عائلی مسائل اور اُن کا حل
مردوں کے فرائض
اہلِ خانہ سے حسنِ سلوک
حضرت امیرالمومنین ایّدہ اللہ تعالیٰ نےاپنے ایک خطبہ جمعہ میں عدل و انصاف پر مبنی معاشرہ کے قیام پرمختلف حوالوں سے روشنی ڈالی۔ اس ضمن میں میاں بیوی کے حقوق کی احسن رنگ میں ادائیگی کےمتعلق حضورانور ایّدہ اللہ نے ارشاد فرمایا:
’’ ایک حدیث ہے: حضرت زھیرؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :انصاف کرنے والے خدائے رحمٰن کے داہنے ہاتھ نور کے منبروں پر ہوں گے۔ (اللہ تعالیٰ کے تو دونوں ہاتھ ہی داہنے شمار ہوں گے۔) تو یہ لوگ اپنے فیصلے اور اپنے اہل و عیال میں اور جس کے بھی وہ نگران بنائے جاتے ہیں عدل کرتے ہیں ‘‘۔ (مسلم کتاب الامارۃ)
مزید فرمایا:
’’مردوں کو اس حدیث کے مطابق ہمیشہ یاد رکھنا چاہئے کہ اگر اللہ تعالیٰ کی رحمتوں سے حصہ پانا ہے، اللہ تعالیٰ کے نور کے حقدار بننا ہے تو انصاف کے تقاضے پورے کرتے ہوئے اپنی ذمہ داریاں نبھانی ہوں گی۔ بچوں کی تربیت کا حق ادا کرنا ہو گا، ان میں دلچسپی لینی ہو گی، ان کو معاشرے کا ایک قابل قدر حصہ بنانا ہو گا۔ اگر نہیں تو پھر ظلم کر رہے ہو گے۔ انصاف والی تو کوئی چیز تمہارے اندر نہیں۔ بعض لوگ یہاں انگلستان، جرمنی اور یورپ کے بعض ملکوں میں بیٹھے ہوتے ہیں، معاشرے میں، دوستوں میں بلکہ جماعت کے عہدیداروں کی نظر میں بھی بظاہر بڑے مخلص اور نیک بنے ہوتے ہیں۔ لیکن بیوی بچوں کو پاکستان میں چھوڑا ہوا ہے اور علم ہی نہیں کہ ان بیچاروں کا کس طرح گزارا ہو رہا ہے، یا بعض لوگوں نے یہاں بھی اپنی فیملیوں کو چھوڑا ہوا ہے۔ کچھ علم نہیں ہے کہ وہ فیملیاں کس طرح گزارا کر رہی ہیں۔ جب پوچھو تو کہہ دیتے ہیں کہ بیوی زبان دراز تھی یا فلاں برائی تھی اور فلاں برائی تھی تو اگر یہ مان بھی لیا جائے کہ ایسے لوگوں کی بات ٹھیک ہے توپھر انصاف اور عدل کا تقاضا یہ ہے کہ جب تک وہ تمہاری طرف منسوب ہے اسکی ضروریات پوری کرنا تمہارا کام ہے۔ بچوں کی ضروریات تو ہر صورت میں مرد کا ہی کام ہے کہ پوری کرے۔ بیوی کو سزا دے رہے ہو تو بچوں کو کس چیز کی سزا ہے کہ وہ بھی دردر کی ٹھوکریں کھاتے پھریں۔ ایسے مردوں کو خوف خدا کرناچاہئے۔ احمدی ہونے کے بعدیہ باتیں زیب نہیں دیتی ہیں اور نہ ہی نظام جماعت کے علم میں آنے کے بعد ایسی حرکتیں قابل برداشت ہو سکتی ہیں یہ میں واضح کر دینا چاہتا ہوں۔ ہمیں بہرحال اس تعلیم پر عمل کرناہو گا جو اسلام نے ہمیں دی اور اس زمانے میں حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے نکھار کر وضاحت سے ہمارے سامنے پیش کی۔ ایک حدیث ہے: حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مومنوں میں سے کامل ترین ایمان والا شخص وہ ہے جو ان میں سے سب سےبہتر اخلاق کا مالک ہےاور تم میں سے بہترین وہ لوگ ہیں جو اپنی عورتوں سے بہترین سلوک کرنے والے ہیں ‘‘۔ (ترمذی کتاب الرضاع باب ما جاء فی حق المرأۃ علی زوجھا)
حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام(مردوں کے لئے) فرماتے ہیں : ’’دل دکھانا بڑا گناہ ہے اور لڑکیوں کے تعلقات بہت نازک ہوتے ہیں جب والدین ان کو اپنے سے جدا اور دوسرے کے حوالے کرتے ہیں تو خیال کرو کہ کیا امیدیں ان کے دلوں میں ہوتی ہیں اور جن کا اندازہ انسان عَاشِرُوْاھُنَّ بِالْمَعْرُوْفِ کے حکم سے ہی کر سکتا ہے‘‘۔ (البدر جلد 3 صفحہ26۔ 8جولائی1904ء بحوالہ تفسیر حضرت مسیح موعود ؑ جلد 2 صفحہ216) (خطبہ جمعہ فرمودہ 5؍ مارچ 2004ء بمقام بیت الفتوح، لندن۔ مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل 19؍مارچ 2004ء)
شرائطِ تعدّدِ ازدواج اور پہلی بیویوں کے حقوق
اسلام پر اس اعتراض کے جواب میں کہ مرد کو ایک سے زائد شادیوں کی اجازت دے کر عورتوں پر ظلم کیا ہے حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزمستورات سے اپنےخطاب فرمودہ مؤرخہ31 جولائی 2004ء جلسہ سالانہ برطانیہ کے موقعہ پر فرماتے ہیں :
’’ اسلام نے جو چار شادیوں تک کی اجازت دی ہے وہ بعض شرائط کے ساتھ دی ہے۔ ہر ایک کو کھلی چھٹی نہیں ہے کہ وہ شادی کرتا پھرے۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ تم تقویٰ پر قائم ہو اپنا جائزہ لو کہ جس وجہ سے تم شادی کر رہےہو وہ جائز ضرورت بھی ہے۔ پھر یہ بھی دیکھو کہ تم شادی کرکے بیویوں کے درمیان انصاف کر سکو گے کہ نہیں اور اگر نہیں تو پھر تمہیں شادی کرنے کا کوئی حق نہیں پہنچتا۔ اگر تم پہلی بیوی کی ذمہ داریاں اور حقوق ادا نہیں کر سکتے اور دوسری شادی کی فکر میں ہو تو پھر تمہیں دوسری شادی کا کوئی حق نہیں ہے۔ ….حضرت مسیحِ موعود علیہ السلام فرماتے ہیں :
’’پہلی بیوی کی رعایت اور دلداری یہاں تک کرنی چاہئے کہ اگر کوئی ضرورت مرد کو ازدواج ثانی کی محسوس ہو۔ لیکن وہ دیکھتا ہے کہ دوسری بیوی کے کرنے سے اس کی پہلی بیوی کو سخت صدمہ ہوتا ہے اور حد درجہ کی اس کی دل شکنی ہوتی ہے تو اگر وہ صبر کر سکے اور کسی معصیت میں مبتلا نہ ہوتا ہو۔ یعنی کسی گناہ میں مبتلا نہ ہواور نہ کسی شرعی ضرورت کا اس سے خون ہوتا ہو تو ایسی صورت میں اگر ان اپنی ضرورتوں کی قربانی سابقہ بیوی کی دلداری کے لئے کر دے اور ایک ہی بیوی پر اکتفا کر ے تو کوئی حرج نہیں ہے اور اسے مناسب ہے کہ دوسری شادی نہ کرے‘‘۔ (ملفوظات جلد ہفتم صفحہ 65-64مطبوعہ لندن)
تو فرمایا کہ:
’’ یہ شادیاں صرف شادیوں کے شوق میں نہ کرو۔ بعض مردوں کو شوق ہوتا ہے ان لوگوں کو بھی جواب دے دیا جو کہتے ہیں کہ اسلام ہمیں چارشادیوں کی اجازت د یتا ہے۔ فرمایا کہ پہلی بات تو یہ ہے کہ جو تمہاری پہلی بیوی ہے اس کے جذبات کی خاطر اگر صبر کر سکتے ہو تو کرو۔ ہاں اگرکوئی شرعی ضرورت ہے تو پھر بے شک کرو۔ ایسے حالات میں عموماً پہلی بیویاں بھی اجازت دے دیا کرتی ہیں۔ تو بہرحال خلاصہ یہ کہ پہلی بیوی کے جذبات کی خاطر مرد کو قربانی دینی چاہئے اور سوائے اشد مجبوری کے شوقیہ شادیاں نہیں کرنی چاہئیں ‘‘۔
فرمایا کہ:
’’ ہمیں جو کچھ خداتعالیٰ سے معلوم ہوا ہے وہ بلاکسی رعایت کے بیان کرتے ہیں۔ قرآن شریف کا منشاء زیادہ بیویوں کی اجازت سے یہ ہے کہ تم کو اپنے نفوس کوتقویٰ پر قائم رکھنے اور دوسرے اغراض مثلاً اولاد صالحہ کے حاصل کرنے اور خویش و اقارب کی نگہداشت اور ان کے حقوق کی بجا آوری سے ثواب حاصل ہواور اپنی اغراض کے لحا ظ سے اختیار دیا گیا ہے کہ ایک دو تین چار عورتوں تک نکاح کر لو۔ لیکن اگر ان میں عدل نہ کر سکو تو پھر یہ فسق ہو گا اور بجائے ثواب کے عذاب حاصل کرو گے کہ ایک گناہ سے نفرت کی وجہ سے دوسرے گناہوں پر آمادہ ہوئے‘‘
مزیدفرمایا کہ:
’’خداتعالیٰ کے قانون کو اس کے منشاء کے برخلاف ہرگز نہ برتنا چاہئے اور نہ اس سے ایسا فائدہ اٹھانا چاہئے جس سے وہ صرف نفسانی جذبات کی ایک سپر بن جاوے۔ یاد رکھو کہ ایسا کرنا معصیت ہے۔ خداتعالیٰ بار بار فرماتا ہے کہ شہوات کا تم پر غلبہ نہ ہو بلکہ تمہاری غرض ہر ایک امر میں تقویٰ ہو‘‘۔ (ملفوظات جلد ہفتم۔ صفحہ63-65) (جلسہ سالانہ یوکےخطاب ازمستورات فرمودہ 31؍جولائی 2004ء۔ مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل 24؍اپریل 2015ء)
تعددّ ازدواج کے حوالے سےحضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز اپنےخطبہ جمعہ فرمودہ 15مئی 2009ء میں فرماتے ہیں :
’’قرآن کریم میں اگر اللہ تعالیٰ نے ایک سے زیادہ شادی کا حکم دیا ہے تو بعض شرائط بھی عائد فرمائی ہیں۔ یہ بھی اسلام پر اعتراض کیا جاتا ہے اور آنحضرتﷺ پر اعتراض کیا جاتا ہے کہ ایک سے زیادہ شادی کی اجازت دے کر عورت پر ظلم کیا گیا ہے۔ یا صرف مرد کے جذبات کا خیال رکھا گیا ہے۔ اس بارہ میں خداتعالیٰ فرماتا ہے، یہ کھلا حکم نہیں ہے۔ فرمایا:
وَ اِنۡ خِفۡتُمۡ اَلَّا تُقۡسِطُوۡا فِی الۡیَتٰمٰی فَانۡکِحُوۡا مَا طَابَ لَکُمۡ مِّنَ النِّسَآءِ مَثۡنٰی وَ ثُلٰثَ وَ رُبٰعَ ۚ فَاِنۡ خِفۡتُمۡ اَلَّا تَعۡدِلُوۡا فَوَاحِدَۃً اَوۡ مَا مَلَکَتۡ اَیۡمَانُکُمۡ ؕ ذٰلِکَ اَدۡنٰۤی اَلَّا تَعُوۡلُوۡا (النساء:4)
اور اگر تم ڈرو کہ تم یتامیٰ کے بارے میں انصاف نہیں کر سکو گے تو عورتوں میں سے جو تمہیں پسند آئیں ان سے نکاح کرو۔ دو دو اور تین تین، چار چار لیکن اگر تمہیں خوف ہو کہ تم انصاف نہیں کر سکو گے تو پھر صرف ایک کافی ہےیاوہ جن کےتمہارے داہنے ہاتھ مالک ہوئے۔ یہ طریق قریب تر ہے کہ تم ناانصافی سے بچو۔ اس آیت میں ایک تو یتیم لڑکیوں کو تحفظ فراہم کیا گیاہے کہ یتیموں سے بھی شادی کرو تو ظلم کی وجہ سے نہ ہو بلکہ ان کے پورے حقوق ادا کرکے شادی کرو اور پھر شادی کے بعد ان کے جذبات کا خیال رکھو اور یہ خیال نہ کرو، یہ کبھی ذہن میں نہ آئے کہ ان کو کوئی پوچھنے والا نہیں تو جس طرح چاہے ان سے سلوک کر لیا جائےاور اگر اپنی طبیعت کے بارہ میں یہ خوف ہے، یہ شک ہے کہ انصاف نہیں کر سکو گے تو آزاد عورتوں سے نکاح کرو۔ دو، تین یا چار کی اجازت ہے لیکن انصاف کے تقاضوں کے ساتھ۔ اگر یہ انصاف نہیں کر سکتے تو ایک سے زیادہ نہ کرو۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام اس سلسلہ میں فرماتے ہیں : ’’یتیم لڑکیاں جن کی تم پرورش کرو ان سے نکاح کرنا مضائقہ نہیں۔ لیکن اگر تم دیکھو کہ چونکہ وہ لاوارث ہیں، شاید تمہارا نفس ان پر زیادتی کرے تو ماں باپ اور اقارب والی عورتیں کرو جو تمہاری مؤدب رہیں اور ان کا تمہیں خوف رہے۔ ایک دو تین چار تک کر سکتے ہو بشرطیکہ اعتدال کرواور اگر اعتدال نہ ہو تو پھر ایک ہی پر کفایت کرو۔ گو ضرورت پیش آوے‘‘۔ (اسلامی اصول کی فلاسفی۔ روحانی خزائن جلد 10صفحہ 337)
گو ضرورت پیش آوے۔ یہ بڑا بامعنی فقرہ ہے۔ اب دیکھیں اس زمانہ کے حَکم اور عدل نے یہ کہہ کر فیصلہ کر دیا کہ تمہاری جوضرورت ہے جس کے بہانے بنا کر تم شادی کرنا چاہتے ہو، وہ اصل اہمیت نہیں رکھتی بلکہ معاشرے کا امن اور سکون اور انصاف اصل چیز ہے۔ آج کل کہیں نہ کہیں سے یہ شکایات آتی رہتی ہیں کہ بچے ہیں، اولاد ہے لیکن خاوند مختلف بہانے بنا کر شادی کرنا چاہتا ہے۔ تو پہلی بات تو یہ ہے کہ فرمایا اگر انصاف نہیں کر سکتے تو شادی نہ کرو اور انصاف میں ہر قسم کے حقوق کی ادائیگی ہے۔ اگر آمد ہی اتنی نہیں کہ گھر چلا سکو تو پھر ایک اور شادی کا بوجھ اٹھا کر پہلی بیوی بچوں کے حقوق چھیننے والی بات ہو گی۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے تو ایک جگہ فرمایا ہے کہ اگر مجبوری کی وجہ سے دوسری شادی کرنی ہی پڑے تو پھر اس صورت میں پہلی بیوی کا پہلے سے بڑھ کر خیال رکھو۔ (ماخوذ از ملفوظات جلد سوم صفحہ 430 مطبوعہ ربوہ)
لیکن عملاً جو آج کل ہمیں معاشرے میں نظر آتا ہے یہ ہے کہ پہلی بیوی اور بچوں کے حقوق کی ادائیگی کی طرف سے آہستہ آہستہ بالکل آنکھیں بند کرلی جاتی ہیں اور اللہ تعالیٰ کے حکم کے خلاف عمل کر رہے ہوتے ہیں۔ پس یہ جائزے لینے کی ضرورت ہے کہ مالی کشائش اور دوسرے حقوق کی ادائیگی میں بے انصافی تو نہیں ہو گی؟حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ:’’ہمارے نزدیک یہی بہتر ہے کہ انسان اپنے تئیں ابتلاء میں نہ ڈالے‘‘۔ (الحکم جلد 2 نمبر 2مؤرخہ 6 مارچ 1898ء صفحہ 2۔ تفسیر حضرت مسیح موعودؑ سورۃ النساء آیت4جلد دوم صفحہ 211)
یعنی مراد یہ ہے کہ دوسری شادی کرکے۔ پس بیوی کے حقوق کی ادائیگی اتنی بڑی ذمہ داری ہے کہ انہیں ادا نہ کرکے انسان ابتلاء میں پڑ جاتا ہے یا پڑ سکتا ہے اور خداتعالیٰ کی ناراضگی کا مورد بن جاتا ہے۔ میں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک د عا کا ذکر کیا تھا کہ آپﷺ اللہ تعالیٰ سے یہ دعا عرض کیا کرتے تھے کہ میں ظاہری طور پر تو ہر ایک کا حق ادا کرنے کی کوشش کرتا ہوں لیکن کسی بیوی کی کسی خوبی کی وجہ سے بعض باتوں کا اظہارہو جائے جو میرے اختیار میں نہیں تو ایسی صورت میں مجھے معاف فرمااور یہ ایک ایسی بات ہے جو انسانی فطرت کے عین مطابق ہے اور خداتعالیٰ جس نے انسان کو پیدا کیا اور پھرایک سے زیادہ شادیوں کی اجازت بھی دی، جو بندے کے دل کا حال بھی جانتا ہے جس کی پاتال تک سے وہ واقف ہے، غیب کا علم رکھتا ہے۔ اس نے اس بارہ میں قرآن کریم میں واضح فرما دیا ہے کہ ایسی صورت حال پیدا ہو سکتی ہے کہ بعض حالات کی وجہ سے تم کسی طرف زیادہ جھکاؤ کر جاؤ۔ ایسی صورت میں یہ بہرحال ضروری ہے کہ جو اس کے ظاہری حقوق ہیں، وہ مکمل طور پر ادا کرو۔ جیسا کہ سورۃ النساء میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ:
وَ لَنۡ تَسۡتَطِیۡعُوۡۤا اَنۡ تَعۡدِلُوۡا بَیۡنَ النِّسَآءِ وَ لَوۡ حَرَصۡتُمۡ فَلَا تَمِیۡلُوۡا کُلَّ الۡمَیۡلِ فَتَذَرُوۡہَا کَالۡمُعَلَّقَۃِ ؕ وَ اِنۡ تُصۡلِحُوۡا وَ تَتَّقُوۡا فَاِنَّ اللّٰہَ کَانَ غَفُوۡرًا رَّحِیۡمًا (النساء:130)
اور تم یہ توفیق نہیں پا سکو گے کہ عورتوں کے درمیان کامل عدل کا معاملہ کرو خواہ تم کتنا ہی چاہو۔ اس لئے یہ تو کرو کہ کسی ایک کی طرف کلیۃً نہ جھک جاؤ کہ اس دوسری کو گویا لٹکتا ہوا چھوڑ دو اور اگر تم اصلاح کرو اور تقویٰ اختیار کرو تو یقینا اللہ تعالیٰ بہت بخشنے والا اور بار بار رحم کرنے والا ہے۔ تو ایسے معاملات جن میں انسان کو اختیار نہ ہو اس میں کامل عدل تو ممکن نہیں۔ لیکن جو انسان کے اختیار میں ہے اس میں انصاف بہرحال ضروری ہے اور ظاہری انصاف جیسا کہ میں بتا آیا ہوں کہ کھانا، پینا، کپڑے، رہائش اور وقت وغیرہ سب شامل ہیں۔ اگر صرف خرچ دیا اور وقت نہ دیا تو یہ بھی درست نہیں اور صرف رہائش کا انتظام کر دیا اور گھریلو اخراجات کے لئے چھوڑ دیا کہ عورت لوگوں کے آگے ہاتھ پھیلاتی پھرے تو یہ بھی درست نہیں ہے۔ پس ظاہری لحاظ سے مکمل ذمہ داری مرد کا فرض ہے۔
ایک روایت میں آتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ:جس شخص کی دو بیویاں ہوں اور اس کا جھکاؤ صرف ایک طرف ہو اور دوسری کو نظر انداز کرتا ہو تو قیامت کے دن اس طرح اٹھایا جائے گا کہ اس کے جسم کا ایک حصہ کٹا ہوا یا علیحدہ ہو گا۔ (سنن نسائی کتاب عشرۃ النساء باب میل الرجل حدیث نمبر 3942)
پس اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ تقویٰ یہ ہے کہ ظاہری حقوق دونوں کے ادا کرو اور کسی بیوی کو بھی اس طرح نہ چھوڑ وکہ وہ بیوی ہونے کے باوجود ہر حق سے محروم ہو۔ نہ اسے علیحدہ کر رہے ہو اور نہ اس کا حق صحیح طرح ادا کیا جا رہا ہو۔ ایک مومن کا وطیرہ یہ نہیں ہونا چاہئے۔ پس مومن کا فرض ہے کہ ان کاموں سے بچے جن سے اللہ تعالیٰ نے روکا ہے اور اپنی اصلاح کرے‘‘۔ (خطبہ جمعہ فرمودہ 15؍مئی 2009ء۔ مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل 5؍جون2009ء)
خاوند کے ذمّہ بیوی کے حقوق
عورتوں کے حقوق کے ضمن میں حضرت امیرالمومنین ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اپنےایک خطبہ جمعہ میں دنیا کی بے رغبتی سے متعلق مختلف مثالیں بیان کرتے ہوئے زہد کے اصل معانی پر روشنی ڈالی۔ حضور انور نے میاں بیوی کےتعلقات کے حوالہ سے بیان فرمایا:
’’حضرت وہب ؓ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت سلمان ؓ اور حضرت ابو درداء ؓ کے درمیان بھائی چارہ کروایا۔ حضرت سلمان ؓ، حضرت ابودرداء ؓ کو ملنے آئے تو دیکھا کہ ابو درداء کی بیوی نے پراگندہ حالت میں کام کاج کے کپڑے پہن رکھے ہیں اپنا حلیہ عجیب بنایا ہوا تھا۔ سلمان ؓ نے پوچھا تمہاری یہ حالت کیوں ہے؟ اس عورت نے جواب دیا کہ تمہارے بھائی ابودرداء ؓ کو تو اس دنیا کی ضرورت ہی نہیں وہ تودنیا سے بے نیاز ہے۔ اسی اثناء میں ابودرداء ؓ بھی آ گئے۔ انہوں نے حضرت سلمانؓ کے لئے کھانا تیار کروایا اور ان سے کہا کہ آپ کھائیں میں تو روزے سے ہوں۔ سلمانؓ نے کہا جب تک آپ نہیں کھائیں گے میں بھی نہیں کھاؤں گا۔ چنانچہ انہوں نےروزہ کھول لیا(نفلی روزہ رکھا ہو گا)۔ ا ور جب رات ہوئی تو ابو درداءؓ نماز کے لئے اٹھنے لگے۔ سلمانؓ نے ان کو کہا ابھی سوئے رہو چنانچہ وہ سو گئے۔ کچھ دیر بعد وہ دوبارہ نماز کے لئےاٹھنے لگے تو سلمانؓ نے انہیں کہا کہ ابھی سوئے رہیں۔ پھر جب رات کا آخری حصہ آیا تو سلمانؓ نے کہا کہ اب اٹھو۔ چنانچہ دونوں نے اٹھ کر نماز پڑھی۔ پھر سلمانؓ نے کہا اے ابودرداءؓ ! تمہارے پروردگار کا بھی تم پر حق ہے اور تمہارے نفس کا بھی تم پر حق ہے۔ تمہاری بیوی کا بھی تم پر حق ہے۔ پس ہر حقدار کو اس کا حق دو، اس کےبعد ابودراءؓ آنحضرتﷺ کے پاس آئے اور آپﷺ سے اس واقعہ کا ذکر کیا حضورﷺ نے فرمایا سلمانؓ نے ٹھیک کیا ہے‘‘۔ (بخاری کتاب الصوم باب من اقسم علی اخیہ لیفطر فی التطوع)
زہد یہ نہیں ہے کہ دنیاوی حقوق بیوی بچوں کے جو اللہ تعالیٰ نے دئیے ہیں ان کو انسان بھول جائے یا کام کاج کرنا چھوڑ دے۔ دنیاوی کام کاج بھی ساتھ ہوں لیکن صرف مقصود یہ نہ ہو۔ بلکہ ہر ایک کے حقوق ہیں وہ ادا کئے جائیں ‘‘۔ (خطبہ جمعہ فرمودہ 7؍مئی2004ءبمقام مسجد بیت الفتوح لندن۔ مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل 21مئی 2004ء)
اسی حوالہ سے حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے خواتین سے خطاب فرماتےہوئے یہ نصیحت فرمائی کہ :
’’پھر عورت کی آزادی کا ہر حق قائم کرنے کے لئے اسلام عورت کو ایک ایسا حق دلواتا ہے جو کئی حقوق کا مجموعہ ہے۔ اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے:
یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا لَا یَحِلُّ لَکُمۡ اَنۡ تَرِثُوا النِّسَآءَ کَرۡہًا ؕ وَ لَا تَعۡضُلُوۡہُنَّ لِتَذۡہَبُوۡا بِبَعۡضِ مَاۤ اٰتَیۡتُمُوۡہُنَّ اِلَّاۤ اَنۡ یَّاۡتِیۡنَ بِفَاحِشَۃٍ مُّبَیِّنَۃٍ ۚ وَ عَاشِرُوۡہُنَّ بِالۡمَعۡرُوۡفِ ۚ فَاِنۡ کَرِہۡتُمُوۡہُنَّ فَعَسٰۤی اَنۡ تَکۡرَہُوۡا شَیۡئًا وَّ یَجۡعَلَ اللّٰہُ فِیۡہِ خَیۡرًا کَثِیۡرًا (النساء:20)
کہ اے وہ لوگو !جو ایمان لائے ہو تمہارے لئے جائز نہیں کہ تم زبر دستی کرتے ہوئے عورتوں کا ورثہ لو اور انہیں اس غرض سے تنگ نہ کرو کہ تم جو کچھ انہیں دے بیٹھے ہو اس میں سے کچھ پھرلے بھاگو۔ سوائے اس کے کہ وہ کھلی کھلی بے حیائی کی مرتکب ہوئی ہوں اور ان سے نیک سلوک کے ساتھ زندگی بسر کرواور اگر تم انہیں نا پسند کرو تو عین ممکن ہے کہ تم ایک چیز کو نا پسند کرو اور اﷲ اس میں بہت بھلائی رکھ دے۔
تو یہ ہے ایک حق عورت کا۔ مثلاً ایک خاوند اپنی بیوی پر ظلم کرتا ہے، اسے نا پسند کرتا ہے، حقوق پوری طرح ادا نہیں کرتا اور چھوڑتا بھی اس لئے نہیں کہ اس کی جائیداد سے فائدہ اٹھاتا رہے۔ یا عورت بے چاری کو اس حالت میں پہنچا دیا ہے کہ وہ بسترِ مرگ پہ پہنچ گئی ہے اور کوشش ہو کہ اس کے مرنے کے بعدپھر اس کی جائیداد سے فائدہ اٹھائے۔ بسااوقات عورت کو بدنام کرکے ایسی جھوٹی کہانیاں پیش کی جاتی ہیں اور اس کے حق سے محروم کرنے والی وہ باتیں قضا میں بھی اور عدالتوں میں بھی بیان کی جاتی ہیں۔ یا بعض دفعہ ان ملکوں میں یوں بھی ہوتا ہے کہ عورت کی کچھ جائیداد یا نصف جائیداد عدالتوں میں جا کر ہتھیانے کی کوشش کی جاتی ہے جبکہ اﷲ تعالیٰ اس کو مکمل طور پر نا جائز قرار دیتا ہے۔ پھر یہ بھی بعض دفعہ ہوتا ہے کہ رشتہ دار بیوہ کو اس لئے شادی نہیں کرنے دیتے کہ اس عورت کے خاوند کی جائیدادپر ان کا تصرف رہے اور قبضہ رہے۔
یہ واقعات آج کل بھی ہو رہے ہیں اور ہوتے ہیں۔ بہت ساری شکایتیں آتی ہیں۔ یہ ایسے واقعات ہیں جن کو پندرہ سو سال قبل قرآنِ کریم نے بیان فرما کر ان سے بچنے کی طر ف مردوں کو توجہ دلا دی تاکہ عورت کے حق قائم رہیں۔ پھر بعض دفعہ رشتہ دار عورت کو اس کی مرضی کے خلاف اس بات پر مجبور کرتے ہیں کہ وہ کسی ایسے شخص سے شادی کر لے جو ان کے عزیزوں میں سے ہے تاکہ فوت شدہ خاوند کی جو جائیداد ہے وہ باہر نہ جائے۔ خاوند بعض دفعہ غلط طریقے سے عورت کی جائیداد ہتھیا لیتے ہیں۔ جیسا کہ پہلے بھی بیان کیا ہے ان ملکوں میں قانونی کارروائیاں کر کے جو ہوتا ہے۔ خاوند کے رشتہ دار اس کے مرنے کے بعد بھی کرتے ہیں۔ اگر خاوند نہیں کر رہا تو خاوند کے رشتہ دار کرنا شروع کر دیتے ہیں۔ اﷲ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ یہ تمام صورتیں جو ہیں یہ منع ہیں اور عورت کو اس کے حق سے محروم کرنے والی بات ہے۔
عورت کو اس کی بیوگی یا طلاق کے بعد اپنی مرضی کی شادی کرنے کا بھی حق ہے جیسا کہ میں نے پہلے بھی بتایا ہے۔ لیکن عورت کا نکاح چونکہ بغیر ولی کے نہیں ہو سکتا۔ اس لئے اگر ایسی روکیں کھڑی ہو جائیں تو خلیفۂ وقت کے پاس عورت درخواست کرسکتی ہے اور اگر عذر جائز ہو تو خلیفۂ وقت ولی بن سکتا ہے یا ولی مقرر کر سکتا ہے یا وکیل مقرر کر سکتا ہے۔ تو اﷲ تعالیٰ عورتوں کے حقوق کی حفاظت کرتے ہوئے اس آیت میں فرماتا ہے کہ: عَاشِرُوْ ھُنَّ بِالْمَعْرُوْفِ (النساء:20) ان سے نیک سلوک کے ساتھ زندگی بسر کرو۔ ظلم اور زیادتی کے بہانے تلاش نہ کرو۔ نہ ان کی جائیداد پرنظر رکھو۔ نہ ان کو جو تم دے چکے ہو اس پر نظر رکھو۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : خَیْرُکُمْ خَیْرُکُمْ لِاَھْلِہٖ تم میں سے بہترین وہ ہے جو اپنی بیوی سے نیک سلوک رکھے۔ پھرآپﷺ نے فرمایا: اپنی بیویوں سے سب سے زیادہ نیک سلوک کرنے والا میں ہوں ‘‘۔ (سنن ابی ماجہ کتاب النکاح باب حسن معاشرۃ النساء حدیث 1977)
تو دیکھیں مردوں کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے اُسوہ سے عورت کے حقوق قائم کرنے پر مزید توجہ دلوادی۔
یہاں اس آیت(النساء :20) میں جو یہ فرمایا ہے کہ سوائے اس کے کہ عورتیں کھلی کھلی بے حیائی کی مرتکب ہوں، یہاں واضح ہو کہ اس کا تعلق بھی مال لینے سے نہیں ہے۔ یعنی یہ نہیں ہے کہ اگر کوئی عورت، کسی کھلی بے حیائی کی مرتکب ہو رہی ہے تو مرد اُن کے مال پر قبضہ کر لیں۔ بلکہ نیک سلوک کے ساتھ زندگی بسر کرنے سے اس کا تعلق ہے یا حق دلانے کے ساتھ تعلق ہے۔
اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے کہ: نہ اِس وجہ سے(یعنی کھلی کھلی بے حیائی کی مرتکب ہوں ) اسے اپنی چیز سے جو اس عورت کی ملکیت ہے محروم کرنے کی کوشش کرواور نہ ہی اس کا جو حق تم پر بنتا ہے اُس سے اُسے محروم رکھنے کی کوشش کرو۔ ذرا ذرا سی بات پر جو مرد عورت کو تنگ کرتے ہیں یا انہیں طلاق دینے کی دھمکیاں دیتے ہیں، یہاں اﷲ تعالیٰ نے اس بات سے بھی عورت کا حق محفوظ رکھتے ہوئے مرد کو نصیحت فرما دی ہے‘‘۔
مزید فرمایاکہ:
’’ عورت کی غلطیوں اور کمزوریوں سے صَرف نظر کرو اور صِرف صَرفِ نظر ہی نہیں بلکہ اس سے شفقت اور مہربانی کا سلوک کرو اور یہ شفقت اور پیار کا سلوک صرف کسی بات پر خوش ہو کر نہیں کرنا بلکہ اگر تم انہیں ناپسند بھی کرتے ہو تب بھی کرو۔ پس یہ وہ اعلیٰ معیار ہے جو اسلام نے عورت کا حق قائم کرتے ہوئے مقرر فرمایا ہے۔
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ: آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ: جب کوئی شخص اپنی ضرورتوں کو پورا کر لے، جس کے لئے اُسے سفر کرنا پڑا ہے تو اسے چاہئے کہ اپنے رشتہ داروں کا خیال رکھتے ہوئے جلد گھر واپس آجائے۔ (صحیح بخاری کتاب الجہاد و السیر باب السرعۃ فی السیر حدیث3001)
اور ایک شادی شدہ مرد کے لئے قریبی رشتہ دار اس کے بیوی بچے ہیں۔ آج ہم دیکھتے ہیں کہ عورتیں بعض گھروں میں اکیلی بیٹھی رہتی ہیں۔ بیاہ کر نئی لڑکیاں یہاں آئی ہیں، ان ملکوں میں کوئی واقف نہیں ہے، گھر میں بند پڑی ہیں اور ان ملکوں کے موسم بھی ایسے ہیں اس لئے بعض دفعہ ڈیپریشن کا شکار بھی ہو جاتی ہیں اور مرد کام کے بعد اپنے دوستوں میں بیٹھے گپیں مارتے رہتے ہیں۔ تو یہ حق بھی عورت کا آنحضرتﷺ نے قائم فرمایا۔ مردوں کو نصیحت فرمائی کہ عورتوں کو ان کا حق دو۔ رشتہ داروں کو ان کا حق دو۔ بچوں کو ان کا حق دو۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بڑی سختی سے اس حرکت کو ناپسند فرمایا ہے کہ بیٹھ کے پھر بعد میں گپیں ماری جائیں اور عورت کو چھوڑ دیا جائے‘‘۔ (جلسہ سالانہ یوکے خطاب ازمستورات فرمودہ 26؍جولائی 2008ء۔ مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل 15؍اپریل 2011ء)
مردوں کے رویّے اور ان کو نصائح
مردوں کے نامناسب رویوں کی نشاندہی کرتے ہوئے حضور انور ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزاپنے ایک خطبہ جمعہ میں ارشاد فرماتے ہیں :
’’بعض ایسی شکایات بھی آتی ہیں کہ ایک شخص گھر میں کرسی پہ بیٹھا اخبار پڑھ رہا ہے، پیاس لگی تو بیوی کو آواز دی کہ فریج میں سے پانی یا جوس نکال کر مجھے پلا دو۔ حالانکہ قریب ہی فریج پڑا ہوا ہے خود نکال کر پی سکتے ہیں اور اگر بیوی بیچاری اپنے کام کی وجہ سے یا مصروفیت کی وجہ سے یا کسی وجہ سے لیٹ ہو گئی تو پھر اس پر گرجنا، برسنا شروع کر دیا۔ تو ایک طرف تو یہ دعویٰ ہے کہ ہمیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت ہے اور دوسری طرف عمل کیا ہے، ادنیٰ سے اخلاق کا بھی مظاہرہ نہیں کرتےاور کئی ایسی مثالیں آتی ہیں جو پوچھو تو جواب ہوتا ہے کہ ہمیں تو قرآن میں اجازت ہے عورت کو سرزنش کرنے کی۔ تو واضح ہو کہ قرآن میں اس طرح کی کوئی ایسی اجازت نہیں ہے۔ اس طرح آپ اپنی ذاتی دلچسپی کی وجہ سے قرآن کو بدنام نہ کریں۔
گھریلو زندگی کے بارے میں حضرت عائشہ صدیقہ ؓ کی گواہی یہ ہے کہ نبی کریمﷺ تمام لوگوں سے زیادہ نرم خو تھے اور سب سے زیادہ کریم، عام آدمیوں کی طرح بلا تکلف گھر میں رہنے والے، آپ نے کبھی تیوری نہیں چڑھائی، ہمیشہ مسکراتے رہتے تھے۔ نیز آپ ؓ فرماتی ہیں کہ اپنی ساری زندگی میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی اپنی بیوی پر ہاتھ اٹھا یا نہ کبھی خادم کو مارا۔ خادم کو بھی کبھی کچھ نہیں کہا۔ (شمائل ترمذی باب ما جاء فی خلق رسول اللہﷺ) (خطبہ جمعہ فرمودہ 2؍جولائی 2004ء بمقام انٹرنیشنل سنٹر، مسی ساگا، کینیڈا۔ مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل 16جولائی 2004ء)
ہر فرد راعی ہے
ایک معروف حدیث کے حوالہ سے حضور انور ایّدہ اللہ تعالیٰ نے اپنے ایک خطبہ جمعہ میں گھر کےہر فرد کے راعی ہونے سے متعلق اہم نصائح فرمائیں۔ چنانچہ مردوں کے گھر میں سربراہ ہونے کی حیثیت سے دیگر افرادِ خانہ کی نگرانی سے متعلق حضور انور نے ارشاد فرمایا:
’’حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ :تم میں سے ہر ایک نگران ہے اور ہر ایک سے اس کی ذمہ داری کے بارے میں دریافت کیا جائے گا۔ امام نگران ہے اور اس سے اس کی ذمہ داری کے بارے میں دریافت کیا جائے گااور مرد اپنے اہل پر نگران ہے اور اس سے اس کی ذمہ داری کے بارے میں دریافت کیا جائے گا اور عورت اپنے خاوند کے گھر کی نگران ہے اور اس سے اس کی ذمہ داری کے بارے میں دریافت کیا جائے گا۔ خادم اپنے آقاکے مال کا نگران ہے اور اس سے اس کی ذمہ داری کے بارے میں سوال کیا جائے گا۔
راوی کہتے ہیں میرا خیال ہے آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بھی فرمایاتھا کہ: مرد اپنے والد کے مال کا نگران ہے اور اس سے اس کی ذمہ داری کے بارے میں پوچھا جائے گااور فرمایا تم میں سے ہر ایک نگران ہے اور اس سے اس کی ذمہ داریوں کے بارے میں پوچھا جائے گا‘‘۔ (بخاری کتاب الجمعۃ۔ باب الجمعۃ فی القریٰ والمدن)
تو اس روایت میں مختلف طبقوں کے بارے میں ذکر ہے کہ وہ اپنے اپنے ماحول میں نگران ہیں لیکن اس وقت میں کیونکہ مردوں کے بارے میں ذکر کر رہا ہوں اس لئے اس بارے میں تھوڑی سی وضاحت کر دوں۔ عموماً اب یہ رواج ہو گیا ہے کہ مرد کہتے ہیں کیونکہ ہم پر باہر کی ذمہ داریاں ہیں، ہم کیونکہ اپنے کاروبار میں اپنی ملازمتوں میں مصروف ہیں اس لئے گھر کی طرف توجہ نہیں دے سکتے اور بچوں کی نگرانی کی ساری ذمہ داری عورت کا کام ہے۔
تو یاد رکھیں کہ بحیثیت گھر کے سربراہ مرد کی ذمہ داری ہے کہ اپنے گھر کے ماحول پر بھی نظر رکھے، اپنی بیوی کے بھی حقوق ادا کرے اور اپنے بچوں کے بھی حقوق ادا کرے، انہیں بھی وقت دے ان کے ساتھ بھی کچھ وقت صرف کرے چاہے ہفتہ کے دو دن ہی ہوں، ویک اینڈ ز پر جو ہوتے ہیں۔ انہیں مسجد سے جوڑے، انہیں جماعتی پروگراموں میں لائے، ان کے ساتھ تفریحی پروگرام بنائے، ان کی دلچسپیوں میں حصہ لے تاکہ وہ اپنے مسائل ایک دوست کی طرح آپ کے ساتھ بانٹ سکیں۔ بیوی سے اس کے مسائل اور بچوں کے مسائل کے بارے میں پوچھیں، ان کے حل کرنے کی کوشش کریں۔ پھر ایک سربراہ کی حیثیت آپ کومل سکتی ہے۔ کیونکہ کسی بھی جگہ کے سربراہ کو اگر اپنے دائرہ اختیار میں اپنے رہنے والوں کے مسائل کا علم نہیں تو وہ تو کامیاب سربراہ نہیں کہلا سکتا۔ اس لئے بہترین نگران وہی ہے جو اپنے ماحول کے مسائل کو بھی جانتا ہو۔ یہ قابل فکر بات ہے کہ آہستہ آہستہ ایسے لوگوں کی تعداد بڑھ رہی ہے جو اپنی ذمہ داریوں سے اپنی نگرانی کے دائرے سے فرار حاصل کرنا چاہتے ہیں یا آنکھیں بند کر لیتے ہیں اور اپنی دنیا میں مست رہ کر زندگی گزارنے کی کوشش کرتے ہیں۔ تو مومن کو، ایک احمدی کو ان باتوں سے دور کا بھی واسطہ نہیں ہونا چاہئے۔ مومن کے لئے تو یہ حکم ہے کہ دنیا داری کی باتیں تو الگ رہیں، دین کی خاطر بھی اگر تمہاری مصروفیات ایسی ہیں، اللہ تعالیٰ کی عبادت کرتے ہوئے تم نے مستقلاً اپنا یہ معمول بنا لیا ہے، یہ روٹین بنا لی ہے کہ اپنے گردو پیش کی خبر ہی نہیں رکھتے، اپنے بیوی بچوں کے حقوق ادا نہیں کرتے، اپنے ملنے والوں کے حقوق ادا نہیں کرتے، اپنے معاشرے کی ذمہ داریاں نہیں نبھاتے تو یہ بھی غلط ہے۔ اس طرح تقویٰ کے اعلیٰ معیار قائم نہیں ہوتے۔ بلکہ یہ معیار حاصل کرنے ہیں تو اللہ تعالیٰ کے حقوق بھی ادا کرو اور بندوں کے حقوق بھی ادا کرو۔
جیسا کہ ایک روایت میں آتا ہے، عبداللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے مخاطب کرتے ہوئے فرمایا کہ: اے عبداللہ! جو مجھے بتایا گیا ہے کیا یہ درست ہے کہ تم دن بھر روزے رکھے رہتے ہو اور رات بھر قیام کرتے ہو یعنی نمازیں پڑھتے رہتے ہو، اس پر میں نے عرض کی ہاں یا رسول اللہ۔ تو پھر آپ نے فرمایا ایسا نہ کرو کبھی روزہ رکھو کبھی چھوڑ دو، رات کو قیام کرو اور سو بھی جایا کرو۔ کیونکہ تمہارے بدن کا بھی تم پر حق ہے اور تمہاری آنکھوں کا بھی تم پر حق ہے اور تمہاری بیوی کا بھی تم پر حق ہے اور تمہاری زیارت کو آنے والے کا بھی تم پر حق ہے‘‘۔ (بخاری کتاب الصوم باب حق الجسم فی الصوم)
تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ایک گھر کے سربراہ کی حیثیت سے گھر والوں کے حقوق کس طرح ادا کیا کرتے تھے اس بارے میں حضرت اسودؓ کی روایت ہے، کہتے ہیں کہ: ’’ میں نے حضرت عائشہ ؓ سے دریافت کیا کہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم گھر پر کیا کیا کرتے تھے۔ آپ نے فرمایا وہ اپنے اہل خانہ کی خدمت میں لگے رہتے تھے اور جب نماز کا وقت ہو جاتا تو نماز کے لئے تشریف لے جاتے‘‘۔ (صحیح بخاری کتاب الاذان)
تو آپﷺ سے زیادہ مصروف اور آپﷺ سے زیادہ عبادت گزار کون ہو سکتا ہے۔ لیکن دیکھیں آپﷺ کا اسوہ کیا ہے کتنی زیادہ گھریلو معاملات میں دلچسپی ہے کہ گھر کے کام کاج بھی کر رہے ہیں اور دوسری مصروفیات میں بھی حصہ لے رہے ہیں۔ آپﷺ فرمایا کرتے تھے کہ: تم میں سے بہترین وہ ہے جو اپنے اہل خانہ کے ساتھ حسن سلوک میں بہت اچھا ر ہے۔ اور آپﷺ نے فرمایا کہ:میں تم سے بڑھ کر اپنے اہل خانہ کے ساتھ حسن سلوک کرنے والا ہوں۔ (ترمذی کتاب المناقب)
ہمیں اپنا جائزہ لینا چاہئے کہ کیا ہم اس خوبصورت نمونہ پر، اس اسوہ پر عمل کرتے ہیں ‘‘۔ (خطبہ جمعہ فرمودہ 2؍جولائی 2004ء بمقام انٹرنیشنل سنٹر، مسی ساگا، کینیڈا۔ مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل 16جولائی 2004ء)