لباس التقویٰ
آداب ِگفتگو
ارشادِ باری تعالیٰ ہے۔ وَقُوْلُوْا لِلنَّاسِ حُسْنًا (البقرۃ ۸۴)
اور تمہیں چاہیے کہ مخلوقِ خدا سے ہمیشہ احسن طریق پر اور اچھے انداز سے بات کرو۔
ساری دنیا میں ایک ہی مذہب ایسا ہے جس کی تعلیم اپنی ذات میں سب سے خوبصورت اور کامل ہے اور دین (حق) ہی وہ واحد مذہب ہے کہ جس نے زندگی کے تمام چھوٹے بڑے مراحل میں ہمیں ہدایت سے نوازا ہے۔ پس ہمیں چاہئیے کہ ہم قرآن کریم کو غور و فکر سے پڑھا کریں۔ اور اَحکام الہٰی پر کاربند رہنے کی کوشش کرتے رہیں۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں کئی مقامات پر گفتگو کے اعلیٰ اور باوقار معیار کا طریق اور اسے قائم رکھنے کی نصیحت فرمائی ہے جس کا سب سے بڑھ کر زندہ اور دلکش نمونہ ہمیں افضل الانبیاء حضرت محمدﷺ کی ذات ِمبارکہ میں ملتا ہے۔ آپؐ بہت لطافت سے اور ٹھہر ٹھہر کر گفتگو فرماتے تھے۔ اور کوئی لفظ بھی بے مقصدنہیں ہوتا تھا۔ حضرت عبداللہ بن عمرؓ آپ کی گفتگو کے متعلق کہتے ہیں۔ کہ آپﷺ نے کبھی فحش گوئی یا بد کلامی نہیں کی۔ (بخاری کتاب الادب)
آپؐ کی گفتگو میں محبت اور مزاح کا رنگ بھی شامل تھا لیکن کبھی بھی آپ نے ایسے الفاظ کا انتخاب نہیں فرمایا جس سے کسی کا دل دکھے اور رنج پہنچے۔ آپؐ فرماتے ہیں۔
’’مومن فحش بکنے والا بد زبان اور بد گو نہیں ہوتا۔‘‘ (ترمذی ابواب البروالصلۃ)
یہ بات بالکل سچ ہے کہ ہماری زبان کا اثر ہمارے اخلاق پر بہت گہرا پڑتا ہے۔ اس لئے کبھی گالی گلوچ اور لغو باتوں کے قریب بھی نہیں جانا چاہئیے اور نہ ہی کسی کو بُرے القاب سے پکارنا چاہئے۔ بلکہ چاہئیے کہ ہمیشہ استغفار کریں اور رب کریم سے اس کی رحمت اور بخشش کے امیدوار ہوں ہماری گفتگو ہمیشہ سچ سے مزین ہو اور جھوٹ سے الگ رہے۔ اور غیبت سے کلیتاً بیزار ہوں۔ آپ نے یہ تو سنا ہی ہوگا۔ باادب بانصیب اور بے ادب بے نصیب۔ حضرت خلیفۃالمسیح الثالث رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ:
’’فضول باتوں سے پرہیز کرو۔ اتنی ہی بات کرو جتنی کی ضرورت ہے۔ ایک بول سے مقصد حا صل ہوتا ہو تو دو بول نہ بولو۔ ارشادِ نبوی ہے کہ بڑا مبارک ہے وہ جس نے قوت گویا ئی کی بہتات کو (ذکر الہی کے لئے) محفوظ رکھا مگر اپنے مال کی کثرت کو خدا کی راہ میں بے دھڑک خرچ کیا۔‘‘ (حیاتِ ناصر جلد ۱ ص ۳۰۹)
اللہ تعالیٰ ہمیں ان پیاری نصیحتوں پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور فضول باتوں میں وقت ضائع کرنے سے بچائے۔ آمین