عائلی مسائل اور اُن کا حل
عائلی زندگی میں مسائل کے اسباب
بیویوں پر الزام تراشی اور ناروا سلوک
مؤرخہ10نومبر2006ء کو مسجد بیت الفتوح، لندن میں خطبہ جمعہ ارشاد فرماتے ہوئے حضور انور ایّدہ اللہ تعالیٰ نے عائلی مسائل اور اُن کے حل پرتفصیل سے روشنی ڈالی۔ اس خطبہ جمعہ سےبعض اقتباسات پیش ہیں۔ فرمایا:
’’آجکل پھرعائلی جھگڑوں کی شکایات بہت زیادہ ہو گئی ہیں۔ میاں بیوی کے جو معاملات ہیں، آپس کے جھگڑے ہیں ان میں بعض دفعہ ایسے ایسے بیہودہ اور گھناؤنے معاملات سامنے آتے ہیں جن میں ایک دوسرے پر الزام تراشیاں بھی ہوتی ہیں یا مردوں کی طرف سے یا سسرال کی طرف سے ایسے ظالمانہ رویے ہوتے ہیں کہ اگر اللہ تعالیٰ کا خاص فضل نہ ہو اور اللہ تعالیٰ کا حکم ذَکِّرْ سامنے نہ ہو کہ نصیحت کرتے رہو، نصیحت یقینا فائدہ دیتی ہے تو انسان مایوس ہو کر بیٹھ جائے کہ ان بگڑے ہوؤں کو ان کے حال پر چھوڑ دو، یہ سب حدیں پھلانگ چکے ہیں ‘‘۔
ایسے لوگوں کے بارے میں حضور ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں :
’’ کیونکہ تقویٰ پر نہیں چل رہے ہوتے، اللہ تعالیٰ کا خوف دل میں نہیں ہوتا اس لئے بعض دفعہ دوسروں کی باتوں میں آ کر یاماحول کے اثر کی وجہ سے اپنی بیوی پر بڑے گھناؤنے الزام لگاتے ہیں یا دوسری شادی کے شوق میں، جو بعض اوقات بعضوں کے دل میں پیدا ہوتا ہے بڑے آرام سے پہلی بیوی پر الزام لگادیتے ہیں۔ اگر کسی کو شادی کا شوق ہے، اگر جائز ضرورت ہے اور شادی کرنی ہے تو کریں لیکن بیچاری پہلی بیوی کو بدنام نہیں کرنا چاہئے‘‘۔
پھرفرمایا:
’’پھر بعض دفعہ بہانہ جو مرد وں کی طرف سے ایک الزام یہ بھی لگایا جاتا ہے کہ یہ نافرمان ہے، بات نہیں مانتی، میرے ماں باپ کی نہ صرف عزت نہیں کرتی بلکہ ان کی بے عزتی بھی کرتی ہے، میرے بہن بھائیوں سے لڑائی کرتی ہے، بچوں کو ہمارے خلاف بھڑکاتی ہے، یا گھر سے باہر محلے میں اپنی سہیلیوں میں ہمارے گھر کی باتیں کرکے ہمیں بدنام کر دیا ہے۔ تو اس بارے میں بڑے واضح احکام ہیں۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے :
وَ الّٰتِیۡ تَخَافُوۡنَ نُشُوۡزَہُنَّ فَعِظُوۡہُنَّ وَ اہۡجُرُوۡہُنَّ فِی الۡمَضَاجِعِ وَ اضۡرِبُوۡہُنَّ ۚ فَاِنۡ اَطَعۡنَکُمۡ فَلَا تَبۡغُوۡا عَلَیۡہِنَّ سَبِیۡلًا ؕ اِنَّ اللّٰہَ کَانَ عَلِیًّا کَبِیۡرًا۔ (النساء:35)
اور وہ عورتیں جن سے تمہیں باغیانہ رویے کا خوف ہو ان کو پہلے تو نصیحت کرو، پھر ان کو بستروں میں الگ چھوڑ دو پھر اگر ضرورت ہو تو انہیں بدنی سزا دو۔ یعنی پہلی بات یہ ہے کہ سمجھاؤ، اگر نہ سمجھے اور انتہا ہو گئی ہے اور ارد گرد بدنامی بہت زیادہ ہو رہی ہے تو پھر سختی کی اجازت ہے لیکن اس بات کو بہانہ بنا کر ذرا ذرا سی بات پربیوی پر ظلم کرتے ہوئے اس طرح مارنے کی اجازت نہیں کہ اس حد تک مارو کہ زخمی بھی کردو، یہ انتہائی ظالمانہ حرکت ہے۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی اس حدیث کو ہمیشہ سامنے رکھنا چاہئے، آپﷺ نے فرمایا کہ اگر کبھی مارنے کی بھی ضرورت پیش بھی آ جائے تو مار اس حد تک ہو کہ جسم پر نشان نظر نہ آئے۔ یہ بہانہ کہ تم میرے سامنے اونچی آواز میں بولی تھی، میرے لئے روٹی اس طرح کیوں پکائی تھی، میرے ماں باپ کے سامنے فلاں بات کیوں کی، کیوں اس طرح بولی، عجیب چھوٹی چھوٹی باتیں ہوتی ہیں، ان باتوں پر تو مارنے کی اجازت نہیں ہے۔ پس اللہ کے حکموں کو اپنی خواہشوں کے مطابق ڈھالنے کی کوشش نہ کریں اور خدا کا خوف کریں۔
پھر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ تمہاری بیوی نے ایک انتہائی قدم جو اٹھایا اور اس پر تمہیں اس کو سزا دینے کی ضرورت پڑی تو یاد رکھو کہ اب اپنے دل میں کینے نہ پالو۔ جب وہ تمہاری پوری فرمانبردار ہو جائے، اطاعت کر لے توپھر اس پر زیادتی نہ کرو۔فَاِنۡ اَطَعۡنَکُمۡ فَلَا تَبۡغُوۡا عَلَیۡہِنَّ سَبِیۡلًا ؕ اِنَّ اللّٰہَ کَانَ عَلِیًّا کَبِیۡرًا (النساء:35)
پس اگر وہ تمہاری اطاعت کریں تو پھر تمہیں ان پر زیادتی کا کوئی حق نہیں ہے۔ یقینا اللہ بہت بلند اور بہت بڑا ہے۔ یاد رکھو اگر تم اپنے آپ کو عورت سے زیادہ مضبوط اور طاقتور سمجھ رہے ہو تو اللہ تعالیٰ تمہارے سے بہت بڑا، مضبوط اور طاقتور ہے۔ عورت کی تو پھر تمہارے سامنے کچھ حیثیت ہے بلکہ برابری کی ہی حیثیت ہے لیکن تمہاری تو خداتعالیٰ کے سامنے کوئی حیثیت نہیں ہے، اس لئے اللہ کا خوف کرو اور اپنے آپ کو ان حرکتوں سے باز کرو۔
بعض مرد اس قدر ظالم ہوتے ہیں کہ بڑے گندے الزام لگا کر عورتوں کی بدنامی کر رہے ہوتے ہیں، بعض دفعہ عورتیں یہ حرکتیں کر رہی ہوتی ہیں۔ لیکن مردوں کے پاس کیونکہ وسائل زیادہ ہیں، طاقت زیادہ ہے، باہر پھرنا زیادہ ہے اس لئے وہ اس سے زیادہ فائدہ اٹھاتے ہیں۔ لیکن یاد رکھیں کہ اپنے زعم میں جو بھی فائدہ اٹھا رہے ہوتے ہیں اپنے لئے آگ کا انتظام کر رہے ہوتے ہیں۔ پس خوف خدا کریں اور ان باتوں کو چھوڑیں۔ بعض تو ظلموں میں اس حد تک چلے گئے ہیں کہ بچوں کو لے کر دوسرے ملکوں میں چلے گئے اور پھر بھی احمدی کہلاتے ہیں۔ ماں بیچاری چیخ رہی ہے چلاّ رہی ہے۔ ماں پرغلط الزام لگا کر اس کو بچوں سے محروم کردیتے ہیں۔ حالانکہ ہم دیکھ چکے ہیں کہ قرآن کہتا ہے کہ فائدہ اٹھانے کے لئے غلط الزام نہ لگاؤاور پھر اس مرد کے، ایسے باپ کے سب رشتہ دار اس کی مدد کررہے ہوتے ہیں ایسے مرد اور ساتھ دینے والے ایسے جتنے رشتہ دار ہیں ان کے متعلق تو جماعتی نظام کو چاہئے کہ فوری طورپر ایکشن لیتے ہوئے ان کے خلاف تعزیری کارروائی کی سفارش کرے۔ یہ دیکھیں کہ قرآنی تعلیم کیا ہے اور ایسے لوگوں کے کرتوت کیا ہیں؟ افسوس اس بات پر بھی ہوتا ہے کہ بعض دفعہ بعض عہدیدار بھی ایسے مردوں کی مدد کر رہے ہوتے ہیں اور کہیں سے بھی تقویٰ سے کام نہیں لیا جا رہا ہوتا۔ تو یہ الزام تراشیاں اور بچوں کے بیان اور بچوں کے سامنے ماں کے متعلق باتیں، جو انتہائی نامناسب ہوتی ہیں، بچوں کے اخلاق بھی تباہ کر رہی ہوتی ہیں۔ ایسے مرد اپنی اَناؤں کی خاطر بچوں کو آگ میں دھکیل رہے ہوتے ہیں اور بعض مردوں کی دینی غیرت بھی اس طرح مر جاتی ہے کہ ان غلط حرکتوں کی وجہ سے اگر ان کے خلاف کارروائی ہوتی ہے اور اخراج از نظام جماعت ہو گیا تو تب بھی ان کو کوئی پرواہ نہیں ہوتی، اپنی اَنا کی خاطر دین چھوڑ بیٹھتے ہیں۔ بہرحال جیسا کہ میں نے کہا تھا کہ اصل کام ظلم کو ختم کرنا ہے اور انصاف قائم کرنا ہے اور خلافت کے فرائض میں سے انصاف کرنا اور انصاف کو قائم کرنا ایک بہت بڑا فرض ہے۔ اس لئے جماعتی عہدیدار بھی اس ذمہ داری کو سمجھیں کہ وہ جس نظام جماعت کے لئے کام کر رہے ہیں وہ خلیفۂ وقت کی نمائندگی میں کام کر رہا ہے۔ اس لئے انصاف کے تمام تقاضوں کو پورا کرنا ان کا اولین فرض ہے۔ یہ بہت بڑی ذمہ داری ہے۔ خداتعالیٰ کو حاضر ناظر جان کر ہر ایک کو یہ ذمہ داری نبھانی چاہئے۔ فیصلے کرتے وقت، خلیفۂ وقت کو سفارش کرتے وقت ہر قسم کے تعلق سے بالا ہو کرسفارش کیا کریں۔ اگر کسی کی حرکت پر فوری غصہ آئے تو پھر دو دن ٹھہر کر سفارش کرنی چاہئے تاکہ کسی بھی قسم کی جانبدارانہ رائے نہ ہواور فریقین بھی یاد رکھیں کہ بعض اوقات اپنے حق لینے کے لئے غلط بیانی سے کام لیتے ہیں یا یہ کہنا چاہئے کہ ناجائز حق مانگتے ہیں ‘‘۔
جیسا کہ میں نے کہا تھا کہ بعض ماں باپ بچوں کو دوسرے ملک میں لے گئے یا انہیں چھپا لیا یا کورٹ سے غلط بیان دے کر یا دلوا کر بچے چھین لئے۔ تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ والدہ کو اس کے بچے کی وجہ سے دکھ نہ دیا جائے، اور نہ والد کو اس کے بچے کی وجہ سے دکھ دیا جائے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اگر تم تقویٰ سے کام نہیں لو گے اور ایک دوسرے کے حق ادا نہیں کرو گے تو یاد رکھو اللہ تعالیٰ ہر ایک چیز جانتا ہے۔ وہ جانتا بھی ہے اور دیکھ بھی رہا ہےاور اللہ پھر ظالموں کو یوں نہیں چھوڑاکرتا۔ پس اللہ سے ڈرو، ہر وقت یہ پیش نظر رہے کہ جس طرح آپ پر آپ کی ماں کا حق ہے اسی طرح آپ کے بچوں پر ان کی ماں کا بھی حق ہے۔ جیسا کہ میں نے کہا اور جائزہ میں بھی سامنے آیاعموماً باپوں کی طرف سے یہ ظلم زیادہ ہوتے ہیں۔ اس لئے میں مردوں کو توجہ دلا رہا ہوں کہ اپنی بیویوں کا خیال رکھیں۔ ان کے حقوق دیں۔ اگر آپ نیکی اور تقویٰ پر قدم مارنے والے ہیں تو الاّماشاء اللہ عموماً پھر بیویاں آپ کے تابع فرمان رہیں گی۔ آپ کے گھر ٹوٹنے والے گھروں کی بجائے، بننے والے گھر ہوں گے جو ماحول کو بھی اپنے خوبصورت نظارے دکھا رہے ہوں گے۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام اپنے ایک صحابی کو نصیحت کا ایک خط لکھتے ہوئے فرماتے ہیں کہ: باعث تکلیف دہی ہے کہ میں نے بعض آپ کے سچے دوستوں کی زبانی جودرحقیقت آپ سے تعلق اخلاص اور محبت اور حسن ظن رکھتے ہیں سنا ہےکہ امورمعاشرت میں جو بیویوں اور اہل خانہ سے کرنی چاہئے کسی قدر آپ شدّت رکھتے ہیں۔ یعنی غیظ و غضب کے استعمال میں بعض اوقات اعتدال کا اندازہ ملحوظ نہیں رہتا۔ میں نے اس شکایت کو تعجب کی نظر سے نہیں دیکھا کیونکہ اول تو بیان کرنے والے آپ کی تمام صفات حمیدہ کے قائل اور دلی محبت آپ سے رکھتے ہیں اور دوسری چونکہ مردوں کو عورتوں پر ایک گونہ حکومت قسّام ازلی نے دے رکھی ہے اور ذرہ ذرہ سی باتوں میں تادیب کی نیت سے یا غیرت کے تقاضا سے وہ اپنی حکومت کو استعمال کرنا چاہتے ہیں۔ مگر چونکہ خداتعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے عورت کے ساتھ معاشرت کے بارے میں نہایت حلم اور برداشت کی تاکید کی ہے۔ اس لئے میں نے ضروری سمجھا کہ آپ جیسے رشید اور سعید کو اس تاکید سے کسی قدر اطلاع کروں۔ اللہ جل شانہ فرماتا ہے:
عَاشِرُوْ ھُنَّ بِالْمَعْرُوْفِ (النساء:20) یعنی اپنی بیویوں سے تم ایسے معاشرت کرو جس میں کوئی امر خلاف اخلاق معروفہ کے نہ ہو اور کوئی وحشیانہ حالت نہ ہو۔ بلکہ ان کو اس مسافر خانہ میں اپنا ایک دلی رفیق سمجھو اور احسان کے ساتھ معاشرت کرو اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں : خَیْرُکُمْ خَیْرُکُمْ لِاَھْلِہ ٖ یعنی تم میں سے بہتر وہ انسان ہے جو بیوی سے نیکی سے پیش آوے۔ اور حسن معاشرت کے لئے اس قدر تاکید ہے کہ میں اس خط میں لکھ نہیں سکتا۔ عزیز من، انسان کی بیوی ایک مسکین اور ضعیف ہے جس کو خدا نے اس کے حوالے کر دیا اور وہ دیکھتا ہے کہ ہریک انسان اس سے کیا معاملہ کرتا ہے۔ نرمی برتنی چاہئے اور ہر یک وقت دل میں یہ خیال کرنا چاہئے کہ میری بیوی ایک مہمان عزیز ہے جس کو خداتعالیٰ نے میرے سپرد کیاہے اور وہ دیکھ رہا ہے کہ میں کیونکر شرائط مہمانداری بجا لاتا ہوں اور میں ایک خدا کا بندہ ہوں اور یہ بھی ایک خدا کی بندی ہے مجھے اس پر کون سی زیادتی ہے۔ خونخوار انسان نہیں بننا چاہئے۔ بیویوں پر رحم کرنا چاہئےاور ان کو دین سکھلانا چاہئےاور درحقیقت میرا یہی عقیدہ ہے کہ انسان کے اخلاق کے امتحان کا پہلا موقعہ اس کی بیوی ہے۔ میں جب کبھی اتفاقاً ایک ذرا درشتی اپنی بیوی سے کروں تو میرا بدن کانپ جاتا ہے کہ ایک شخص کو خدا نے صد ہا کوس سے میرے حوالہ کیا ہے شاید معصیت ہو گی کہ مجھ سے ایسا ہوا۔ تب میں ان
کو کہتا ہوں کہ تم اپنی نماز میں میرے لئے دعا کروکہ اگر یہ امر خلاف مرضی حق تعالیٰ ہے تو مجھے معاف فرما ویں اور میں بہت ڈرتا ہوں کہ ہم کسی ظالمانہ حرکت میں مبتلا نہ ہو جائیں۔ سو میں امید رکھتاہوں کہ آپ بھی ایسا ہی کریں گے۔ ہمارے سید و مولیٰ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کس قدر اپنی بیویوں سے حلم کرتے تھے۔ زیادہ کیا لکھوں۔ والسلام‘‘۔ (الحکم جلد 9نمبر13مورخہ17اپریل1905ء صفحہ6)
اللہ تعالیٰ ہمیں اپنی رضا پر چلاتے ہوئے ان خوبصورت اعمال کی ادائیگی کی توفیق عطا فرمائے جو اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ہمیں بتائے‘‘۔ (خطبہ جمعہ فرمودہ 10نومبر2006ء بمقام مسجد بیت الفتوح، لندن مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل یکم دسمبر 2006ء)
حضورِ انور ایّدہ اللہ تعالیٰ نے ایسے معاملات کے بارہ میں سخت تنبیہ کرتے ہوئے فرمایا:
’’کچھ مرد غلط اور غلیظ الزام لگا کر بیویوں کو چھوڑ دیتے ہیں جو کسی طرح بھی جائز نہیں۔ ایسے لوگو ں کا تو قضا کو کیس سننا ہی نہیں چاہئے جو اپنی بیویوں پر الزام لگاتے ہیں۔ ان کو سیدھا انتظامی ایکشن لے کر امیر صاحب کو اخراج کی سفارش کرنی چاہئے۔ غرض کہ ایک گند ہے جو کینیڈا سمیت مغربی ملکوں میں پیدا ہو رہاہے‘‘۔ (خطبہ جمعہ24؍جون2005ء بمقام انٹرنیشنل سنٹر۔ ٹورانٹو۔ کینیڈا۔ مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل 08؍جولائی 2005ء)
مردوں میں حرص اور بے غیرتی
بعض خاوندوں کی اخلاقی کمزوریوں کے حوالے سےحضور ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے احباب جماعت کو نصیحت کرتے ہوئے فرمایا:
’’ایسے مرد بھی ہیں جن کومیں کہوں گا کہ جن میں غیرت کی کمی ہے جو اپنی بیوی سے مطالبے کر رہے ہوتے ہیں کہ تم جہیزمیں جو زیور لائی ہو مجھے دو تا کہ میں کاروبار کروں۔ یا جو رقم اگر نقد ہے تو وہ مجھے دو تا کہ میں اپنے کاروبار میں لگاؤں۔ اگر تو میاں بیوی کے تعلقات محبت اور پیار کے ہیں تو آپس میں افہام و تفہیم سے عورتیں دے بھی دیتی ہیں۔ لیکن اگر عورت کو پتہ ہوکہ میرا خاوند نکھٹو ہے، اس میں اتنی استعداد ہی نہیں ہے کہ وہ کاروبار کرسکے اور یہ احساس ہو کہ کچھ عرصہ بعد میرا جو اپنا سرمایہ ہے، رقم ہے وہ بھی جاتی رہے گی اور گھر میں پھرفاقہ زدگی پیدا ہو جائے گی اور وہی حالات ہوجائیں گے تووہ نہیں دیتیں اور اس سے لڑائی جھگڑے بڑھتے ہیں۔ پھر یہ بھی ہوتاہے کہ بعض دفعہ تھوڑی بے غیرتی کی حد آگے بھی چلی جاتی ہے جب ایک دفعہ بے غیرت انسان ہوجائے تو یہ مطالبہ ہوجاتاہے کہ بیوی کوکہا جاتاہے کہ تمہارا باپ کافی پیسے والاہے، امیر ہے اس لئے مجھے اتنی رقم اس سے لے کر دو تاکہ میں کاروبار کروں اور اس میں لڑکے کے گھر والے بھائی بہن وغیرہ بھی شامل ہوتے ہیں جو اس کو اکساتے رہتے ہیں کہ تم اس رقم کا مطالبہ کرو۔ تو گویا اب لڑکی کے پورے سسرال کوپالنا اس کی ذمہ داری ہو جاتی ہے۔ تو ایسے لوگ جو اس قسم کی حرکتیں کرتے ہیں وہ ہمیشہ وہی ہوتے ہیں جو اللہ تعالیٰ کی طرف نہ جھکنے والے اور اس پر توکل نہ کرنے والے اور اس کے احکامات اور تعلیم پر عمل نہ کرنے والے ہوتے ہیں۔ جو اللہ تعالیٰ کی عبادات، جو حق ہے عبادت کرنے کا اس طرح نہ کرنے والے ہوں ان میں کبھی توکل پیدا ہو ہی نہیں سکتااور پھر جیسا کہ میں نے پہلے کہا کہ جب عائلی معاملات میں ایسے حالات پیدا ہو جائیں توان حالات میں بھی عورتوں پرہی ظلم یہ ہوتاہے کہ اگر مردوں کی Demand پوری نہ کی جائیں تو ان کو گھر سے نکال دیا جاتاہے اور بڑی تکلیف دہ صورتحال ہوتی ہے اور یہ ایسی صورت حال ہے جو سامنے آتی ہیں جن کا میں ذکر کر رہاہوں۔ تو اللہ تعالیٰ رحم فرمائے اور ایسے گھروں کو عقل اور سمجھ سے کام لینے کی توفیق عطا فرمائے اور ہر گھر، ہر احمدی گھرانہ پیار اور محبت اور الفت کا نمونہ دکھانے والاہو‘‘۔ (خطبہ جمعہ15؍ اگست2003ء بمقام مسجد فضل، لندن برطانیہ۔ مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل 10؍اکتوبر2003ء)
حضور ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز ایک دوسری جگہ فرماتے ہیں :
’’ مجھے افسوس سے کہنا پڑتا ہے اور ایسے معاملات سن کر بڑی تکلیف ہوتی ہے، طبیعت بعض دفعہ بے چین ہو جاتی ہے کہ ہم میں سے بعض کس طرف چل پڑے ہیں۔ بیوی کی ساری قربانیاں بھول جاتے ہیں حتیٰ کہ بعض تواس حد تک کمینگی پر آتے ہیں کہ بیوی سے رقم لے کر اس پر دباؤڈال کر اس کے ماں باپ سے رقم وصول کرکے کاروبار کرتے ہیں یا زبردستی بیوی کے پیسوں سے خریدے ہوئے مکان میں اپنا حصہ ڈال لیتے ہیں اور پھر اس کو مستقل دھمکیاں ہوتی ہیں اور بعض دفعہ تو حیرت ہوتی ہے کہ اچھے بھلے شریف خاندانوں کے لڑکے بھی ایسی حرکتیں کر رہے ہوتے ہیں۔ ایسے لوگ کچھ خوف خدا کریں اور اپنی اصلاح کریں۔ ورنہ یہ واضح ہو کہ نظام جماعت، اگرنظام کے پاس معاملہ آ جائے تو، کبھی ایسے بیہودہ لوگوں کا ساتھ نہیں دیتا، نہ دے گا‘‘۔
مزید فرمایا: ’’وہ مرد جو عورتوں کے مال پر نظر رکھے رہتے ہیں، انہیں یاد رکھنا چاہئے کہ یہ ذمہ داری ان کی ہے اور عورت کی رقم پر ان کا کوئی حق نہیں۔ اپنے بیوی بچوں کے خرچ پورے کرنے کے وہ مرد خو د ذمہ دار ہیں۔ اس لئے جو بھی حالات ہوں چاہے مزدوری کرکے اپنے گھر کے خرچ پورے کرنے پڑیں ان کا فرض ہے کہ وہ گھر کے خرچ پورے کریں اور اس محنت کے ساتھ اگر دعا بھی کریں تو پھر اللہ تعالیٰ برکت بھی ڈالتا ہے اور کشائش بھی پیدا فرماتا ہے‘‘۔ (خطبہ جمعہ فرمودہ 2؍جولائی 2004ء بمقام انٹرنیشنل سنٹر، مسی ساگا، کینیڈا۔ مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل 16 جولائی 2004ء)
’’ اب میں بعض عمومی باتیں بتا تا ہوں۔ اگر علیحدگی ہوتی ہے تو بعض لوگ یہاں قانون کا سہارا لیتے ہوئے بیوی کے پیسے سے لئے ہوئے مکان کا نصف اپنے نام کرا لیتے ہیں۔ قانون کی نظر میں تو شاید وہ حقدار ہو جاتے ہیں لیکن اللہ تعالیٰ کے نزدیک ایک کھلے کھلے گناہ کا ارتکاب کر رہے ہوتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ تو فرماتا ہے کہ اگر تم نے بیوی کو ڈھیروں مال بھی دیا ہے تو واپس نہ لو، کجا یہ کہ بیوی کے مال پر بھی ڈاکے ڈالنے لگ جاؤ، اس کی چیزیں بھی قبضے میں کر لو‘‘۔ (خطبہ جمعہ فرمودہ 10نومبر2006ء بمقام مسجد بیت الفتوح، لندن مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل یکم دسمبر 2006ء)
رشتہ کرتے وقت تقویٰ کو مدّنظر رکھنے کی اہمیت کا بیان کرتے ہوئے حضور انور ایّدہ اللہ تعالیٰ نے اپنے ایک خطبہ جمعہ میں ارشاد فرمایا:
’’گزشتہ دنوں کسی نے مجھے لکھا کہ میرا رشتہ نہیں ہوتا، نظارت رشتہ ناطہ پاکستان تعاون نہیں کرتا۔ جب میں نے رپورٹ لی تو پتہ لگا کہ رشتے تو کئی تجویز کئے ہیں لیکن پسند نہیں آئے او ر وجہ یہ تھی کہ لڑکے نے کہا کہ رشتہ میری شرط کے مطابق ہونا چاہئے۔ خود یہ صاحب میٹرک پاس ہیں، تعلیم معمولی ہے اور شرط یہ تھی کہ لڑکی پڑھی لکھی ہو، ایم اے ہو اور کام کرتی ہو، کماکے لانے والی ہو، شادی پر مجھے مکان بھی ملے، دس بیس لاکھ روپیہ نقد بھی ملے، میرا خرچ بھی اٹھائے اور پھر یہ کہ صرف خرچ ہی نہ اٹھائے بلکہ مجھے کام کرنے کے لئے نہ سسرال والے اور نہ ہی لڑکی کچھ کہے، جب مرضی ہو کام کروں یا نہ کروں۔ تو ایسے شخص کو ذہنی مریض کے علاوہ اور کیا کہا جا سکتا ہے۔ ایسے رشتوں اور ایسے لڑکوں پر تورشتہ ناطہ کو توجہ ہی نہیں دینی چاہئے تھی(پتہ نہیں کیوں وہ تجویز کرتے رہے)، کیونکہ اگر ایسے لوگوں سے ہی واسطہ رہا تو رشتے ناطہ کا عملہ بھی کہیں ذہنی مریض نہ بن جائے‘‘۔ (خطبہ جمعہ فرمودہ یکم دسمبر2006ء بمقا م مسجد بیت الفتوح، لندن برطانیہ)
ناجائز مطالبے
مذکورہ بالا خطبہ میں ہی حضور انور ایّدہ اللہ تعالیٰ نے فریقین کے ناجائز مطالبات کے حوالہ سے فرمایا:
’’افسوس ہے کہ خیر کامطالبہ تو ہوتاہے لیکن ایسا کوئی بھی نہیں کرتا۔ لیکن عملی صورت بعض جگہ اس طرح نظر آجاتی ہے کہ شادی کے وقت تو کچھ نہیں کہتے اور کوئی شرط نہیں لگاتے لیکن شادی کے بعد عملی رویّہ یہی ہو جاتا ہے، بعضوں کی شکایات آتی ہیں۔ لڑکی والوں سے غلط قسم کے مطالبے کر رہے ہوتے ہیں۔ اگر مرضی کا جواب نہ ملے اور مطالبات پورے نہ ہوں تو پھر لڑائی جھگڑے اور فساد اور لڑکیوں کو طعنے وغیرہ ملتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ایسے لوگوں کو بھی عقل دے اور رحم کرے۔ پس ایک بے وقوف اور ظالم کے علاوہ جس نے اپنی جان پر ظلم کیا ہوتا ہے، (کیونکہ انسانوں کی طرح اللہ تعالیٰ پر ظلم تو کوئی نہیں کر سکتا) ایسا شخص کوئی ایسی بات کرتا ہے تو اپنی جان پر ظلم کر رہا ہوتا ہے۔ ایسے شخص کے علاوہ جس کو اپنے ربّ کی صفت ربوبیت کا کوئی فہم و ادراک نہیں ہے جس کو پتہ ہی نہیں ہے کہ ہمارے ربّ نے ہم پر کیا کیا احسان کئے ہوئے ہیں اور ہم پر احسان کرتے ہوئے جو احکامات دئیے ہیں ان پر عمل کرکے ہم ان دعاؤں سے فیض پا سکتے ہیں جو ہمارے ربّ نے ہمیں سکھائی ہیں، اس کے بغیرنہیں۔ توایک دعا جو سورۃالشعراء کی تین آیات ہیں اس میں یہ سکھائی ہے کہ:
رَبِّ ہَبۡ لِیۡ حُکۡمًا وَّ اَلۡحِقۡنِیۡ بِالصّٰلِحِیۡنَ۔وَ اجۡعَلۡ لِّیۡ لِسَانَ صِدۡقٍ فِی الۡاٰخِرِیۡنَ۔وَ اجۡعَلۡنِیۡ مِنۡ وَّرَثَۃِ جَنَّۃِ النَّعِیۡمِ (الشعراء:86-84)
کہ اے میرے ربّ مجھے حکمت عطا کر اور مجھے نیک لوگوں میں شامل کر اور میرے لئے بعد میں آنے والے لوگوں میں سچ کہنے والی زبان مقدر کردے اور مجھے نعمتوں والی جنت کے وارثوں میں سے بنا۔ پس ایسے لوگ جو اپنے ربّ کی پہچان نہیں رکھتے اور عقل سے عاری ہیں ان کی باتیں سن کر یہی دعا ہے جوہمارے لئے حضرت ابراہیم علیہ الصلوٰۃ والسلام نے کی تھی۔ پس ہمیں ہمیشہ اپنے ربّ سے عقل کی اور حکمت کی اور صحیح باتوں کو اختیار کرنے کی اور ان پر قائم رہنے کی دعا مانگنی چاہئے اور پھر اس کے ساتھ اعمال صالحہ بجا لانے کی طرف توجہ رہنی چاہئے جس کی اللہ تعالیٰ نے بار ہا ہمیں تلقین فرمائی ہے‘‘۔ (خطبہ جمعہ فرمودہ یکم دسمبر2006ء بمقا م مسجد بیت الفتوح، لندن برطانیہ)
جلسہ سالانہ برطانیہ 2004ء کے موقع پرحضور انور نےخواتین سے خطاب فرماتے ہوئے سورۃالنساء کی آیت20کی تلاوت فرمائی اور ترجمہ بیان کرنے کے بعد اس کی تشریح کرتے ہوئے فرمایا:
’’ اللہ تعالیٰ تمہیں یہ حکم دیتا ہے کہ عورتوں سے حسن سلوک کرو۔ جن کو تم دوسرے گھروں سے بیاہ کر لائے ہو ان کے عزیز رشتے داروں سے ماں باپ بہنوں بھائیوں سے جدا کیا ہے ان کو بلاوجہ تنگ نہ کرو، ان کے حقوق ادا کرو اور ان کے حقوق ادا نہ کرنے کے بہانے تلاش نہ کرو۔ الزام تراشیاں نہ کرو۔ اس کوشش میں نہ لگے رہو کہ کس طرح عورت کی دولت سے، اگر اس کے پاس دولت ہے، فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔ اب اس فائدہ اٹھانے کے بھی کئی طریقے ہیں۔ ایک تو ظاہری دولت ہے جونظر آرہی ہے۔ بعض مرد عورتوں کو اتنا تنگ کرتے ہیں کئی دفعہ ایسے واقعات ہو جاتے ہیں کہ ان کو کوئی ایسی بیماری لگ جاتی ہے کہ جس سے انہیں کوئی ہوش ہی نہیں رہتا اور پھران عورتوں کی دولت سے مرد فائدہ اٹھاتے رہتے ہیں۔ پھر بعض دفعہ میاں بیوی کی نہیں بنتی تو اس کوشش میں رہتے ہیں کہ عورت خلع لے لے تاکہ مرد کو طلاق نہ دینی پڑے اور حق مہر نہ دینا پڑے۔ تو یہ بھی مالی فائدہ اٹھانے کی ایک قسم ہے۔ پھر بیچاری عورتوں کو ایک لمبا عرصہ تنگ کرتے رہتے ہیں۔ حالانکہ حق مہر عورت کا حق ہے۔ تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ یہ حرکت کسی طور پر جائز نہیں۔ پھر بعض دفعہ زبردستی یا دھوکے سے عورت کی جائیداد لے لیتے ہیں مثلاً عورت کی رقم سے مکان خریدا اور کسی طرح بیوی کو قائل کر لیا کہ میرے نام کر دو یا کچھ حصہ میرے نام کر دو۔ آدھے حصے کے مالک بن گئے اور اس کے بعد جب ملکیت مل جاتی ہے تو پھر ظلم کرنے لگ جاتےہیں اور پھر یہ ہوتا ہے کہ بعض دفعہ علیحدہ ہو کے مکان کا حصہ لے لیتے ہیں یا بعض لوگ جو ہیں گھر بیٹھے رہتے ہیں اور عورت کی کمائی پر گزارا کر رہے ہوتے ہیں۔ فرمایا کہ یہ تمام جو اس قسم کے مرد ہیں ناجائز کام کرنے والے لوگ ہیں اور بعض دفعہ یہ بھی ہوتا ہے کہ خاوند فوت ہو جائے تو اس کے رشتے دار یا سسرال والے جا ئیداد پر قبضہ کر لیتے ہیں اور بیچاری عورت کو کچھ بھی نہیں ملتا اور اس کو دھکے دے کر ماں باپ کے گھروں میں بھیج دیا جاتا ہے۔ تو یہ سب ظالمانہ فعل ہیں، ناجائز ہیں۔ تو یہ اسلام ہے جو ہمیں بتا رہا ہے کہ عورت سے اس قسم کا سلوک نہ کرو۔ اب یہ بتائیں کہ اور کس مذہب سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ اس نے اس گہرائی میں جا کرعورت کے حقوق کا اتناخیال رکھا ہو۔ یہ اسلام ہی ہے جس نے عورت کو یہ حقوق دلوائے ہیں ‘‘۔ (جلسہ سالانہ یوکے خطاب از مستورات فرمودہ 31؍جولائی 2004ء۔ مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل 24؍اپریل 2015ء)
اسی حوالہ سے حضور ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں :
’’ہر شادی شدہ مرد اپنے اہل و عیال کا نگران ہے، اس کا فرض ہے کہ ان کی ضروریات کا خیال رکھے، مرد قوام بنایا گیا ہے، گھر کے اخراجات پورے کرنا، بچوں کی تعلیم کا خیال رکھنا، ان کی تمام تعلیمی ضروریات اور اخراجات پورے کرنا، یہ سب مرد کی ذمہ داری ہے۔ لیکن افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ جماعت میں بھی بعض مرد ایسے ہیں جو گھر کے اخراجات مہیا کرنے تو ایک طرف، الٹا بیویوں سے اپنے لئے مانگتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہمارے خرچ پورے کرو، حالانکہ بیوی کی کمائی پر ان کا کوئی حق نہیں ہے۔ اگر بیوی بعض اخراجات پورے کر دیتی ہے تو یہ اس کا مردوں پر احسان ہے‘‘۔ (خطبہ جمعہ فرمودہ 5؍ مارچ 2004ء بمقام بیت الفتوح، لندن۔ مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل 19؍مارچ 2004ء)
عورت کے مال اور جائیداد پر نظر
حضور ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے بعض مردوں کےلالچ میں مبتلا ہونےکے بارہ میں اپنے ایک خطبہ جمعہ میں فکر کا اظہار کرتے ہوئے فرمایا:
’’مجھے بڑے افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ کینیڈا میں بڑی تیزی کے ساتھ شادیوں کے بعد میاں بیوی کے معاملات میں تلخیاں پیدا ہو رہی ہیں۔ یا پھر اس لئے بھی رشتے ٹوٹتے ہیں کہ بعض پاکستان سے آنے والے لڑکے، باہر آنے کے لئے رشتے طے کر لیتے ہیں اور یہاں پہنچ کر پھر رشتے توڑ دیتے ہیں۔ کچھ بھی ایسے لوگوں کو خوف نہیں ہے۔ ان لڑکوں کو کچھ تو خد اکا خوف کرنا چاہئے۔ ان لوگوں نے، جن کے ساتھ آپ کے رشتے طے ہوئے، آپ پر احسان کیا ہے کہ باہر آنے کاموقع دیا۔ تعلیمی قابلیت تمہاری کچھ نہیں تھی۔ ایجنٹ کے ذریعے سے آتے تو20-15لاکھ روپیہ خرچ ہوتا۔ مفت میں یہاں آ گئے۔ کیونکہ اکثر یہاں آنے والے لڑکے ٹکٹ کا خرچہ بھی لڑکی والوں سے لے لیتے ہیں۔ تو یہاں آ کر پھر یہ چالاکیاں دکھاتے ہیں۔ یہاں آ کر رشتے توڑ کر کوئی اپنی مرضی کا رشتہ تلاش کر لیتا ہے یا پہلے سے طے شدہ پروگرام کے مطابق بعض رشتے ہو جاتے ہیں اور بعض دوسری بیہودگی میں پڑ جاتے ہیں اور پھر ایسے لڑکوں کے ماں باپ بھی ان کے ساتھ شامل ہوتے ہیں، چاہے وہ یہاں رہنے والے ہیں یا پاکستان میں رہنے والے ماں باپ ہیں ‘‘۔
مزید فرمایا:
’’پھربعض لڑکے، لڑکیوں کی جائیدادوں کے چکر میں ہوتے ہیں۔ بچے بھی ہو جاتے ہیں لیکن پھر بھی بجائے اس کے کہ بچوں کی خاطر قربانی دیں قانون سے فائدہ اٹھا کر علیحدگی لے کر جائیداد ہڑپ کرتے ہیں اور اگر بیوی نے بیوقوفی میں مشترکہ جائیداد کر دی تو جائیداد سے فائدہ اٹھایااور پھربچوں اور بیوی کو چھوڑ کر چلے گئے‘‘۔ (خطبہ جمعہ24؍جون2005ء بمقام انٹرنیشنل سنٹر۔ ٹورانٹو۔ کینیڈا۔ مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل 08؍جولائی2005ء)
اسی حوالہ سے ایک اور جگہ فرماتے ہیں :
’’لڑکوں کی ایک خاص تعداد ہے جو پاکستان، ہندوستان وغیرہ سے شادی ہو کر ان ملکوں میں آتے ہیں اور یہاں آ کر جب کاغذات پکے ہوجاتے ہیں تو لڑکی سے نباہ نہ کرنے کے بہانے تلاش کرنے شروع کر دیتے ہیں، اس پر ظلم اور زیادتیاں شروع کر دیتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ:
وَ عَاشِرُوۡہُنَّ بِالۡمَعۡرُوۡفِ ۚ فَاِنۡ کَرِہۡتُمُوۡہُنَّ فَعَسٰۤی اَنۡ تَکۡرَہُوۡا شَیۡئًا وَّ یَجۡعَلَ اللّٰہُ فِیۡہِ خَیۡرًا کَثِیۡرًا (النساء:20)
کہ ان سے نیک سلوک کے ساتھ زندگی بسر کرو اگر تم انہیں ناپسند کرو تو عین ممکن ہے کہ تم ایک چیز کو ناپسند کرو اور اللہ اس میں بہت بھلائی رکھ دے۔ پس جب شادی ہو گئی تو اب شرافت کا تقاضا یہی ہے کہ ایک دوسرے کو برداشت کر یں، نیک سلوک کریں، ایک دوسرے کو سمجھیں، اللہ کا تقویٰ اختیار کریں۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اگر اللہ کی بات مانتے ہوئے ایک دوسرے
سے حسن سلوک کرو گے تو بظاہر ناپسندیدگی، پسند میں بدل سکتی ہے اور تم اس رشتے سے زیادہ بھلائی اور خیر پا سکتے ہو کیونکہ تمہیں غیب کا علم نہیں اللہ تعالیٰ غیب کا علم رکھتا ہے اور سب قدرتوں کا مالک ہے۔ وہ تمہارے لئے اس میں بھلائی اور خیر پیدا کر دے گا۔
حضرت خلیفۃ المسیح الاول رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک دفعہ مجھے ایک لڑکے کے بارے میں پتہ چلا کہ اس کا اپنی بیوی سے نیک سلوک نہیں ہے، بلکہ بڑی بداخلاقی سے پیش آتا ہے۔ کہتے ہیں کہ ایک دن وہ مجھے راستے میں مل گیا، میں نے اس کو اس آیت کی روشنی میں سمجھایا۔ وہ وہاں سے سیدھا اپنے گھر گیا اور اپنی بیوی کو کہا کہ تم جانتی ہو کہ میں نے تمہارے سے بڑا دشمنوں والا سلوک کیا ہے لیکن آج حضرت مولانانورالدین صاحبؓ نے میری آنکھیں کھول دی ہیں، میں اب تم سے حسن سلوک کروں گا۔ حضرت خلیفۃ المسیح الاولؓ فرماتے ہیں کہ اس کے بعد سے اللہ تعالیٰ نے اس کو انعامات سے نوازا اور اس کے ہاں چار بڑے خوبصورت بیٹے پیدا ہوئے اور ہنسی خوشی رہنے لگے۔ اگر اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہوئے اس کے حکم کے مطابق عمل کرو تواللہ تعالیٰ یہ انعامات دیتا ہے۔
پس جو لڑکے پاکستان وغیرہ ملکوں سے یہاں آ کر پھر چند روز بعد اپنی بیویوں کو چھوڑ دیتے ہیں کہ ہمیں پسند نہیں ہے یا بعض لڑکے پاکستان سے اپنے ماں باپ کے کہنے پر یہاں لڑکیاں لے آتے ہیں اور بعد میں جب یہ کہتے ہیں کہ ہمیں پسند نہیں آئی ہم نے ماں باپ کے کہنے پر مجبوری سے یہ شادی کر لی تھی تو وہ ذرا اپنے جائزے لیں۔ جیسا کہ میں نے کہا یہ لڑکے جن کی وجہ سے مسائل کھڑے ہوتے ہیں دو قسم کے ہیں، ایک تو یہاں کے رہنے والے، شادی کرکے لائے اور یہ سوچ رہے ہوتے ہیں کہ کچھ عرصہ دیکھیں گے، طبیعت ملتی ہے کہ نہیں ملتی، کیونکہ یہاں کے ماحول میں یہی سوچ ہو گئی ہے کہ پہلے دیکھو طبیعت ملتی ہے کہ نہیں اور اگر طبیعت نہیں ملتی تو ٹھوکر مار کے گھر سے نکال دو اور یہ لوگ پھر فوری طور پر یہاں اپنی شادیاں اور نکاح رجسٹر بھی نہیں کراتے کہ لڑکی کو کوئی قانونی تحفظات حاصل نہ ہو جائیں اور یہاں رہ کر ان کے خلاف کوئی قانونی کارروائی نہ کر سکے اور ایسے معاملات میں والدین بھی برابر کے قصور وار ہوتے ہیں۔ بہرحال پھر جماعت ایسی بچیوں کو سنبھالنے کی کوشش کرتی ہے لیکن ان کے یہ عمل ظاہر کر رہے ہوتے ہیں کہ یہ کسی طرح بھی جماعت میں رہنے کے حقدار نہیں ہیں۔ دوسری قسم کے لڑکے وہ ہیں جو باہر سے آکر یہاں کی لڑکیوں سے شادیاں کرتے ہیں اور فوری طور پر نکاح رجسٹر کروانے کی کوشش کرتے ہیں اور جب نکاح رجسٹر ہو جائے اور ان کو ویزا وغیرہ مل جائے تو پھر ان کو لڑکیوں میں برائیاں نظر آنی شروع ہو جاتی ہیں اور پھر علیحدگی اور اپنی مرضی کی شادی۔ تو یہ دونوں قسم کے لوگ تقویٰ سے ہٹے ہوئے ہیں۔ اپنی جانوں پر ظلم نہ کریں، جماعت کو بدنام کرنے کی کوشش نہ کریں اور تقویٰ پر قائم ہوں، تقویٰ پر قدم ماریں، تقویٰ پر چلیں۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ایسے ظلم کرنے والوں کو یاد رکھنا چاہئے کہ ان پر بھی ایک بالا ہستی ہے جو بہت طاقتور ہے‘‘۔ (خطبہ جمعہ فرمودہ 10نومبر2006ء بمقام مسجد بیت الفتوح، لندن مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل یکم دسمبر 2006ء)