لباس التقویٰ
ایفائے عہد
اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں اپنے برگزیدہ بندو ں کی ایک نیک صفت کا ذکر کرتے ہوئے فرماتا ہے کہ:
وَالْمَوْفُوْنَ بِعَھْدِھِمْ اِذَا عَاھَدُوْا (البقرۃ: ۱۷۸)
اور جب وہ کوئی وعدہ کریں تو اسے پورا کرتے ہیں
اسی طرح ایک اور موقع پر عوام الناس کو نصیحت کے رنگ میں حکماً فرمایا:
وَ اَوۡفُوۡا بِالۡعَہۡدِ ۚ اِنَّ الۡعَہۡدَ کَانَ مَسۡـُٔوۡلًاo (بنی اسرائیل۳۵)
اور اپنے وعدوں کو پورا کرو یقینا ہر ایک عہد سے متعلق پوچھا جائے گا۔
جیسا کہ ہم سب جانتے ہیں کہ نبی کریمﷺ اپنے عہد کو نبھانے اور امانتوں کے حقوق ادا کرنے میں سب سے زیادہ پابند اور خیال رکھنے والے تھے۔ نہ صرف مسلمان بلکہ کفار بھی آپ کے کئے ہوئے وعدوں پر تہہ دل سے یقین رکھتے تھے۔ اس امر کی واضح شہادت ہمیں صلح حدیبیہ کے موقع پر بھی ملتی ہے جب معاہدہ میں یہ بات طے پائی کہ مدت صلح (جو دس سال تھی) کے دوران جو بھی کفار کی طرف سے مسلمان ہو کر آپ کے پاس آئے گا اسے واپس کیا جائیگا۔ چنانچہ جب سہیل کابیٹا ابو جندل مسلمان ہو کر آپؐ کے پاس آیا تو آپؐ نے اپنے وعدے کی پاسداری کرتے ہوئے اسے واپس بھیج دیا۔ (بخاری کتاب المغازی باب غزوۃ الحدیبیہ)
حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی زندگی میں کئی واقعات ایسے ملتے ہیں کہ جن سے پتہ چلتا ہے کہ آپؑ اپنے دوسروں سے کئے ہوئے وعدوں اور ان کی امانتوں کا بہت خیال فرماتے۔ خاص طور پر جب علما ء کے ساتھ آپ کے مباحثات اور مناظرات کا مطالعہ کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ جس جگہ اور وقت کا تعین ہوتا ہے آپ بر وقت وہاں پہنچتے اور اپنے کئے ہوئے وعدے کا پاس رکھتے۔ پیارے آقا حضرت خلیفۃ المسیح الرابع فرماتے ہیں کہ
’’آنحضرتﷺ نے اس موضوع پر تین باتیں ایسی بیان کیں جو منافق کی نشانی ہیں۔ ان میں سے ایک وہی ہے جس کا میں ذکر کر رہا ہوں۔ فرمایا منافق وہ ہے جو جب وعدہ کرتا ہے تو وعدہ خلافی کرتا ہے۔ (صحیح بخاری۔ کتاب الشہادات)پس سب سے پہلے تو بچوں سے وعدہ کرو تو اس میں وعدہ خلافی نہ کرو۔ جو بچوں سے وعدہ خلافی کرے گا وہ باہر بھی وعدہ خلافی کرے گا۔ یہ ہو ہی نہیں سکتا کہ بچے جو اپنے سب سے پیارے ہوں اور عزیز ہوں ان سے تو آدمی وعدہ خلافی کرتا رہے اور باہر کے وعدے پورے کرے، یہ نا ممکن ہے، فطرتِ انسانی کے خلاف ہے۔‘‘ (مشعلِ راہ صفحہ۴۷۸۔ ۴۷۹)
عہد شکنی نہ کرواہلِ وفا ہو جاؤ۔
اہلِ شیطاں نہ بنو اہلِ خدا ہو جاؤ
(کلامِ محمود)
صحابی حضرت مسیح موعودؑ حضرت مولوی شیر علی صاحبؓ سے متعلق ذکر ملتا ہے کہ وہ ایفائے عہد کا بہت پاس رکھتے اور جب کسی سے کوئی قرض وغیرہ لیتے تو اسے نہ صرف بر وقت لوٹادیتے، بلکہ اس میں کچھ اضافہ بھی فرماتے تھے۔ اللہ تعالی ہمیں اپنے عہدوں کی کما حقہ حفاظت کی توفیق عطا فرمائے، آمین