لباس التقویٰ
حسن ظن ایک عبادت ہے
قرآن کریم میں ارشاد الہٰی ہے کہ
یٰٓاَیُّھَاالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا اجْتَنِبُوْ اکَثِیْرًا مِّنَ الظَّنِّ ِانَّ بَعْضَ الظَّنِّ اِثْمٌ o (الحجرات: ۱۳)
اے ایمان والو!بہت سے گمانوں سے بچتے رہا کرو کیونکہ بعض گمان گناہ بن جاتے ہیں۔ عزیزم قارئین! کیا آپ کو پتہ ہے کہ حسن ظن اور سوئے ظن میں کیا فرق ہے؟ تو جواب یہ ہے کہ اگر آپ کسی آدمی کو روتا ہوا دیکھیں تو حسن ظن رکھنے والا شخص یہ کہے گا کہ اس پر کوئی مصیبت آن پڑی ہے اور مجھے اس کی ہر ممکن مدد کرنی چاہئیے۔ اس کے برعکس سوئے ظن رکھنے والا شخص کہے گا کہ اس نے کوئی غلط کام کیا ہے اس لئے اچھا ہوا جو بھی ہوا۔ آپ کی اس منفی سوچ کے سبب نہ صرف وہ شخص مزید پریشان ہوگابلکہ اُلٹا اپنی اس عادت میں ِگھر جائے گااور آپ سے بھی متنفر ہوجائے گا۔ ہمیں چاہیے کہ ہم جہاں تک ہوسکے کسی سے متعلق بد گمانی کرنے سے بچیں کیونکہ یہ ایک گناہ بھی بن سکتی ہے اور جب تک کسی معاملے سے متعلق خوب وضاحت نہ ہوجائے ہم اپنی طرف سے قیاس آرائیاں نہ کریں بلکہ ہمیشہ ایک مثبت اور پائیدار سوچ کے مالک ہوں۔ پیارے نبی اکرمﷺ نے فرمایا کہ حسن الظن من حسن العبادۃ (مسند احمد وابو داؤد)
حسنِ ظن کے ضمن میں آپ کے سامنے ایک بہت پیارا اور حسن ظنی سے بھر پور واقعہ رکھتا ہوں، جو حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا ہے۔ آنحضرتﷺ فرماتے ہیں کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے ایک مرتبہ ایک شخص کو چوری کرتے دیکھا مگر اس شخص نے بعد میں خدا کی قسم کھا کر انکار کردیا۔ جس پر حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے کہا کہ میں تمہاری قسم پر اعتبار کرتا ہوں اور اپنے آپکو جھٹلاتا ہوں۔ یعنی آپ نے ایک شخص کے قسم کھا لینے پر کمال حسنِ ظن سے کام لیا حالانکہ آپ نے خوداسے دیکھا تھا مگر کسی قسم کی سختی اور جھگڑے سے کام نہ لیا اور معاملہ خداتعالیٰ کے حوالے کردیا۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:
’’میں دیکھتا ہوں کہ اس وقت اخلاقی حالت بہت ہی گری ہوئی ہے۔ اکثر لوگوں میں بد ظنی کا مرض بڑھا ہوا ہوتا ہے۔ وہ اپنے بھائی کی نسبت برے برے خیالات کرنے لگتے ہیں اور ایسے عیوب اس کی طرف منسوب کرنے لگتے ہیں کہ اگر وہی عیب ان کی طرف منسوب ہوں تو ان کو سخت ناگوار معلوم ہوں۔ اس لئے اول ضروری ہے کہ حتی الوسع اپنے بھائیوں پر بد ظنی نہ کی جائے۔ اور ہمیشہ نیک ظن رکھا جائے کیونکہ اس سے محبت بڑھتی ہے اور انس پیدا ہوتا ہے۔ اور آپس میں قوت پیدا ہوتی ہے اور اس کے باعث انسان بعض دوسرے عیوب مثلا کینہ، بغض، حسد سے بچا رہتا ہے۔‘‘ (ملفوظات جلد ۴ ص ۲۱۵۔ ۲۱۴)
حضرت خلیفتہ المسیح الرابعؒ بد ظنی سے منع فرماتے ہوئے نصیحت کرتے ہیں کہ
’’بدظنی سے بچو کیونکہ بد ظنی سخت قسم کا جھوٹ ہے اور بد ظنی ایک ایسی چیز ہے جو بسا اوقات ہمارے معاشرے میں اتنی پائی جاتی ہے کہ بد ظنی کے بعد پھر اور کہانیا ں بنتی چلی جاتی ہیں۔ اور انسان کہتا ہے کہ فلاں نے یہ کام کیا یوں کیا ہوگا۔ ۔ ۔ ایسابے ہودہ طریق ہے جو آنحضرتﷺ کی کھلی نصائح کو ترک کرنے اور ان کو اہمیت نہ دینے کے نتیجے میں ہماری سوسائٹی میں رفتہ رفتہ پیدا ہوجاتا ہے۔‘‘ (خطبہ جمعہ۲۵نومبر۱۹۹۵ء)
حسنِ ظن آزماؤ خدا سے ڈرو
دیکھو چغلی نہ کھاؤ خدا سے ڈرو