عائلی مسائل اور اُن کا حل

فہرست مضامین

طلاق یا خلع

اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں مرد اور عورت کی علیحدگی کو ناپسندیدہ لیکن مجبوری کی صورت میں جائز قرار دیا ہے۔ اس حوالہ سے حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں :

’’ بعض دفعہ شادی کے بعد میاں بیوی کی نہیں بنتی، طبیعتیں نہیں ملتیں یا اور کچھ وجوہات پیدا ہوتی ہیں تو اسلام نے دونوں کو اس صورت میں علیحدگی کا حق دیا ہے اور یہ حق بعض شرائط کی پابندی کے ساتھ مردوں کو طلاق کی صورت میں ہے اور عورتوں کو خلع کی صورت میں ہے ‘‘۔ (جلسہ سالانہ یوکے خطاب ازمستورات فرمودہ 31؍جولائی 2004ء۔ مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل 24؍اپریل 2015ء)

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزنے علیحدگی کی صورت میں بعض اخلاقی کمزوریوں کی نشاندہی کرتے ہوئےفرماتے ہیں :

’’ خلع اور طلاقوں کی تعداد بڑھتی چلی جا رہی ہے۔ یہ خوفناک صورتحال ہے۔ یہ ایک جگہ قائم نہیں بلکہ میں نے جائزہ لیا ہے ہر سال خلع اور طلاقوں کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے۔ دونوں فریق کچھ سچ کچھ جھوٹ بول کر اپنا کیس مضبوط کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور پھر آپس میں بعض غلط بیانیاں کر کے اپنا اعتماد ایک دوسرے کے لئے کھو دیتے ہیں۔ جیسا کہ میں نے کہا۔ یہ بات میرے لئے قابلِ فکر اس لئے ہے کہ خلع کی تعداد جماعت میں بہت بڑھ رہی ہے اور خلع لڑکیوں کی طرف سے، عورتوں کی طرف سے لیا جاتا ہے۔ جیسا کہ میں نے بتایاجرمنی میں بھی افسوسناک صورتحال ہے‘‘۔

مزید فرمایا’’طلاق اور خلع اسلام میں گوجائز ہے لیکن آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اللہ تعالیٰ کو سخت ناپسند ہے اور مکروہ ہے۔ (سنن ابی داؤد کتاب الطلاق باب فی کراھیۃ الطلاق حدیث 2178)

پس ایک مومنہ اور مومن کی شان تو یہ ہے کہ اگر بامر مجبوری ایسی باتوں سے واسطہ پڑ بھی جائے تو پھر انصاف کے تقاضے پورے کرتے ہوئے، خدا تعالیٰ کا خوف دل میں رکھتے ہوئے حق بات کہو۔ سچ کو کبھی ہاتھ سے نہ جانے دو، کیونکہ مومن کی شان یہ ہے کہ وہ جھوٹ نہیں بولتا‘‘۔ (جلسہ سالانہ جرمنی خطاب از مستورات فرمودہ 25؍جون2011ء)

حضور انور نےطلاق یا خلع کی صورت میں پردہ پوشی کی نصیحت کرتے ہوئے ایک خطبہ جمعہ میں فرمایا:

’’اب میاں بیوی کے بہت سے جھگڑے ہیں جو جماعت میں آتے ہیں، قضا میں آتے ہیں، خلع کے یا طلاق کے جھگڑے ہوتے ہیں اور طلاق ناپسندیدہ فعل ہے۔ بہرحال اگر کسی وجہ سے مرد اور عورت میں نہیں بنی تو مرد کو حق ہے کہ وہ طلاق دے دے اور عورت کو حق ہے کہ وہ خلع لے لےاور بعض دفعہ بعض باتیں صلح کروانے والے کے سامنے بیان کرنی پڑتی ہیں۔ اس حد تک توموٹی موٹی باتیں بیان کرنا جائزہے لیکن بعض دفعہ ایسے ہوتا ہے کہ مرد اور عورت کے علاوہ دیگر رشتہ دار بھی شامل ہو جاتے ہیں جو ایک دوسرے پر ذاتی قسم کے الزامات لگا رہے ہوتے ہیں۔ جن کو سن کر بھی شرم آتی ہے۔ اب میاں بیوی کے تعلقات تو ایسے ہیں جن میں بعض پوشیدہ باتیں بھی ظاہر ہوجاتی ہیں۔ تو جھگڑا ہونے کے بعد ان کو باہر یا اپنے عزیزوں میں بیان کرنا صرف اس لئے کہ دوسرے فریق کو بدنام کیاجائے تا کہ اس کا دوسری جگہ رشتہ نہ ہو۔ تو فرمایا کہ اگر ایسی حرکتیں کروگے تویہ بہت بڑی بے حیائی اور خیانت شمار ہوگی اور خائن کے بارہ میں انذار آئے ہیں کہ ایک تو خائن مومن نہیں، مسلمان نہیں اور پھر جہنمی بھی ہے‘‘۔ (خطبہ جمعہ فرمودہ6؍فروری 2004ء بمقام مسجد بیت الفتوح لندن) (مطبوعہ خطبات مسرور جلد دوم صفحہ 111۔ ایڈیشن2005ءمطبوعہ نظارت اشاعت ربوہ)

مطلقہ عورتوں کے حقوق

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزنےاپنے ایک خطبہ جمعہمیں اسلام میں مطلقہ عورت کو دیئے گئے حقوق کو بیان کرتے ہوئے ارشاد فرمایا:

’’جو مطلقہ عورت ہے اس کے حق کے بارے میں ہے کہ اگر طلاق ہوجاتی ہے تو عورت کے لئے مقررہ عدت ہے جو متعین کردہ ہے اس کے بعد وہ آزاد ہے کہ شادی کرے۔ دوسری جگہ حکم ہے کہ تم ان کی شادی میں روک نہ بنو۔ بلکہ شادی میں مدد کرو اور اب وہ خود ہوش والی ہے اس لئے اگر وہ شادی کا فیصلہ کرے تو ٹھیک ہے۔ لیکن عورتوں کو حکم ہے کہ طلاق کے بعد اگر تمہیں پتہ چلے کہ حاملہ ہو تو اپنے خاوندکو بتا دو، چھپانا نہیں چاہئے۔ اگر شادی کے بعد کسی وجہ سے نہیں بنی تو اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ انتقام لینے لگ جاؤ اور جو اس بچے کا باپ ہے اس کو نہ بتاؤ کہ تمہارا بچہ پیدا ہونے والاہے۔ اللہ فرماتاہے کہ تمہارے بتانے سے ہوسکتاہے کہ اس کا دل نرم ہو جائے اور وہ رجوع کرے اور گھر آباد ہو جائے۔ فرمایا کہ خاوند زیادہ حق دار ہے کہ انہیں واپس لے لے اور گھر آباد ہو جائیں اور رنجشیں دور ہو جائیں۔ دوسرے قریبیوں اور رشتہ داروں کو بھی حکم ہے کہ اس میں وہ روک نہ بنیں۔ بعض دفعہ قریبی اور رشتہ دار بھی لڑکی کو خراب کر رہے ہوتے ہیں۔ وہ اگر خاموش بھی ہے بلکہ رجوع کرنے پر رضامند بھی ہے تو قریبی شور مچا دیتے ہیں کہ ایک دفعہ طلاق ہو گئی اب ہم لڑکی کو واپس نہیں بھیجیں گے۔ انا اور عزتوں کے معاملے اٹھ جاتے ہیں۔ کئی معاملات میرے پاس بھی آتے ہیں۔ حیرت ہوتی ہے جب بعض دفعہ جھوٹی غیرت دکھاتے ہوئے اپنی بچیوں کے گھر برباد کر رہے ہوتے ہیں۔ بعض بچیاں پھر خط لکھتی ہیں کہ ہم دونوں میاں بیوی اب بسنا چاہتے ہیں لیکن دونوں طرف کے والدین کی اَناؤں نے یہ مسئلہ بنالیا ہے۔ تو اللہ تعالیٰ فرماتاہے کہ رشتہ د اروں کو اس تعلق کے دوبارہ قائم ہونے میں روک نہیں بننا چاہئے۔ اگر مرد کو اپنی غلطی کا احساس ہو گیاہے تو پھرجھوٹی غیرتوں کے نام پر لڑکی کا گھر برباد نہیں کرنا چاہئے۔ پھر اللہ تعالیٰ عورت کے حقوق کی حفاظت کرتے ہوئے فرماتاہے کہ عورتوں کا دستور کے مطابق مردوں پر اتنا ہی حق ہے جتنا مردوں کا عورتوں پر۔

یہ آیت تو میں نے پڑھی تھی۔ اس کا ترجمہ بھی پڑھ دیتاہوں۔ فرمایا کہ: اور مطلقہ عورتوں کو تین حیض تک اپنے آپ کو روکنا ہوگااور ان کے لئے جائز نہیں اگر وہ اللہ اور یوم آخرت پر ایمان لاتی ہیں کہ وہ اس چیزکو چھپائیں جو اللہ نے ان کے رِحموں میں پیدا کر دی ہےاور اس صورت میں ان کے خاوند زیادہ حقدار ہیں کہ انہیں واپس لے لیں اگر وہ اصلاح چاہتے ہیں اور ان عورتوں کا دستور کے مطابق مردوں پر اتنا ہی حق ہے جتنامردوں کا ان پر ہے حالانکہ مردوں کو ان پر ایک قسم کی فوقیت بھی ہے اور اللہ کامل غلبے والا اور حکمت والاہے‘‘۔ (خطبہ جمعہ فرمودہ16؍نومبر 2007ء۔ مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل 07؍دسمبر 2007ء)

فرمایا:

’’پھر بعض دفعہ شادی کے بعد میاں بیوی کی نہیں بنتی، طبیعتیں نہیں ملتیں یا اور کچھ وجوہات پیدا ہوتی ہیں تو اسلام نے دونوں کو اس صورت میں علیحدگی کا حق دیا ہے اور یہ حق بعض شرائط کی پابندی کے ساتھ مردوں کو طلاق کی صورت میں ہے اور عورتوں کو خلع کی صورت میں ہے اور مرد وں کو یہ بھی حکم ہے کہ اپنے اس حق کو استعمال کرتے ہوئے عورتوں کے ساتھ زیادتی نہ کرو۔ اگر اس طرح زیادتی کرو گے تو یہ ظلم ہو گا اور پھر ظلم کی سزابھی تمہیں ملے گی۔ ایک دوسری آیت :

وَ اِنْ عَزَمُوا الطَّلَاقَ فَاِنَّ اللّٰہَ سَمِیْعٌ عَلِیْمٌ(البقرۃ: 228)کی تشریح میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ و السلام فرماتے ہیں کہ اس کا مطلب ہے: ’’اوراگر طلاق دینے پر پختہ ارادہ کر لیں سو یاد رکھیں کہ خدا سننے والا اور جاننے والا ہے۔ یعنی اگر وہ عورت جس کو طلاق دی گئی خدا کے علم میں مظلوم ہو اور پھر وہ بددعا کرے تو خدا اس کی بد دعا سن لے گا‘‘۔ (تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام زیر سورۃ البقرہ228)

تو یہاں تک مردوں کو ڈرایا ہے۔ دیکھیں آپ کے حقوق قائم کرنے کے لئے کس طرح مردوں کو انذار ہے۔ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے یہاں تک فرمایا ہے کہ: ’’یہ حقوق اس قسم کے ہیں کہ اگر انسان کو پورے طور پر معلوم ہو ں تو بجائے بیاہ کے وہ ہمیشہ رنڈوا رہنا پسند کرے۔ خداتعالیٰ کی تہدیدکے نیچے رہ کر جو شخص زندگی بسر کرتا ہےوہی ان کی بجا آوری کا دم بھر سکتا ہے۔ ایسے لذّات جن سے خداتعالیٰ کا تازیانہ ہمیشہ سر پر رہے تلخ زندگی بسر کر لینی ہزار ہا درجہ بہتر ہے‘‘۔ (ملفوظات جلد ہفتم صفحہ 64-63مطبوعہ لندن)

حضور ایّدہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :

’’یعنی اگر یہ احساس ہو کہ ان حقوق کو جو اللہ تعالیٰ نے عورت کے حقوق مقرر فرمائے ہیں ادا نہ کرکے اللہ تعالیٰ مرد کو کتنی شدید پکڑ میں لا سکتا ہے تو فرمایا کہ اگر مردوں کو یہ علم ہو تو وہ شاید یہ بھی پسند نہ کریں کہ ایک شادی بھی کریں۔ ایک شادی بھی ان کے لئے مشکل ہو جائے چونکہ پتہ نہیں کس وجہ سے عورت کا کونسا حق ادا نہ کرنے کی وجہ سے وہ اللہ تعالیٰ کی پکڑ کے نیچے آ جائیں اور اللہ تعالیٰ کی ناراضگی لے لیں ‘‘۔ (جلسہ سالانہ یوکے خطاب ازمستورات فرمودہ 31؍جولائی 2004ء۔ مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل 24؍اپریل 2015ء)

صحابیؓ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کاقابلِ تقلید نمونہ

حضور انور ایّدہ اللہ تعالیٰ نےاپنے ایک خطبہ جمعہ میں عائلی مسائل کے ضمن میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ارشادات اور آپ ؑ کے اصحاب کے نمونہ کا ذکرفرمایا۔ حضور انور نے صحابہؓ میں ہونے والی پاکیزہ تبدیلیوں کا ذکرکرتے ہوئےفرمایا:

’’حضرت چوہدری محمد اکبر صاحب روایت کرتے ہیں کہ :صحابی موصوف چوہدری نذر محمود صاحب تھے جو اصل متوطن ادرحمہ ضلع شاہ پور تھے اور حضرت مولوی شیر علی صاحب کے رشتہ داروں میں سے تھے وہ ڈیرہ غازیخان میں ملازم تھے۔ جہاں تک کہ اس عاجز کو یاد ہے وہ روایت کرتے تھے کہ سلسلہ احمدیہ میں منسلک ہونے سے پہلے ان کی حالت اچھی نہ تھی اور وہ اپنی اہلیہ کو پوچھتے تک نہ تھے۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے مبارک زمانے میں ہدایت بخشی اور شناخت حق کی توفیق دی جس کے بعد ان کو حضرت مسیح موعودعلیہ الصلوٰۃ والسلام کی زیارت کا شوق ہوا چنانچہ وہ قادیان دارالامان گئے مگر وہاں جانے پر معلوم ہوا کہ حضور کسی مقدمے کی وجہ سے گورداسپور تشریف لائے ہوئے ہیں۔ چنانچہ وہ گورداسپورگئے اور ایسے وقت میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی زیارت اور ملاقات کا موقع ملا جب حضور بالکل اکیلے تھے اور چارپائی پر لیٹے ہوئے تھے۔ چنانچہ انہوں نے حضور کو دبانا شروع کردیا اور دعا کی درخواست کی۔ اتنے میں کوئی اور دوست حضور کی ملاقات کے لئے آیاجنہوں نے حضورکے سامنے ذکر کیا کہ اس کے سسرال نے اپنی لڑکی بڑی مشکلوں سے اسے دی ہے(یعنی واپس بھجوائی ہے)، اب اس نے بھی ارادہ کیا ہے کہ وہ اُن کی لڑکی کو ان کے پاس نہ بھیجے گا۔ (شاید آپس میں شادیاں ہوئی ہوں گی۔ )جو نہی حضورؑ نے اس کے ایسے کلمات سنے حضورؑ کا چہرہ سرخ ہو گیا اور حضورؑ نے غصے سے اس کو فرمایا کہ فی الفور یہاں سے دور ہو جاؤ، ایسا نہ ہو کہ تمہاری وجہ سے ہم پر بھی عذاب آ جاوے۔ چنانچہ وہ اٹھ کر چلا گیا اور تھوڑی دیر کے بعد واپس آیا اور عرض کی کہ وہ توبہ کرتا ہے، اسے معاف فرمایا جائے۔ جس پر حضورؑ نے اسے بیٹھنے کی اجازت دی۔

چوہدری نذر محمد صاحب مرحوم کہتے تھے کہ جب یہ واقعہ انہوں نے دیکھا تو وہ دل میں سخت نادم ہوئے کہ اتنی سی بات پر حضور ؑ نے اتنا غصہ منایا ہے۔ حالانکہ اُن کی اپنی حالت یہ ہے کہ وہ اپنی بیوی کو پوچھتے تک نہیں اور اپنے سسرال کی پرواہ نہیں کرتے۔ یہ کتنا بڑا گناہ ہے۔ وہ کہتے تھے کہ انہوں نے وہیں بیٹھے بیٹھے توبہ کی اور دل میں عہد کیا کہ اب جا کر اپنی بیوی سے معافی مانگوں گا اور آئندہ بھی اس سے بدسلوکی نہ کروں گا۔ چنانچہ وہ فرماتے تھے کہ جب وہ وہاں سے واپس آئے تو انہوں نے اپنی بیوی کے لئے بہت سے تحائف خریدے اور گھر پہنچ کر اپنی بیوی کے پاس گئے اور اس کے آگے تحائف رکھ کر پچھلی بدسلوکی کی ان سے منت کرکے معافی مانگی۔ وہ حیران ہو گئی کہ ایسی تبدیلی ان میں کس طرح پیدا ہو گئی۔ جب اس کو معلوم ہوا یہ سب کچھ سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ السلام کے طفیل ہے تو وہ حضور ؑ کو بے شمار دعائیں دینے لگی کہ حضور نے اس کی تلخ زندگی کو راحت بھری زندگی سے مبدل کر دیا ہے‘‘۔ (رجسٹر روایات صحابہ نمبر 1 صفحہ7-6)

حضور انور ایّدہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :

’’ اصل میں تو یہ عورت کا وہ حق ہے جو آنحضرتﷺ نے قائم فرمایا تھا لیکن مسلمان اس کو بھول چکے تھے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے دوبارہ اسے قائم فرمایا۔ پس سب سے زیادہ اسلام میں عورت کا مقام ہے جس کی قدر کی گئی ہے‘‘۔ (خطبہ جمعہ 13؍جنوری 2006ء بمقا م مسجد بیت الفتوح، لندن۔ مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل 03؍فروری 2006ء)

ایک اور موقع پرحضور ایّدہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ:

’’ دیکھیں جس طرح حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا کہ نمونہ بنیں۔ ان صحابی نے فوراً توبہ کی اور نمونہ بننے کی کوشش کی۔ آج آپ میں سے اکثریت بھی جو یہاں بیٹھی ہوئی ہے یا کم از کم کافی تعداد میں یہاں لوگ ایسے ہیں جو ان صحابہ کی اولاد میں سے ہیں جنہوں نے بیعت کے بعد نمونہ بننے کی کوشش کی اور بنے۔ آپ بھی اگر اخلاص کا تعلق رکھتے ہیں اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی جماعت میں داخل ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں تو یہ نیکیاں اختیار کریں۔ آج عہد کریں کہ ہم نے نیکی کے نمونے قائم کرنے ہیں۔ اپنی بیویوں کے قصور معاف کرنے ہیں اور جو لڑکی والے ہیں زیادتی کرنے والے، وہ عہد کریں کہ لڑکوں کے قصور معاف کرنے ہیں۔ تو ان جھگڑوں کی وجہ سے جو مختلف خاندانوں میں، معاشرے میں جو تلخیاں ہیں وہ دور ہو سکتی ہیں۔ اگرایسی چیزیں ختم کر دیں اگر ان عائلی جھگڑوں میں، میاں بیوی کے جھگڑوں میں علیحدگی تک بھی نوبت آ گئی ہے تو ابھی سے دعا کرتے ہوئے، اس نیک ماحول سے فائدہ اٹھاتے ہوئے دعاؤں پر زور دیتے ہوئے، ان پھٹے دلوں کو جوڑنے کی کوشش کریں ‘‘۔ (خطبہ جمعہ 24؍جون 2005ء بمقام انٹرنیشنل سنٹر۔ کینیڈا۔ مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل 8؍جولائی 2005ء)

جلسہ سالانہ سپین 2010ء کے موقعہ پر حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ نےآنحضورﷺ کی احادیث کے حوالہ سے احباب جماعت کوعورتوں سے حسن سلوک کرنے کی نصائح کرتے ہوئے ارشاد فرمایا:

’’گھریلو تعلقات کے بارہ میں آپﷺ کی نصیحت احادیث میں آتی ہے۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:عورتوں کی بھلائی اور خیر خواہی کا خیال رکھو کیونکہ عورت پسلی سے پیدا کی گئی ہے(یعنی اس میں پسلی کی طرح کا طبعی ٹیڑھا پن ہے)۔ پسلی کے اوپر کے حصہ میں زیادہ کجی ہوتی ہے۔ اگر تم اس کو سیدھا کرنے کی کوشش کرو گے تو اسے توڑ دو گے۔ اگر تم اسے اس کے حال پر ہی رہنے دو گے تو اس کا جو فائدہ ہے وہ تمہیں حاصل ہوتا رہےگا۔ پس عورتوں سے نرمی کا سلوک کرو اور اس بارے میں میری نصیحت مانو۔ (صحیح بخاری کتاب النکاح باب الوصیۃ بالنساء حدیث 5186)

پھر ایک روایت ہے۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہی بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مومن کو اپنی مومنہ بیوی سے نفرت اور بغض نہیں رکھنا چاہئے۔ اگر اس کی ایک بات اسے ناپسند ہے تو دوسری بات پسندیدہ ہو سکتی ہے۔ (صحیح مسلم کتاب الرضاع باب الوصیۃ بالنساء حدیث 3648)

یعنی اگر اس کی کچھ باتیں ناپسندیدہ ہیں تو کچھ اچھی بھی ہوں گی۔ ہمیشہ اچھی باتوں پر تمہاری نظر رہے۔ (صحیح بخاری کتاب النکاح باب المرأۃ راعیۃ فی بیت زوجھا حدیث 5200)

دونوں طرف سے یہ سلوک ہو گاتو تبھی گھر کا امن اور سکون قائم رہ سکتاہے۔ آنحضرتﷺ نے تو عورتوں کے حق اس طرح قائم فرمائے کہ ایک دفعہ آنحضرتﷺ کے علم میں یہ بات آئی کہ صحابہ اپنی بیویوں کو مارتے ہیں۔ آپﷺ نے فرمایا : عورتیں خدا کی لونڈیاں ہیں تمہاری لونڈیاں نہیں ‘‘۔ آپﷺ نے فرمایا:اسے تھپڑ نہ مارو، گالیاں نہ دو، گھر سے نہ نکالو۔ پھر ایک حدیث میں آتا ہے حضرت معاویہ بن حیدہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کی :اے اللہ کے رسول! بیوی کا حق خاوند پر کیا ہے؟ آپﷺ نے فرمایا جو تُو کھاتا ہے، اس کو بھی کھِلا۔ جو تُو پہنتا ہے اس کو بھی پہنا۔ اس کے چہرے پر نہ مار اور نہ اس کو بد صورت بنا۔ اس کی کسی غلطی کی وجہ سے سبق سکھانے کے لئے اگر تجھے اس سے الگ رہنا پڑے تو گھر میں ہی ایسا کر۔ یعنی گھر سے اُسے نہ نکال۔ (سنن ابی داؤد کتاب النکاح باب فی حق المرأۃ علی زوجھا حدیث 2142) (خطاب مؤرخہ3اپریل 2010ء برموقع جلسہ سالانہ جماعت احمدیہ سپین)

حضرت خلیفۃ المسیح ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزجلسہ سالانہ یوکے 2004ءکے موقعہ پراسی حوالہ سے ارشاد فرماتے ہیں :

’’یعنی اگر سختی کرنی پڑے تو اصلاح کی غرض سے سختی ہونی چاہئے، نہ کہ بدلے لینے کے لئے غصے اور طیش میں آکر اور پھر ان کے جذبات کے ساتھ ساتھ ان کے ظاہری جذبات کا بھی خیال رکھو۔ ان کی ظاہری ضروریات کا بھی خیال رکھو ‘‘۔ (جلسہ سالانہ یوکے خطاب ازمستورات فرمودہ 31؍جولائی 2004ء۔ مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل 24؍اپریل 2015ء)

حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ نے مستورات سے اپنے ایک خطاب میں مردوں کو اُن کی معاشرتی ذمہ داریوں کی طرف توجہ دلائی۔ آپ نےفرمایا:

’’یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللّٰہَ وَ لۡتَنۡظُرۡ نَفۡسٌ مَّا قَدَّمَتۡ لِغَدٍ ۚ وَ اتَّقُوا اللّٰہَ ؕ اِنَّ اللّٰہَ خَبِیۡرٌۢ بِمَا تَعۡمَلُوۡنَ۔ (الحشر:19) کسی بھی قوم یا معاشرے کی ترقی کا زیادہ تر دارومدار اس قوم کی عورتوں کے اعلیٰ معیار میں ہے اس لئے اسلام نے عورت کو ایک اعلیٰ مقام عطا فرمایا ہے۔ بیوی کی حیثیت سے بھی ایک مقام ہے اور ماں کی حیثیت سے بھی ایک مقام ہے۔

مرد کو عَاشِرُوْ ھُنَّ بِالْمَعْرُوْفِ (النساء:20) کہہ کر یہ ہدایت فرما دی کہ عورت کا ایک مقام ہے۔ بلاوجہ بہانے بنا بنا کر اسے تنگ کرنے کی کوشش نہ کرو۔ یہ عورت ہی ہے جس کی وجہ سے تمہاری نسل چل رہی ہے اور کیونکہ ہر انسان کو بعض حالات کا علم نہیں ہوتا اور مرد اس کم علمی کی وجہ سے عورتوں پر بعض دفعہ زیادتی کر جاتے ہیں اس لئے فرمایا کہ ہو سکتا ہے کہ اپنی اس کم علمی اور بات کی گہرائی تک نہ پہنچنے کی وجہ سے تم ان عورتوں سے ناپسندیدگی کا اظہار کرو، انہیں پسند نہ کرو لیکن یاد رکھو کہ خداتعالیٰ جس کو ہر چیز کا علم ہے، جو ہر چیز کا علم رکھنے والا ہے، اس نے اس میں تمہارے لئے بہتری کا سامان رکھ دیا ہے۔ اس لئے عورت کے بارے میں کسی بھی فیصلے میں جلد بازی سے کام نہیں لینا چاہئے‘‘۔ (21اگست2004ء برموقع جلسہ سالانہ جرمنی، خطاب ازمستورات)

عورت کے جذبات کااحساس

مردوں کو عورتوں کے جذبات کا خیال رکھنے کے بارہ میں نصیحت کرتے ہوئے حضور ایّدہ اللہ تعالیٰ نےاپنے اسی خطاب میں فرمایا:

’’ اسی طرح ماں کی حیثیت سے عورت کا یہ مقام بتایا کہ جنت اس کے قدموں کے نیچے ہے۔ یعنی عورت کی تربیت ہی ایسی ہے جو بچوں کو جنتوں کا وارث بنا سکتی ہے۔ پھر مردوں کو یہ بھی فرمایا کہ عورت کے جذبات کا بھی خیال رکھا کرو جیسے فرمایا :وَ اللّٰہُ جَعَلَ لَکُمۡ مِّنۡ اَنۡفُسِکُمۡ اَزۡوَاجًا(النحل: 73)

یعنی اللہ تعالیٰ نے تمہارے لئے تم میں سے ہی تمہارے جیسے جذبات رکھنے والی بیویاں بنائی ہیں۔ یعنی مردوں کو یہ تلقین فرما دی کہ بلاوجہ ذرا ذرا سی بات پر عورتوں سے بدکلامی یا تلخی کا سلوک نہ کرو۔ وہ بھی انسان ہیں، ان کے بھی تمہارے جیسے جذبات ہیں۔ ان سے ہی تمہاری نسل چل رہی ہے۔ اگر ان کو بلاوجہ کے صدمات پہنچاؤ گے تو ہو سکتا ہے کہ تمہاری نسل ہی تمہارے خلاف ہو جائے۔ اکثر ایسا ہوتا ہے کہ عورت پر مرد کے ظلم کی وجہ سے، سختی کی وجہ سے جبکہ عورت فرمانبرداری دکھانے والی بھی ہو اور اطاعت گزار بھی ہو، مرد کا کہنا ماننے والی بھی ہو، اس کے گھر کی حفاظت بھی کرنے والی ہو، اس کے ماں باپ سے اچھا سلوک کرنے والی بھی ہو اگر پھر بھی مرد اس پر زیادتی کرتا ہے تو یہ ظلم اور زیادتی ہو گی۔ پھر چونکہ یہ سب چیزیں ایسی ہیں جو عورت کے تقویٰ پر قائم رہنے کی دلیل ہیں تو مرد کے بے جا ظلم کی وجہ سے بعض دفعہ اولاد اپنے باپ کے خلاف ہو جاتی ہےتودیکھیں کس طرح اللہ تعالیٰ نے عورت کے حقوق و جذبات کا خیال رکھا ہے۔ فرمایا اس لئے اپنے اوپر کنٹرول رکھو اور اس طرح تم نہ صرف عورت کے جذبات کا خیال رکھ رہے ہو گے بلکہ اپنے اور اپنی اولاد کا بھی بھلا کر رہے ہو گے۔

جیسے کہ میں نے کہا، بعض دفعہ اولاد صرف اس لئے بگڑ جاتی ہے، باپ کی نافرمان ہو جاتی ہے کہ وہ اپنی بیویوں سے حسن سلوک نہیں کرتے‘‘۔ (جلسہ سالانہ جرمنی خطاب ازمستورات فرمودہ12؍ اگست 2004ء۔ مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل یکم مئی 2015ء)

اسی حوالہ سے ایک اور موقع پر حضور فرماتے ہیں :

’’ پس دیکھیں کس کس طرح مردوں کو نصیحت کر کے آپ نے عورت کے حقوق کی ادائیگی کی طرف توجہ دلائی ہے۔ جیسا کہ میں نے کہا اب عورت کا، ایک احمدی عورت کا فرض بنتا ہے کہ ان حقوق کے قائم ہونے کی شکر گزاری کے طور پراپنےفرائض پورے کرے ‘‘۔ (جلسہ سالانہ یوکے خطاب ازمستورات فرمودہ 26؍جولائی 2008ء۔ مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل 15؍اپریل2011ء)