لباس التقویٰ
السلام علیکم ۔ ایک خدائی تحفہ
اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے:
فَاِذَا دَخَلْتُمْ بُیُوْتًا فَسَلِّمُوْا عَلَی اَنْفُسِکُمْ تَحِیَّۃً مِّنْ عِنْدِاللّٰہِ مُبٰرَکَۃً طَیِِّبَۃً ط (النور: ۶۲)
کہ جب گھروں میں داخل ہو تو اپنے گھر والوں پر سلامتی بھیجو۔ یہ (سلام) ایک بڑا برکت والا اور پاکیزہ خدائی تحفہ ہے۔
اسی طرح قرآن کریم میں ایک اور جگہ جنت کے پہرے داروں سے متعلق آتا ہے کہ وہ جنتیوں سے کہیں گے:
سَلَامٌ عَلَیْکُمُ لاادْخُلُوْ االْجَنَّۃَ بِمَا کُنْتُمْ تَعْمَلُُوْنَ o (النحل: ۳۳)
کہ تم پر سلامتی ہو۔ اپنے کئے گئے اعمال کے سبب جنت میں داخل ہوجاؤ۔
قرآن کریم کی ان آیات سے پتہ چلتا ہے کہ ایک دوسرے پر سلامتی بھیجناگویا کہ خدا تعالیٰ کے فضل کو حاصل کرنا اور فَسَلِّمُوْ ا(پس تم سلا م کرو) کا حکم دے کر واضح کردیا کہ سلام کا کرنا ہر مسلمان مرد و زن پر لازم ہے۔ جیسا کہ ہم دیکھتے ہیں کہ دینِ حق ایک مکمل معاشرتی نظام فراہم کرتا ہے اور اس معاشرے کا ہر ایک فرد آپس میں زنجیر کی طرح ملا ہوا ہے اور باہمی ہمدردی اور محبت کا جذبہ واضح ملتا ہے جس کی نظیر ہمیں کسی دوسرے مذہب میں نہیں ملتی۔ اس روشن اور پاکیزہ معاشرے کی بنیادی اکائی آپس میں سلام کا رواج ہے جس کے متعلق آنحضرتﷺ کا ارشاد پاک ہے کہ
و تَقْرَ ء ِالسلامَ علی مَن عرفتَ و مَن لَّم تَعرِ ف (بخاری)
کہ تم ہر ملنے والے کو خواہ تم اسے جانتے ہو یا نہیں، سلام کیا کرو۔
اسی طرح دین حق نہ صرف اپنے ہم مذہبوں کوہی سلام کرنے کا حکم دیتا ہے بلکہ یہی تعلیم دوسرے مذاہب کے افراد کے متعلق بھی ہے۔ حضرت اسامہ بن زیدؓ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرتﷺ ایک مجلس کے پاس سے گذرے جس میں مسلمان، مشرکین، بت پرست، یہود سب ملے جلے بیٹھے تھے۔ آپؐ نے ان کو السلام علیکم کہا۔ (بخاری باب الا ستبذان)
آنحضرتﷺ کے اسوہ حسنہ کا یہ ایک اعلی پہلو ہمیں آج دنیا کے کسی اور مذہب میں نہیں ملتا کہ ہر ایک ملنے والے پر سلام بھیجو۔ خواہ وہ تمہارا دشمن ہو یا دوست۔ اللہ تعالیٰ نے سلامتی کی وسعت اور دائرہ کو مزید وسیع کیا ہے۔ فرمایا کہ جب ہم کسی قبرستان کے پاس سے بھی گذریں تو وہاں کے مردوں پر بھی سلامتی بھیجیں اور یہ دعا سکھلائی۔ السلام علیکم یا اھل القبور (گویا کہ یہ سلامتی انہیں پہنچنے والی ہے اور وہ بھی سلامتی کی برکات سے فیض یاب ہوسکتے ہیں )۔
حضرت عمرانؓ بن حصین بیان کرتے ہیں آنحضرتﷺ کی خدمت میں ایک شخص حاضر ہوا اور السلام علیکم کہا۔ آپ نے اس کا جواب دیا جب وہ بیٹھا تو آپ نے فرمایا اس شخص کو دس گنا ثواب ہوا پھر ایک اور شخص آیا اس نے السلام علیکم ورحمت اللہ وبرکاتہ کہا۔ آپؐ نے سلام کا جواب دیا۔ جب وہ بیٹھ گیا۔ توآپؐ نے فرمایاکہ اس شخص کو تیس گنا ثواب ہواہے۔ (ترمذی ابواب الاستیذان فی فضل السلام)
آنحضرتﷺ کا فرمان ہے کہ سوار پیدل چلنے والے کو اور پیدل چلنے والا بیٹھے کو سلام کرے۔
سلام ایک محبت بھر اپیغام
السلام علیکم وہ ہتھیار ہے جس سے سخت دل نرم پڑ جاتے ہیں اور محبت بڑھتی ہے اور جسے اپنانے پر آج کی ترقی یافتہ مغربی اقوام بھی مجبور ہیں۔ اور ایک مکمل اور کامیاب معاشرہ کی بنیاد آپس میں سلامتی بھیج کر ہی مضبوط ہو سکتی ہے۔