لباس التقویٰ
آدابِ طعام
اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں مختلف مقامات پر متوازن جسمانی غذا کی تعلیم دی ہے تاکہ اس کا روحانیت پر مثبت اثر ہو۔ فرمایا:
کُلُوْاوَاشْرَبُوْا وَلَاتُسْرِفُوْا اِنَّہ‘ لَا یُحِبُّ الْمُسْرِفِیْنَo (الاعراف: ۳۲)
کھاؤ اور پیو لیکن ضائع مت کرو۔ یقینا اللہ تعالیٰ حد سے بڑھنے والوں کو پسندنہیں کرتا۔
ہمارے پیارے مذہب اسلام کی بے شمار خوبیوں میں سے ایک خوبی یہ بھی ہے کہ اس نے زندگی کے ہر پہلو پر بلا کسی جھجک کے روشنی ڈالی ہے۔ تا کہ انسان بالآخر انسانِ کامل کا درجہ حاصل کرلے۔ ان روز مرہ پہلوؤں میں ایک پہلو کھانا کھانے کے آداب سے بھی تعلق رکھتا ہے، جس پر کوئی خاص توجہ نہیں دی جاتی مگر یہ حقیقت ہے کہ اس غذا کا اثر ہماری روح اور عادات پر بھی پڑتا ہے۔ اسی لئے ہمارے پیارے نبیﷺ نے ہما رے سا منے اپنے قول اور عمل سے آدا بِ طعام کو بھی ملحو ظ خا طر رکھنے کی نصیحت فرمائی ہے۔ جن میں سب سے اول جس بات کا خیال رکھنے کی تاکید فرمائی وہ یہ ہے کہ
اِذَا اَکَلَ اَحَدُکُمْ فَیَذْکُرِاسْمَ اللّٰہِ تَعَالَی فَانْ نَسِیَ اَنْ یَّذْکُرِاسْمَ اللّٰہِ تَعَا لَی فِیْ اَوَّ لِہ فَلْیَقُلْ بِسْمِ اللّٰہِ اَوَّلَہٗ وَ اٰ خِرَہٗ۔ (ترمذی کتاب الاطعمۃ) جب تم میں سے کوئی شخص کھانا کھانے لگے تو پہلے اللہ تعالی کا نام لے یعنی بسم اللہ پڑھے اگر شروع میں بھول جائے تو یا د آنے پر بِسْمِ اللّٰہِ اَوَّلَہٗ وَ اٰ خِرَہٗ پڑ ھ لے۔
اللہ تعالی کا نام پڑھ لینے کے بعد آداب طعام سے متعلق مختلف احادیث سے جو ہمیں احکا مات ملتے ہیں اُ ن میں سے چند ایک مندرجہ ذیل ہیں۔
۱۔ کسی چیز سے متعلق شک ہو کہ اس پر تکبیر پڑ ھی گئی ہے یا نہیں تو اللہ کا نام لے کراُسے کھا یا جاسکتا ہے۔
۲۔ کھانا دائیں ہا تھ سے کھا یا جائے اور اپنے سا منے سے کھا یا جائے۔
۳۔ کھانا اتنا ہی ڈ الا جائے جتنا کھا نا ہو اور بعد میں دُ عا بھی پڑ ھی جائے۔
۴۔ کھانا کھا نے سے پہلے اور بعد میں ہا تھ دھوئے جائیں۔
۵۔ پانی پیتے وقت بیٹھ جا نا چا ہئے اور تین سا نسوں میں پینا چا ہئے۔
کھانا کھانے وقت ایک اور ضروری امر یہ ہے کہ ہمیں اتنا ہی نوالہ منہ میں ڈ النا چاہئے کہ ہم بات چیت کر سکیں اور دیکھنے والے کو بھی بر انہ لگے۔ اس کے سا تھ سا تھ ہمیں اُ س حد یث پر عمل کر نا چاہئے کہ جس میں فر مایا گیا ہے کہ کھانا کچھ بھو ک رکھ کر کھانا چاہئے۔ تا کہ بعد میں چلنے پھرنے اور اسے ہضم کرنے میں اُ لجھن نہ ہو
اسی طرح ایک اور ضروری امر کھانے کا انتخاب بھی ہے۔ مثلا صر ف گو شت کھانے سے انسا ن کی طبیعت میں وحشت اور ہر وقت سبزیاں کھانے سے سستی اور کاہلی سرایت کر جاتی ہے۔ اس مو ضوع پر حضرت مسیح مو عو دؑ نے سیر حا صل بحث اپنی تصنیفِ لطیف ’’اسلامی اصولوں کی فلا سفی‘‘ میں بیا ن فرمائی ہے۔
حضرت مسیح موعودؑ جسمانی طہار توں، جسما نی آداب اور جسمانی تعدیل کے بارہ میں فرماتے ہیں۔
’’واضح ہو کہ قر آن شریف کی رو سے انسان کی طبعی حا لتوں کو اس کی اخلا قی اور روحانی حا لتوں سے نہایت ہی شدید تعلقات وا قع ہیں۔ یہا ں تک کہ انسان کے کھانے پینے کے طریقے بھی انسان کی اخلا قی اور روحا نی حا لتوں پر اثر کرتے ہیں۔ اسی واسطے قرآن شریف نے تمام عبادات اور اندرونی پا کیزگی کی اغر اض اور خشوع و خضوع کے مقا صد میں جسمانی طہارتوں اور جسمانی آداب اور جسمانی تعدیل کو بہت ملحو ظ رکھا ہے اور غور کرنے کے وقت یہی فلا سفی نہا یت صحیح معلو م ہوتی ہے کہ جسما نی اوضا ع کا روح پر بہت قو ی اثر ہے۔‘‘ (اسلامی اصولوں کی فلاسفی ص ۱۸۔ ۱۹)
ایک دفعہ اَصحاب نے حضورؐ کی خدمت میں عرض کیا کہ ہم کھانے پر بیٹھتے ہیں تو سیر نہیں ہوتے۔ فرمایا شا ید تم الگ الگ بیٹھتے ہو۔ عر ض کیا ہا ں۔ فرما یا۔ مل کر کھانا کھاؤ اور خدا کا نا م لو۔ اللہ تعا لی تمہیں بر کت دیگا۔ (ریا ض الصا لحین ص ۴۹۹)
حضورﷺ نے یہ بھی ارشاد فر ما یا کہ تمہیں نہیں معلو م کہ تمہارے کھانے کے کس حصہ میں بر کت زیا دہ ہے۔ اس لئے تمہیں چا ہئے کہ کھاتے وقت بر تن کو صاف کیاکرو۔ (ریاض الصا لحین ص ۴۵۳)
آ خر میں یہ امر بھی قا بل ذ کر ہے کہ صحت و تندرستی کے لئے جہا ں کھانا سادہ ہو نا چاہئے وہا ں کھانے کے برتنوں میں بھی تکلف نہیں ہونا چا ہئے۔ اس ضمن میں حضورﷺ نے سو نے چاندی کے بر تنوں میں کھانے کی خاص طور پر مما نعت فرمائی ہے۔ چنا نچہ حضرت ام سلمہؓ بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہﷺ نے ارشاد فر ما یا کہ جو شخص چاند ی کے بر تن میں پینے کی کوئی چیز پیتا ہے تو اس کا پینا اس کے پیٹ میں دوزخ کی آگ بھڑکائے گا۔ (صحیح مسلم بحو الہ ریا ض الصا لحین)
مختصر یہ کہ ہم سب کو اپنے پیار ے آقاآنحضرتﷺ کی سنت پر اور آپؐ کے ارشادات پر عمل کرتے ہوئے ان چیزوں سے پر ہیز کرنا چاہئے کہ جن چیزوں سے حضورﷺ نے منع فرمایا ہے۔ اللہ تعالی ہمیں تو فیق بخشے کہ حضورﷺ کے جملہ احکا مات پر عمل کرکے ہم اپنی صحت و تندرستی کوبر قرار رکھ سکیں۔ اور اس کے فضلوں کے اس دنیا اور آخرت میں وارث قرار پائیں۔ آمین