عائلی مسائل اور اُن کا حل
حسن ِسلوک کے اعلیٰ معیار
والدین سے حسنِ سلوک
مختلف رشتوں اور تعلقات کے حوالہ سے احباب جماعت کو اُن کی ذمہ داریوں سے متعلق توجہ دلاتے ہوئے حضور انور نےایک خطبہ جمعہ میں تفصیل سے نصائح فرمائیں۔ اِس ضمن میں میاں بیوی کے حقوق کے حوالے سےارشاد فرمایا:
’’ وَ اعۡبُدُوا اللّٰہَ وَ لَا تُشۡرِکُوۡا بِہٖ شَیۡئًا وَّ بِالۡوَالِدَیۡنِ اِحۡسَانًا وَّ بِذِی الۡقُرۡبٰی وَ الۡیَتٰمٰی وَ الۡمَسٰکِیۡنِ وَ الۡجَارِ ذِی الۡقُرۡبٰی وَ الۡجَارِ الۡجُنُبِ وَ الصَّاحِبِ بِالۡجَنۡۢبِ وَ ابۡنِ السَّبِیۡلِ ۙ وَ مَا مَلَکَتۡ اَیۡمَانُکُمۡ ؕ اِنَّ اللّٰہَ لَا یُحِبُّ مَنۡ کَانَ مُخۡتَالًا فَخُوۡرَا (النساء:37)
ابھی جو آیت میں نے تلاوت کی ہے اس میں اللہ تعالیٰ فرماتاہے کہ: میری عبادت کرو اور اس طرح عبادت کرو کہ جو عبادت کا حق ہے۔ یہ چھوٹے بُت یابڑے بُت یا دلوں میں بسائے ہوئے بُت تمہیں کسی طرح بھی میری عبادت سے روک نہ سکیں۔ پھر والدین سے حسن سلوک کاحکم ہے، اُن سے حسن سلوک کرواور اس حسن سلوک کا بھی مختلف جگہوں پر مختلف پیر ایوں میں ذکر آیاہے‘‘۔
پھر فرمایا :
’’ کہ یہ دو بنیادی باتیں ہیں اگر تم میں پیدا ہوگئیں تو پھر آگے ترقی کرنے کے لئے اور منازل بھی طے کرنی ہوں گی۔ دین کی صحیح تعلیم پر عمل کرنے کے لئے تم نے اخلاق کے اور بھی اعلیٰ معیار دکھانے ہیں۔ اگر یہ معیار قائم ہو گئے توپھرتم حقیقی معنوں میں مسلمان کہلانے کے مستحق ہواور اگر یہ معیار قائم کر لئے اور اپنے اندر اعلیٰ اخلاق پیدا کر لئے تو پھر ٹھیک ہے تم نے مقصد پا لیا اور اللہ تعالیٰ کے فضلوں کے وارث بن گئے اور انشاء اللہ بنتے رہو گےاور اگر یہ اعلیٰ معیار قائم نہ کئے اور تکبر دکھاتے رہے اور ہر وقت اسی فکر میں رہے کہ اپنے آپ کو میں کسی طریقے سے نمایاں کروں تو یاد رکھو کہ یہ باتیں اللہ تعالیٰ کو سخت ناپسند ہیں۔ پھر تو حقوق العباد اداکر نے والے نہیں ہوگے بلکہ اپنی عبادتوں کو ضائع کرنے والے ہوگے۔ اگر حسن خلق کے اعلیٰ معیار قائم نہ کئے تو اس کے ساتھ ساتھ اپنی عبادتوں کو بھی ضائع کر رہے ہوگےاور وہ معیار کیاہیں جو اللہ تعالیٰ ہم سے چاہتاہے کہ ہم قائم کریں۔ فرمایا وہ معیار یہ ہے کہ تم قریبی رشتہ داروں سے حسن سلوک کرو۔ وہ قریبی رشتہ دار جو تمہارے ماں باپ کی طرف سے تمہارے قریبی رشتہ دار ہیں، تمہارے رحمی رشتہ دار ہیں۔ پھرجو شادی شدہ لوگ ہیں ان کی بیوی کی طرف سے یا بیوی کے خاوند کی طرف سے رشتہ دار ہیں یہ سب قرابت داروں کے زمرہ میں آتے ہیں اور ان رشتوں سے حسن سلوک کا عورت اور مرد کو یکساں حکم ہے ایک جیسا حکم ہے جب عورت اور مرد ایک دوسرے کے رحمی رشتہ داروں سے حسن سلوک کر رہے ہوں گے، ایک دوسرے کے قریبیوں سے اچھے اخلاق سے پیش آ رہے ہوں گے، ان کے حقوق ادا کرنے کی کوشش کررہے ہوں گے تو ظاہر ہے کہ میاں بیوی دونوں میں آ پس میں بھی محبت اور پیار کا تعلق خود بخود بڑھے گا۔ ایک دوسرے کے حقوق ادا کرنے کی پوری کوشش کریں گے تو فرمایا کہ قربت کے رشتوں کی یعنی رحمی رشتوں کی حفاظت کر رہے ہوگے تو پھر تم میرے پسندیدہ ہوگے‘‘۔ (خطبہ جمعہ فرمودہ 23جنوری 2004ء۔ خطبات مسرور جلد 2 صفحہ 64تا65۔ ایڈیشن 2005ءمطبوعہ نظارت اشاعت ربوہ)
میاں اور بیوی کے قریبی رشتہ داروں وقرابت داروں کےاحترام کے حوالے سےحضور انور ایّدہ اللہ تعالیٰ نے ایک موقع پر فرمایا:
’’کئی جھگڑے گھروں میں اس لئے ہو رہے ہوتے ہیں کہ ایک دوسرے کے رشتہ داروں کے لئے عزت اور احترام نہیں ہوتا۔ میاں اور بیوی کے سب سے قریبی رشتہ دار اس کے والدین ہیں۔ جہاں اپنے والدین سے احسان کے سلوک کا حکم ہے وہاں میاں اور بیوی کو ایک دوسرے کے والدین سے بھی حسن سلوک کا حکم ہے۔ بعض دفعہ خاوند زیادتی کرکے بیوی کے والدین اور قریبیوں کو برا بھلا کہتے ہیں اور بعض دفعہ بیویاں زیادتی کرکے خاوندوں کے والدین اور قریبی رشتہ داروں کو برا بھلا کہہ رہی ہوتی ہیں۔ تو احمدی معاشرے میں جس کو اللہ اور رسولﷺ کا حکم ہے کہ سلامتی پھیلاؤ، اس میں یہ باتیں نہیں ہونی چاہئیں۔ اس کے بعد کہ ہم نے زمانے کے امام کو مان لیا، اس کے بعد کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ہمیں اعلیٰ اخلاق پر قائم رہنے کے طریقے بھی سکھا دئیے۔ یہ بھی بتا دیا کہ میرے سے تعلق رکھنا ہے تواُن اعلیٰ اخلاق کو اپناؤ جن کا اللہ اور اس کا رسول حکم دیتا ہے۔
ہمیں سوچنا چاہئے کہ اس زمانے میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو ماننے کے بعد جبکہ ہمیں مخالفتوں کا سامنا اس لئے ہو رہا ہے کہ تم نے کیوں اس شخص کو مانا جو کہتا ہے کہ میں مسیح موعود نبی اللہ ہوں۔ احمدیت قبول کرنے کے بعد بعض لوگوں کو اپنے رشتہ داروں سے بھی بڑی تکلیف اٹھانی پڑی۔ اپنوں نے بھی رشتے توڑ دیئے۔ باپوں نے اپنے بچوں پر سختیاں کیں اور گھروں سے نکال دیا۔ اس لئے نکال دیا کہ تم نے احمدیت کیوں قبول کی۔ تو اس صورتحال میں ایک احمدی کو کس قدر اپنے رشتوں کا پاس کرنا چاہئے۔ ہر ایک کو یہ سوچنا چاہئے کہ اُس شخص سے منسوب ہونے کے بعد جس کا نام خداتعالیٰ نے سلامتی کا شہزادہ رکھا ہے ہمیں کس قدر سلامتی پھیلانے والا اور رشتوں کو مضبوط کرنے کی کوشش کرنے والا ہونا چاہئے۔
پس ہر احمدی کو اپنے اندر یہ احساس پیدا کرنا چاہئے کہ ہم سلامتی کے شہزادے کے نام پر بٹہ لگانے والے نہ ہوں۔ اگر ہم اپنے رشتوں کا پاس کرنے والے، ان سے احسان کا سلوک کرنے والے، ان کو دعائیں دینے والے، اور ان سے دعائیں لینے والے نہ ہوں گے تو ان لوگوں سے کس طرح احسان کا سلوک کر سکتے ہیں، ان لوگوں سے کس طرح احسان کا تعلق بڑھا سکتے ہیں، ان لوگوں کا کس طرح خیال رکھ سکتے ہیں جن سے رحمی رشتے بھی نہیں ہیں ‘‘۔ (خطبہ جمعہ فرمودہ یکم جون2007ء مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل 22 جون 2007ء)
صلہ رحمی :رشتہ داروں کے حقوق
صِلہ رحمی کےضمن میں رشتہ داروں کےحقوق بیان کرتےہوئے حضورایّدہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :
’’صلہ رحمی بھی بڑا وسیع لفظ ہے اس میں بیوی کے رشتہ داروں کے بھی وہی حقوق ہیں جو مرد کے اپنے رشتے داروں کے ہیں۔ ان سے بھی صلہ رحمی اتنی ہی ضروری ہے جتنی اپنوں سے۔ اگر یہ عادت پیدا ہو جائے اور دونوں طرف سے صلہ رحمی کے یہ نمونے قائم ہو جائیں تو پھر کیا کبھی اس گھر میں تُو تکار ہو سکتی ہے؟ کوئی لڑائی جھگڑا ہو سکتا ہے؟ کبھی نہیں۔ کیونکہ اکثر جھگڑے ہی اس بات سے ہوتے ہیں کہ ذرا سی بات ہوئی یا ماں باپ کی طرف سے کوئی رنجش پیدا ہوئی یا کسی کی ماں نے یا کسی کے باپ نے کوئی بات کہہ دی، اگر مذاق میں ہی کہہ دی اور کسی کو بری لگی تو فوراً ناراض ہو گیا کہ میں تمہاری ماں سے بات نہیں کروں گا، میں تمہارے باپ سے بات نہیں کروں گا۔ میں تمہارے بھائی سے بات نہیں کروں گا پھر الزام تراشیاں کہ وہ یہ ہیں اور وہ ہیں تو یہ زود رنجیاں چھوٹی چھوٹی باتوں پر، یہی پھربڑے جھگڑوں کی بنیاد بنتی ہیں ‘‘۔ (خطبہ جمعہ فرمودہ 2 جولائی 2004ء بمقام انٹرنیشنل سنٹر، مسی ساگا، کینیڈا۔ مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل16 جولائی 2004ء)
رحمی رشتے اور ان کی اہمیت
رحمی رشتوں کی اہمیت بتاتے ہوئے حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نےفرمایا:
’’پھر صلہ رحمی ہے۔ آپس میں جو رشتہ دار ہیں ان کو ایک دوسرے کے ساتھ پیار اور محبت کا سلوک اور تعلق بڑھانے کی ضرورت ہے۔ اس میں ترقی کریں۔ صلہ رحمی کیا ہے؟ عورتیں اپنے رشتہ داروں کا خیال رکھیں۔ اپنے خاوندوں کے رشتہ داروں کا خیال رکھیں۔ ساسیں جو ہیں وہ اپنی بہوؤں کا خیال رکھیں۔ اپنی بہوؤں کے رشتہ داروں کا خیال رکھیں۔ ایک پیار اور محبت کی فضاء پیدا کریں تا کہ جماعت کی جو ترقی کی رفتار ہے وہ پہلے سے تیز ہو۔ جو اکائی میں، جو ایک ہونے میں، جو محبت میں اﷲ تعالیٰ کے فضل نازل ہوتے ہیں و ہ پھُوٹ میں اور لڑائیوں میں نہیں ہوتے۔ تو اﷲ تعالیٰ کے فضل کو حاصل کرنیکی کوشش کریں ‘‘۔ (خطاب فرمودہ 2نومبر2008ء برموقع سالانہ اجتماع لجنہ اماء اللہ برطانیہ)
اسی حوالے سے ایک اور موقع پرفرمایا:
’’ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا ہے کہ رحمی رشتے صرف اپنے رحمی رشتے نہیں ہیں، اپنے خون کے رشتے نہیں ہیں بلکہ خاوند اور بیوی کے جو اپنے اپنے رحمی رشتے یا خون کے رشتے تھے، وہ شادی کے بعد ایک دوسرے کے رحمی رشتے بن جاتے ہیں۔ یعنی خاوند کے ماں باپ بہن بھائی بیوی کے ماں باپ بہن بھائی بن جاتے ہیں اور اسی طرح بیوی کے ماں باپ، بہن، بھائی خاوند کے ماں باپ بہن بھائی بن جاتے ہیں۔ جب یہ سوچ ہوگی تو کبھی رشتوں میں دوریاں پیدا نہیں ہوسکتیں۔ کبھی تعلقات خراب نہیں ہوسکتے۔ پس فرمایا کہ ان کے حق دونوں کو اس طرح ادا کرنے چاہئیں جس طرح اپنے رشتہ داروں ماں باپ بہن بھائی کے حق ادا کرتے ہو۔ یہ حکم صرف لڑکی کے لئے نہیں ہے بلکہ جیسا کہ میں نے کہا آپس کے تعلقات نبھانے کے لئے اِسی طرح لڑکے کو بھی صبر اور دعا کا حکم ہے جس طرح لڑکی کو ہےاور اسی طرح دونوں طرف کے سسرالوں کا بھی فرض ہے کہ لڑکے اور لڑکی کی غلط طور پر رہنمائی کر کے یا نامناسب باتیں کر کے رشتوں میں دراڑیں ڈال کر معاشرہ کا امن اور سکون برباد نہ کریں اور اسی طرح اس پہلی آیت میں یہ سبق بھی دیدیا ہے کہ اس شادی کے نتیجے میں جو تمہاری اولاد پیدا ہوگی اُس کی نیک تربیت تم دونوں پر فرض ہے تاکہ آئندہ پھر معاشرہ میں نیکیاں پھیلانے والی نسل چلے اور فرمایا یہ اس وقت تک نہیں ہوسکتا جب تک تم اللہ کا تقویٰ اختیار نہیں کرتے اور اللہ تعالیٰ کا تقویٰ کیا ہے؟
اللہ تعالیٰ کا تقویٰ یہ ہے کہ ہر کام اللہ تعالیٰ کے حکم کے مطابق کرنا۔ اپنی تمام ذاتی خواہشات کو پیچھے چھوڑ دینا اور صرف اور صرف یہ مقصد سامنے رکھنا کہ اللہ تعالیٰ مجھ سے خوش ہوجائے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ یاد رکھومجھے دھوکہ نہیں دیا جاسکتا کیونکہ میں تمہارے ہر فعل اور عمل پر ہر وقت نگرانی کر رہا ہوں۔ پس اگر احمدی جوڑے اس حکم کو سامنے رکھیں تو وہ اُن احکام کی تلاش بھی کریں گے جو اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے والے ہوں گے۔ اللہ تعالیٰ نے نکاح کی آیات میں پانچ جگہ تقویٰ کا لفظ استعمال فرمایاہے۔ پس ہو ہی نہیں سکتا کہ جو اس حد تک خدا تعالیٰ کے تقویٰ کو مد نظر رکھے اس کا گھر کبھی فساد کا گڑھ بن سکتا ہے، یا کبھی اس میں فساد پیدا ہوسکتا ہے۔ کبھی لڑائی جھگڑے اس میں پیدا ہوسکتے ہیں اور اسی طرح جو رحمی رشتوں کا پاس کرنے والا ہوگا۔ جو ایک دوسرے کے رشتوں کا پاس کرنے والا ہوگا۔ ان کا خیال رکھنے والا ہوگا اس کی دعاؤں کی قبولیت کی خوشخبری بھی اس میں دے دی گئی ہے‘‘۔ (خطاب فرمودہ 4اکتوبر2009ء برموقع سالانہ اجتماع لجنہ اماء اللہ برطانیہ)
جلسہ سالانہ برطانیہ 2011ءمیں خواتین سے حضورِ انور نے جب خطاب فرمایا تھا تواس سے قبل تلاوت قرآن کریم میں اُنہی آیات کریمہ کا انتخاب فرمایا تھاجو اعلان نکاح کے موقع پر پڑھی جاتی ہیں۔ بعدازاں آپ نے فرمایا:
’’ عائلی مسائل جو ہمارے سامنے آتے ہیں اُن میں بسا اوقات کبھی عورت کی طرف سے اور کبھی مرد کی طرف سے یہ issue بہت اُٹھایا جاتا ہے کہ ہمارے ماں باپ یا بہن بھائیوں کو کسی ایک نے بُرا کہا۔ مرد یہ الزام لگاتا ہے کہ عورتیں کہتی ہیں، عورتیں الزام لگاتی ہیں کہ مرد کہتے ہیں کہ میرے ماں باپ کی برائی کی۔ اُن کو یہ کہا، اُن کو وہ کہا۔ اُن کو گالیاں دیں۔ تو یہ چیز جو ہے یہ تقویٰ سے دور ہے۔ یہ چیز پھر گھروں میں فساد پیدا کرتی ہے۔ پھر یہی نہیں بعض دفعہ یہ بھی ہوتا ہے کہ یہاں صرف الزام کی بات نہیں ہے بلکہ ایسے بھی لوگ ہوتے ہیں اور بعض الزامات سچے بھی نکلتے ہیں کہ بچوں کو دادا دادی یا نانا نانی کے خلاف بھڑکایا جاتا ہے۔ ایک دوسرے کے قریبی رشتوں کے خلاف نازیبا الفاظ استعمال کئے جاتے ہیں۔ بچوں کو اُن سے متنفر کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ یہ تقویٰ سے بعید ہے۔ یہ تقویٰ نہیں ہے۔ تم تو پھر تقویٰ سے دور چلتے چلے جا رہے ہو۔ اس لئے اپنے رحمی رشتوں کا بھی خیال رکھو۔ ان آیات میں، پہلی آیت میں ہی اس طرف بھی توجہ دلائی ہے کہ اپنے رحمی رشتوں کا بھی خیال رکھو۔ ماں باپ صرف خود ہی خیال نہ رکھیں اپنے بچوں کو بھی ان رحمی رشتوں کا تقدس اور احترام سکھائیں۔ تب ہی ایک پاک معاشرہ قائم ہو سکتا ہے اور خود بھی اس کے تقدس کا خیال بہت زیادہ رکھیں کیونکہ ماں باپ کے نمونے جو ہیں وہ بچوں پر اثر انداز ہوتے ہیں ‘‘۔ (خطاب فرمودہ 23جولائی2011ء برموقع جلسہ سالانہ برطانیہ)
رشتے داروں سے حسنِ سلوک
رشتہ داروں سے حسنِ سلوک کی اہمیت کے ضمن میں احمدی خواتین سے خطاب کرتے ہوئے حضور انورایّدہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
’’پھر رشتہ داروں سے حسنِ سلوک ہے۔ یہ ایک بہت اہم چیز ہے۔ ذرا ذرا سی بات پر بعض رشتوں میں دراڑیں پڑ جاتی ہیں۔ ایک نیکی جو ہے جس کا اللہ تعالیٰ ثواب دے رہا ہوتا ہے اُس سے محروم ہو جاتی ہیں۔ اگر یہ رشتے داروں سے حسنِ سلوک کی نیکی رہے تو عموماً میں نے دیکھا ہے کہ گھروں میں جو رشتے برباد ہوتے ہیں، ٹوٹتے ہیں، خاوند اور بیوی کی آپس میں جو لڑائیاں ہوتی ہیں وہ نندوں اور بھابھیوں کی لڑائیاں ہیں، ساس اور بہو کی لڑائیاں ہیں۔ اگر ایک دوسرے سے حسنِ سلوک کر رہے ہوں گے تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کہ کسی قسم کی ایک دوسرے کے خلاف رنجشیں پیدا ہوں، برائیاں پیدا ہوں۔ پس یہ بھی نیکیوں میں آگے بڑھنے والی مومنات کا کام ہے کہ اپنے رشتوں کا بھی پاس اور خیال رکھیں ‘‘۔ (خطاب فرمودہ 17 ستمبر 2011ء برموقع سالانہ اجتماع لجنہ اماء اللہ جرمنی)
مختلف رشتہ داروں کا خیال رکھنے کے اسلامی حکم پر تفصیل سے روشنی ڈالتے ہوئے نیز اس کی پاسداری نہ کرنے کے نتیجہ میں پیدا ہونے والے مسائل میں سے عائلی مسائل کا تذکرہ کرتے ہوئے حضور انور ارشاد فرماتے ہیں :
’’ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ تم اپنے قریبی رشتہ داروں کا بھی خیال رکھو، ان سے بھی احسان کا سلوک کرو۔ یہ حسن سلوک ہے جس سے تمہارے معاشرے میں صلح اور سلامتی کا قیام ہو گا۔ قریبی رشتہ داروں میں تمام رحمی رشتہ دار ہیں، تمہارے والد کی طرف سے بھی اور تمہاری والدہ کی طرف سے بھی۔ پھر بیوی کے رحمی رشتہ دار ہیں۔ پھر خاوند کے رحمی رشتہ دارہیں۔ دونوں پر یہ ذمہ داری عائد ہو گئی کہ ایک دوسرے کے رحمی رشتہ داروں کے حقوق ادا کرو، ان کی عزت کرو، ان کا احترام کرو، ان کے لئے نیک جذبات اپنے دل میں پیدا کرو۔ غرض کہ وہ تمام حقوق جو تم اپنے قریبی رشتہ داروں کے لئے پسند کرتے ہو، ان قریبی رشتہ داروں کے لئے پسند کرتے ہو جن سے تمہارے اچھے تعلقات ہیں، کیونکہ قریبی رشتہ داروں میں بھی تعلقات میں کمی بیشی ہوتی ہے بعض دفعہ قریبی رشتہ داروں میں بھی دراڑیں پڑ جاتی ہیں۔ اس لئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ اپنے قریبی رشتہ داروں سے بھی حسن سلوک کرو۔ صرف ان سے نہیں جن سے اچھے تعلقات ہیں، جنہیں تم پسند کرتے ہوبلکہ جنہیں تم نہیں پسند کرتے، جن سے مزاج نہیں بھی ملتے ان سے بھی اچھا سلوک کرو۔ پس یہ حسن سلوک ہر قریبی رشتہ دارسے کرناہے جیسا کہ میں نے کہا کہ صرف ان سے نہیں جن سے مزاج ملتے ہیں بلکہ ہر ایک سے۔ بلکہ حکم یہ ہے کہ نہ صرف اپنے قریبی رشتہ داروں سے بلکہ مرد کے لئے اپنی بیوی اور عورت کے لئے اپنے خاوند کے قریبی رشتہ داروں کے لئے بھی حسن سلوک کرنے کا حکم ہے۔ یہ سلوک ہے جو اللہ کی سلامتی کے پیغام کے ساتھ سلامتی پھیلانے والا ہو گا‘‘۔ (خطبہ جمعہ فرمودہ یکم جون 2007ء بمقام بیت الفتوح لندن)
اسی موضوع پرخطبہ جمعہ2جولائی2004ء میں مزید فرمایا :
’’آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کس قدر اپنی بیویوں کے رشتہ داروں سے اور ان کی سہیلیوں سے حسن سلوک فرمایا کرتے تھے۔ بے شمار مثالوں میں سے ایک یہاں دیتا ہوں۔ راوی نے لکھا ہے کہ:آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم حضرت خدیجہ ؓ کی بہن ہالہ کی آواز کان میں پڑتے ہی کھڑے ہو کر ان کا استقبال کرتے اور خوش ہو کر فرماتے یہ تو خدیجہ کی بہن ہالہ آئی ہےاور آپﷺ کا یہ دستور تھا کہ گھر میں کبھی کوئی جانور ذبح ہوتا تو اس کا گوشت حضرت خدیجہؓ کی سہیلیوں میں بھجوانے کی تاکید فرمایا کرتے تھے۔ (صحیح مسلم کتاب الفضائل باب من فضائل خدیجہ)
لیکن یہاں تھوڑی سی وضاحت بھی کر دوں اس کی تشریح میں۔ بعض باتیں سامنے آتی ہیں جن کی وجہ سے وضاحت کرنی پڑ رہی ہے۔ کیونکہ معاشرے میں عورتیں اور مرد زیادہ مکس اپ(Mixup)ہونے لگ گئے ہیں۔ اس سے کوئی یہ مطلب نہ لے لے کہ عورتوں کی مجلسوں میں بھی بیٹھنے کی اجازت مل گئی ہے اور بیویوں کی سہیلیوں کے ساتھ بیٹھنے کی بھی کھلی چھٹی مل گئی ہے۔ خیال رکھنا بالکل اور چیز ہے اور بیوی کی سہیلیوں کے ساتھ دوستانہ کرلینا بالکل اور چیز ہے۔ اس سے بہت سی قباحتیں پیدا ہوتی ہیں۔ کئی واقعات ایسے ہوتے ہیں کہ پھر بیوی تو ایک طرف رہ جاتی ہے اور سہیلی جو ہے وہ بیوی کا مقام حاصل کر لیتی ہے۔ مرد تو پھر اپنی دنیا بسا لیتا ہے لیکن وہ پہلی بیوی بیچاری روتی رہتی ہےاور یہ حرکت سراسر ظلم ہے اور اس قسم کی اجازت اسلام نے قطعاً نہیں دی۔ کہہ دیتے ہیں کہ ہمیں شادی کرنے کی اجازت ہے
یہاں ان معاشروں میں خاص طور پر احتیاط کرنی چاہئے۔ اپنی ذمہ داریوں کو سمجھیں، اُس بیوی کا بھی خیال رکھیں جس نے ایک لمبا عرصہ تنگی ترشی میں آپ کے ساتھ گزارا ہے۔ آج یہاں پہنچ کر اگر حالات ٹھیک ہو گئے ہیں تو اس کو دھتکار دیں، یہ کسی طرح بھی انصاف نہیں ہے‘‘۔ (خطبہ جمعہ2جولائی2004ء بمقام انٹرنیشنل سنٹر، مسی ساگا کینیڈا)
حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے جرمنی میں چھ نکاحوں کا اعلان فرمایاتھا۔ اس موقعہ پر خطبہ نکاح میں حضور انور نے ارشاد فرمایا:
’’ہر احمدی کو جو حقیقی مسلمان ہے ہمیشہ سامنے رکھنا چاہئے کہ شادی بیاہ ایک ایسا bond (معاہدہ) ہے، ایک ایسا کام ہے جو ایک لحاظ سے دینی فریضہ بن جاتا ہے اور بیویوں اور اس کے رحمی رشتوں کے حقوق ادا کرنے بہت ضروری ہیں۔ مردوں کی طرف سے بھی اور لڑکی والوں اور لڑکی کی طرف سے بھی۔ پس اگر یہ چیز یہ احساس شادی کرنے والے جوڑوں میں پیدا ہوجائے بلکہ ہر شخص میں، دونوں طرف کے سسرالیوں میں بھی تو گھریلو زندگیاں محبت اور پیار اور امن کے گہوارے بن جاتی ہیں ‘‘۔ (خطبہ نکاح18جون2011ءبمقام بیت السبوح فرانکفرٹ جرمنی)
مرد عورتوں پر نگران ہیں
مردوں کے قوّام ہونے سے متعلق قرآن کریم کی تعلیم کی تفسیر بیان کرتے ہوئے حضور ایّدہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :
’’آج کل دیکھیں ذرا ذراسی بات پر عورت پر ہاتھ اٹھا لیا جاتا ہے حالانکہ جہاں عورت کو سزا کی اجازت ہے وہاں بہت سی شرائط ہیں اپنی مرضی کی اجازت نہیں ہے۔ چند شرائط ہیں ان کے ساتھ یہ اجازت ہے اور شاید ہی کوئی احمدی عورت اس حد تک ہو کہ جہاں اس سزا کی ضرورت پڑے۔ اس لئے بہانے تلاش کرنے کی بجائے مرد اپنی ذمہ داریاں سمجھیں اور عورتوں کے حقوق ادا کریں جیسے کہ قرآن کریم میں آتا ہے کہ :
اَلرِّجَالُ قَوّٰمُوۡنَ عَلَی النِّسَآءِ بِمَا فَضَّلَ اللّٰہُ بَعۡضَہُمۡ عَلٰی بَعۡضٍ وَّ بِمَاۤ اَنۡفَقُوۡا مِنۡ اَمۡوَالِہِمۡ ؕ فَالصّٰلِحٰتُ قٰنِتٰتٌ حٰفِظٰتٌ لِّلۡغَیۡبِ بِمَا حَفِظَ اللّٰہُ ؕ وَ الّٰتِیۡ تَخَافُوۡنَ نُشُوۡزَہُنَّ فَعِظُوۡہُنَّ وَ اہۡجُرُوۡہُنَّ فِی الۡمَضَاجِعِ وَ اضۡرِبُوۡہُنَّ ۚ فَاِنۡ اَطَعۡنَکُمۡ فَلَا تَبۡغُوۡا عَلَیۡہِنَّ سَبِیۡلًا ؕ اِنَّ اللّٰہَ کَانَ عَلِیًّا کَبِیۡرًا۔ (النساء:35)
یعنی مرد عورتوں پر نگران ہیں اس فضیلت کی وجہ سے جو اللہ نے ان میں سے بعض کو بعض پر بخشی ہے اور اس وجہ سے بھی کہ وہ اپنے اموال ان پر خرچ کرتے ہیں۔ (جو نکھٹو گھر بیٹھے رہتے ہیں وہ تو ویسے ہی نگران نہیں بنتے) پس نیک عورتیں فرمانبردار اور غیب میں بھی ان چیزوں کی حفاظت کرنے والی ہوتی ہیں جن کی حفاظت کی اللہ نے تاکید کی ہے اور وہ عورتیں جن سے تمہیں باغیانہ رویے کا خوف ہو تو ان کو پہلے تو نصیحت کرو (اس میں بے حیائی نہیں ہے ایسی باتیں جو ہمسائیوں میں کسی بدنامی کا موجب بن رہی ہوں، بعض ایسی حرکتیں ہوتی ہیں) تو پہلے ان کو نصیحت کرو، پھر ان کو بستروں میں الگ چھوڑ دو اور پھر اگر ضرورت ہو تو ان کو بدنی سزا بھی دو اور پھر فرمایا پس اگر وہ تمہاری اطاعت کریں تو پھر ان کے خلاف کوئی حجت یا بہانے تلاش نہ کرو۔ یقینا اللہ بہت بلند اور بہت بڑا ہے۔ تو فرمایا کہ :اس انتہائی باغیانہ رویے سے عورت اپنی اصلاح کر لے تو پھر بلاوجہ اسے سزا دینے کے بہانے تلاش نہ کرو یاد رکھو کہ اگر تم تقویٰ سے خالی ہو کر ایسی حرکتیں کرو گے اور اپنے آپ کو سب کچھ سمجھ رہے ہو گے اور عورت کی تمہارے نزدیک کوئی حیثیت ہی نہیں ہے تو یاد رکھو کہ پھر اللہ تعالیٰ کی ذات ایسی ہے جو تمہاری ان حرکتوں کی وجہ سے تمہاری پکڑ بھی کر سکتی ہے۔ اس لئے جو درجے سزا کے مقرر کئے گئے ہیں ان کے مطابق عمل کرو اور جب اصلاح کا کوئی پہلو نہ دیکھو، اگر ایسی عورت کا بدستور وہی رویہ ہے تو پھر سزا کا حکم ہے۔ یہ نہیں کہ ذرا ذرا سی بات پر اٹھے اور ہاتھ اٹھا لیا یا سوٹی اٹھا لی اور اتنے ظالم بھی نہ بنو کہ بہانے تلاش کرکے ایک شریف عورت کو اس باغیانہ روش کے زمرے میں لے آؤ اور پھر اسے سزا دینے لگو۔
ایسے مرد یاد رکھیں کہ خدا کا قائم کردہ نظام بھی یعنی نظام جماعت بھی، اگر نظام کے علم میں یہ بات آ جائے تو ایسے لوگوں کو ضرور سزادیتا ہے۔ خدا کے لئے قرآن کو بدنام نہ کریں اور اپنی اصلاح کی کوشش کریں‘‘۔ (خطبہ جمعہ2 جولائی2004ء بمقام انٹرنیشنل سنٹر، مسی ساگا، کینیڈا)
حضورِ انور ایّدہ اللہ تعالیٰ اس حوالے سےایک اور موقع پرحضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ارشادات پیش کرتے ہوئے فرماتے ہیں :
’’ حضرت اقدس مسیح ِ موعود علیہ السلام ملفوظات میں فرماتے ہیں کہ ہمارے ہادیٔ کامل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے:
خَیْرُکُمْ خَیْرُکُمْ لِاَھْلِہٖ تم میں سے بہتر وہ شخص ہے جس کا اپنے اہل کے ساتھ عمدہ سلوک ہو۔ بیوی کے ساتھ جس کا عمدہ چال چلن اور معاشرت اچھی نہیں وہ نیک کہاں۔ دوسروں کے ساتھ نیکی اور بھلائی تب کر سکتا ہے جب وہ اپنی بیوی کے ساتھ عمدہ سلوک کرتا ہو۔ جو باہر بظاہر نیک نظر آتے ہیں ان میں بھی کئی خامیاں ہوتی ہیں، جو بیویوں کے ساتھ یا گھر والوں کے ساتھ نیک سلوک نہیں کر رہے اس لئے معاشرے کو بھی ایسے لوگوں پر غور کرنا چاہئے۔ ظاہری چیز پہ نہ جائیں۔ فرمایا کہ:جب وہ اپنی بیوی کے ساتھ عمدہ سلوک کرتا ہو اور عمدہ معاشرت رکھتا ہو۔ نہ یہ کہ ہر ادنیٰ بات پر زدو کوب کرے۔ ایسے واقعات ہوتے ہیں کہ بعض دفعہ ایک غصے سے بھرا ہوا انسان بیوی سے ادنیٰ سی بات پر ناراض ہو کر اس کو مارتا ہے اور کسی نازک مقام پر چوٹ لگی ہے اور بیوی مر گئی ہے۔ اس لئے ان کے واسطے اللہ تعالیٰ نے یہ فرمایا ہے کہ:
عَاشِرُوْ ھُنَّ بِالْمَعْرُوْفِ (النساء:20)۔ ہاں اگر وہ بے جا کام کرے تو تنبیہ ضروری چیز ہے‘‘۔ (ملفوظات جلد اول صفحہ 403-404)
بعض دفعہ گھروں میں میاں بیوی کی چھوٹی چھوٹی باتوں پر تلخ کلامی ہوجاتی ہے، تلخی ہو جاتی ہے۔ مرد کو اللہ تعالیٰ نے زیادہ مضبوط اور طاقتور بنایاہے اگر مرد خاموش ہوجائے تو شاید اسّی فیصد سے زائد جھگڑے وہیں ختم ہوجائیں۔ صرف ذہن میں یہ رکھنے کی بات ہے کہ میں نے حسن سلوک کر ناہے اور صبر سے کام لیناہے۔
ہمارے آقا حضرت محمد مصطفیﷺ نے اس بارہ میں ہمیں کیا اسوہ دکھایا۔ روایت ہے کہ ایک دن حضرت عائشہؓ گھر میں آنحضرتﷺ سے کچھ تیز تیز بول رہی تھیں کہ اوپر سے ان کے ابا، حضرت ابو بکر ؓ تشریف لائے۔ یہ حالت دیکھ کران سے رہا نہ گیا اور اپنی بیٹی کو مارنے کے لئے آگے بڑھے کہ توخدا کے رسول کے آگے اس طرح بولتی ہو۔ آنحضرتﷺ یہ دیکھتے ہی باپ اور بیٹی کے درمیان حائل ہوگئے اور حضرت ابو بکر ؓ کی متوقع سزا سے حضرت عائشہؓ کو بچا لیا۔ جب حضرت ابوبکر ؓ چلے گئے تورسول کریمﷺ نےحضرت عائشہؓ سے ازراہ مذاق فرمایا۔ دیکھا آج ہم نے تمہیں تمہارے ابا سے کیسے بچایا؟
تو دیکھیں یہ کیسا اعلیٰ نمونہ ہے کہ نہ صرف خاموش رہ کرجھگڑے کو ختم کرنے کی کوشش کی بلکہ حضرت ابوبکرؓ جو حضرت عائشہؓ کے والد تھے ان کو بھی یہی کہا کہ عائشہ کو کچھ نہیں کہنااور پھر فوراً حضرت عائشہ ؓ سے مذاق کر کے وقتی بوجھل پن کو بھی دور فرما دیا۔ پھر آگے آتاہے روایت میں کہ کچھ دنوں کے بعد حضرت ابو بکر ؓ دوبارہ تشریف لائے تو آنحضرتﷺ کے ساتھ حضرت عائشہ ؓ ہنسی خوشی باتیں کررہی تھیں۔ حضرت ابوبکر ؓ کہنے لگے دیکھو بھئی تم نے اپنی لڑائی میں تو مجھے شریک کیا تھا اب خوشی میں بھی شریک کرلو۔ (ابوداؤد کتاب الادب باب ماجاء فی المزاح)
آنحضرتﷺ حضرت عائشہؓ کے بہت ناز اٹھاتے تھے۔ ایک دفعہ ان سے فرمانے لگے کہ: عائشہ! میں تمہاری ناراضگی اور خوشی کو خوب پہچانتاہوں۔ حضرت عائشہ ؓ نے عرض کیا وہ کیسے؟ فرمایا: جب تم مجھ سے خوش ہوتی ہو تو اپنی گفتگو میں ربّ محمد(ﷺ ) کہہ کر قسم کھاتی ہو اور جب ناراض ہوتی ہو تو ربّ ابراہیمؑ کہہ کر بات کرتی ہو۔ حضرت عائشہؓ کہتی ہیں کہ ہاں یا رسول اللہ یہ تو ٹھیک ہے مگر بس میں صرف زبان سے ہی آپﷺ کا نام چھوڑتی ہوں (دل سے توآپﷺ کی محبت نہیں جاسکتی)۔ (بخاری کتاب النکاح باب غیرۃ النساء و وجد ھن)
حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰ ۃ والسلام فرماتے ہیں کہ: ’’ فحشاء کے سوا باقی تمام کج خلقیاں اور تلخیاں عورتوں کی برداشت کرنی چاہئیں۔ اور فرمایا :ہمیں تو کمال بے شرمی معلوم ہوتی ہے کہ مرد ہوکر عورت سے جنگ کریں۔ ہم کو خدا نے مرد بنایا ہے اور درحقیقت یہ ہم پر اتمام نعمت ہے۔ اس کا شکر یہ ہے کہ ہم عورتوں سےلطف اور نرمی کا برتاؤ کریں ‘‘۔
ایک دفعہ ایک دوست کی درشت مزاجی اور بدزبانی کاذکر ہوا اور شکایت ہوئی کہ وہ اپنی بیوی سے سختی سے پیش آتا ہے۔ حضورعلیہ السلام اس بات سے بہت کبیدہ خاطر ہوئے، بہت رنجیدہ ہوئے، بہت ناراض ہوئے اور فرمایا:
’’ہمارے احباب کو ایسا نہ ہونا چاہئے‘‘۔ حضورعلیہ السلام بہت دیر تک معاشرت نسواں کے بارہ میں گفتگو فرماتے رہے اور آخر پر فرمایا:’’ میرا یہ حال ہے کہ ایک دفعہ میں نے اپنی بیوی پر آوازہ کسا تھا اور میں محسوس کرتا تھا کہ وہ بانگ بلند دل کے رنج سے ملی ہوئی ہے اور بایں ہمہ کوئی دل آزار اور درشت کلمہ منہ سے نہیں نکا لاتھا۔ اس کے بعد میں بہت دیرتک استغفار کرتا رہا اور بڑے خشوع وخضوع سے نفلیں پڑھیں اور کچھ صدقہ بھی دیا کہ یہ درشتی زوجہ پر کسی پنہانی معصیتِ الٰہی کا نتیجہ ہے‘‘۔ (ملفوظات جلد اول صفحہ307مطبوعہ ربوہ)
تو یہ ہیں بیویوں سے حسن سلوک کے نمونے جو آج ہمیں اس زمانے میں حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے عمل سے اپنے آقا حضرت محمد مصطفیﷺ کی پیروی میں نظر آتے ہیں اور انہی پر چل کر ہم اپنے گھروں میں امن قائم کر سکتے ہیں ‘‘۔ (خطبہ جمعہ فرمودہ 23؍جنوری 2004ء۔ خطبات مسرور جلد 2 صفحہ 64تا65۔ ایڈیشن 2005ءمطبوعہ نظارت اشاعت ربوہ)
24 جون2005ء کو انٹرنیشنل سینٹرٹورانٹو کینیڈا میں حضورانور نے خطبہ جمعہ ارشاد فرماتے ہوئے مردوں کو عورتوں سے حسنِ سلوک کرنے کی نصیحت کرتے ہوئے فرمایا :
’’مرد کو اللہ تعالیٰ نے قَوّام بنایا ہے، اس میں برداشت کا مادہ زیادہ ہوتا ہے۔ اس کے اعصاب زیادہ مضبوط ہوتے ہیں۔ اگر چھوٹی موٹی غلطیاں، کوتاہیاں ہو بھی جاتی ہیں تو ان کو معاف کرنا چاہئے‘‘۔ (مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل 08؍جولائی2005ء)
اپنے اہل کے ساتھ عمدہ سلوک کے بارہ میں حضورِ انورایک اور موقع پر حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰ ۃ والسلام کا ایک ارشاد اور اسکی تشریح یوں بیان فرماتے ہیں :
’’ یہ مت سمجھو کہ پھرعورتیں ایسی چیزیں ہیں کہ ان کو بہت ذلیل اور حقیر قرار دیا جاوئے۔ نہیں۔ نہیں۔ ہمارے ہادیٔ کامل رسول اللہ صلی للہ علیہ وسلم نے فرمایا : خَیْرُکُمْ خَیْرُکُمْ لِاَھْلہٖ تم میں سے بہتر وہ شخص ہے جس کا اپنے اہل کے ساتھ عمدہ سلوک ہو۔ بیوی کے ساتھ جس کا عمدہ چال چلن ہے اور معاشرت اچھی نہیں وہ نیک کہاں ؟ دوسروں کے ساتھ وہ نیکی اور بھلائی تب کرسکتا ہے جب وہ اپنی بیوی کے ساتھ عمدہ سلوک کرتا ہواورعمدہ معاشرت رکھتاہو‘‘۔ (ملفوظات جلد اول صفحہ 403 ایڈیشن 2003ء مطبوعہ ربوہ)
تو یہ ہے اُس تعلیم کی ایک جھلک جو اسلام نے ہمیں دی اور جس کی اس زمانے میں پھر نئے سرے سے تعلیم ہمیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ و السلام نے دی، ہمیں سمجھایا۔ تو اس خوبصورت تعلیم کی مثالیں آج سے چودہ سو سال پہلے اللہ تعالیٰ نے اپنے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعے سے قائم کروائیں تھیں اور اس کی اعلیٰ ترین مثال قائم کرتے ہوئے آپ نے اعلان فرمایا تھا کہ میں تم سے سب سے زیادہ بیویوں سے بہترین سلوک کرنے والا ہوں۔ لیکن جیسا کہ اسلام کے دوسرے احکامات اور زمانہ کے گزرنے کے ساتھ ساتھ عمل میں کمی آگئی۔ یہی حال اس حکم کا بھی ہوا اس کی کوئی وقعت نہیں رہی کہ عورت کا خیال رکھواس کی عزت کرو اس کا احترام کرو اس کے حقوق ادا کرو کیونکہ ایک نیک اور عملِ صالح کرنے والی عورت کا مقام ایسا ہے جس کے پاؤں کے نیچے جنت ہے۔
پس اس زمانے میں جیسا کہ میں نے کہا عورت کے متعلقہ حکموں پر عمل کرنے میں کمی آگئی ہے اس لئے رسولِ کاملﷺ کے عاشق صادق اور زمانے کے امام کو اللہ تعالیٰ نے اس امر کی طرف متوجہ فرمایاکہ اپنی جماعت میں عورتوں کے حقوق قائم کرواؤ، اس صنف نازک کو جسے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے شیشے سے تشبیہ دی ہے جس کے ساتھ سختی اُسے کرچی کرچی کرسکتی ہے، ٹکڑے ٹکڑے کرسکتی ہے۔ جس کے جسم کی بناوٹ نازک ہے جس کے جذبات کو بھی خدا تعالیٰ نے ایسا بنایا ہے کہ نرمی اور رافت سے پیش آنا چاہئے۔ یہ پسلی کی ہڈی سے مشابہ ہے اس کی اصل شکل سے ہی فائدہ اٹھاؤ۔ پس آپ کو جب ایسے امام کی جماعت میں شامل ہونے کی توفیق ملی ہے جس کو اس زمانے میں پھر براہ راست آپ کے حقوق قائم کروانے کا اللہ تعالیٰ نے حکم دیا پھر آپ کو کس قدر اس خدا کا شکر گزار ہوتے ہوئے اس کے احکامات پر عمل کرنے کی کوشش کرنی چاہیے جو ہمارے پیدا کرنے والے نے ہمیں دئیے ہیں ‘‘۔ (جلسہ سالانہ یوکے خطاب از مستورات فرمودہ29؍ جولائی2006ء۔ مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل 26؍جون 2015ء)
حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ نے اپنے خطاب31 جولائی 2004ء برموقع جلسہ سالانہ برطانیہ میں مردوں اور عورتوں کو اُن کے فرائض کی طرف نہایت احسن رنگ میں توجہ دلاتے ہوئے فرمایا:
’’دیکھیں کتنی وضاحت سے آپؑ نے فرمایا کہ حقوق کے لحاظ سے دونوں کے حقوق ایک جیسے ہیں۔ اس لئے مرد یہ کہہ کر کہ میں قوّام ہوں اس لئے میرے حقوق بھی زیادہ ہیں، زیادہ حقوق کا حق دار نہیں بن جاتا۔ جس طرح عورت مرد کے تمام فرائض ادا کرنے کی ذمہ دار ہے اسی طرح مرد بھی عورت کے تمام فرائض ادا کرنے کا ذمہ دار ہے‘‘۔
آگے چل کر فرمایاکہ :
’’ہمارے ہاں یہ محاورہ ہے کہ عورت پاؤں کی جوتی ہے، یہ انتہائی گھٹیا سوچ ہے، غلط محاورہ ہے۔ اس محاورے کا مطلب یہ ہے کہ جب عورت سے دل بھر گیا تو دوسری پسند آ گئی اس سے شادی کر لی اسے چھوڑ دیا اور پہلی بیوی کے جذبات و احساسات کا کوئی خیال ہی نہ رکھا گیا تو یہ انتہائی گھٹیا حرکت ہے۔ عورت کوئی بے جان چیز نہیں ہے بلکہ جذبات احساسات رکھنے والی ایک ہستی ہے۔ مردوں کو یہ سمجھایا ہے کہ یہ ایک عرصے تک تمہارے گھر میں سکون کا باعث بنی، تمہارے بچوں کی ماں ہے، ان کی خاطر تکلیفیں برداشت کرتی رہی ہے۔ اب اس کو تم ذلیل سمجھو اور گھٹیا سلوک کرو اور بہانے بنا بنا کر اس کی زندگی اجیرن کرنے کی کوشش کرو تو یہ بالکل ناجائز چیز ہے۔ یا پھر پردہ کے نام پر باہر نکلنے پر ناجائز پابندیاں لگا دو۔ اگر کوئی مسجد میں جماعتی کام کے لئے آتی ہے تو الزام لگا دو کہ تم کہیں اور جا رہی ہو۔ یہ انتہائی گھٹیا حرکتیں ہیں جن سے مردوں کوروکا گیا ہے حالانکہ ہونا تو یہ چاہئے کہ تمہارا عورت سے اس طرح سے سلوک ہو جیسے دو سچے اور حقیقی دوستوں کا ہوتا ہے۔ جس طرح دو حقیقی دوست ایک دوسرے کے لئے قربانیاں کرنے کے لئے تیار ہوتے ہیں اس طرح مرد اور عورت کو تعلق رکھنا چاہئے کیونکہ جس بندھن کے تحت عورت اور مرد آپس میں بندھے ہیں وہ ایک زندگی بھر کا معاہدہ ہے اور معاہدے کی پاسداری بھی اسلام کا بنیادی حکم ہے۔ معاہدوں کو پورا کرنے والے اللہ تعالیٰ کے نزدیک پسندیدہ ٹھہرتے ہیں اور کیونکہ یہ ایک ایسا بندھن ہے جس میں ایک دوسرے کے راز دار بھی ہوتے ہیں اس لئے فرمایا کہ مرد کی بہت سی باتوں کی عورت گواہ ہوتی ہے کہ اس میں کیا کیانیکیاں ہیں، کیا خوبیاں ہیں، کیا برائیاں ہیں۔ اس کے اخلاق کا معیار کیا ہے؟ تو حضرت اقدس مسیح موعود ؑ فرما رہے ہیں کہ اگر مرد عورت سے صحیح سلوک نہیں کرتا اور اس کے ساتھ صلح صفائی سے نہیں رہتا، اس کے حقوق ادا نہیں کرتا تو وہ اللہ تعالیٰ کے حقوق کیسے ادا کرے گا، اس کی عبادت کس طرح کرے گا، کس منہ سے اس سے رحم مانگے گا؟ جبکہ وہ خود اپنی بیوی پر ظلم کرنے والا ہے۔ اس لئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ: تم میں سے و ہی اچھا ہے جو اپنے اہل سے اچھا ہے، اپنی بیوی سے اچھا ہے۔ تو دیکھیں یہ ہے عورت کا تحفظ جو اسلام نے کیا ہے۔ اب کو نسا مذہب ہے جو اس طرح عورت کو تحفظ دے رہا ہو۔ اس کے حقوق کا اس طرح خیال رکھتا ہو‘‘۔
سورۃ النسآء آیت 35 کی تفسیر بیان فرماتے ہوئے حضور انور نے اسی خطاب میں فرمایا کہ:
’’ اَلرِّجَالُ قَوّٰمُوْنَ عَلَی النِّسَآءِ یعنی مردوں کو عورتوں پر حاکم بنایا گیاہے۔ اور پھر یہ: بِمَا فَضَّلَ اللّٰہُ (النسآء: 35) مرد کو ہر پہلو سے عورت پر فضیلت دی گئی ہے۔ اس کی مفسرین نے مختلف تفسیریں کی ہیں۔ لیکن ایک بہت خوبصورت تفسیر جو حضرت خلیفۃ المسیح الرابع ؒ نے کی ہے وہ میں تھوڑی سی بیان کرتاہوں۔ فرمایا: ’’ کہ سب سے پہلے تو لفظ قوّام کو دیکھتے ہیں۔ قوّام کہتے ہیں ایسی ذات کو جو اصلاح احوال کرنے والی ہو، جودرست کرنے والی ہو، جوٹیڑھے پن اور کجی کو صاف سیدھا کرنے والی ہو۔ چنانچہ قوّام اصلاح معاشرہ کے لئے ذمہ دار شخص کو کہا جائے گا۔ پس قوّامون کا حقیقی معنی یہ ہے کہ عورتوں کی اصلاحِ معاشرہ کی اول ذمہ داری مرد پر ہوتی ہے۔ اگر عورتوں کا معاشرہ بگڑنا شروع ہوجائے، ان میں کج روی پیدا ہوجائے، ان میں ایسی آزادیوں کی رو چل پڑے جو ان کے عائلی نظام کو تباہ کرنے والی ہو۔ یعنی گھریلوں نظام کو تباہ کرنے والی ہو، میاں بیوی کے تعلقات کوخراب کرنے والی ہو، توعورت پر دوش دینے سے پہلے مرد اپنے گریبان میں منہ ڈا ل کر دیکھیں۔ کیونکہ خدا تعالیٰ نے ان کو نگران مقرر فرمایا تھا۔ معلوم ہوتاہے انہوں نے اپنی بعض ذمہ داریاں اس سلسلہ میں ادا نہیں کیں اور : بِمَا فَضَّلَ اللّٰہُ بَعْضَہُمْ عَلٰی بَعْضٍ(النسآء: 35) میں خداتعالیٰ نے جوبیان فرما یاہے وہ یہ ہے کہ خد اتعالیٰ نے ہر تخلیق میں کچھ خلقی فضیلتیں ایسی رکھی ہیں جو دوسری تخلیق میں نہیں ہیں اور بعض کو بعض پر فضیلت ہے۔ قوّام کے لحاظ سے مرد کی ایک فضیلت کا اس میں ذکر فرمایا گیا ہے۔ ہرگزیہ مرادنہیں کہ مرد کو ہر پہلو سے عورت پر فضیلت حاصل ہے۔ (خطاب حضرت خلیفۃ المسیح الرابع ؒ بر موقع جلسہ سالانہ انگلستان۔ یکم اگست 1987ء)
تو، اَلرِّجَالُ قَوّٰمُوْنَ عَلَی النِّسَآءِ (النسآء: 35) کہہ کر مردوں کو تو جہ دلائی گئی ہے کہ تمہیں جو اللہ تعالیٰ نے معاشرے کی بھلائی کا کام سپرد کیا ہے تم نے اس فرض کو صحیح طور پر ادا نہیں کیا۔ اس لئے اگر عورتوں میں بعض برائیاں پیدا ہوئی ہیں تو تمہاری نا اہلی کی وجہ سے پیدا ہوئی ہیں۔ پھر عورتیں بھی اس بات کو تسلیم کرتی ہیں، اب بھی، اس مغربی معاشرے میں بھی، اس بات کو تسلیم کیا جاتا ہے یہاں تک کہ عورتوں میں بھی، کہ عورت کو صنف نازک کہا جاتاہے۔ تو خود تو کہہ دیتے ہیں کہ عورتیں نازک ہیں۔ عورتیں خود بھی تسلیم کرتی ہیں کہ بعض اعضاء جو ہیں، بعض قویٰ جو ہیں مردوں سے کمزور ہوتے ہیں، مردکا مقابلہ نہیں کر سکتیں۔ اس معاشرے میں بھی کھیلوں میں عورتوں مردوں کی علیحدہ علیحدہ ٹیمیں بنائی جاتی ہیں۔ تو جب اللہ تعالیٰ نے کہہ دیا کہ میں تخلیق کرنے والا ہوں اور مجھے پتہ ہے کہ میں نے کیا بناوٹ بنائی ہوئی ہے مرد اور عورت کی اور اس فرق کی وجہ سے میں کہتا ہوں کہ مرد کو عورت پر فضیلت ہے تو تمہیں اعتراض ہو جاتاہے کہ دیکھو جی اسلام نے مرد کو عورت پر فضیلت دے دی۔ عورتوں کو تو خوش ہو نا چاہئے کہ یہ کہہ کر اللہ تعالیٰ نے مرد پر زیادہ ذمّہ داری ڈال دی ہے اس لحاظ سے بھی کہ اگر گھریلو چھوٹے چھوٹے معاملات میں عورت اور مرد کی چھوٹی چھوٹی چپقلشیں ہوجاتی ہے، ناچاقیاں ہو جاتی ہیں تو مرد کو کہا کہ کیونکہ تمہارے قویٰ مضبوط ہیں، تم قوّام ہو، تمہارے اعصاب مضبوط ہیں اس لئے تم زیادہ حوصلہ دکھاؤاور معاملے کوحوصلے سے اس طرح حل کر و کہ یہ ناچاقی بڑھتے بڑھتے کسی بڑی لڑائی تک نہ پہنچ جائےاور پھر طلاقوں اور عدالتوں تک نوبت نہ آجائے۔ پھر گھر کے اخراجات کی ذمہ داری بھی مرد پر ڈالی گئی ہے‘‘۔ (جلسہ سالانہ یوکے خطاب از مستورات فرمودہ 31؍جولائی 2004ء۔ مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل 24؍اپریل 2015ء)
اپنے اسی خطاب کے دوران حضور انور ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزنے سورۃالنساء آیت 20 کی تلاوت اور ترجمہ بیان کرنے کے بعد اس کی تشریح کرتے ہوئے فرمایا:۔
’’یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا لَا یَحِلُّ لَکُمۡ اَنۡ تَرِثُوا النِّسَآءَ کَرۡہًا ؕ وَ لَا تَعۡضُلُوۡہُنَّ لِتَذۡہَبُوۡا بِبَعۡضِ مَاۤ اٰتَیۡتُمُوۡہُنَّ اِلَّاۤ اَنۡ یَّاۡتِیۡنَ بِفَاحِشَۃٍ مُّبَیِّنَۃٍ ۚ وَ عَاشِرُوۡہُنَّ بِالۡمَعۡرُوۡفِ ۚ فَاِنۡ کَرِہۡتُمُوۡہُنَّ فَعَسٰۤی اَنۡ تَکۡرَہُوۡا شَیۡئًا وَّ یَجۡعَلَ اللّٰہُ فِیۡہِ خَیۡرًا کَثِیۡرًا ۔ (النساء:20)
اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو! تمہارے لئے جائز نہیں کہ تم زبردستی کرتے ہوئے عورتوں کا ورثہ لو۔ اور انہیں اس غرض سے تنگ نہ کرو کہ تم جو کچھ انہیں دے بیٹھے ہو اس میں سے کچھ(پھر) لے بھاگو، سوائے اس کے کہ وہ کھلی کھلی بے حیائی کی مرتکب ہوئی ہوں۔ اور ان سے نیک سلوک کے ساتھ زندگی بسر کرو۔ اور اگر تم اُنہیں ناپسند کرو تو عین ممکن ہے کہ تم ایک چیز کو ناپسند کرو اور اللہ اس میں بہت بھلائی رکھ دے۔
اللہ تعالیٰ تمہیں یہ حکم دیتا ہے کہ عورتوں سے حسن سلوک کرو۔ جن کو تم دوسرے گھروں سے بیاہ کر لائے ہو ان کے عزیز رشتے داروں سے ماں باپ بہنوں بھائیوں سے جدا کیا ہے ان کو بلاوجہ تنگ نہ کرو، ان کے حقوق ادا کرو اور ان کے حقوق ادا نہ کرنے کے بہانے تلاش نہ کرو ‘‘۔ (جلسہ سالانہ یوکے خطاب از مستورات فرمودہ 31؍جولائی 2004ء۔ مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل 24؍اپریل 2015ء)
حضور انور ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے عورتوں سے حُسنِ سلوک کے بارہ میں حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا ایک حوالہ سناتے ہوئے فرمایا:
’’ایک جگہ آپؑ فرماتے ہیں یہ دل دُکھانا بڑے گناہ کی بات ہے اور لڑکیوں کے تعلقات بہت نازک ہوتے ہیں۔ تو جہاں مردوں کو سختی کی اجازت ہے وہ تنبیہ کی اجازت ہے۔ مارنے کی تو سوائے خاص معاملات کے اجازت ہے ہی نہیں اور وہاں بھی صرف دین کے معاملات میں اور اللہ تعالیٰ کے واضح احکامات کی خلاف ورزی کرنے کے معاملات میں اجازت ہے۔ لیکن جو مرد خود نماز نہیں پڑھتا، خود دین کے احکامات کی پابندی نہیں کر رہا وہ عورت کوکچھ کہنے کا کیا حق رکھتا ہے؟ تو مردوں کو شرائط کے ساتھ جو بعض اجازتیں ملی ہیں وہ عورت کے حقوق قائم کرنے کے لئے ہیں۔ (شاید عورتوں کو یہ خیال ہو کہ یہ باتیں تو مردوں کو بتانی چاہئیں۔ فکر نہ کریں ساتھ کی مارکی میں مرد سن رہے ہیں بلکہ ساری دنیا میں سن رہے ہیں آپ کے حقوق کی حفاظت کے لئے۔)
ایک صحابی کے اپنی بیوی کے ساتھ سختی سے پیش آنے اور ان سے حسن سلوک نہ کرنے پر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو اللہ تعالیٰ نے الہاماً بیویوں سے حسن سلوک کرنے کا حکم فرمایا کہ: یہ طریق اچھا نہیں اس سے روک دیا جائے مسلمانوں کے لیڈر عبدالکریم کو۔ (ضمیمہ تحفہ گولڑویہ۔ روحانی خزائن جلد نمبر 17صفحہ 75)
آپ علیہ السلام فرماتے ہیں کہ:’’ اس الہام میں تمام جماعت کے لئے تعلیم ہے کہ اپنی بیویوں سے رفق اور نرمی کے ساتھ پیش آویں۔ وہ ان کی کنیزیں نہیں ہیں۔ درحقیقت نکاح مرد اور عورت کا باہم ایک معاہدہ ہے۔ پس کوشش کرو کہ اپنے معاہدہ میں دغا باز نہ ٹھہرو۔ اللہ تعالیٰ قرآن شریف میں فرماتا ہے: عَاشِرُوْ ھُنَّ بِالْمَعْرُوْفِ (النساء:20) یعنی اپنی بیو یوں کے ساتھ نیک سلوک کے ساتھ زندگی بسرکرو۔ اور حدیث میں ہے: خَیْرُکُمْ خَیْرُکُمْ لِاَھْلِہٖٖ یعنی تم میں سے اچھا وہی ہے جو اپنی بیوی سے اچھا ہے۔ سو روحانی اور جسمانی طور پر اپنی بیویوں سے نیکی کرو۔ ان کے لئے دعا کرتے رہو اور طلاق سے پرہیز کرو۔ کیونکہ نہایت بد، خدا کے نزدیک وہ شخص ہے جو طلاق دینے میں جلدی کرتا ہے۔ جس کو خدا نے جوڑا ہے اس کو ایک گندے برتن کی طرح جلد مت توڑو ‘‘۔ (ضمیمہ تحفہ گولڑویہ۔ روحانی خزائن جلد نمبر 17صفحہ 75حاشیہ)
تو دیکھیں کہ اس زمانے میں بھی حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کے ذریعہ سے حقوق ادا کرنے کا اللہ تعالیٰ نے حکم فرما دیا۔ ایک جگہ آپؑ فرماتے ہیں کہ: اصل میں تو مرد کو ایک طرح سے عورت کا نوکر بنا دیا ہے۔ آج پڑھی لکھی دنیا کا کوئی قانون بھی اس طرح عورت کو حق نہیں دلواتا‘‘۔ (جلسہ سالانہ یوکے خطاب از مستورات فرمودہ 31؍جولائی 2004ء۔ مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل 24؍اپریل 2015ء)
جوائنٹ فیملی سسٹم: مشترکہ خاندانی نظام
مشترکہ خاندانی نظام کی خوبیوں اور خامیوں کا بیان کرتے ہوئے حضور انور ایّدہ اللہ تعالیٰ نے احباب جماعت کو یہ نصیحت فرمائی:
’’پھر ایک بیماری جس کی وجہ سے گھر برباد ہوتے ہیں، گھر وں میں ہر وقت لڑائیا ں اور بے سکونی کی کیفیت رہتی ہے وہ شادی کے بعد بھی لڑکوں کا توفیق ہوتے ہوئے اور کسی جائز وجہ کے بغیر بھی ماں باپ، بہن بھائیوں کے ساتھ اسی گھر میں رہنا ہے۔ اگر ماں باپ بوڑھے ہیں، کوئی خدمت کرنے والا نہیں ہے، خود چل پھر کر کام نہیں کر سکتے اور کوئی مددگار نہیں تو پھر اس بچے کے لئے ضروری ہے اور فرض بھی ہے کہ انہیں اپنے ساتھ رکھے اور ان کی خدمت کرے۔ لیکن اگر بہن بھائی بھی ہیں جو ساتھ رہ رہے ہیں تو پھر گھر علیحدہ کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ آجکل اس کی وجہ سے بہت سی قباحتیں پیدا ہوتی ہیں۔ اکٹھے رہ کر اگر مزید گناہوں میں پڑنا ہے تو یہ کوئی خدمت یا نیکی نہیں ہے۔
گزشتہ دنوں جماعت کے اندر ہی کسی ملک میں ایک واقعہ ہوا، بڑا ہی درد ناک واقعہ ہے کہ اسی طرح سارے بہن بھائی ایک گھر میں اکٹھے رہ رہے تھے کہ جوائنٹ فیملی (Joint Family) ہے۔ ہر ایک نے دو دو کمرے لئے ہوئے تھے۔ بچوں کی وجہ سے ایک دیورانی اور جٹھانی کی آپس میں ان بن ہو گئی۔ شام کو جب ایک کا خاوند گھر میں آیا تو اس نے اس کے کان بھرے کہ بچوں کی لڑائی کے معاملے میں تمہارے بھائی نے اور اس کی بیوی نے اس طرح باتیں کی تھیں۔ اس نے بھی آؤ دیکھا نہ تاؤ بندوق اٹھائی اور اپنے تین بھائیوں کو مار دیا اور اس کے بعد خود بھی خود کشی کرلی۔ تو صرف اس وجہ سے ایک گھر سے چار جنازے ایک وقت میں اُٹھ گئے۔
تو یہ چیز کہ ہم پیار محبت کی وجہ سے اکٹھے رہ رہے ہیں، اس پیار محبت سے اگر نفرتیں بڑھ رہی ہیں تو یہ کوئی حکم نہیں ہے، اس سے بہتر ہے کہ علیحدہ رہا جائے۔ تو ہر معاملہ میں جذباتی فیصلوں کی بجائے ہمیشہ عقل سے فیصلے کرنے چاہئیں۔ اس آیت کی تشریح میں :
لَیۡسَ عَلَی الۡاَعۡمٰی حَرَجٌ وَّ لَا عَلَی الۡاَعۡرَجِ حَرَجٌ وَّ لَا عَلَی الۡمَرِیۡضِ حَرَجٌ وَّ لَا عَلٰۤی اَنۡفُسِکُمۡ اَنۡ تَاۡکُلُوۡا مِنۡۢ بُیُوۡتِکُمۡ اَوۡ بُیُوۡتِ اٰبَآئِکُمۡ اَوۡ بُیُوۡتِ اُمَّہٰتِکُمۡ اَوۡ بُیُوۡتِ اِخۡوَانِکُمۡ اَوۡ بُیُوۡتِ اَخَوٰتِکُمۡ۔ (النور: 62)
کہ اندھے پر کوئی حرج نہیں، لولے لنگڑے پر کوئی حرج نہیں، مریض پر کوئی حرج نہیں اور نہ تم لوگوں پر کہ تم اپنے گھروں سے یا اپنے باپ دادا کے گھروں سے یا اپنی ماؤں کے گھروں سے یا اپنے بھائیوں کے گھروں سے یا اپنی بہنوں کے گھروں سے کھانا کھاؤ، حضرت خلیفۃ المسیح الاولؓ فرماتے ہیں کہ :ہندوستان میں لوگ اکثر اپنے گھروں میں خصوصاً ساس بہو کی لڑائی کی شکایت کرتے رہتے ہیں۔ اگر قرآن مجید پر عمل کریں تو ایسا نہ ہو۔ فرماتے ہیں دیکھو(یہ جو کھانا کھانے والی آیت ہے) اس میں ارشاد ہے کہ گھر الگ الگ ہوں، ماں کا گھر الگ اور شادی شدہ لڑکے کا گھرالگ، تبھی تو ایک دوسرے کے گھروں میں جاؤ گے اور کھانا کھاؤ گے‘‘۔
تو دیکھیں یہ جو لوگوں کا خیال ہے کہ اگر ہم ماں باپ سے علیحدہ ہو گئے تو پتہ نہیں کتنے بڑے گناہوں کے مرتکب ہو جائیں گے اور بعض ماں باپ بھی اپنے بچوں کو اس طرح خوف دلاتے رہتے ہیں بلکہ بلیک میل کر رہے ہوتے ہیں کہ جیسے گھر علیحدہ کرتے ہی ان پر جہنم واجب ہو جائے گی۔ تو یہ انتہائی غلط رویہ ہے۔
میں نے کئی دفعہ بعض بچیوں سے پوچھا ہے، ساس سسر کے سامنے تو یہی کہتی ہیں کہ ہم اپنی مرضی سے رہ رہے ہیں بلکہ ان کے بچے بھی یہی کہتے ہیں لیکن علیحدگی میں پوچھو تو دونوں کا یہی جواب ہوتا ہے کہ مجبوریوں کی وجہ سے رہ رہے ہیں اور آخرپر نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ بعض دفعہ بہو ساس پر ظلم کر رہی ہوتی ہے اور بعض دفعہ ساس بہو پرظلم کر رہی ہوتی ہے‘‘۔ (خطبہ جمعہ فرمودہ 10نومبر2006ء بمقام مسجد بیت الفتوح، لندن مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل یکم دسمبر 2006ء)
نیزحضورِ اقدس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں :
’’ ایک لڑکی جب اپنے ماں باپ کا گھر چھوڑ کر خاوند کے گھر آتی ہے تو اگر اس سے حسن سلوک نہ ہو تو اس کی اس گھر میں، سسرال کے گھر میں، اگرجوائنٹ فیملی ہے تو وہی حالت ہوتی ہے جو ایک قیدی کی ہو رہی ہوتی ہےاور قیدی بھی ایسا جسے کوئی پوچھنے والا نہیں ہوتا۔ لڑکی نہ خود ماں باپ کو بتاتی ہے نہ ماں باپ پوچھتے ہیں کہ بچی کا گھر خراب نہ ہو۔ تو اگر لڑکی اس طرح گھٹ گھٹ کر مر رہی ہو تویہ ایک ظالمانہ فعل ہے ‘‘۔ (جلسہ سالانہ یوکے خطاب ازمستورات فرمودہ 31؍جولائی 2004ء۔ مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل 24؍اپریل 2015ء)
اسی طرح ایک اور موقع پر فرمایا:
’’حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ ولسلام تو محبتیں پھیلانے آئے تھے۔ پس احمدی ہو کر ان محبتوں کو فروغ دیں اور اس کے لئے کوشش کریں نہ کہ نفرتیں پھیلائیں۔ اکثر گھروں والے تو بڑی محبت سے رہتے ہیں لیکن جو نہیں رہ سکتے وہ جذباتی فیصلے نہ کریں بلکہ اگر تو فیق ہے اور سہولتیں بھی ہیں، کوئی مجبوری نہیں ہے تو پھر بہتر یہی ہے کہ علیحدہ رہیں۔ حضرت خلیفۃ المسیح الاولؓ کا یہ بہت عمدہ نکتہ ہے کہ اگر ساتھ رہنا اتنا ہی ضروری ہے تو پھر قرآن کریم میں ماں باپ کے گھر کا علیحدہ ذکر کیوں ہے؟ ان کی خدمت کرنے کا، ان کی ضروریات کا خیال رکھنے کا، ان کی کسی بات کو برا نہ منانے کا، ان کے سامنے اُف تک نہ کہنے کا حکم ہے، اس کی پابندی کرنی ضروری ہے۔ بیوی کو خاوند کے رحمی رشتہ داروں کا خیال رکھنا چاہئے، اس کی پابندی بھی ضروری ہے اور خاوند کو بیوی کے رحمی رشتہ داروں کا خیال رکھنا چاہئے، اس کی پابندی بھی ضروری ہے۔ یہ بھی نکاح کے وقت ہی بنیادی حکم ہے‘‘۔ (خطاب فرمودہ مؤرخہ 10نومبر 2006ء بمقا م مسجد بیت الفتوح، لندن)
11جولائی 2012ء کو دورۂ کینیڈا کے دوران حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے رشتہ ناطہ کمیٹی کے ساتھ میٹنگ کے دوران فرمایا:
’’ یہاں کینیڈا، امریکہ اور مغربی ملکوں میں بعض لڑکے بعض نامناسب کاموں میں Involve ہو جاتے ہیں اور بعض نقائص ان میں پیدا ہو جاتے ہیں۔ بعض دفعہ تربیت اور سمجھانے کے نتیجہ میں اصلاح ہو جاتی ہے اور بعض دفعہ نہیں ہوتی۔ اسی طرح بعض دفعہ بعض لڑکیوں میں بھی نقائص ہوتے ہیں۔ بہرحال جب رشتہ ہورہا ہو تو یہ باتیں سامنے آنی چاہئیں اور دونوں کو تقویٰ کے ساتھ بتانی چاہئیں تاکہ بعد میں جھگڑے نہ ہوں ‘‘۔
پھرحضور انور نے فرمایا:
’’بعض خاندان ایسے ہیں جو شادی کے بعد لڑکی کو طعنہ دیتے ہیں کہ جہیز لے کر نہیں آئی، اولاد نہیں ہوتی، اس کی تو لڑکیاں ہوتی ہیں۔ اس طرح لڑکے والے لڑکی کو طعنے دیتے ہیں تو پھر علیحدگی ہو جاتی ہے۔ بعض دادیاں، نانیاں پاکستان سے دیہاتی ماحول سے آئی ہیں اور دیہاتی اثر ان پر غالب ہے اور ان کی اس جاہلانہ سوچ کی وجہ سے بعض رشتے خراب ہو جاتے ہیں ‘‘۔ (مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل 28؍ستمبر 2012ء)