عائلی مسائل اور اُن کا حل
عہدیداران کو نصائح
عہدیداران کو نصیحت وتنبیہ
حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے عہدیداران کو انصاف کے تقاضے پورے کرنے کےحوالہ سےایک خطبہ جمعہ میں ضروری نصائح سے نوازا۔ حضورِ انور نے ارشاد فرمایا:
’’اور پھر عہدیدار بھی غلط طور پر مردوں کی طرفداری کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ عہدیداروں کو بھی میں یہی کہتا ہوں کہ اپنے رویّوں کو بدلیں۔ اللہ نے اگر ان کو خدمت کا موقع دیا ہے تو اس سے فائدہ اٹھائیں۔ یہ نہ ہو کہ ایسے تقویٰ سے عاری عہدیداروں کے خلاف بھی مجھے تعزیری کارروائی کرنی پڑے‘‘۔ (خطبہ جمعہ 24؍جون 2005ء بمقام انٹرنیشنل سنٹر۔ ٹورانٹو۔ کینیڈا۔ مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل 8؍جولائی 2005ء)
اس سے اگلے خطبہ میں حضور انور نے سابقہ مضمون کو جاری رکھتے ہوئے ارشاد فرمایا:
’’جیسا کہ میں پہلے عہدیداران سے بھی کہہ آیا ہوں کہ انہیں انصاف کے تقاضے پورے کرتے ہوئے فیصلے کرنے چاہئیں۔ لیکن فریقین سے بھی میں یہ کہتا ہوں کہ آپ بھی حسن ظنی رکھیں اور اگر فیصلے خلاف ہوجاتے ہیں تو معاملہ اللہ پر چھوڑ دیں۔ اور جیسا کہ حدیث میں آیا ہے دوسرے فریق کو آگ کا گولہ پیٹ میں بھرنے دیں اور لڑائیوں کو طول دینے اور نظام جماعت سے متعلق جگہ جگہ باتیں کرنے کی بجائے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃوالسلام کی اس تعلیم پر عمل کریں کہ سچے ہو کر جھوٹے کی طرح تذلل اختیار کرو۔ اللہ تعالیٰ سب میں یہ حوصلہ پیدا فرمائے اور ہر ایک دوسرے کے حقوق ادا کرنے والا بن جائے۔
لیکن یہاں میں عہدیداران خاص طورپر امراء کے لئے ایک بات کی وضاحت کرنا چاہتا ہوں کہ ان مغربی ممالک میں جیسا کہ میں اپنے جلسے کی تقریر میں ذکر کر چکا ہوں عائلی یا میاں بیوی کے جھگڑوں کی تعداد میں بھی اضافہ ہو رہا ہے اور یہ جھگڑے ایسی نوعیت اختیار کر جاتے ہیں کہ علم ہونے اور ہمدردی ہونے کے باوجود نظام جماعت بعض پابندیوں کی وجہ سے کچھ نہیں کر سکتا۔ کیونکہ بعض صورتوں میں ملکی قانون ایک فریق کو حق پر نہ ہونے کے باوجود اس کے شرعی حقوق کی وجہ سے بعض حق دے دیتا ہے۔ اس لئے ایسے مرد جو ظلم کرکے اپنی بیویوں کو گھروں سے نکال دیتے ہیں۔ یہ بھی نہیں دیکھتے کہ موسم کی شدت کیا ہے۔ پھر ایسے ظالم باپ ہوتے ہیں کہ یہ بھی نہیں دیکھتے کہ اس موسم کی شدت میں ماں کی گود میں چند ماہ کا بچہ ہےتو ایسے لوگوں کے خلاف نظام جماعت کو عورت کی مدد کرنی چاہئے۔ پولیس میں بھی اگر کیس رجسٹر کروانا پڑے تو کروانا چاہئے۔ یہ نہیں دیکھنا چاہئے کہ ہم جماعت میں فیصلہ کر لیں گے اور باہر نہ نکلیں۔ بعد میں اگر فیصلہ جماعت کے اندر کیا جاسکتا ہو تو کریں، کیس واپس لیا جا سکتا ہے۔ لیکن ابتدائی طور پر ضرور رپورٹ ہونی چاہئے۔
اور پھر جو لاوارث اور بے سہارا عورتیں ہیں، ان ملکوں میں آ کر لاوارث بن جاتی ہیں کیونکہ والدین یہاں نہیں ہوتے، مختلف غیروں کے گھروں میں رہ رہی ہیں ان کو بھی جماعت کو سنبھالنا چاہئے، ان کی رہائش کا بھی جماعت بندوبست کرے، ان کے لئے وکیل کا انتظام کرے(اور پھر ظاہر تو ہو جاتا ہے، پردہ پوشی کی جائے تو الگ بات ہے)۔ ایسے ظالم خاوندوں کے خلاف جماعتی تعزیر کی سفارش بھی مجھے کی جائے۔ تو اس کے لئے فوری طور پر امریکہ اور کینیڈا کے امراء ایسی فہرستیں بنائیں، بعض دوسرے مغربی ممالک میں بھی ہیں، لجنہ کے ذریعہ سے بھی پتہ کریں اور ایسی عورتوں کو ان کے حق دلوائیں۔ اور جن عورتوں کے حقوق ادا نہیں ہو رہے اور نظام جماعت بھی اس بارے میں حرکت میں نہیں آ رہا تو یہ عورتیں مجھے براہ راست لکھیں۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو اپنے فرائض احسن رنگ میں ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور تقویٰ پر چلتے ہوئے جماعت کا فعّال حصہ بننے کی توفیق دے‘‘۔ (خطبہ جمعہ فرمودہ یکم؍جولائی 2005ء بمقام انٹرنیشنل سینٹر ٹورانٹو۔ کینیڈا۔ مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل 15؍جولائی 2005ء)
حضور انور ایّدہ اللہ تعالیٰ نےاسی مضمون کو ایک اور خطبہ جمعہ میں یوں بیان فرمایا:
’’بعض عہدیداروں کے بارے میں بھی شکایات ہوتی ہیں کہ بیوی بچوں سے اچھا سلوک نہیں ہوتا۔ پہلے بھی میں ذکر کر چکا ہوں، اس ظلم کی اطلاعیں بعض دفعہ اس کثرت سے آتی ہیں کہ طبیعت بے چین ہو جاتی ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کیا انقلاب پیدا کرنے آئے تھے اور بعض لوگ آپؑ کی طرف منسوب ہو کر بلکہ جماعتی خدمات ادا کرنے کے باوجود، بعض خدمات ادا کرنے میں بڑے پیش پیش ہوتے ہیں اس کے باوجود، کس کس طرح اپنے
گھر والوں پر ظلم روا رکھے ہوئے ہیں۔ اللہ رحم کرے اور ان لوگوں کو عقل دے۔ ایسے لوگ جب حد سے بڑھ جاتے ہیں اور خلیفۂ وقت کے علم میں بات آتی ہے تو پھر انہیں خدمات سے بھی محروم کر دیا جاتا ہے۔ پھر شور مچاتے ہیں کہ ہمیں خدمات سے محروم کر دیا۔ تو یہ پہلے سوچنا چاہئے کہ ایک عہدیدار کی حیثیت سے ہمیں احکام قرآنی پر کس قدر عمل کرنے والا ہونا چاہئے۔ سلامتی پھیلانے کے لئے ہمیں کس قدر کوشش کرنی چاہئے‘‘۔ (خطبہ جمعہ فرمودہ یکم جون2007ء بمقام مسجد بیت الفتوح، لندن۔ مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل 22؍جون 2007ء)
11جولائی 2012ء کو دورۂ کینیڈا کے دوران حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے رشتہ ناطہ کمیٹی کے ساتھ میٹنگ کے دوران بعض اہم ہدایات ارشاد فرمائیں۔ حضور انور نےفرمایا:
’’ یہاں کینیڈا، امریکہ اور مغربی ملکوں میں بعض لڑکے بعض نامناسب کاموں میں Involve ہو جاتے ہیں اور بعض نقائص ان میں پیدا ہو جاتے ہیں۔ بعض دفعہ تربیت اور سمجھانے کے نتیجہ میں اصلاح ہو جاتی ہے اور بعض دفعہ نہیں ہوتی۔ اسی طرح بعض دفعہ بعض لڑکیوں میں بھی نقائص ہوتے ہیں۔ بہرحال جب رشتہ ہورہا ہو تو یہ باتیں سامنے آنی چاہئیں اور دونوں کو تقویٰ کے ساتھ بتانی چاہئیں تاکہ بعد میں جھگڑے نہ ہوں ‘‘۔
پھرحضور انور نے فرمایا:
’’بعض خاندان ایسے ہیں جو شادی کے بعد لڑکی کو طعنہ دیتے ہیں کہ جہیز لے کر نہیں آئی، اولاد نہیں ہوتی، اس کی تو لڑکیاں ہوتی ہیں۔ اس طرح لڑکے والے لڑکی کو طعنے دیتے ہیں تو پھر علیحدگی ہو جاتی ہے۔ بعض دادیاں، نانیاں پاکستان سے دیہاتی ماحول سے آئی ہیں اور دیہاتی اثر ان پر غالب ہے اور ان کی جاہلانہ سوچ کی وجہ سے بعض رشتے خراب ہورہے ہیں ‘‘۔ (مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل 28ستمبر2012ء)
لجنہ اماء اللہ کی ذمہ داریاں
17جون2011ء کو دورۂ جرمنی کے دوران حضور انور ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزنے لجنہ اماء اللہ جرمنی کی نیشنل مجلس عاملہ کے ساتھ میٹنگ میں بھی اہم ہدایات بیان فرمائیں۔ حضور انور ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا کہ ایک سروے آپ نے مجھے بھجوایا تھا اُس کے مطابق لڑکیاں خُلع زیادہ لے رہی ہیں۔ حضورانور نے فرمایا کہ لڑکیاں طلاقوں کی نسبت اتنی بے چین کیوں ہوگئی ہیں ؟ کبھی جائزہ لیا ہے؟ مکرمہ صدر صاحبہ نے بتایا کہ جائزہ لیا ہے۔ پاکستان سے جو لڑکیاں آتی ہیں۔ فیملی اِدھر سے رپورٹ نہیں لیتی یا یہاں کی لڑکیاں سمجھتی ہیں کہ اگر ہم الگ بھی ہوجائیں Financially کوئی پرابلم نہیں ہوگا۔ حضور انور نے فرمایاکہ:
’’ اُن کو آپ لوگ سنبھالیں۔ اُن کو سمجھائیں کہ اگر تم لوگ احمدی ہو تو کم از کم دنیاوی لالچوں کی خاطر اپنے گھروں کو برباد نہ کرو‘‘۔ حضور انورنے خلع کی بڑھتی ہوئی تعداد پر فکرمندی کا اظہار فرمایا اور لجنہ کی عہدیداروں کو اس طرف خصوصی توجہ کرنے کی تاکید فرمائی۔
پریشانیوں کا حل :استغفار
جون2012ء میں حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے دورۂ امریکہ کے دوران مسجد بیت الرحمٰن واشنگٹن میں طالبات کے ساتھ ایک نشست ہوئی۔ جس میں طالبات نے حضور انور کی اجازت سے بعض سوالات بھی کئے۔
ایک سوال کے جواب میں حضور انور ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نےفرمایا کہ سوسائٹی میں، اپنے گھر میں، اپنے سسرال والوں کے ساتھ اور اپنے ماحول میں جو بھی بے چینیاں اور پریشانیاں پیدا ہوں وہ استغفار کرنے اور لَاحَوْلَ وَلَاقُوَّۃَ اِلَّا بِاللّٰہِ الْعَلِیِّ الْعَظِیْم پڑھنے سے دور کی جاسکتی ہیں۔ (مطبوعہ ہفت روزہ الفضل انٹرنیشنل 17؍ اگست2012ء)