمدیوں کوتو اللہ تعالیٰ نے خالص اپنے دین کارنگ چڑھانے کے لئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی جماعت میں شامل ہونے کی توفیق عطا فرمائی تھی۔ پس ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ اگر مرضی کی شادی نہیں ہوئی تب بھی پہلے اکٹھے رہو، ایک دوسرے کو سمجھو، اس نصیحت پر غور کرو جس کے تحت تم نے اپنے نکاح کا عہد و پیمان کیا ہے کہ تقویٰ پر چلناہے، پھر سب کچھ کر گزرنے کے بعد بھی اگر نفرتوں میں اضافہ ہو رہا ہے تو کوئی انتہائی قدم اٹھاؤ اور اس کے لئے بھی پہلے یہ حکم ہے کہ آپس میں حکمین مقرر کرو، رشتہ دار ڈالو، سوچو، غور کرو۔
دونوں طرف کے فریقوں کو مختلف قسم کے احکام ہیں۔ افسوس کی بات یہ ہے، گو بہت کم ہے لیکن بعض لڑکیوں کی طرف سے بھی پہلے دن سے ہی یہ مطالبہ آ جاتا ہے کہ ہماری شادی تو ہو گئی لیکن ہم نے اس کے ساتھ نہیں رہنا۔ جب تحقیق کرو تو پتہ چلتا ہے کہ لڑکے یا لڑکی نے ماں باپ کے دباؤ میں آ کر شادی تو کر لی تھی ورنہ وہ کہیں اور شادی کرنا چاہتے تھے۔ تو ماں باپ کو بھی سوچنا چاہئے اور دو زندگیوں کو اس طرح برباد نہیں کرنا چاہئے‘‘۔ (خطبہ جمعہ فرمودہ 10 نومبر2006ء بمقام مسجد بیت الفتوح، لندن مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل یکم دسمبر 2006ء)
ذاتی انا: مسائل کا پہاڑ
فریقین میں مسائل کے آغاز کی ایک بڑی وجہ ان کی ذاتی انا بھی ہوتی ہے۔ اس کمزوری پر روشنی ڈالتے ہوئے حضور انور ایّدہ اللہ فرماتے ہیں :
’’آجکل بذریعہ خطوط یا بعض ملنے والوں سے سن کر طبیعت بے چین ہو جاتی ہے کہ ہمارے مقاصد کتنے عظیم ہیں اور ہم ذاتی اناؤں کو مسائل کا پہاڑ سمجھ کرکن چھوٹے چھوٹے لغو مسائل میں الجھ کر اپنے گھر کی چھوٹی سی جنت کو جہنم بنا کر جماعتی ترقی میں مثبت کر دار ادا کرنے کی بجائے منفی کردار ادا کر رہے ہیں۔ ان مسائل کو کھڑا کرنے میں جو بھی فریق اپنی اَناؤں کے جال میں اپنے آپ کو بھی اور دوسرے فریق کو بھی اور نظام جماعت کو بھی اور پھر آخرکار بعض اوقات مجھے بھی الجھانے کی کوشش کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ اسے عقل دے اور وہ اس مقصد کو سمجھے جس کے لئے اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو مبعوث فرمایا تھا۔ آپ علیہ السلام فرماتے ہیں کہ : وہ کام جس کے لئے خدا نے مجھے مامور فرمایا ہے وہ یہ ہے کہ خدا میں اور اس کی مخلوق کے رشتہ میں جو کدورت واقع ہو گئی ہے اس کو دور کرکے محبت اور اخلاص کو دوبارہ قائم کروں۔ پس یہ بڑا مقصد ہے جس کے پورا کرنے کی ایک احمدی کو کوشش کرنی چاہئے اور اس کو جستجو رہنی چاہئےاور کوئی احمدی بھی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے اس مقصد کے حصول کے لئے آپ کی مدد نہیں کر سکتا جب تک کہ وہ اپنی اَناؤں سے چھٹکارا حاصل نہیں کرتا ان پاک ہدایتوں پر عمل نہیں کرتا جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ہمیں دی ہیں۔ پس ہر احمدی کو اپنا جائزہ لینا چاہئے، اپنے گھر کا جائزہ لینا چاہئے کہ کیا ہم قرآنی تعلیم سے ہٹے ہوئے تو نہیں ہیں ؟ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی تعلیم سے لاشعوری طور پر دور تو نہیں چلے گئے؟ اپنی اَناؤں کے جال میں تو نہیں پھنسے ہوئے؟ اس بات کا جائزہ لڑکے کو بھی لینا ہو گا اور لڑکی کو بھی لینا ہو گا، مرد کوبھی لینا ہو گا، عورت کو بھی لینا ہو گا، دونوں کے سسرال والوں کو بھی لینا ہو گا کیونکہ شکایت کبھی لڑکے کی طرف سے آتی ہے۔ کبھی لڑکی کی طرف سے آتی ہے، کبھی لڑکے والے زیادتی کر رہے ہوتے ہیں، کبھی لڑکی والے زیادتی کر رہے ہوتے ہیں لیکن اکثر زیادتی لڑکے والوں کی طرف سے ہوتی ہے۔ یہاں میں نے گزشتہ دنوں امیر صاحب کو کہا کہ جو اتنے زیادہ معاملات آپس کی ناچاقیوں کے آنے لگ گئے ہیں اس بارے میں جائزہ لیں کہ لڑکے کس حد تک قصور وار ہیں، لڑکیاں کس حد تک قصور وار ہیں اور دونوں طرف کے والدین کس حد تک مسائل کو الجھانے کے ذمہ دار ہیں۔ تو جائزے کے مطابق اگر ایک معاملے میں لڑکی کا قصور ہے تو تقریباً تین معاملات میں لڑکا قصور وار ہے، یعنی زیادہ مسائل لڑکوں کی زیادتی کی وجہ سے پیدا ہو رہے ہیں اور تقریباً 40-30 فیصد معاملات کو دونوں طرف کے سسرال بگاڑ رہے ہوتے ہیں۔ اس میں بھی لڑکی کے ماں باپ کم ذمہ دار ہوتے ہیں‘‘۔
حضور ایّدہ اللہ تعالیٰ مزید فرماتے ہیں :
’’اسلام نے ہمیں اپنے گھریلو تعلقات کو قائم رکھنے اور محبت و پیار کی فضا پیدا کرنے کے لئے کتنی خوبصورت تعلیم دی ہے۔ ایسے لوگوں پر حیرت اور افسوس ہوتا ہے جو پھر بھی اپنی اَناؤں کے جال میں پھنس کر دو گھروں، دو خاندانوں اور اکثر اوقات پھر نسلوں کی بربادی کے سامان کر رہے ہوتے ہیں۔ اللہ رحم کرے۔ اسلامی نکاح کی یا اس بندھن کے اعلان کی یہ حکمت ہے کہ مرد و عورت جواللہ تعالیٰ کے حکم کے مطابق میاں اور بیوی کے رشتے میں پروئے جا رہے ہوتے ہیں، نکاح کے وقت یہ عہد کر رہے ہوتے ہیں کہ ہم ان ارشادات الٰہی پر عمل کرنے کی کوشش کریں گے جو ہمارے سامنے پڑھے گئے ہیں۔ ان آیات قرآنی پرعمل کرنے کی کوشش کریں گے جو ہمارے نکاح کے وقت اس لئے تلاوت کی گئیں تاکہ ہم ان کے مطابق اپنی زندگیوں کو ڈھالیں اور ان میں سے سب سے پہلی نصیحت یہ ہے کہ تقویٰ پر قدم مارو، تقویٰ اختیار کرو۔ تونکاح کے وقت اس نصیحت کے تحت ایجاب و قبول کر رہے ہوتے ہیں، نکاح کی منظوری دے رہے ہوتے ہیں کہ ہم ان پر عمل کریں گے۔ کیونکہ اگر حقیقت میں تمہارے اندر تمہارے اس رب کا، اس پیارے رب کا پیار اور خوف رہے گاجس نے پیدائش کے وقت سے لے کر بلکہ اس سے بھی پہلے تمہاری تمام ضرورتوں کا خیال رکھا ہے، تمام ضرورتوں کو پورا کیا ہے تو تم ہمیشہ وہ کام کرو گے جو اس کی رضاکے کام ہیں اور اس کے نتیجہ میں پھر ان انعامات کے وارث ٹھہرو گے۔
میاں بیوی جب ایک عہد کے ذریعہ سے ایک دوسرے کے ساتھ بندھ گئے اور ایک دوسرے کا خیال رکھنے کا عہد کیا تو پھر یہ دونوں کا فرض بنتا ہے کہ ان رشتوں میں مزید بہتری پیدا کرنے کے لئے پھر ایک دوسرے کے رشتہ داروں کا بھی خیال رکھیں۔ یاد رکھیں کہ جب خود ایک دوسرے کا خیال رکھ رہے ہوں گے اور ایک دوسرے کے جذبات کا خیال رکھ رہے ہوں گے، عزیزوں اور رشتہ داروں کا خیال رکھ رہے ہوں گے، ان کی عزت کر رہے ہوں گے، ان کو عزت دے رہے ہوں گے تو رشتوں میں دراڑیں ڈالنے کے لئے پھونکیں مارنے والوں کے حملے ہمیشہ ناکام رہیں گے کیونکہ باہر سے ماحول کا بھی اثر ہو رہا ہوتا ہے۔ آپ کی بنیاد کیونکہ تقویٰ پر ہو گی اور تقویٰ پر چلنے والے کو خداتعالیٰ شیطانی وساوس کے حملوں سے بچاتا رہتا ہے‘‘۔ (خطبہ جمعہ فرمودہ 10 نومبر 2006ء بمقام مسجد بیت الفتوح، لندن مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل یکم دسمبر 2006ء)
قوتِ برداشت کی کمی
حضور انور ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے عائلی جھگڑوں کی ایک وجہ قوّت برداشت میں کمی بھی بتائی اور اس حوالہ سے افراد جماعت کو نصیحت کرتے ہوئے ارشاد فرمایا:
’’آج کل یہاں بھی اور دنیا میں ہر جگہ میاں بیوی کے جھگڑوں کے معاملات میرے سامنے آتے رہتے ہیں۔ جن میں مرد کا قصوربھی ہوتا ہے عورت کا قصور بھی ہوتا ہے۔ نہ مرد میں برداشت کا وہ مادہ رہا ہے جو ایک مومن میں ہونا چاہئے نہ عورت برداشت کرتی ہے۔ جیسا کہ میں پہلے بھی کئی مرتبہ اس طرف توجہ دلاتے ہوئے کہہ چکا ہوں کہ گوزیادہ تر قصور عموماً مردوں کا ہوتا ہے لیکن بعض ایسے معاملات ہوتے ہیں جن میں عورت یا لڑکی سراسر قصور وار ہوتی ہے۔ قصور دونوں طرف سے ہوتا ہے جس کی وجہ سے رنجشیں پیدا ہوتی ہیں، گھر اجڑتے ہیں۔ پس دونوں طرف کے لوگ اگر اپنے جذبات پر کنٹرول رکھیں اور تقویٰ دل میں قائم کرنے والے ہوں تو یہ مسائل کبھی پیدا نہ ہوں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ایسے لوگوں کو نصیحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ اگر تم دونوں کو ایک دوسرے کے عیب نظر آتے ہیں تو کئی باتیں ایسی بھی ہوں گی جو اچھی لگتی ہوں گی۔ یہ نہیں کہ صرف ایک دوسرے میں عیب ہی عیب ہیں ؟ اگر ان اچھی باتوں کو سامنے رکھو اور قربانی کا پہلو اختیار کرو تو آپس میں پیار محبت اور صلح کی فضا پیدا ہو سکتی ہے۔ آپﷺ کی بیویوں کی گواہی ہے کہ آپﷺ جیسے اعلیٰ اخلاق کےساتھ بیویوں سے حسن سلوک کرنے والا کوئی اور ہو ہی نہیں سکتا۔ پس آپ صلی اللہ علیہ وسلم جو نصیحت فرماتے ہیں تو صرف نصیحت نہیں فرماتے بلکہ آپﷺ نے اپنے اُسوہ سے بھی یہ ثابت کیا ہے‘‘۔ (خطبہ جمعہ فرمودہ 22؍اگست 2008ء بمقام مئی مارکیٹ منہائم جرمنی۔ مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل 21؍ستمبر 2008ء)
31اکتوبر2009ء کو مسجد فضل لندن میں سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے دو نکاحوں کا اعلان فرمایا۔ اس موقع پر سیدنا حضرت امیر المومنین خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے خطبہ مسنونہ کی تلاوت کے بعد اپنے خطبہ میں فرمایا کہ :
’’نکاح ایک ایسا Bondہے جو لڑکے اور لڑکی کے درمیان اللہ تعالیٰ کو گواہ ٹھہرا کر اس وعدہ کے ساتھ کیا جاتاہے کہ ہم تقویٰ پر قائم رہتے ہوئے ہمیشہ اپنے اس رشتہ کو نبھانے کی کوشش کریں گے۔ لیکن بدقسمتی سے آج کل مغرب کا اثر ہے یا تعلیم کا اثرہے۔ برداشت کا مادہ نہ ہونے کی وجہ سے بڑی جلدی ان رشتوں میں دراڑیں پیدا ہونی شروع ہوجاتی ہیں۔ جبکہ قرآن کریم کی جن آیات کوپڑھا جاتاہے ان میں اللہ تعالیٰ نے تقویٰ پرچلنے کا ذکر اور حکم فرمایاہےاور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ آیات یقینا اللہ تعالیٰ کے اشارہ سے ہی اس خطبہ کے لئے مقرر فرمائی ہوں گی۔ پس اس بات کو ہمیشہ دونوں طرف کے رشتہ د اروں اور لڑکے کوبھی اور لڑکی کو بھی ملحوظ رکھنا چاہئے اور اس کا خیال رکھنا چاہئے کہ رشتہ ایک بہت اہم اور مقدس جوڑ ہے اور جیسا کہ میں کئی دفعہ بیان کر چکا ہوں لڑکے اور لڑکی کے خاندانوں کو بھی ذرا ذرا سی بات پر رشتے توڑنے اور لڑائیاں شروع کرنےاور بدمزگیاں پیدا کرنے سے اجتناب کرنا چاہئے‘‘۔ (مطبوعہ ہفت روزہ الفضل انٹرنیشنل یکم جون 2012ء)
جھوٹ کی وجہ سےبےاعتمادی
میاں بیوی کے درمیان بے اعتمادی پیدا ہوجانے کی بہت بڑی وجہ کسی ایک فریق کا یا دونوں کا جھوٹ کی بدعادت میں مبتلا ہونا ہے۔ اس طرف توجہ دلاتے ہوئے حضور ایّدہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
’’بہت سے جھگڑے خاوند بیوی کے اس لئے ہو رہے ہوتے ہیں کہ بے اعتمادی کا شکار ہوئے ہوتے ہیں۔ عورت کو شکوہ ہوتا ہے کہ مرد سچ نہیں بولتا۔ مرد کو شکوہ ہوتا ہے کہ عورت سچ نہیں بولتی اور اس کوسچ بولنے کی عادت ہی نہیں اور اکثر معاملات میں یہ ایک دوسرے پر الزام لگا رہے ہوتے ہیں کہ میرے سے غلط بیانی سے کام لیا یا مستقل ہر بات میں غلط بیانی کرتے ہیں یا کرتی ہے۔ پھر سچ پر قائم نہ رہنے کی وجہ سے بچوں پر بھی اثر پڑتا ہے اور بچے بھی جھوٹ بولنے کی عادت میں مبتلا ہو جاتے ہیں ‘‘۔
مزیدفرمایا :
’’پھر یہ بھی نصیحت ہے کہ اگر تم اس طرح سچ پر قائم رہو گے اور اپنی ذمہ داریوں کو ادا کرنے کی کوشش کرتے رہو گے تو خداتعالیٰ تمہاری ان کوششوں کے نتیجہ میں تمہاری اصلاح کرتا رہے گا۔ تمہیں نیکیوں پر چلنے کی توفیق دیتا رہے گا۔ تمہارے گناہوں سے، تمہاری غلطیوں سے، صَرفِ نظر کرتے ہوئے تمہارے گھروں کو جنت نظیر بنا دےگا۔
سچ پر قائم رہنے کے بارے میں فرمایا ہے کہ سچ پر قائم رہ کر ہی ایک دوسرے پر اعتماد قائم ہوتا ہے اور سچ پر قائم رہ کر ہی آپس کے تعلقات کو اچھی طرح ادا کر سکتے ہو اور سچ پر قائم ہوکر ہی اپنی نسلوں کی صحیح تربیت کر سکتے ہو اور ان کو معاشرے کا ایک مفید وجود بنا سکتے ہو۔ (جلسہ سالانہ جرمنی خطاب از مستورات فرمودہ21؍ اگست2004ء۔ مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل یکم مئی 2015ء)
7 اکتوبر2011ء کو حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے بعد نماز مغرب و عشاء مسجد بیت الرشید ہمبرگ(جرمنی) میں چار نکاحوں کا اعلان فرمایا۔ حضور انور ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے مسنون خطبہ نکاح و آیات قرآنیہ کی تلاوت کے بعدفرمایا:
’’پس ان آیات میں اسی طرف توجہ دلائی گئی ہے کہ تقویٰ سے کام لیتے ہوئے۔ اس حد تک سچائی جس میں ذرا سا بھی جھول نہ ہو، اس کا خیال رکھو۔ یہ سچائی ہی ہے جو لڑکے اور لڑکی، خاوند اور بیوی کے تعلقات میں اعتماد کی فضا پیدا کرتی ہے اور یہ اعتماد ہی ہے جو پھر آگے امن کی اور پیار کی ضمانت بن جاتا ہے۔ پس نئے قائم ہونے والے رشتے ان باتوں کا خیال رکھیں۔ اللہ کرے یہ قائم ہونے والے رشتے ان باتوں کا خیال رکھنے والے ہوں اور کبھی بھی کسی بھی قسم کا جھول، جھوٹ یا سچائی میں کوئی غلط بیانی بھی آپس کے رشتوں میں پیدا نہ ہو اور ہمیشہ اعتماد کی فضا قائم رہے‘‘۔ (مطبوعہ ہفت روزہ الفضل انٹرنیشنل 30دسمبر 2011ء)
جھوٹ، اور جھوٹی گواہی
احمدی خواتین سے مخاطب ہوتے ہوئےحضور انور ایّدہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :
’’ پھر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ایسے لوگوں کا ایک ٹیسٹ ہے جو ایمان کا دعویٰ کرتے ہیں، توبہ کرنے کا دعویٰ کرتے ہیں، ہدایت پر قائم ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں اور وہ ٹیسٹ یہ ہے کہ : لَا یَشْہَدُوْنَ الزُّوْرَ (الفرقان:73) جھوٹی گواہی نہیں دیتے۔ اللہ تعالیٰ ایک جگہ گواہی کے متعلق فرماتا ہے کہ:
یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا کُوۡنُوۡا قَوّٰمِیۡنَ بِالۡقِسۡطِ شُہَدَآءَ لِلّٰہِ وَ لَوۡ عَلٰۤی اَنۡفُسِکُمۡ اَوِ الۡوَالِدَیۡنِ وَ الۡاَقۡرَبِیۡنَ (النساء: 136)
اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو! اللہ کی خاطر گواہ بنتے ہوئے انصاف کو مضبوطی سے قائم کرنے والے بن جاؤ خواہ خود اپنے خلاف گواہی دینی پڑے یا والدین اور قریبی رشتہ داروں کے خلاف گواہی دینی پڑے۔
پس دیکھیں یہ خوبصورت تعلیم اللہ تعالیٰ نے ہمیں دی ہے۔ ہم دنیا کو بتانے کے لئے تو یہ دعوے کرتے رہتے ہیں کہ اسلام کی یہ خوبصورت تعلیم ہے اور اسلام کی وہ خوبصورت تعلیم ہےاور جماعت احمدیہ دنیا میں انصاف اور محبت کا پرچار کرتی ہے لیکن اگر ہمارے عمل ہمارے قول کے خلاف ہیں تو ہم اپنے نفس کو بھی دھوکہ دے رہے ہیں اور دنیا کو بھی دھوکہ دے رہے ہیں۔ اب یہ بڑا مشکل مسئلہ ہے کہ انسان اپنے خلاف گواہی دے۔ صلح بھی کر لی، توبہ بھی کر لی، عملِ صالح بھی کر لیا لیکن کچھ عرصہ بعد اگرکہیں ایسا موقع آئے کہ جہاں سچ بول کر اپنے خلاف گواہی دینی پڑے تو دل کو ٹٹولیں کہ کیاہم ایسے ہیں جو سچائی پر قائم رہتے ہوئے اپنے خلاف گواہی دینے والے بنیں گے۔
عموماً دیکھا گیا ہے کہ لوگ تو جھوٹ بول کر اپنے آپ کو بچاتے ہیں۔ لیکن اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ تم اگر اپنے گھروں میں امن قائم کرنا چاہتی ہو یا اپنے معاشرے میں امن قائم کرنا چاہتی ہو تو کبھی جھوٹ کا سہارا نہ لویہاں تک کہ اپنے خلاف بھی گواہی دینی پڑے تو دو۔ اپنی غلطی کا اعتراف کرو۔ اپنے والدین کے خلاف گواہی دینی پڑے تو دو۔ اپنے قریبی دوستوں، رشتہ داروں کے خلاف گواہی دینی پڑے تو دو۔ اگر اس ایک بات کو ہر احمدی عورت اور مرد پلّے باندھ لے تو گھروں کے فساد ختم ہو جائیں۔ قضا میں معاملات آتے ہیں، اکثر میں نے دیکھا ہے، بات کو طول دینے کے لئے اپنے حق میں فیصلے کروانے کے لئے جھوٹ پر بنیاد ہو جاتی ہے۔ بعض دفعہ عورت کی طرف سے بھی اپنے کیس کو مضبوط کرنے کے لئے جھوٹ بولا جا رہا ہوتاہے اور مرد کی طرف سے بھی اپنے معاملے کو مضبوط کرنے کے لئے جھوٹ بولا جارہاہوتا ہےاور پھر وکیل اور مشورہ دینے والے دوسرے لوگ جو اس کام پر مقرر کئے جاتے ہیں، وہ اس پر سونے پر سہاگہ، اپنی برتری ثابت کرنے کے لئے کہ ہم نے بڑا اچھا کیس لڑا جھوٹ کی ترغیب دلاتے ہیں یا جھوٹے کیس بنا لیتے ہیں یا اپنے پاس سے بھی خود کچھ نہ کچھ add کرلیتے ہیں۔ وکیل تو اپنی برتری اس لئے سمجھتے ہیں کہ اگر یہ کیس ہم جیت گئے تو ہماری بڑی واہ واہ ہو جائے گی اور ہمارا کام چمکے گا۔ گویا انہوں نے یہاں شرک شروع کر دیا اور جھوٹ کو اپنا رازق بنا لیا۔ لوگ کہیں گے بڑا اچھا وکیل ہے۔ اگر اللہ تعالیٰ کا خوف دل میں نہ ہو تو پھر برائیاں پھیلتی چلی جاتی ہیں ‘‘۔ (جلسہ سالانہ جرمنی خطاب ازمستورات فرمودہ 25 جون 2011ء مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل13؍اپریل 2012ء)
قناعت اور توکل علی اللہ کی کمی
گھروں کے ٹوٹنے کی وجوہات بیان کرتے ہوئے حضورایّدہ اللہ تعالیٰ ایک خطبہ جمعہ میں فرماتے ہیں :
’’ اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ عورتوں میں قناعت کا مادہ کم ہوتاہے۔ بجائے اس کے کہ وہ اپنے خاوند کی جیب کو دیکھتے ہوئے اپنے ہاتھ کھولے، اپنے دوستوں، سہیلیوں یاہمسایوں کی طر ف دیکھتی ہیں جن کے حالات ان سے بہتر ہوتے ہیں اور پھر خرچ کرلیتی ہیں پھر خاوندوں سے مطالبہ ہوتاہے کہ اور دو۔ پھر آہستہ آہستہ یہ حالت مزید بگڑتی ہے اور اس قدر بے صبری کی حالت اختیار کر لیتی ہے کہ بعض دفعہ باوجود اس کے کہ دودو تین تین بچے بھی ہو جاتے ہیں لیکن اس بے صبری کی قناعت کی وجہ سے اور سب سے بڑھ کر یہ کہ اللہ تعالیٰ کی ذات پر توکل نہ ہونے کی وجہ سے۔ کیونکہ ایسے لوگ صرف دنیا داری کے خیالات سے ہی اپنے دماغوں کو بھرے رکھتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ پر اس وجہ سے یقین بھی کم ہو جاتاہے اور اگر خداتعالیٰ پر یقین نہ ہو تو پھر اس کے سامنے جھکتے بھی نہیں، اس سے دعا بھی نہیں کرتے۔ تو یہ ایک سلسلہ جب چلتاہے تو پھر دوسرا سلسلہ چلتا چلا جاتاہے اور پھر جو اللہ تعالیٰ کی طرف جھکنے والے نہ ہوں ان پر توکل کیسے رہ سکتاہے۔ تو ایسی عورتیں پھر اپنے گھروں کو برباد کردیتی ہیں۔ خاوندوں سے علیحدہ ہونے کے مطالبے شروع ہوجاتے ہیں اور پھر جیساکہ میں نے کہا کہ ایک برائی سے دوسری برائی پیدا ہوتی چلی جاتی ہے‘‘۔ (خطبہ جمعہ فرمودہ 15؍ اگست 2003ء بمقام مسجد فضل، لندن برطانیہ۔ مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل 10؍اکتوبر 2003ء)
عورتوں کی ناجائز خواہشات اور مطالبات
حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصر ہ العزیزنے15 اپریل 2006 ء کوجلسہ سالانہ آسٹریلیا میں مستورات سے خطاب میں عورتوں کو خصوصیت سے نصیحت کرتے ہوئے فرمایا:
’’آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ عورت اپنے خاوند کے گھر کی نگران ہے جہاں وہ اس بات کا خیال رکھے کہ خاوند کے گھر کو کسی قسم کا بھی نقصان نہ ہو۔ کسی قسم کا کوئی مادی نقصان بھی نہ ہواور روحانی نقصان بھی نہ ہو۔ اُس کے پیسے کا بے جا استعمال نہ ہو کیونکہ بے جا استعمال، اسراف جو ہے یہی گھروں میں بے چینیاں پیدا کردیتا ہے۔ عورتوں کے مطالبے بڑھ جاتے ہیں۔ خاوند اگر کمزور اعصاب کا مالک ہے تو ان مطالبوں کو پورا کرنے کے لئے پھر قرض لے کر اپنی عورتوں کے مطالبات پورے کرتا ہےاور بعض دفعہ اس وجہ سے مقروض ہونے کی وجہ سے، اس قرضے کی وجہ سے جب بے سکونی کی کیفیت پیدا ہوجاتی ہے تو فکروں میں مبتلا ہوتا ہےاور اگر اس کی طبیعت صبر کرنے والی بھی ہے تو پھرمریض بن جاتا ہے۔ کوئی شوگر کا مریض بن گیا، کوئی بلڈ پریشر کا مریض بن گیا۔ اگر خاوند نہیں مانتا تو بعض عورتیں اپنے خاوندوں کے رویہ کی وجہ سے شوگر اور بلڈ پریشر کی مریض بن جاتی ہیں۔ لیکن اگر آپ نگرانی کا صحیح حق ادا کرنے والی ہوں گی تو نہ تو آپ کسی قسم کا مریض بن رہی ہوں گی نہ آپ کے خاوند کسی قسم کے مریض بن رہے ہوں گے۔ اگر کوئی خاوند بے صبرا ہے تو گھر میں ہر وقت توُ تکار رہتی ہے یہ بھی مریض بنارہی ہوتی ہے۔ دونوں صورتوں میں وہی گھر جو جنت کا گہوارہ ہونا چاہئے، جنت نظیر ہونا چاہئے ان لڑائیوں جھگڑوں کی وجہ سے جہنم کا نمونہ پیش کررہا ہوتا ہے۔ پھر بچوں کے ذہنوں پر اس کی وجہ سے علیحدہ اثر ہورہا ہوتا ہے۔ ان کی تعلیم و تربیت متاثر ہورہی ہوتی ہے۔
اس معاشرے میں سچ کہنے کی عادت ڈالی جاتی ہے اور معاشرہ کیونکہ بالکل آزاد ہے اس لئے بعض بچے ماں باپ کے منہ پر کہہ دیتے ہیں کہ بجائے ہماری اصلاح کے پہلے اپنی اصلاح کریں۔ تو اس طرح جو عورت خاوند کے گھر کی، اس کے مال اور بچوں کی، نگران بنائی گئی ہے، اپنی خواہشات کی وجہ سے اس گھر کی نگرانی کے بجائے اس کو لٹوانے کا سامان کر رہی ہوتی ہے۔
پس ہر احمدی عورت کو یہ ذہن میں رکھنا چاہئے کہ وہ اپنی دنیاوی خواہشات کی تکمیل کے لئے نہیں بلکہ اپنے پیدا کرنے والے خدا کی عبادت اور اس کے حکموں پر عمل کرنے کے لئے اس دنیا میں آئی ہے‘‘۔ (مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل 12؍جون2015ء)
ایک اور موقع پرخواتین سے مخاطب ہو کرحضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا :
’’بعض گھر اس لئے اُجڑ جاتے ہیں کہ مرد اُن کی خواہشات پوری نہیں کر سکتے۔ ڈیمانڈز بہت زیادہ ہو جاتی ہیں۔ یا اگر اُجڑتے نہیں تو بے سکونی کی کیفیت رہتی ہے۔ لیکن جو حقیقت میں اللہ تعالیٰ سے لو لگانے والے ہوں اُن کا کفیل خدا خود ہو جاتا ہے، اُن کی ضروریات پوری کرتا ہے۔ ایک عقلمند عورت وہی ہے جو یہ سوچے کہ میں نے اپنا گھریلو چین اور سکون کس طرح پانا ہے؟ اپنے گھر کو جنت نظیر کس طرح بنانا ہے؟ اگر دنیا کی طرف نظر رہے تو یہ سکون کبھی حاصل نہیں ہو سکتا۔ حقیقی سکون خدا تعالیٰ سے تعلق جوڑنے سے ہی حاصل ہو سکتا ہے۔ دنیاوی خواہشات تو بڑھتی چلی جاتی ہیں۔ ایک کے بعد دوسری خواہش آتی چلی جاتی ہے جو بے سکونی پیدا کرتی ہے‘‘۔
پھر فرمایا :
’’کہ اگر آپ جائزہ لیں تو نظر آئے گا کہ یقینا جو خدا تعالیٰ کی رضا کے حصول کے لئے یہ نیک اعمال کر رہی ہیں اُن کی زندگیوں میں جو سکون اور اطمینان ہے وہ دنیا دار عورتوں کی زندگیوں میں نہیں ہے۔ ایسی عورتوں کے گھروں میں بھی بے سکونی ہے جو دنیا داری والی ہیں۔ لیکن جو دین کو مقدم رکھنے والی ہیں، اُس کی خاطر قربانیاں کرنے والی ہیں، اُنہیں گھروں میں بھی سکون ہے، اور ان کی عائلی زندگی بھی خوش و خرم ہے۔ اُن کے بچے بھی نیکیوں پر قائم ہیں اور جماعت کے ساتھ منسلک ہیں ‘‘۔ (2 جون 2012ء میں جلسہ سالانہ جرمنی خطاب از مستورات مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل 26؍اکتوبر 2012ء)
جلسہ سالانہ یوکے 2007ء کے موقع پر مستورات سے خطاب میں حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے حضرت فاطمۃ الزہرہؓ کی مثال دیتے ہوئے فرمایا:
’’ایک دفعہ حضرت علی مرتضیٰؓ گھر تشریف لائے۔ کچھ کھانے کو مانگا کہ کچھ کھانے کو دو حضرت فاطمہؓ سے۔ تو آپؓ نے بتا یا کہ آج تیسرا دن ہے گھر میں جو کا ایک دانہ تک نہیں۔ حضرت علیؓ نے فرمایا کہ اے فاطمہ! مجھ سے تم نے ذکر کیوں نہیں کیا کہ میں کوئی انتظام کرتا۔ انہوں نے جواب دیا کہ میرے باپﷺ نے رخصتی کے وقت نصیحت کی تھی کہ میں کبھی سوال کر کے آپ کو شرمندہ نہ کروں۔ یہ نہ ہو کہ آپ کے حالات ایسے ہوں اور میں سوال کروں اور وہ میری خواہش پوری نہ ہو سکے اور اس کی وجہ سے آپ پر بوجھ پڑے یا قرض لے کر پورا کریں یا ویسے دل میں ایک پریشانی پیدا ہو کہ میں اس کی خواہش پوری نہیں کر سکا۔
تو یہ ایک ایسی بات ہے جو ہر عورت کے لئے مشعلِ راہ ہے۔ ہر اُس عورت کے لئے جو خاوندوں سے ناجائز مطالبات کرتی ہیں ‘‘۔ (جلسہ سالانہ یوکے خطاب ازمستورات فرمودہ 28جولائی2007ء۔ مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل 13؍نومبر 2015ء)
حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزنے عورتوں کو نصیحت کرتے ہوئے جلسہ سالانہ یوکے 2010ء کے موقع پرفرمایا:
’’اگر ہر عورت اس بات کو سمجھ لے کہ اُس کی کیا ذمہ داریاں ہیں اور اُ ن کی بجا آوری اس نے اس لئے نہیں کرنی کہ کہیں خاوند، باپ یا بھائی کی نظر میں آ کر اُن کی طرف سے کسی سزا کی سزا وار نہ بن جائے بلکہ اِن ذمہ داریوں کو ادا کرنے کا احساس اس لئے ہمیشہ دلوں میں رکھنا ہے اور اُ سے پختہ کرنا ہے کہ ایک خدا ہے جو عالم الغیب ہے، جو غیب کا علم رکھتا ہے، جو ہماری ہر حرکت و سکون کو دیکھ رہا ہے، ہر وقت اُس کی نظر اپنی مخلوق پر پڑ رہی ہے۔ ہر ایک کا عمل اُس کے سامنے ایک کھلی کتاب کی طرح ہے۔ پس جب یہ احساس رہے توکوئی عورت ایسا عمل نہیں کر سکتی جو اُسے تقویٰ سے دُور ہٹا دے۔ ایک بیوی کی حیثیت سے وہ اپنے خاوند سے کامل وفا کرنے والی ہو گی۔ خاوند کے گھر کی نگران ہوگی۔ اس کے مال کو ضائع کرنے کی بجائے اس کا صحیح مصرف کرنے والی ہو گی۔ کئی ایسی عورتیں ہیں جو تقویٰ پر چلنے والی ہیں یا تقویٰ کے ساتھ ساتھ عقل سے بھی چلنے والی ہیں، جو باوجود تھوڑی آمد کے اپنے خاوند سے ملنے والی رقم میں سے کچھ نہ کچھ بچا لیتی ہیں اور جمع کرتی جاتی ہیں اور بعض دفعہ مشکل حالات میں خاوند کو دے دیتی ہیں۔ خاوند کو تو نہیں پتہ ہوتا کہ کیا بچت ہو رہی ہے؟ اب وہ اُس کے مال کی اِس طرح غیب میں حفاظت کر رہی ہیں یا اگر اُن کو ضرورت ہے تو خاوند کو بتا کر اُس کا استعمال کر لیتی ہیں۔ اپنی اولاد کی صحیح نگرانی کرتی ہیں اور یہ اولا دکی نگرانی صرف خاوند کی اولاد ہونے کی وجہ سے نہیں ہو رہی ہوتی بلکہ اِس لئے ہو رہی ہوتی ہے اور یہ بھی ایک بہت بڑی وجہ ہوتی ہے کہ یہ قوم کی امانت ہیں۔ یہ جماعت کی امانت ہیں۔ پھر وہ اپنی دوستیں اور سہیلیاں بھی ایسی عورتوں کو بناتی ہیں جو اعلیٰ اخلاق کی ہیں۔ ایک خاوند کی وفادار عورت کبھی غلط قسم کی سہیلیاں نہیں بناتی جو اِس کو اُس ڈگر پر ڈالیں جو غلط ہو کہ خاوند کا پیسہ جتنا نچوڑ سکتی ہو نچوڑ لو۔ خاوند کے بغیر سیریں کرنے کے لئے آزادی سے جاؤ آخر تمہاری بھی آزادی کا حق ہے۔ جس سے چاہو جس طرح کے چاہو تعلقات رکھو، نہ ہی ایسی مشورہ دینے والی عورتیں غیب میں حفاظت کرنے والی کہلا سکتی ہیں اور نہ ہی ایسی عورتوں سے دوستیاں رکھنے والی اور باتوں پر عمل کرنے والی غیب میں حفاظت کرنے والی کہلا سکتی ہیں ‘‘۔ (جلسہ سالانہ یوکے۔ خطاب از مستورات فرمودہ31؍جولائی 2010ء۔ مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل 11؍مارچ 2011ء)
19مئی2012ء کو حضور انور ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے دورہ ہالینڈ کے دوران ایک نکاح کا اعلان فرمایا۔ اس موقع پر خطبہ نکاح میں حضور انور نے فرمایا:
’’عمومًا میں نےدیکھاہےکہ رشتے بعض دفعہ اس لئے ٹوٹ رہے ہوتے ہیں، گھروں میں اس لئے جھگڑے پیدا ہو رہے ہوتے ہیں کہ لڑکیوں کی ڈیمانڈ ز بہت زیادہ ہو جاتی ہیں اور بعض دفعہ لڑکیوں کے ساتھ ان کے گھر والے بھی مل جاتے ہیں اور پھر لڑکا ان ڈیمانڈز کوپورا نہیں کرسکتاتو پھر جھگڑوں کی بنیاد پڑتی ہے۔ اسی طرح بعض لڑکے بھی لڑکیوں سے ناجائز زیادتی کرتے ہیں۔ ان کو بھی خیال رکھنا چاہئے۔
پس جیساکہ شروع میں میں نے کہا اصل چیز یہی ہے کہ خدا تعالیٰ کو یاد رکھتے ہوئے، تقویٰ پر قائم رہتے ہوئے ان رشتوں کوقائم کرنا چاہئے اور اس کے لئے کوشش کرنی چاہئے۔ اگر یہ بات سامنے رہے گی تو اللہ تعالیٰ کے فضل سے آپ کے رشتے بھی نبھتے رہیں گے۔ نئے قائم ہونے والے جورشتے ہیں وہ بھی نبھتے رہیں گے، اور آئندہ نسلیں بھی نیکیوں پرچلنے والی ہوں گی۔ اللہ کر ے کہ یہ رشتہ جونیا قائم ہو رہاہے وہ ہرلحاظ سے بابرکت ہو اور ان روایات کو قائم کرنے والا ہو جو ان دونوں گھروں کی، خاندانوں کی ہیں۔ یعنی دین کو دنیا پر مقدم کرنے والی‘‘۔ (مطبوعہ ہفت روزہ الفضل انٹرنیشنل 29 جون 2012ء)
سیدنا حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ نے یکم ستمبر 2007ءکو جلسہ سالانہ جرمنی کے موقع پراپنے خطاب میں ایک احمدی مسلمان عورت پر عائد ہونے والی اہم ذمہ داریوں کی طرف توجہ دلاتے ہوئے عائلی زندگی کے حوالہ سے ارشاد فرمایا:
’’ایک احمدی عورت کی ذمہ داری صرف دنیاوی معاملات میں اپنے گھروں کی یا اپنے بچوں کی نگرانی کرنا اور تعلیم کا خیال رکھنا ہی نہیں ہے بلکہ ایک احمدی عورت کی ذمہ داری بہت زیادہ ہے۔ احمدی عورت نے اسلام کے بتائے ہوئے طریق کے مطابق اپنے گھر اور خاوندکے گھر کی نگرانی کرنی ہے۔ اپنی اولاد کی دنیاوی تعلیم وتربیت کا خیال بھی رکھنا ہے۔ اپنی اولاد کی اسلامی اخلاق کے مطابق تربیت بھی کرنی ہے اپنی اولاد کی روحانی تربیت بھی کرنی ہےاور ان تمام تربیتی امور کو اپنی اولاد میں رائج کرنے کے لئے، ان کے ذہنوں میں راسخ کرنے کے لئے، اپنے پاک نمونے قائم کرنے ہیں۔ اپنی زندگی کو اللہ تعالیٰ کے بتائے ہوئے طریق کے مطابق ڈھال کر عبادت اور دوسرے اعمالِ صالحہ بجا لانے کے نمونے اپنی اولاد کے سامنے رکھنے ہیں۔ تبھی ایک احمدی عورت اپنے خاوند کے گھر کی صحیح نگران کہلا سکتی ہے۔ تبھی ایک احمدی ماں اپنی اولاد کی تربیت کا حق ادا کر سکتی ہے ورنہ اس کے قول و فعل میں تضاد کی وجہ سے کبھی اولاد صحیح تربیت نہیں پاسکتی‘‘۔ (جلسہ سالانہ جرمنی خطاب از مستورات فرمودہ یکم ستمبر 2007ء۔ مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل 02؍دسمبر 2016ء)