لباس التقویٰ
آداب ِبیت الذکر
اللہ تعالیٰ مومنین کو آداب بیوت الذکر کا خاص خیال رکھنے کی نصیحت کرتے ہوئے فرماتا ہے کہ
یٰبَنِی اٰدَمَ خُذُوْا زِیْنَتَکُمْ عِنْدَ کُلِّ مَسْجِدٍ (الاعراف: ۳۲)
اے آدم کے بیٹو! ہر مسجد کے قریب پہنچ کر زینت یعنی پاکیزگی اور سنجیدگی اختیار کرلیا کرو۔
مسجد کے معنی سجدہ کرنے کی جگہ کے ہیں جہا ں خدا تعالی کے حضور اپنی سب سے بلند اور باعزت پیشانی کو حقیر بنا کر زمین پر رکھ دیتے ہیں تا کہ اس کے عظیم احسانات کا شکر ادا کرسکیں۔ اسی لئے مسجد کو اللہ تعالیٰ کا گھر بھی کہا جاتاہے۔
بیت الذکر کے آداب میں سب سے ضروری چیز اس کی صفائی کا خیال رکھنا ہے کیونکہ بیت الذکر کی صفائی سے ہمارے دلوں کی صفائی کا پتہ چلتا ہے۔ آنحضورﷺ آداب بیت الذکر کی طرف توجہ دلاتے ہوئے فرماتے ہیں کہ اِنَّ ھٰذِہ المَسَاجِدَ لا تصلح لِشَئِی مِن ھذاالبَولِ وَلاالقَذرِ اِنَّما ھِیَ لِذِکرِا للہِ تعالی وقِرائَ ۃِالقُرآن۔ (مسلم کتاب الطھارۃ)
یقینا مسجد یں اس لیے نہیں کہ ان میں پیشاب کیا جائے، تھوکا جائے یا کوئی گندگی وغیرہ پھینکی جائے یعنی مسجدوں کو ہرقسم کی گندگی سے پاک و صاف رکھنا چاہئے۔ کیونکہ وہ اللہ تعالیٰ کے ذکر اور قرآن کریم کے پڑھنے کے لئے تعمیر کی جاتی ہیں۔ اسی طرح دیگر کئی مواقع پر بھی بیت الذکر کے آداب کا ذکر فرمایا ہے۔ ان میں سے چند ایک آداب مندرجہ ذیل ہیں۔
۱۔ بیت الذکر میں داخل ہوتے اور نکلتے وقت دعا پڑھی جائے۔
۲۔ بیت الذکر میں کوئی بدبودار چیز کھا کر نہیں آنا چاہئے۔
۳۔ بیت الذکر میں فضول باتوں کی بجائے ذکر الہٰی اور نوافل پڑھنے چاہئیں۔ بیت الذکر کیونکہ اللہ تعالیٰ کا گھر ہے اس لئے ہمیں وہاں پر وہی کام کرنے چاہئیں کہ جن سے ہم اس کے حضور مقبول ہوسکیں اور اپنی عاجزانہ التجاؤں کو قبول کرواسکیں۔ حضرت مصلح موعود بیوت الذکر کے آداب کی طرف توجہ دلاتے ہوئے فرماتے ہیں کہ۔
’’اسی طرح تطہیر(پاکیزگی) کے بھی دونوں مفہوم ہیں۔ اس سے مراد ظاہری صفائی بھی ہے۔ جیسا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ مساجد کوصاف رکھو اور اس میں عود وغیرہ جلاتے رہو۔ اس سے باطنی صفائی بھی مراد ہوسکتی ہے۔ یعنی مسجد کی حرمت کا خیال رکھو۔ اور اس میں بیٹھنے کے بعد لغویات سے کنارہ کش رہو۔ افسوس ہے کہ آجکل لوگ ذکر الہٰی کرنے کی بجائے مسجدوں میں گپیں ہانکتے رہتے ہیں۔ حالانکہ مسجدیں خدا تعالیٰ کی عبادت کے لئے بنائی گئی ہیں۔ بیشک ضرورت محسوس ہونے پر مذہبی، سیاسی، قضائی اور تمدنی امور بھی مساجد میں گفتگو کی جاسکتی ہے۔ لیکن مسجد میں بیٹھ کر گپیں ہانکنا اور ادھر ادھر کی فضول باتیں کرنا سخت نا پسندیدہ امر ہے۔ نوجوانوں کو خصوصیت کے ساتھ اس بارہ میں محتاط رہنا چاہئے۔‘‘ (تفسیرکبیر جلد ۲ص۱۷۰)
پیارے بھائیو! یہ نہایت ہی قابل غور اور قابل فکر بات ہے کہ بیت الذکر کی طرف قدم اُٹھانے سے لیکر واپس آنے تک ہماری زبانوں پر صرف ذکر الہٰی اور دعائیں جاری رہنی چاہئیں۔ لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ ہم نماز شروع ہونے تک بہت کم توجہ اللہ تعالیٰ کی طرف کرتے ہیں اور اپنے روز مرہ باتوں کو وہاں بھی زیر بحث لاتے ہیں۔ آنحضرتﷺ کا فرمان ہے کہ انسان جب وضو کرلے تو اسی وقت سے ہی وہ نماز میں تصور کیا جاتا ہے۔ ہمیں کوشش کرنی چاہئیے کہ ہم فارغ بیٹھنے کی بجائے اور فضول باتیں کرنے کی بجائے نوافل ادا کریں اور زبانوں کو ذکر الہٰی سے تر رکھیں تا کہ ہمارا سارا وقت ثواب حاصل کرنے میں گذرے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں بیوت الذکر کے آداب کو سمجھنے کی اور ان کے احترام کو عملی طور پربجا لانے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین