لباس التقویٰ
آدابِ مجلس
یہ مضمون حضرت میر محمد اسحٰق صاحب کا تحریر کردہ ہے۔ جو رسالہ ریویو آف ریلیجنز 1935ء میں قادیان سے بنام ’’ہماری مجالس کے آداب‘‘ شائع کیا گیا۔
دنیا میں مجلس کئی قسم کی ہوتی ہیں۔ ایک شادی کی مجلس ہوتی ہے ایک وعظ کی مجلس ہوتی ہے۔ میں وہ آداب بتاؤں گا جو تمام قسم کی مجلسوں پر حاوی ہوں مگر پہلے یہ سن لو کہ ملنے سے کئی قسم کے نقص پیدا ہوتے ہیں۔ مثلا اکیلا آدمی غیبت نہیں کرسکتا۔ غیبت کا مرتکب انسان اس وقت ہوتا ہے جب کسی سے ملے۔ معلوم ہوا کہ ایسے گناہ ایک دوسرے کے ساتھ ملنے سے پیدا ہوتے ہیں۔ اس لئے مجالس میں نہایت محتاط ہو کر بیٹھنا چاہئے۔
پہلا ادب مجلس کا یہ ہے کہ جب کو ئی شخص کسی مجلس میں آئے تو دوڑ کر نہ آئے اور سکنیت کے خلاف ہے۔ حدیث میں ہے کہ علیکم الوقار والسکینۃ (تمہیں وقار اور سکنیت اختیار کرنی چاہئیے۔
دوسرا ادب یہ ہے کہ (کوئی شخص) کسی مجلس میں لوگوں کو پھیلانگ کرنہ جائے۔ جہاں جگہ ملے بیٹھ جائے۔ حدیث شریف میں ہے کہ جمعہ کی نماز میں لوگوں کو پھلانگ کر نہ آؤ۔ اس سے جمعہ کا ثواب جاتا رہتا ہے۔ حدیث میں ہے یجلس حیث ینھی المجلس (اگر آگے جگہ نہ ہو تو جہاں تک لوگ بیٹھے ہیں وہیں بیٹھ جائے)
تیسرا ادب یہ ہے کہ مجلس میں جاکر کوئی لغو حرکت نہ کرے۔ مثلاً میز کو یا کرسی کو جو اس قسم کی ہو نہ ہلائے۔ خاموشی سے بیٹھے اور اہل مجلس کا خیال رکھے۔ زبان سے بھی خاموش رہے۔ ہاتھ پیر بھی نہ ہلائے۔ کہ یہ بھی خاموشی کے خلاف ہے۔ ہاں اپنی باری اور ضرورت پر بات کرے۔
چوتھا ادب یہ ہے کہ مجلس میں بیٹھ کر اپنے پاس والے سے کسی قسم کی بات چیت نہ کرے آپس میں کانا پھوسی کرنا ادب کے خلاف ہے۔ سامعین میں سے کسی کو چپ کرانا ہو تو ہاتھ کے اشارے سے چپ کراسکتا ہے۔
چھٹا ادب۔ اباسی لینا، ڈکار لینا، انگلیاں چٹخانا، انگڑائی لینا یہ تمام باتیں بھی ادب کے خلاف ہیں۔ اپنے اوپر قابو رکھنا چاہئے۔ حدیث میں آتا ہے کہ مجلس میں بیٹھ کر کنکریوں سے نہ کھیلو۔
ساتواں ادب مجلس کا استمعاع ہے یعنی غور سے سننا کان لگا کر سنے کہ خطیب کیا کہہ رہا ہے۔
آٹھواں ادب آنے والے کو جگہ دینا اور خود سکڑ کر بیٹھ جانا(ہے)قرآن شریف میں ہے۔ اِذَاقِیلَ لَکُم تَفَسَّحُوا فی المَجالِسِ فافْسَحُوا۔ (جب تمہیں کہا جائے کہ مجلس میں کھل کر بیٹھو تو کھل جایا کرو۔)
نواں ادب یہ ہے کہ اہل مجلس سے اجازت کے بغیر نہ جائے۔ دسواں ادب یہ ہے کہ خطیب اور لیکچرار کی طرف منہ کرکے بیٹھے۔ ادھر ادھر نہ دیکھے لیکچرار کی طرف متوجہ رہے اور غور سے سنے۔
گیارھواں ادب یہ ہے کہ مجلس میں جب کوئی اچھی بات سنے نوٹ کرلے اور اس پر عمل کرے۔ حدیث میں ہے کہ اُکْتُبُوْا عَنِّی وَلَوْکَانَ حَدِیْثَ (میری طرف سے جو بات ہو اسے لکھ لیا کرو خواہ وہ چھوٹی سی بات ہی کیوں نہ ہو۔)
بارھواں ادب یہ ہے کہ جب کوئی بات پوچھنی ہو تو کھڑے ہوکر پوچھے، یہ بھی ایک ادب ہے۔
تیرھواں ادب یہ ہے کہ دوران گفتگو نہ بولے اٹھ کر چپ چاپ کھڑا ہوجائے۔ صدر مجلس خود بخود پوچھے گا۔
چودھواں ادب یہ ہے کہ مجلس میں میر مجلس کو مخاطب کرے کسی اور کو نہ کرے۔
پندرھواں ادب یہ ہے کہ اگر مجلس میں کسی شخص سے کوئی ناجائز حرکت سرزد ہوجائے تو ہنسنا نہیں چاہئیے۔ پس دوسرے کے لئے وہ بات پسندنہ کرے جو اپنے لئے پسندنہیں کرتا۔ آنحضرتﷺ نے ایک دفعہ اسی بات پر ایک خطبہ پڑھا کہ کسی کے اونگھ جانے پر یا غلط جواب دینے پر یا ہوا خارج ہونے پر ہنسنا نہیں چاہئیے ہوسکتا ہے کہ یہ نقص اُس میں بھی پیدا ہوجائے اور اس سے بڑھ کر لوگ اس پر ہنسیں۔ سترھواں ادب یہ ہے کہ مجالس میں کوئی ایسی چیز کھا کر نہ آئے جس سے لوگوں کو تکلیف ہو۔ نہ ایسا لباس پہن کر جائے جس سے بدبو آتی ہو اور تعفن کی وجہ سے لوگ کراہت کریں۔ اس لئے مجلس میں نہا دھو کر جائے اسی طرح مجلس میں تھوکنا بھی ادب کے خلاف ہے۔
اٹھارواں ادب حرکات فی الانضباط یعنی مجلس میں بیٹھ کر اپنی حرکتوں کو قابو میں رکھنا اس کا نام خشوع ہے۔
انیسواں ادب یہ ہی کہ جن سامانوں سی مجلس یا جلسہ قائم کیا گیا ہے بعد اختتام جلسہ ان کو وہاں پہنچا دو جہا ں سے لائے تھے یا پہنچانے والے کی مدد کرو۔ اکثر دیکھا گیا ہے کہ جلسہ یا مجلس ختم ہونے کے بعد سارے لوگ اپنے اپنے گھروں کو چلے جاتے ہیں اور سامان پڑا رہ جاتا ہے۔ چند آدمی رہ جاتے ہیں جنہیں بعد میں بڑی تکلیف ہوتی ہی۔ پس یہ بھی ایک اچھی بات ہے کہ سامان جہاں سے لایا گیا تھا جلسہ ختم ہونے کے بعد سارے مل کر وہاں پہنچادیں۔ بیسواں ادب یہ ہے کہ مجلس میں کسی کو اٹھا کر خود اس کی جگہ نہ بیٹھے۔ اسی طرح جب کوئی شخص اٹھ کر کسی کام یا کسی حاجت کو جائے تو اس کی جگہ نہ بیٹھے۔
اکیسواں ادب جب کسی مجلس سے اُٹھے تو استغفار کرے کیونکہ ممکن ہے کہ اس نے کسی کی غیبت کی ہو یا کوئی اور بُری بات منہ سے نکال دی ہو۔ جس کا وبال اس پر پڑے اس لئے اِستغفار کرے۔ (ریویو آف ریلیجنز۔ جون ۱۹۳۵ء صفحہ ۴۱تا ۴۳)
اللہ تعالی سے دعا ہے کہ وہ ہمیں ان تمام آداب کی اہمیت سمجھنے اور روزمرہ مجالس میں ان کا خیال رکھنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین