عائلی مسائل اور اُن کا حل
معاشرے میں مرد و عورت کا کردار
حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایّدہاللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے جلسہ سالانہ ہالینڈکے موقع پر خواتین سے خطاب کرتے ہوئے تشہد، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:
’’آج میں یہاں خواتین کو چند باتوں کی طرف مختصراً توجہ دلاؤں گا۔ کیونکہ معاشرہ میں اور خاص طور پر اسلامی معاشرہ میں مردوں اور عورتوں دونوں کا اپنا اپنا کردار ہے اس لئے اسلام نے عورت کے حقوق و فرائض کی ادائیگی کی بھی اسی طرح تلقین فرمائی ہے جس طرح مردوں کے حقوق و فرائض کی۔ عورت ہی ہے جس کی گود میں آئندہ نسلیں پروان چڑھتی ہیں اور عورت ہی ہے جو قوموں کے بنانے یا بگاڑنے میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔
حضرت اقدس مسیح موعودعلیہ الصلوٰۃ والسلام نے جس طرح کھول کر عورتوں کے حقوق و فرائض کے بارہ میں فرمایا ہے اور قرآن کریم کی تعلیم کی روشنی میں جس طرح تقویٰ پر چلتے ہوئے اپنے گھروں میں اپنے بچوں کو اسلام کی خوبصورت تعلیم کے مطابق تربیت دینے کی طرف توجہ دلائی ہے، اگر عورتیں اس ذمہ داری کو سمجھ لیں تو احمدیت کے اندر بھی ہمیشہ حسین معاشرہ قائم ہوتا چلا جائے گا اور پھر اس کا اثر آپ کے گھروں تک ہی محدود نہیں رہے گا، جماعت کے اندر تک ہی محدود نہیں رہے گا بلکہ اس کا اثر گھروں سے باہر بھی ظاہر ہوگا۔ اس کا اثر جماعت کے دائرہ سے نکل کر معاشرہ پر بھی ظاہر ہو گا اور اس کا اثر گلی گلی اور شہر شہر اور ملک ملک ظاہر ہوگااور وہ انقلاب جو حضرت اقدس مسیح موعودعلیہ السلام ہم میں پیدا کرنا چاہتے ہیں اور اسلام کی جس خوبصورت تعلیم کا علم دے کر اللہ تعالیٰ نے آپ کو بھیجا ہے اس تعلیم کودنیا میں پھیلانے اور اسلام کا جھنڈا دنیا میں گاڑنے میں اور جلد از جلد تمام دنیا کو آنحضرتﷺ کے جھنڈے تلے جمع کرنے میں ہم تبھی کامیاب ہو سکتے ہیں جب احمدی عورت اپنی ذمہ داری کو سمجھے، اپنے مقام کو سمجھ لے اور اپنے فرائض کو سمجھ لے اور اس کے مطابق اپنا کردار ادا کرنے کی کوشش کرے‘‘۔ (جلسہ سالانہ ہالینڈ خطاب ازمستورات فرمودہ 3جون 2004ء مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل 22 جولائی 2005ء)
اِسی طرح جلسہ سالانہ جرمنی کے موقعہ پر عورتوں سے مخاطب ہو کر آپ نے فرمایا:
’’جیسا کہ میں نے کل کے خطبہ میں بتایا تھا کہ اللہ تعالیٰ کا قرب پانے کے جو درجے ہیں تقویٰ پر قائم رہتے ہوئے، اللہ کا خوف اور اس کی خشیت کو دل میں قائم کرتے ہوئے، ان میں سے ہر ایک پر قدم رکھنا ضروری ہے۔ ان میں سے ہر ایک پر قدم رکھنا ہو گا۔ ہر حکم کو بجا لانا ہو گا۔ تب ہی فلاح بھی حاصل کرو گے اور جنتوں کے بھی وارث ٹھہرو گے اور وہ حکم ہیں (کل میں نے گن کربتائے تھے) پہلا یہ ہے کہ اپنی نمازوں کو خشوع و خضوع سے عاجزی سے ادا کرو۔ اللہ تعالیٰ کے حضور حاضر ہو تو یہ سوچ کر کہ خدا میرے سامنے ہے پھر اس سے مانگو۔ اپنے لئے بھی مانگو، اپنے خاوندوں کے لئے بھی مانگو، اپنی اولاد کے لئے بھی مانگو کہ اے اللہ تُو ہی ہمیں نیکیوں پر قائم رکھنے والا ہے۔ تُو ہمیں توفیق دے کہ ہم تیری عبادات بجا لا سکیں۔ اے اللہ ہمیں، ہماری اولاد اور ہمارے خاوندوں کو ان نیکیوں پر قائم کر اور نماز کے بارے میں ہے کہ جب اللہ تعالیٰ کے حضورحاضر ہو توعاجزی دکھاتے ہوئے۔ یہ عاجزی اس وقت پیدا ہو گی جب یہ احساس ہو کہ میں اللہ تعالیٰ کے حضور حاضر ہوں۔ اللہ تعالیٰ کے سامنے حاضر ہوں۔ حدیث میں ہے کہ اگر یہ نہیں، یہ احساس نہیں کہ میں اللہ تعالیٰ کو دیکھ رہا ہوں یا اللہ تعالیٰ کے حضور حاضر ہوں تو کم از کم یہ احساس ضرور ہونا چاہئے کہ خداتعالیٰ مجھے دیکھ رہا ہے۔ تبھی عاجزی بھی پیدا ہوتی ہے اور عبادات میں بھی توجہ تبھی قائم رہے گی جب مختلف قسم کی جو لغویات اور فضول باتیں ہیں ان سے بچیں گی۔ اس کے لئے کوشش بھی کریں اور نمازوں میں بھی دعا کریں کہ اے اللہ! ہمیں اور ہماری اولادوں کو اور ہمارے خاوندوں کو ان سے بچا، ان لغویات سے بچا‘‘۔
نیز حضور نے ان لغویات کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا:
’’عورتوں کو خاص طور پر بیٹھ کرباتیں کرنے کی، لغو باتیں کرنے کی زیادہ عادت ہوتی ہے۔ ویسے یہ مردوں کو بھی ہے اس سے بہرحال بچنا چاہئے۔ مثلاً یہ کہ فلاں کے کپڑے ایسے ہیں، فلاں کا گھر ایسا ہے، فلاں کے بچوں کو یہ یہ گندی عادتیں ہیں، فلاں میاں بیوی کے ایسے تعلقات ہیں۔ یہ ساری فضول باتیں ہیں، لغو باتیں ہیں۔ اگر تو واقعی ایسے ہیں تو تمہارا کام یہ ہے کہ دعا کرو۔ اللہ تعالیٰ سے مدد چاہو کہ وہ بھی ہمارے بھائی بند ہیں، وہ بھی ہماری بہنیں ہیں، اللہ تعالیٰ بہتر کرے اور اگر یہ یہ برائیاں ہیں، یہ خامیاں ہیں تو وہ دور ہو جائیں۔ اگر وہ لوگ ایسے نہیں اور یہ باتیں تم صرف باتوں کا مزہ لینے کے لئے کر رہے ہو تو یہ گناہ ہےاور اسلام نے عورت کا جو مقام رکھاہے یا جس مقام کی توقع کی ہے اس کا یہ تقاضا ہے کہ ہر عورت، خاص طور پر ہر احمدی عورت، ان لغویات اور گناہ کی باتوں سے پرہیز کرے‘‘۔ (جلسہ سالانہ جرمنی21اگست 2004ء خطاب از مستورات۔ مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل یکم مئی 2015ء)
زندگی کے ساتھی اور اولاد کے حق میں دعائیں
کامیاب عائلی زندگی گزارنے کیلئے دعاؤں کی اہمیت کے حوالے سے حضور انور ایّدہ اللہ تعالیٰ نے ایک جلسہ سالانہ کے موقع پر خواتین سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا:
’’پس ہر عورت اور مرد کودعاؤں اور اپنی عملی حالت میں کوشش کے ساتھ تبدیلی کر کے حقیقی بیعت کنندگان میں شامل ہونے کا نمونہ دکھانا چاہئے تا کہ اُن لوگوں میں شامل ہوں جو نہ صرف اپنی نیک حالتوں کی فکر میں رہتے ہیں بلکہ اُنہیں اپنی نسلوں کی بھلائی کی بھی فکر رہتی ہے جس کے لئے اللہ تعالیٰ نے یہ دعا سکھلائی ہے کہ:
رَبَّنَا ہَبۡ لَنَا مِنۡ اَزۡوَاجِنَا وَ ذُرِّیّٰتِنَا قُرَّۃَ اَعۡیُنٍ وَّ اجۡعَلۡنَا لِلۡمُتَّقِیۡنَ اِمَامًا (الفرقان:75)
اے ہمارے رب! ہمیں اپنے جیون ساتھیوں اور اولاد کی طرف سے آنکھوں کی ٹھنڈک عطا فرما اور ہمیں متقیوں کا امام بنا دے۔
پس یہ دعا جہاں مردوں کے لئے اہم ہے وہاں عورتوں کے لئے بھی اہم ہے کہ ایک دوسرے کے لئے آنکھوں کی ٹھنڈک بنیں اور جب ایک دوسرے کے لئے آنکھوں کی ٹھنڈک بننے کے لئے دعا کر رہے ہوں گے تو ایک دوسرے کے ساتھ حسنِ سلوک کی طرف بھی نظر ہو گی۔ ایک دوسرے کی برائیوں سے صرفِ نظر ہو گی اور ایک دوسرے کی خوبیوں کی طرف نظر ہو گی۔ میرے پاس بعض دفعہ نئے جوڑے آتے ہیں کہ نصیحت کریں اور جیسا کہ میں نے بتایا کہ آجکل خلع اور طلاق کے حالات بڑے قابلِ فکر حد تک ہیں۔ تو میں اُن کو یہی کہتا ہوں کہ ایک دوسرے کی برائیوں سے صَرفِ نظر کرو اور ایک دوسرے کی خوبیوں پر نظر رکھو۔ اب جو شادیاں ہو گئی ہیں تو ان جوڑوں کو، ان رشتوں کو نبھاؤ اور پھر دعا کرو کہ اللہ تعالیٰ ہمیں ایک دوسرے کے لئے آنکھوں کی ٹھنڈک بنائے۔ جب دعاؤں سے اور کوشش سے یہ کر رہے ہو گے تو انشاء اللہ تعالیٰ رشتے بھی کامیاب ہوں گے۔
جب مرد اور عورت ایک دوسرے کے لئے آنکھوں کی ٹھنڈک ہوں گے تو آئندہ آنے والی نسلیں بھی ماں باپ کے نیک نمونے دیکھ کر ماں باپ کے لئے آنکھوں کی ٹھنڈک بننے کی کوشش کریں گی اور جب خدا تعالیٰ کے حضور مرد اور عورت ایک دوسرے کے لئے اور اپنے بچوں کے لئے آنکھوں کی ٹھنڈک کی دعا کر رہے ہوں گے اور نسل میں سے متقی پیدا ہونے کی دعا کر رہے ہوں گے کہ: وَّ اجْعَلْنَا لِلْمُتَّقِیْنَ اِمَامًا نیک نسل کی دعا ہی ہے۔ کیونکہ ایک گھرانے کا سربراہ ہی اپنے گھر کا امام ہے۔ جویہ کہتا ہے کہ مجھے متقیوں کا امام بنا تواس کا مطلب ہے کہ میری نسل میں سے نیک لوگ ہی پیدا کر۔ پس جب مرد یہ دعا مانگ رہا ہو گاتو وہ اپنی بیوی اور بچوں کے متقی ہونے کی دعا مانگ رہا ہو گا۔ جب عورت دعا مانگ رہی ہوگی تو گھر کے نگران کی حیثیت سے وہ اپنے بچو ں کے متقی ہونے کے لئے دعا مانگ رہی ہو گی اور جب اس شوق کے ساتھ دعا ہو گی تو پھر اپنے آپ کو بھی تقویٰ پر قائم رکھنے کی کوشش ہو گی اور ایسا گھر پھر جنت کا نظارہ پیش کرنے والا گھر ہو گاجس میں بڑے، بچے، سب خدا تعالیٰ کی خوشنودی کے حصول کے لئے کوشش کر رہے ہوں گےاور پھر ایسے ماں باپ کے اس دنیا سے چلے جانے کے بعد یہ بچے اُن کے لئے ثواب کا موجب بھی بن رہے ہوں گے۔ بچوں کی نیک تربیت کا ماں باپ کو ثواب مل رہا ہو گا۔ باپ کو تو ثواب مل رہا ہو گا لیکن ماں کو بھی ثواب مل رہا ہو گا کیونکہ گھر کے نگران کی حیثیت سے ماں ذمہ وار ہے۔ بچوں کی نیکیاں اُن کے درجات کی بلندی کا ذریعہ بن رہی ہوں۔ کون مومن ہے جو ایمان کا دعویٰ کرے اور پھر یہ کہے کہ مرنے کے بعد مجھے درجات کی بلندی کی ضرورت نہیں ہے۔ پس یہ دعا ایک ایسی دعا ہے جو نسلوں کے سدھارنے کے بھی کام آتی ہے اور اپنی اصلاح کے بھی کام آتی ہے اور مرنے کے بعد نیک نسل کی دعاؤں اور اعمال کی وجہ سے درجات کی بلندی کے بھی کام آتی ہےاور پھر اس میں مومن کی شان کی طرف بھی اشارہ ملتا ہے کہ مومن چھوٹی چھوٹی باتوں پر راضی نہیں ہوتا بلکہ ترقی کی منازل کی طرف قدم مارتا ہے۔ اُس کے قدم آگے بڑھتے ہیں۔ متقی خود بھی تقویٰ میں بڑھتا ہے اور اپنی نسل کو بھی تقویٰ میں بڑھانے کی کوشش کرتا ہے۔
پس خوش قسمت ہیں وہ ماں باپ جو اپنے بچوں کی تربیت کی فکر میں رہتے ہیں۔ اُن کو دین کے قریب کرتے ہیں۔ اُن میں خدا تعالیٰ کی محبت پیدا کرتے ہیں اور پھر اپنی حالتوں میں ایک پاک تبدیلی پیدا کر کے اپنی دنیا و عاقبت بھی سنوارتے ہیں۔ پس اس دعا کو بہت شدت سے اور سمجھ کر پڑھنے کی ہر احمدی عورت اور مرد کو ضرورت ہے۔ بہت سے لوگوں کو اولاد سے شکوہ ہوتا ہے کہ اولاد بگڑ گئی۔ اگر نیک تربیت اور دعاؤں کی طرف توجہ ہو تو اللہ تعالیٰ پھر فضل فرماتا ہے۔ اولاد کو اِلَّا مَا شَآ ئَ اللّٰہ بگڑنے سے بچاتا ہے‘‘۔ (جلسہ سالانہ جرمنی، خطاب از مستورات فرمودہ 25جون 2011ء۔ مطبوعہ 13اپریل2012ء)
اسی موضوع پر حضورایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز اپنے ایک اور خطبہ میں فرماتے ہیں : یہ جو اللہ تعالیٰ نے دعا سکھائی ہے کہ
’’ رَبَّنَا ہَبۡ لَنَا مِنۡ اَزۡوَاجِنَا وَ ذُرِّیّٰتِنَا قُرَّۃَ اَعۡیُنٍ وَّ اجۡعَلۡنَا لِلۡمُتَّقِیۡنَ اِمَامًا (الفرقان:75) تواولاد کے قرۃ العین ہونے کے لئے ہمیشہ دعا کرتے رہنا چاہئے۔ تو جب ہر وقت انسان یہ دعا کرتارہے کہ اے اللہ !تو ہم پررحمت کی نظر کر، اور ہم پر رحمت کی نظر ہمیشہ ہی رکھنا، کبھی شیطان کو ہم پر غالب نہ ہونے دینا، ہماری غلطیوں کو معا ف کردینا اور ہم تجھ سے تیری بخشش کے بھی طالب ہیں، ہمارے گناہ بخش اور ہمارے گناہ بخشنے کے بعد ہم پر ایسی نظر کرکہ ہم پھر کبھی شیطان کے چنگل میں نہ پھنسیں اور جب اتنے فضل تُوہم پر کردے تو ہمیں اپنی نعمتوں کا شکرادا کرنے والا بنا، ان کو یاد رکھنے والا بنا اور سب سے بڑی نعمت جو تو نے ہمیں دی ہے وہ ایمان کی نعمت ہے، ہمیشہ ہمیں اس پر قائم رکھ، کبھی ہم اس سے دور جانے والے نہ ہوں اور دعا پڑھتے رہیں۔ رَبَّنَا لَا تُزِغْ قُلُوْبَنَا بَعْدَ اِذْ ہَدَیْتَنَا وَہَبْ لَنَا مِنْ لَّدُنْکَ رَحْمَۃً۔ اِنَّکَ اَنْتَ الْوَہَّابُ (آل عمران:9) اے ہمارے ربّ! ہمارے دلوں کو ٹیڑھا نہ ہونے دے بعد اس کے کہ تو ہمیں ہدایت دے چکا ہواور ہمیں اپنی طرف سے رحمت عطا کر۔ یقیناً تو ہی ہے جو بہت عطا کرنے والا ہے۔ اگر دعاؤں کی طرف توجہ نہیں ہوگی تو شیطان مختلف طریقوں سے، مختلف راستوں سے آکر ورغلاتا رہے گا اور اس سے اللہ تعالیٰ کے فضل اور رحمت کے بغیر نہیں بچا جا سکتا، جیسے کہ میں پہلے بیان کرتا آرہاہوں۔ اللہ تعالیٰ اس سے ہی بات کرتاہے جو پیشگی اس سے دعائیں مانگے اور جس پر اس کی رحمت ہواور یہ رحمت اس وقت اور بھی بہت بڑھ جاتی ہے جب اللہ تعالیٰ کی محبت دل میں پیدا ہوجائے‘‘۔ (خطبہ جمعہ فرمودہ12دسمبر2003ءبمقام مسجد بیت الفتوح، لندن۔ مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل 6فروری2004ء)
حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے جلسہ سالانہ برطانیہکے موقع پر بچوں کی تعلیم و تربیت سے متعلق خاص طور پر نصائح فرماتے ہوئے اس ضمن میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا درج ذیل اقتباس بھی پیش فرمایا :
’’حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں : میری اپنی تو یہ حالت ہے کہ میری کوئی نماز ایسی نہیں ہے جس میں میں اپنے دوستوں اور اولاد اور بیوی کے لئے دعا نہیں کرتا۔ بہت سے والدین ایسے ہیں جو اپنی اولاد کو بری عادتیں سکھا دیتے ہیں۔ ابتداء میں جب وہ بدی کرنا سیکھنے لگتے ہیں تو ان کو تنبیہ نہیں کرتے۔ نتیجہ یہ ہوتاہے کہ وہ دن بدن دلیراور بے باک ہوتے جاتے ہیں۔ ۔ ۔ ۔ یادرکھو کہ اس کا ایمان درست نہیں ہو سکتا جو اَقْرَب تعلقات کو نہیں سمجھتا، جب وہ اس سے قاصر ہے تو اور نیکیوں کی امیداس سے کیاہوسکتی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اولاد کی خواہش کو اس طرح پرقرآن میں بیان فرمایاہے: رَبَّنَا ہَبْ لَنَا مِنْ اَزْوَاجِنَا وَ ذُرِّیّٰتِنَا قُرَّۃَ اَعْیُنٍ وَّ اجْعَلْنَا لِلْمُتَّقِیْنَ اِمَامًا یعنی خدا تعالیٰ تو ہم کو ہماری بیویوں اور بچوں سے آنکھ کی ٹھنڈک عطا فرما دے۔ اور یہ تب ہی میسر آ سکتی ہے کہ وہ فسق و فجور کی زندگی بسرنہ کرتے ہوں بلکہ عبادالرحمن کی زندگی بسرکرنے والے ہوں اور خدا کو ہر شے پرمقدم کرنےوالے ہوں اور آگے کھول کر کہہ دیا وَّ اجْعَلْنَا لِلْمُتَّقِیْنَ اِمَامًا اولاد اگرنیک اور متقی ہو تویہ ان کاامام ہی ہوگا۔ اس سے گویا متقی ہونے کی بھی دعا ہے۔ (ملفوظات جلداول صفحہ 562-563 جدید ایڈیشن) (جلسہ سالانہ یوکے خطاب از مستورات فرمودہ 26جولائی 2003ء۔ مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل 29اگست 2003ء)
والدین میں باہمی محبت اور پیار کے فقدان کا بچوں پر بد اثر
حضورِا نور ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزپُرسکون خانگی زندگی گزارنے کی طرف توجہ دلاتے ہوئے فرماتے ہیں :
’’ میرے ایک جائزے سے یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ جن گھروں میں ماں باپ کا آپس کا محبت اور پیار کا سلوک نہیں ہے اُن کے بچے زیادہ باہر جاکر سکون تلاش کرتے ہیں۔ اس لئے میں ماں باپ سے بھی کہوں گا کہ اپنی ذاتی اناؤں کی وجہ سے اور اپنی ادنیٰ خواہشات کی وجہ سے گھروں کا سکون برباد کرکے اپنی نسلوں کو برباد نہ کریں اور حقیقی طور پر متقیوں کا امام بننے اور اپنی امانتوں کا حق ادا کرنے والے بننے کی کوشش کریں اور اپنے عہد کو اور وعدے کو پورا کریں جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی بیعت میں آکر آپ نے کیا ہے۔ اللہ تعالیٰ سب کو اس کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین‘‘۔ (جلسہ سالانہ جرمنی خطاب مستورات فرمودہ15اگست2009ء۔ مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل 2مئی 2014ء)
السلام علیکم کہنےکی برکات
اپنے ایک خطبہ جمعہ میں حضور انور نے السلام علیکم کہنے کی عادت اور اس کی افادیت پر تفصیل سے روشنی ڈالتے ہوئے یہ بھی ارشاد فرمایا:
’’یہ عمومی حکم بھی ہے کہ جب تم گھروں میں داخل ہو، چاہے اپنے گھروں میں داخل ہو توسلامتی کا تحفہ بھیجو، کیونکہ اس سے گھروں میں برکتیں پھیلیں گی کیونکہ یہ سلامتی کا تحفہ اللہ کی طرف سے ہے جس سے تمہیں یہ احساس رہے گا کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے بھیجے گئے تحفے کے بعد میرا رویہ گھر والوں سے کیسا ہونا چاہئے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
فَاِذَا دَخَلۡتُمۡ بُیُوۡتًا فَسَلِّمُوۡا عَلٰۤی اَنۡفُسِکُمۡ تَحِیَّۃً مِّنۡ عِنۡدِ اللّٰہِ مُبٰرَکَۃً طَیِّبَۃً ؕ کَذٰلِکَ یُبَیِّنُ اللّٰہُ لَکُمُ الۡاٰیٰتِ لَعَلَّکُمۡ تَعۡقِلُوۡنَ۔ (النور:62)
پس جب تم گھروں میں داخل ہو اکرو تو اپنے لوگوں پراللہ کی طرف سے ایک بابرکت پاکیزہ سلامتی کا تحفہ بھیجا کرو۔ اس طرح اللہ تعالیٰ تمہارے لئے آیات کھول کر بیان کرتا ہے تاکہ تم عقل کرو۔ ایسے گھروں میں رہنے والے جب ایک دوسرے پر سلامتی کا تحفہ بھیجتے ہیں تو یہ سوچ کر بھیج رہے ہوں گے کہ یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے تحفہ ہے۔ تو آپس کی محبتوں میں اضافہ ہو گا اور ایک دوسرے کے جذبات کا خیال رکھنے کی طرف زیادہ توجہ پیدا ہو گی۔ گھر کے مرد سے، اس کی سخت گیری سے، اگر وہ سخت طبیعت کا ہے تو اس سلامتی کے تحفے کی وجہ سے، اس کے بیوی اور بچے محفوظ رہیں گے۔ اس معاشرے میں خاص طور پر اور عموماً دنیا میں باپوں کی ناجائز سختی اور کھردری(سخت) طبیعت کی وجہ سے، بعض دفعہ بچے باغی ہو جاتے ہیں، بیویاں ڈری سہمی رہتی ہیں اور پھر ایک وقت آتا ہے کہ باوجود سالوں ایک ساتھ رہنے کے میاں بیوی کی علیحدگیوں تک نوبت آجاتی ہے، علیحدگیاں ہو رہی ہوتی ہیں، بچے بڑے ہو جاتے ہیں۔ خاندانوں کو ان کی پریشانی علیحدہ ہو رہی ہوتی ہے۔ تو اس طرح اگر سلامتی کا تحفہ بھیجتے رہیں تو یہ چیزیں کم ہوں گی۔ اسی طرح جب عورتیں سلامتی کا پیغام لے کر گھروں میں داخل ہوں گی تو اپنے گھروں کی نگرانی صحیح طور پر کر رہی ہوں گی اور اپنے خاوندوں کی عزت کی حفاظت کرنے والی ہوں گی۔ جب بچوں کی اس نہج پر تربیت ہو رہی ہو گی تو جوانی کی عمر کو پہنچنے کے باوجود اپنے گھر، ماں، باپ اور معاشرے کے لئے بدی کا باعث بننے کی بجائے سلامتی کا باعث بن رہے ہوں گے‘‘۔ (خطبہ جمعہ فرمودہ 25مئی2007ءبمقام بیت الفتوح لندن۔ مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل 15جون2007ء)