لباس التقویٰ
خلافت ایک نعمت عظمیٰ
اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں ایک جگہ مسلمانوں سے وعدہ کرتے ہوئے فرماتا ہے کہ
وَعَدَ اللّٰہُ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا مِنۡکُمۡ وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ لَیَسۡتَخۡلِفَنَّہُمۡ فِی الۡاَرۡضِ کَمَا اسۡتَخۡلَفَ الَّذِیۡنَ مِنۡ قَبۡلِہِمۡ ۪ (النور ۵۶)
اللہ نے تم میں سے ایمان لانے والوں اور مناسب حال عمل کرنے والوں سے وعدہ کیا ہے کہ وہ ان کو زمین میں خلیفہ بنا دے گا۔ جس طرح ان سے پہلے لوگوں کو خلیفہ بنادیا تھا۔
خلافت اللہ تعالی کی طرف سے عطا کردہ ایک انمول تحفہ ہے کہ جس کی بہت زیادہ قدر کرنی چاہیے تاکہ باہمی یگانگت کو فروغ حاصل ہو۔ نظام خلافت با برکت اور عظیم المرتبہ ہے جسے خداتعالیٰ نے قائم فرما کر انبیاء علیھم السلام کے روحانی سلسلوں میں تسلسل اور ترقی کا پہلو رکھ دیا ہے اسی لئے ہم دیکھتے ہیں کہ نبی کی وفات کے بعد سلسلہئِ خلافت جاری ہوتا ہے۔ اور اس کے ماننے والوں کی تعداد میں ہمیشہ اضافہ ہوا ہے نیزدین کی کما حقہ پیروی جاری رہی ہے۔ خلافت درحقیقت توحید کے قیام میں ایک بہت اہم کردار ادا کرتی ہے اور ایک معبود حقیقی سے تعلق میں مضبوطی بڑھاتی ہے۔ لہذا خدا تعالیٰ نے اپنے جاری کردہ سنت کے مطابق خلافت جیسی عظیم نعمت سے مسلمانوں کو سرفراز فرمایا۔ خاتم الانبیاءﷺ فرماتے ہیں۔ ہر نبوت کے بعد خلافت ہوتی ہے (کنز العمال جلد ۶ ص۱۰۹)
حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے متعدد بار ہمیں بھی خلافت قدرت ثانیہ جیسی نعمت کی خوشخبری دی ہے اور امامِ وقت کی مکمل اطاعت کی نصیحت فرمائی ہے۔ آپ ایک جگہ خلیفہ کی اہمیت کی وضاحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
’’خلیفہ کے معنی جانشین کے ہوتے ہیں۔ نبیوں کے زمانہ کے بعد جو تاریکی پھیل جاتی ہے اس کو دور کرنے کے واسطے جو ان کی جگہ آتے ہیں۔‘‘ (ملفوظات جلد ۴ ص ۳۸۳)
قارئین کرام! خلافت کی برکات خدا تعالیٰ کے فضل سے آج ہمیں بھی نصیب ہیں۔ ہم سب جانتے ہیں کہ موجودہ امام ہمارے لئے بالکل ویسے ہی اہم ہیں جیسے جسم کے لئے روح، کیونکہ یہ وہ واحد وجود ہے جو ہمارے خالقِ حقیقی کے اور ہمارے درمیان پہچان اور تعلق کا ذریعہ ہے وہ ہماری خاطر راتوں کو جاگ کر خدا کے حضور روتا ہے جب ہم سب سو رہے ہوتے ہیں خلیفہ وقت کی برکت ہی سے آج ہم باوجو د کروڑوں کی تعداد میں ہونے کے باہم اتحاد اور محبت سے زندگی گذار رہے ہیں۔ جبکہ ہمارے ارد گرد بسنے والے دیگر مذاہب کے لوگ افراتفری اور نفرتوں کا شکار ہورہے ہیں۔ لہذا ہماری کامیابی اور آخرت میں نجات کا واحد حل یہی ہے کہ ہم خلیفہ وقت کی آواز پر لبیک کہیں اور اپنی جان ومال عزت آبرو کو ہر دم قربان کرنے کے لئے تیار رہیں جس کا ہم وقتا فوقتا عہد کرتے رہے ہیں۔ حضرت مصلح موعود فرماتے ہیں:
’’خلافت کے تو معنی ہیں کہ جس وقت خلیفہ کے منہ سے کوئی لفظ نکلے اس وقت سب سکیموں سب تجویزوں اور سب تدبیروں کو پھینک کر رکھ دیا جائے اور سمجھ لیا جائے کہ اب وہی سکیم، وہی تجویز مفید ہے جس کا خلیفہ وقت کی طرف سے حکم ملا ہے۔ جب تک یہ روح جماعت میں پیدا نہ ہو اس وقت تک سب خطبات رائیگاں، تمام سکیمیں باطل اور تمام تدبیریں ناکام ہیں۔‘‘ (الفضل۳۱جنوری۱۹۳۶ء)
اللہ تعالیٰ ہمیں اپنی جان و مال سے بڑھ کر نظامِ خلافت کی اطاعت کرنے کی توفیق عطا فرمائے، تا کہ ہم آخرت میں سرخروئی حاصل کرنے والے ہوں۔ آمین