عائلی مسائل اور اُن کا حل
پرسکون عائلی زندگی کیلئےپُرحکمت تعلیم
صبر اور حوصلہ
4ستمبر2004ء جلسہ سالانہ سوئٹزرلینڈ کے موقعہ پر حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اپنے خطاب میں مردوں اور عورتوں کو اُن کے مذہبی فرائض کی طرف توجہ دلائی۔ اس ضمن میں گھریلو مسائل سے متعلق حضور انور بنصرہ العزیزنے ارشاد فرمایا:
’’پھر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ مومن کی یہ بھی نشانی ہے کہ وہ صبر سے کام لیا کریں۔ زندگی میں بہت سے مواقع آتے ہیں کاروبار میں نقصان ہو گیا، چوری ہو گئی، ڈاکہ پڑ گیا وغیرہ وغیرہ۔ یا بعض دفعہ خاوند کے مالی حالات ٹھیک نہیں ہیں۔ عورت کی ضرورت کے مطابق اس کو رقم مہیا نہیں ہو رہی تو شور مچا دیتی ہیں بعض عورتیں واویلا کرتی ہیں، خاوندوں کے ساتھ لڑنا جھگڑنا شروع کر دیتی ہیں۔ اپنی ڈیمانڈز بعض دفعہ اتنی زیادہ بڑھا لیتی ہیں کہ خاوند کو گھر میں خرچ برداشت کرنا مشکل ہو جاتا ہے۔ میں یہ نہیں کہہ رہا کہ ہر دفعہ خاوند ہی صحیح ہوتے ہیں اور عورتیں ہی غلط ہوتی ہیں۔ عورتیں بھی صحیح ہوتی ہیں بعض جگہ۔ لیکن ان عورتوں کے بارے میں کہہ رہا ہوں جن کی اکثریت ایسی ہے جو ڈیمانڈز کرتی ہیں۔ تو اس سے ہر وقت گھروں میں لڑائی جھگڑا فساد تُو تکارہوتی رہتی ہے۔ یا پھر یہ ہے کہ خاوند اِن کے ناجائز مطالبات کی وجہ سے جب کبھی رستے سے اکھڑ جاتے ہیں ایسی صورت میں جب لڑائی ہو رہی ہو تُو تکار ہو رہی ہو تو وہ پھر ایسے خاوند بھی ہیں کہ بیویوں پر ظلم کرنا شروع کر دیتے ہیں۔ یا خاوند اپنی بیویوں کے ان مطالبات کو ماننے کی وجہ سے، انہیں پورا کرنے کے لئے، قرض لینا شروع کر دیتے ہیں اور پھر سارا گھر ایک وبال میں گرفتار ہو جاتا ہے۔ خاوند سے قرض خواہ جب قرض کا مطالبہ کرتے ہیں وہ ان سے ٹال مٹول کر رہا ہوتا ہے۔ پھر ایک اور جھوٹ شروع ہو جاتا ہے اور جب وہ ادا نہیں کرتا تو پھر خاوند کی چڑ چڑاہٹ شروع ہو جاتی ہے۔ پھر بچوں پہ سختیاں شروع ہو جاتی ہیں۔ بچے ڈسٹرب ہو رہے ہوتے ہیں۔ تو ایک شیطانی چکر ہے جو بعض ناجائز مطالبات کی وجہ سے، صبر کا دامن چھوڑنے کی وجہ سے چل جاتا ہے اور پھر یہ ہوتاہے کہ بچے ایک عمر کے بعد ایسے گھروں میں، گھر سے باہر سکون کی تلاش کرتے ہیں اور پھر ماں باپ کی تربیت سے بھی جاتے ہیں۔ پھر برائیاں پیدا ہونی شروع ہوتی ہیں اور جب ماں باپ کو ہوش آتی ہے تو اس وقت، وقت گزر چکا ہوتا ہے۔ اس لئے فرمایا کہ ایمان کی مضبوطی تبھی قائم ہو گی جب صبر کی عادت بھی ہو گی‘‘۔ (جلسہ سالانہ سوئٹزرلینڈ خطاب ازمستورات فرمودہ 04؍ ستمبر 2004ء۔ مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل 07؍جنوری 2005ء)
شکر گزاری
حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزنے 17ستمبر2011ء کو لجنہ اماء اللہ جرمنی کے سالانہ اجتماع کے موقعہ پر عورتوں سے مخاطب ہو کر فرمایا:
’’پھر شکر کی عادت ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے تم اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرو وہ تمہیں اور دے گا۔ تمہارے پر نعمتوں کو بڑھاتا چلا جائے گا۔ پس اپنی گھریلو زندگی میں بھی اُس کا شکر ادا کریں۔ اپنے خاوندوں کی کمائی دیکھیں۔ اُن کے اندر خرچوں میں رہ کے گزارہ کریں، گھر چلائیں، اُس کا شکر ادا کریں۔ خاص طور پر بعض نئی شادی شدہ لڑکیوں کے بعض مسائل مجھے آ جاتے ہیں۔ کہاں تک یہ صحیح ہے یا غلط ہے لیکن لڑکا لڑکی پرالزام لگا رہا ہوتا ہے اور لڑکی لڑکے پر۔ لڑکے کا الزام یہ ہوتا ہے کہ اس کا مطالبہ بہت زیادہ ہے اور بعض دفعہ یہ صحیح ثابت ہوتا ہے کہ لڑکیاں کہتی ہیں کہ یہ ہماری ڈیمانڈ پوری نہیں کرتا۔ یہ ہر مہینے یا ہر ہفتے ہمیں بیوٹی پارلر نہیں لے کے جاتا۔ بیوٹی پارلر جانا تو ایک احمدی عورت کا یا احمدی لڑکی کا مقصد نہیں ہے۔ اگر کسی کے پاس توفیق نہیں ہے تو کس طرح لے جاسکتا ہے؟ اپنی حدوں کے اندر رہ کر گزارہ کریں تو تبھی رشتے قائم رہ سکتے ہیں۔ پھر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ تم شکر کرو گے تو میں تمہیں بڑھاؤں گا۔ ہر نیا جوڑا جو اپنی نئی زندگی شروع کرتا ہے اُس کی ابتدا تھوڑے سے ہی ہوتی ہے اور پھر اللہ تعالیٰ فضل فرماتا ہے اور آہستہ آہستہ جوں جوں زندگی گزرتی ہے تجربہ حاصل ہوتا ہے مردوں کی آمدنیاں بھی بڑھتی رہتی ہیں اور وسائل بھی پیدا ہوتے رہتے ہیں۔ پس یہ نوجوان لڑکیوں کو خاص طور پر میں کہتا ہوں کہ صبر اور حوصلے اور شکر کی عادت ڈالیں گی تو انشاء اللہ تعالیٰ آپ کے رشتے بھی قائم رہیں گے اور اللہ تعالیٰ کے فضلوں کی بھی وارث بنتی چلی جائیں گی اور اُن لوگوں میں شمار ہوں گی جن کو پھر اللہ تعالیٰ پیار کی نظر سے دیکھتا ہے۔ اپنے عہد پورے کرنے والی ہوں گی‘‘۔ (لجنہ اماء اللہ جرمنی کے سالانہ اجتماع کے موقع پر خطاب فرمودہ 17 ستمبر 2011ء۔ مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل 16؍نومبر 2012ء)
اس ضمن میں حضور انور ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے ایک اور موقع پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا درج ذیل اقتباس بھی پیش فرمایا اور اس کی وضاحت فرمائی:
’’خاوندوں سے وہ تقاضے نہ کرو جو ان کی حیثیت سے باہر ہیں۔ کوشش کرو کہ تا تم معصوم اور پاک دامن ہونے کی حالت میں قبروں میں داخل ہو۔ خدا کے فرائض نماز، زکوٰۃ وغیرہ میں سستی مت کرو‘‘۔
اب نماز بھی فرض ہے ہر ایک پہ، نماز ادا کرنی چاہئے اور یہی میں نے پہلے بھی کہا کہ عملی نمونہ ہوگا تو بچے بھی دیکھ کر اس طرف توجہ دیں گے۔ پھر زکوٰۃ ہے ہر عورت کے پاس زیور ہوتا ہے اس کاجائزہ لے کر شرح کے مطابق زکوۃ دینے کی طرف بھی کوشش کرنی چاہئے۔ حضرت مسیح موعودؑ نے فرمایا کہ:’’ اپنے خاوندوں کی دل و جان سے مطیع رہو۔ ان کی اطاعت کرتی رہو۔ بہت سا حصہ ان کی عزت کا تمہارے ہاتھ میں ہے۔ یعنی خاوندوں کی عزت کا بہت حصہ تمہارے ہاتھ میں بھی ہے۔ سو تم اپنی اس ذمہ داری کو ایسی عمدگی سے ادا کرو کہ خدا کے نزدیک صالحات، قانتات میں گنی جاؤ‘‘۔ (کشتی ٔنوح۔ روحانی خزائن جلد 19 صفحہ80-81) (جلسہ سالانہ ہالینڈ خطاب از مستورات فرمودہ 30؍جون 2004ء مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل 22؍جولائی 2005ء)
خاوند سے کامل وفا اور استغفار کی ترغیب
حضور ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے جلسہ سالانہ جرمنی 2003ءکے موقع پر احمدی خواتین سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا:
’’بعض عورتوں کی یہ عادت ہوتی ہے کہ بعض دفعہ حالات خراب ہوجاتے ہیں، مرد کی ملازمت نہیں رہی یا کاروبار میں نقصان ہوا، وہ حالات نہیں رہے، کشائش نہیں رہی تو ایک شور برپا کر دیتی ہیں کہ حالات کا رونا، خاوندوں سے لڑائی جھگڑے، انہیں برا بھلا کہنا، مطالبے کرنا۔ تو اس قسم کی حرکتوں کا نتیجہ پھر اچھا نہیں نکلتا۔ خاوند اگر ذرا سا بھی کمزور طبیعت کا مالک ہے تو فوراً قرض لے لیتا ہے کہ بیوی کے شوق کسی طرح پورے ہوجائیں اور پھر قرض کی دلدل ایک ایسی دلدل ہے کہ اس میں پھر انسان دھنستا چلا جاتا ہے۔ ایسے حالات میں کامل وفا کے ساتھ خاوند کا مددگار ہونا چاہئے، گزارا کرناچاہئے‘‘۔
نیز یہ بھی فرمایا:
’’ذرا سی بات پر شور شرابہ کرنے والی عورتوں کو یہ حدیث بھی ذہن میں رکھ کر استغفار کرتے رہنا چاہئے۔ حضرت ابنِ عباسؓ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرتﷺ نے فرمایا :مجھے آگ دکھائی گئی تو میں کیا دیکھتا ہوں کہ اس میں داخل ہونے والوں کی اکثریت عورتوں کی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ کفر کا ارتکاب کرتی ہیں۔ عرض کیا گیا کہ کیا وہ اللہ کا انکار کرتی ہیں ؟ آپﷺ نےفرمایا: نہیں، وہ احسان فراموشی کی مرتکب ہوتی ہیں۔ اگر تو اُن میں سے کسی سے ساری عمر احسان کرے اور پھر وہ تیری طرف سے کوئی بات خلاف طبیعت دیکھے تو کہتی ہے میں نے تیری طرف کبھی کوئی بھلائی نہیں دیکھی۔ (صحیح بخاری کتاب الایمان باب کفران العشیروکفر دون کفر فیہ)
دعاؤں، صدقات اور توبہ استغفار سےمشکل حالات کا مقابلہ
خانگی مشکلات کی صورت میں احمدی خواتین کو نصیحت کرتے ہوئے حضور ایّدہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
’’پھر بعض عورتوں کو اپنے گھروں اور سسرال کے حالات کی وجہ سے شکوے پیدا ہوجاتے ہیں۔ بے صبری کا مظاہرہ کر رہی ہوتی ہیں اور بعض دفعہ تکلیف بڑھنے کے ساتھ ردِّ عمل بھی اِس قدر ہوجاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی طرف بھی شکوے پیدا ہوجاتے ہیں۔ تو بجائے شکووں کو بڑھانے کے اللہ تعالیٰ سے دُعا مانگتے ہوئے مسائل کو حل کرنے کی کوشش کرنی چاہئے۔ ٹھیک ہے میرے علم میں بھی ہے بعض دفعہ خاوندوں کی طرف سے اس قدر زیادتیاں ہوجاتی ہیں کہ ناقابلِ برداشت ہوجاتی ہیں۔ تو ایسی صورت میں نظام سے، قانون سے رجوع کرنا پڑتا ہے۔ لیکن اکثر دعا، صدقات اور رویّوں میں تبدیلی سے شکوے کی بجائے اُس کی مدد مانگنے کے لئے اُس کی طرف مزید جُھکنا چاہئے۔ آنحضرتﷺ نے ایک موقعہ پر فرمایا:اے عورتوں کے گروہ! صدقہ کیاکرو اور کثرت سے استغفار کیا کرو ‘‘۔ (صحیح مسلم۔ کتاب الایمان، باب بیان نقصان الایمان بنقص الطاعات) (جلسہ سالانہ جرمنی خطاب ازمستورات فرمودہ 23؍اگست 2003ء۔ مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل18نومبر2005ء)
25 جون 2011ء کوجلسہ سالانہ جرمنی میں مستورات سےخطاب کرتے ہوئےحضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :
’’پس توبہ استغفار سے ہمیں اپنے اعمال کو بہتر کرنے کی ضرورت ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اس مضمون کی طرف توجہ دلاتے ہوئے فرماتا ہے کہ: وَ مَنْ تَابَ وَ عَمِلَ صَالِحًا فَاِنَّہٗ یَتُوْبُ اِلَی اللّٰہِ مَتَابًا (الفرقان:72) اور جو توبہ کرے اور نیک اعمال بجا لائے وہی ہے جو حقیقی مومن ہوتا ہے۔
پس حقیقی توبہ صرف زبانی توبہ نہیں ہے بلکہ اعمالِ صالحہ کے ساتھ اُس کو سجانے کی ضرورت ہے۔ اب جس نے حقیقی توبہ کی ہے وہ ہمیشہ اپنی غلطیوں اور کوتاہیوں کو سامنے رکھے گی۔ اس لئے کہ یہ بات اُس عمل سے اسے کراہت دلوائے گی، نفرت پیدا کرے گی اور جب کراہت پیدا ہو گی تو پھر اللہ تعالیٰ کی رضا کے حصول کے لئے صدقہ اور خیرات کی طرف توجہ ہو گی۔ وہ عمل جو خدا تعالیٰ کو نا پسندیدہ ہیں کبھی نہ کرنے کا وہ عہد بھی کرے گی۔ پھر بعض لوگ ہیں، بعض عورتیں ہیں اپنی بعض رنجشوں میں مثلاً اُن کی یہ عادت ہوتی ہے کہ دوسروں کونقصان پہنچانے کی کوشش کرتے ہیں یا کوشش کرتی ہیں۔ دلوں میں کینہ اور بُغض پنپتے رہتے ہیں۔ حقیقی توبہ یہ ہے کہ جن سے رنجشیں ہیں اُن سے نہ صرف صلح کرو بلکہ اُن کے نقصان کا ازالہ کرواور یہ ازالہ جب توبہ کے ساتھ ہو گا تو وہی نیک عمل ہو گا، وہی عملِ صالح ہو گا۔
بعض خاوند، بیویاں، ساس، بہوئیں، نندیں، بھابیاں مجھے تو خط لکھ دیتی ہیں کہ ہم سے غلطی ہو گئی اور ہم آئندہ ایسا کریں گی یا نہیں کریں گی لیکن جن کو نقصان پہنچایا ہوتا ہے یا جس کو نقصان پہنچانے کی کوشش ہوتی ہے، اس سے نہ معافی مانگتی ہیں نہ اظہارِ ندامت کرتی ہیں۔ بہر حال اس طرف عورتوں کو بھی توجہ دینے کی ضرورت ہے اور مردوں کو بھی، کیونکہ مردوں کا بھی یہی حال ہے۔ دنیاوی لالچیں اس طرح غالب آ جاتی ہیں کہ خدا کا خوف بالکل ختم ہو جاتا ہے۔ بعض دفعہ بعض لوگ ظاہری طور پر تو معذرت بھی کر لیتے ہیں لیکن بُغض اور کینہ جیسا کہ میں نے کہا اندر ہی اندر پک رہے ہوتے ہیں اور جب بھی موقع ملے پھر نقصان پہنچانے کی کوشش ہوتی ہے۔
اللہ تعالیٰ نے حقیقی توبہ کو نیک عمل کے ساتھ مشروط کر دیا ہے، کہ اگر نیک عمل ہوگا تو حقیقی توبہ ہو گی۔ اگر کسی غلطی کا مداوا اور ازالہ ہو گا تو پھر ہی توبہ قبول ہو گی اور جب یہ ہو تو پھر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک ایسے لوگ حقیقی رنگ میں اللہ تعالیٰ کی طرف جھکنے والے ہیں۔ اس بارے میں اور جگہ بھی اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے۔ پس ہمیں ایسی توبہ اور استغفار کی ہر وقت تلاش رہنی چاہئے جو حقیقی توبہ ہو۔ جیسا کہ میں نے کہا اللہ تعالیٰ ایک جگہ فرماتا ہے: وَ اِنِّیْ لَغَفَّارٌ لِّمَنْ تَابَ وَ اٰمَنَ وَ عَمِلَ صَالِحًا ثُمَّ اہْتَدٰی(طٰہٰ:83)
اور یقینا میں بہت بخشنے والا ہوں اُسے جو توبہ کرے اور ایمان لائے اور نیک عمل بجا لائے پھر ہدایت پر قائم رہے۔ اب یہاں فرمایا کہ ہدایت پر قائم رہے۔ پس مزید واضح کر دیا کہ توبہ کے ساتھ عملِ صالح ضروری ہے اور یہاں عملِ صالح کی مزید ہدایت فرما دی اور تلقین فرما دی کہ کوئی غلط فہمی نہ رہے کہ میں نے خود آگے بڑھ کر صلح کر لی ہے بلکہ فرمایا کہ یہ جو ہدایت کا کام تم نے کیا ہے اگر یہ تمہارے نزدیک عملِ صالح ہے تو یہ ایک دفعہ کا عمل نہیں ہے کہ توبہ کر لی اور میں نے صلح کر لی اور معافی مانگ لی، بلکہ پھر اس پر ہمیشہ کے لئے قائم بھی رہنا ہےاورہدایت پریہ قائم رہنا تمہیں پھر خدا تعالیٰ کا قرب دلائے گا۔
پس دل صاف ہونے کا دعویٰ تبھی قابلِ قبول ہے جب اس پر قائم بھی ہو اور ہدایت پر نہ صرف قائم ہو بلکہ پھر ہر عورت کی، ہر مرد کی، ہر احمدی کی عملِ صالح ایک پہچان بن جائے اور یہ پہچان دوسروں کے لئے بھی سبق اور نمونہ ہو۔ اب ہر کوئی اپنے دل کو ٹٹول کر دیکھ سکتا ہے۔ کیونکہ اگر حقیقت میں دل کو ٹٹولا جائے تو اپنے ضمیر کا فیصلہ سب سے اچھا فیصلہ ہوتا ہے بشرطیکہ دل صاف ہو، بشرطیکہ خدا تعالیٰ کا خوف ہو کہ کیا میری توبہ حقیقی ہے؟ کیا میراعملِ صالح اللہ تعالیٰ کی رضا کے حصول کے لئے ہے؟ اور اگر ہے تو کیا میں خالصتاً لِلہ اب نیکیوں کو اختیارکرنے اور برائیوں کو چھوڑنے پر سختی سے قائم ہوں ؟ کچھ عرصے کے بعد جب آدمی جائزہ لیتا ہے تو پتہ لگ جاتا ہے کہ قائم ہوں کہ نہیں ہوں ‘‘۔ (جلسہ سالانہ جرمنی خطاب ازمستورات فرمودہ 25؍جون2011ءمطبوعہ الفضل انٹرنیشنل 13؍ اپریل 2012ء)
عائلی زندگی میں زبان، کان اور آنکھ کا اہم کردار
حضور انور ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں :
’’عائلی جھگڑوں میں دیکھا گیا ہے کہ زبان، کان، آنکھ جو ہیں بہت بڑا کردار ادا کرتے ہیں۔ مرد ہیں تو وہ ان کا صحیح استعمال نہیں کرتے۔ عورتیں ہیں تو وہ ان کا صحیح استعمال نہیں کر رہیں۔ میں نے پہلے بھی بتایا تھا کہ میں اکثر اُن جوڑوں کو جو کسی نصیحت کے لئے کہتے ہیں یہ کہا کرتا ہوں کہ ایک دوسرے کے لئے اپنی زبان، کان، آنکھ کا صحیح استعمال کرو تو تمہارے مسائل کبھی پیدا نہیں ہوں گے۔ زبان کا استعمال اگر نرمی اور پیار سے ہو تو کبھی مسائل پیدا نہ ہوں۔ اسی طرح اب عموماً دیکھا گیا ہے چاہے وہ مرد ہیں یا عورتیں ہیں، جب مقدمات آتے ہیں، جھگڑے آتے ہیں تو یہ مرد یا عورت کی زبان ہے جو ان جھگڑوں کو طول دیتی چلی جاتی ہےاور ایک وقت ایسا آتا ہے جب پھرانہوں نے فیصلہ کر لیا ہوتا ہے یا فیصلہ کرنے کی طرف جاتے ہیں کہ ہم اکٹھے نہیں رہ سکتے۔ اسی طرح دونوں طرف کے رحمی رشتوں یا دوسری ایسی باتوں کو جن کے سننے سے کسی قسم کی بھی تلخی کا احتمال ہو اُن سے اپنے کان بند کر لو۔ بعض دفعہ اگر ایک شخص یا ایک فریق کوئی غلط بات کرتا ہے تو دوسرا بھی اُس کو اسی طرح تُرکی بہ تُرکی جواب دیتا ہے۔ اگر جھگڑے کو ختم کرنے کے لئے تھوڑے وقت کے لئے کان بند کرلئے جائیں تو بہت سارے مسائل وہیں دب سکتے ہیں سوائے اس کے کہ وہ مرد یا عورتیں عادی جھگڑنے والے ہوں اُن کے علاوہ عموماً جھگڑے نہیں ہوتے۔ پس کان بند کرو، امن میں آ جاؤ گے۔
میں ایک واقعہ بتایا کرتا ہوں اور یہ سچا واقعہ ہے کہ ایک خاوند اور بیوی جھگڑا کر رہے تھے۔ ایک چھوٹی بچی اُن کو دیکھ رہی تھی اور بڑی حیران ہو کر دیکھ رہی تھی۔ تھوڑی دیر بعد اُن دونوں کو خیال آیا کہ ہم غلط کام کر رہے ہیں۔ اپنی شرمندگی مٹانے کے لئے ویسے ہی بچی سے پوچھا کہ کیا تمہارے ماں باپ نہیں لڑتے، اُمی ابا نہیں لڑتے یا ایک دوسرےسے سختی سے نہیں بولتے؟ یا ناراض نہیں ہوتے؟ اُس نے کہا ہاں۔ اگر میرے باپ کو غصہ آتا ہے تو میری ماں خاموش ہو جاتی ہے اور ماں کو غصہ آتا ہے تو باپ خاموش ہو جاتاہے تو ہمارے ہاں لڑائی آگے نہیں بڑھتی۔ تو پھر اس سے یہ نیک اثر بھی بچوں پر پڑتاہے۔ ایک دوسرے کی برائیوں کو دیکھنے کے لئے آنکھیں بند رکھو اور ایک دوسرے کی اچھائیاں دیکھنے کے لئے اپنی آنکھیں کھلی رکھو۔ آخر ہر شخص میں چاہے وہ عورت ہے یا مرد ہے اچھائیاں بھی ہوتی ہیں، برائیاں بھی ہوتی ہیں۔ میں نے دیکھا ہے عموماً مرد پہل کرتے ہیں کہ اُن کو عورتوں کی برائیاں نظر آنی شروع ہو جاتی ہیں اور پھر جواباً جب عورتیں برائیاں تلاش کرنا شروع کرتی ہیں تو اتنی دور تک نکل جاتی ہیں کہ پھر واپسی کے راستے نہیں رہتے۔ پھر ایسی ناجائز چیزوں کی طرف آنکھ اُٹھا کربھی نہیں دیکھنا چاہئے جن سے تمہارے تقویٰ پر حرف آتا ہو۔ پھر گھر کے مسائل جن سے آپس کے اعتماد کو ٹھیس لگتی ہے اگر آنکھوں کی پاکیزگی رکھو تو پھر یہ ٹھیس نہیں لگتی اور یہ مسائل ختم ہو جاتے ہیں۔ پھر اپنے دل کو ناجائز باتوں کی آماجگاہ نہ بننے دو۔ اس کو اللہ تعالیٰ کے خوف سے بھرے رکھو تو پھر کبھی مسائل نہیں پیدا ہوتے۔ کبھی شیطان چور دروازے سے دل میں داخل ہو کر گھروں میں فساد نہیں کرتا۔ شیطان کوئی ایسی شخصیت نہیں ہے جس کا پتہ لگ جائے کہ کس طرح آیا ہے؟ہر بُری صحبت، ہر بُرا دوست جو تمہارے گھر کو برباد کرنے کی کوشش کرے، جو خاوند کے خلاف یا ساس کے خلاف یا نند کے خلاف یا خاوند کو بیوی کے خلاف بھڑکانے کی کوشش کرے، یا کوئی ایسی چھوٹی سی بات کر دے جس سے دل میں بے چینی پیدا ہو جائے تو وہ شیطان ہے۔ پس ایسے شیطانوں کا خیال رکھنا ہر مومنہ اور مومن کا فرض ہےاور پھر جب یہ اعتماد قائم ہو جاتا ہے تبھی اس بندھن کی جو بنیاد ہے وہ مضبوط ہو جاتی ہے۔ اگر یہ اعتماد ختم ہو جائے تو وہی محل جو پیار اور محبت کے عہد کے ساتھ تعمیر کیا گیا ہوتا ہے زمین بوس ہو جاتا ہے بلکہ کھنڈر بن جاتا ہے‘‘۔ (جلسہ سالانہ برطانیہ ۲۳ جولائی ۲۰۱۱ء۔ مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل ۴؍مئی ۲۰۱۲ء)
فرمانبردار بیوی اور متقی خاوند
گھروں کو جنت نظیر بنانے کے حوالے سےحضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :
’’آنحضرتﷺ نےفرمایا کہ دنیا سامانِ زیست ہے یعنی دنیا جو ہے اس زندگی کا سامان ہے اور نیک عورت سے بڑھ کر کوئی سامانِ زیست نہیں ہے۔ کوئی نیک عورت ہو تو اس سے بڑھ کر دنیا کاکوئی سامان بہترین نہیں ہے۔ پس اس میں جہاں مردوں کو توجہ دلائی کہ نیک عورت سے شادی کرو، وہاں عورت کے لئے بھی غور کا مقام ہے کہ اپنی زندگی کو اس طرح ڈھالنے کی کوشش کریں جس طرح خدا تعالیٰ اور اس کے رسول چاہتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کے رسولﷺ نے بہترین بیوی کی کیا تعریف فرمائی ہے، فرمایا جو خاوند کے کام کو خوشی سے بجا لائے اور جس سے روکے، اس سے رُک جائے۔ اگر خاوند میں تقویٰ نہ ہو تو یہ بہت مشکل بات ہے لیکن پھر بھی گھروں کو بچانے کے لئے رشتوں کو بچانے کے لئے جس حد تک ہوسکے کوشش کرتے رہنا چاہئے۔ حتّی الوسع جھگڑوں کو ختم کرنے کے لئے یہ کوشش کرنی چاہئے۔ تقویٰ پر چلنے والے جس گھر کی آنحضرتﷺ نے تعریف فرمائی ہے اور اُس کے لئے پھر رحم کی دعا مانگی ہے وہ وہ گھر ہے جس میں رات کوخاوند نوافل کی ادائیگی کے لئے اٹھے اور اپنی بیوی کو بھی جگائے، اگر گہری نیند میں ہے تو پانی کا ہلکا سا چھینٹا دے۔ اسی طرح اگر عورت پہلے جاگے تو یہی طریق خاوند کوجگانے کے لئے اختیار کرے اور جب ایسے گھروں میں خاوند بیوی کے نوافل کے ذریعے راتیں اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کے لئے جاگیں گی تو وہ گھر حقیقتاً جنت نظیر ہوں گے۔
ایک جھگڑا میرے پاس آیا۔ مرد کے ظلم کی وجہ سے رشتہ ٹوٹنے لگا تھا۔ اُس عورت کے چار پانچ بچے بھی تھے۔ میں نے سمجھایا کچھ اصلاح ہوئی لیکن پھر مرد نے ظلم شروع کر دیا۔ پھر عورت نے خلع کی درخواست دے دی۔ آخر پھر دعا اور سمجھانے سے اللہ تعالیٰ نے فضل فرمایا اور ان دونوں کی صلح ہوگئی اور اب فجر کی نماز جب مسجد میں پڑھنے آتے ہیں اور جب میں اُن کو جاتے ہوئے دیکھتا ہوں تو بڑی خوشی محسوس ہوتی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اِن کو عقل دی اور انہوں نے اپنے بچوں کی خاطر دوبارہ اپنے رشتے جوڑ لئے۔ تو عورت کو اور مرد کو ہمیشہ یہ خیال رکھناچاہئے کہ صرف اپنے جذبات کو نہ دیکھیں بلکہ بچوں کے جذبات کو بھی دیکھیں۔ اُن کا بھی خیال رکھیں ‘‘۔ (سالانہ اجتماع لجنہ اماء اللہ یوکے فرمودہ 4؍اکتوبر۲۰۰۹ء۔ مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل ۱۸؍دسمبر ۲۰۰۹ء)