لباس التقویٰ
توکل علی اللہ
اللہ تعالیٰ قرآ ن کریم میں فرماتا ہے
وَ مَنْ یَّتَوَ کَّلْ عَلَی اللّٰہِ فَھُوَ حَسْبُہٗ ط (الطلاق: ۴)
اور جو کوئی اللہ تعالیٰ پر توکل کرتا ہے تو وہ (اس کی مدد اور حفاظت) کیلئے کافی ہوجاتا ہے۔ ایک اور موقع پر اللہ تعالیٰ نے ایک آیت ِمبارکہ میں مسلمانوں کے اس جواب کا ذکر فرمایا ہے جو انہوں نے اپنے مخالفین کو دیا۔ فرمایا
وَ مَا لَنَاۤ اَلَّا نَتَوَکَّلَ عَلَی اللّٰہِ وَ قَدۡ ہَدٰٮنَا سُبُلَنَا ؕ وَ لَنَصۡبِرَنَّ عَلٰی مَاۤ اٰذَیۡتُمُوۡنَا ؕ وَ عَلَی اللّٰہِ فَلۡیَتَوَکَّلِ الۡمُتَوَکِّلُوۡنَ o (ا برا ھیم: ۱۳)
اور ہم کیوں نہ اللہ تعالی پر توکل کریں۔ حالانکہ اس نے ہمیں ہمارے (مناسب حال) راستے ہمیں دکھائے ہیں اور جو تم نے ہمیں تکلیفیں دی ہیں ہم ضرور ان پر صبر کریں گے اور بھروسہ کرنے والوں کو اللہ پر ہی بھروسہ کرنا چاہئیے۔
عزیزم قارئین ! یہ بات درحقیقت سچ ہے کہ اگر ہم خدا تعالیٰ کو قادرِ مطلق اور مالک و رازق سمجھتے ہیں اور تہہ دل سے اس پر ایمان رکھتے ہیں تو بلا شبہ ہمیں اس ذات سے ہی مدد مانگنی چاہئیے اور غمی اور خوشی ہر حال میں اپنی عبادتوں اور امیدوں کا مرکز اللہ تعالیٰ کی ذات کو بنانا چاہیے۔ لیکن اس کا مطلب ہر گز یہ بھی نہیں کہ انسان ہر کام اللہ پر چھوڑ کر ہاتھ پر ہاتھ دھر کر بیٹھا رہے۔ حضرت نبی کریمﷺ کے اسوہ حسنہ سے بھی یہی معلوم ہوتا ہے کہ آپ اپنی طرف سے صدقِ دل سے کوشش کرتے تھے اور پھر کام کے انجام کو خالقِ حقیقی کے سپرد کردیتے اور کامیابی کیلئے دعا میں لگ جاتے۔ آپؐ سے ایک شخص نے دریافت کیا کہ میں اپنے اونٹ کو باند ھ کر اللہ پر توکل کروں یا کھُلا چھوڑ کر۔ آپؐ نے فرمایا کہ پہلے اونٹ کا گھٹنا باندھو اور پھر اللہ پر توکل کرو۔ (جامع ترمذی کتاب صفتہ القیامتہ)
حضرت مسیح موعودؑ ایک موقع پر جماعت کو نصیحت فرماتے ہیں کہ
’’انسان کو چاہئیے کہ تقویٰ کو ہاتھ سے نہ دیوے اور خداتعالیٰ پر بھروسہ رکھے تو پھر اسے کسی قسم کی تکلیف نہیں ہوسکتی۔ بھروسہ کے یہ معنی نہیں کہ انسان تدبیر کو ہاتھ سے چھوڑ دیوے بلکہ یہ معنی ہیں کہ تدبیر پوری کرکے انجام کو اللہ تعالی پر چھوڑے اس کانام توکل ہے۔ اگر وہ تدبیر نہیں کرتا اور صرف توکل کرتا ہے تو اس کا توکل پھوکا (جس کے اندر کچھ نہ ہو) ہوگا اور اگر نری تدبیر کرکے اس پر بھروسہ کرتا ہے اور اللہ پر توکل نہیں کرتا تو وہ تدبیر بھی پھوکی (جس کے اندر کچھ نہ ہو) ہوگی۔‘‘ (ملفو ظات جلد: ۵۶۶)
حضرت مصلح موعود توکل علی اللہ کے حقیقی مفہوم کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
’’اگر توکل کے یہ معنی ہوتے کہ عمل ترک کردیا جائے تو پھر نماز اور روزہ وغیرہ کی اہمیت نہیں تھی۔ صرف زبان سے ایمان کا اظہار کرنا ہی انسان کو نجات دے دیتا۔
پس توکل کا صحیح مفہوم یہ ہے کہ انسان اللہ تعالیٰ کے پیدا کردہ سامانوں سے پوری طرح کام لے اور پھر اللہ تعالیٰ کے حضور جھک جا ئے اور اس سے کہے کہ اے خدا! جو سامان میرے اختیار میں تھے وہ تو میں نے سب اختیار کرلئے ہیں اب کوئی کمی رہ گئی ہے تو تُو خود پور ی کردے اور میری کوتاہیوں کو نظر انداز کرتے ہوئے اس کام کے نیک انجام پیدا فرما۔‘‘ (تفسیر کبیر جلد ۷ ص ۴۴۳)
اللہ تعالیٰ ہمیں حقیقی توکل پر قائم رہنے کی توفیق عطا فرمائے اور ہمارے ہر چھوٹے بڑے کام میں بہتر نتائج پیدا فرمائے اور اگر ہم سے کوئی خطا ہوتو اس پر محض اپنے فضل سے پردہ ڈال دے اور اپنے خاص فضل سے نوازے۔ آمین